Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الإمامة
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
60. بَابُ : مَا يُكْرَهُ مِنَ الصَّلاَةِ عِنْدَ الإِقَامَةِ
باب: اقامت کے بعد نفل یا سنت پڑھنے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 866
أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ زَكَرِيَّا قال: حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، قال: سَمِعْتُ عَطَاءَ بْنَ يَسَارٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا أُقِيمَتِ الصَّلَاةُ فَلَا صَلَاةَ إِلَّا الْمَكْتُوبَةُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو سوائے فرض نماز کے اور کوئی نماز نہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 9 (710)، سنن ابی داود/الصلاة 294 (1266)، سنن الترمذی/الصلاة 196 (421)، سنن ابن ماجہ/إقامة 103 (1151)، (تحفة الأشراف: 14228)، مسند احمد 2/331، 517، 531، سنن الدارمی/الصلاة 149 (1488، 1491) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 866 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 866  
866 ۔ اردو حاشیہ: جب کسی فرض نماز کی اقامت ہو جائے تو کوئی نفل یا کوئی فرض نماز شروع نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ جماعت کے اصول کے خلاف ہے اور اس سے جماعت کی اہمیت ختم ہو جائے گی، البتہ اگر کوئی شخص پہلے سے سنتیں وغیرہ پڑھ رہا ہے اور اسے جاری رکھنے میں فرض سے کچھ بھی فوت ہونے کا اندیشہ نہیں ہے (جیسے وہ تشہد میں ہو) تو علماء کی ایک رائے کے مطابق وہ نماز جاری رکھے اور جلد مکمل کرنے کی کوشش کرے تاکہ فرض نماز باجماعت پڑھ سکے۔ اگر اسے خطرہ ہے کہ جاری رکھنے کی صورت میں کچھ فرض نماز جماعت سے رہ جائے گی یا کوئی رکعت فوت ہو جائے گی تو نماز منقطع کر دے اور جماعت کے ساتھ مل جائے جبکہ بہتر یہ ہے کہ جونہی اقامت شروع ہو، نماز ترک کر دی جائے، خواہ نماز کے کسی بھی مرحلے میں ہو کیونکہ «فَلَا صَلَاةَ» کی واضح نص سے معلوم ہوتا ہے کہ اسے شمار نہیں کیا جاتا اگرچہ بزعم خویش نماز جاری رکھے ہو۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 866   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1266  
´امام فجر پڑھا رہا ہو اور آدمی نے سنت نہ پڑھی ہو تو اس وقت نہ پڑھے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کھڑی ہو جائے تو سوائے فرض کے کوئی نماز نہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1266]
1266۔ اردو حاشیہ:
اس حدیث سے بھی جماعت کے ہوتے ہوئے سنتیں پڑھنے کی ممانعت کا اثبات ہوتا ہے اور بیہقی کی یہ روایت کہ جب جماعت کھڑی ہو جائے تو کوئی نماز نہیں سوائے فرض نماز کے الا یہ کہ صبح کی سنتیں ہوں۔ بالکل بے اصل اور ضعیف ہے۔ دیکھیے: [عون المعبود]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1266   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1151  
´فرض نماز کی اقامت کے بعد کوئی اور نماز نہ پڑھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب فرض نماز کے لیے اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ کوئی بھی نماز نہیں ہوتی۔‏‏‏‏ اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی کے ہم مثل حدیث مروی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1151]
اردو حاشہ:
فائدہگ:
جب جماعت کھڑی ہو تو اس کے ساتھ مل جانا چاہیے۔
اس وقت کوئی سنتیں یا نفل پڑھنا درست نہیں۔
بنا بریں اگرکوئی شخص سنتیں پڑھ رہا ہو۔
اورجماعت کھڑی ہو جائے تو سنتیں چھوڑ کرجماعت کے ساتھ مل جاناچاہیے۔
یہی بات راحج اور أقرب إلی الصواب ہے۔
البتہ بعض علماء کہتے ہیں کہ اگرسنتیں یا نوافل جو وہ ادا کررہا ہے تکبیر تحریمہ سے قبل مکمل ہونے کا یقین ہو تو وہ مکمل کرسکتا ہے ورنہ نہیں۔
واللہ أعلم۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1151   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 421  
´جب جماعت کھڑی ہو جائے تو فرض کے سوا کوئی نماز جائز نہیں ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب جماعت کھڑی ہو جائے ۱؎ تو فرض نماز ۲؎ کے سوا کوئی نماز (جائز) نہیں ۳؎۔ [سنن ترمذي/أبواب السهو/حدیث: 421]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی اقامت شروع ہو جائے۔

2؎:
یعنی جس کے لیے اقامت کہی گئی ہے۔

3؎:
یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فرض نماز کے لیے تکبیر ہو جائے تو نفل پڑھنا جائز نہیں،
خواہ وہ رواتب ہی کیوں نہ ہوں،
بعض لوگوں نے فجر کی سنت کو اس سے مستثنیٰ کیا ہے،
لیکن یہ استثناء صحیح نہیں،
اس لیے کہ مسلم بن خالد کی روایت میں کہ جسے انہوں نے عمرو بن دینار سے روایت کی ہے مزید وارد ہے،
((قِيْلَ يَارَسُوْلَ اللهِ وَلَا رَكَعَتَي الْفَجْرَ قَالَ وَلَا رَكَعَتَي الْفَجْرِ)) اس کی تخریج ابن عدی نے کامل میں یحییٰ بن نصر بن حاجب کے ترجمہ میں کی ہے،
اور اس کی سند کو حسن کہا ہے،
اور ابو ہریرہ کی روایت جس کی تخریج بیہقی نے کی ہے اور جس میں ((إلَّا رَكَعَتَي الصُّبْحَ)) کا اضافہ ہے:
کا جواب یہ ہے کہ اس زیادتی کے متعلق بیہقی خود فرماتے ہیں هذِهِ الزِّيَادَةُ لَا أَصْلَ لَهَا یعنی یہ اضافہ بے بنیاد ہے اس کی سند میں حجاج بن نصر اور عباد بن کثیر ہیں یہ دونوں ضعیف ہیں،
اس لیے اس سے استدلال صحیح نہیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 421