سنن نسائي
كتاب الإمامة
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
51. بَابُ : الْعُذْرِ فِي تَرْكِ الْجَمَاعَةِ
باب: جماعت چھوڑنے کے عذر کا بیان۔
حدیث نمبر: 853
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، أَنْ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أَرْقَمَ كَانَ يَؤُمُّ أَصْحَابَهُ فَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ يَوْمًا فَذَهَبَ لِحَاجَتِهِ، ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِذَا وَجَدَ أَحَدُكُمُ الْغَائِطَ فَلْيَبْدَأْ بِهِ قَبْلَ الصَّلَاةِ".
عروہ روایت کرتے ہیں کہ عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ اپنے لوگوں کی امامت کرتے تھے، ایک دن نماز کا وقت آیا، تو وہ اپنی حاجت کے لیے چلے گئے، پھر واپس آئے اور کہنے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے سنا ہے: ”جب تم میں سے کوئی پاخانہ کی حاجت محسوس کرے، تو نماز سے پہلے اس سے فارغ ہو لے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطھارة 43 (88) مطولاً، سنن الترمذی/الطھارة 108 (142) مطولاً، سنن ابن ماجہ/الطھارة 114 (616)، (تحفة الأشراف: 5141)، (بدون ذکر القصة)، موطا امام مالک/قصرالصلاة في السفر 17 (49)، مسند احمد 3/483، 4/35، سنن الدارمی/الصلاة 137 (1467) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 853 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 853
853 ۔ اردو حاشیہ:
➊ اس دن وہ خود تشریف نہ لائے تھے۔ اپنی جگہ ایک آدمی بھیج دیا تھا جس نے امامت کروائی۔ نماز کے بعد پہنچے تو معذرت فرمائی۔
➋ قضائے حاجت محسوس ہو تو نماز سے پہلے فارغ ہولینا چاہیے، خواہ جماعت گزر ہی جائے کیونکہ فراغت کے بغیر نماز کی صورت میں توجہ ہٹتی رہے گی، ذہن منتشر رہے گا اور پیٹ میں گڑبڑ ہوتی رہے گی۔ فراغت کے بعد سکون سے نماز پڑھی جائے گی۔ باقی رہا جماعت کا ثواب تو ان شاء اللہ جماعت کے پابند شخص کو عذر کی صورت میں ملے گا جیسا کہ شرعی اصل (اصول) ہے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 853
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 88
´کیا آدمی پیشاب و پاخانہ روک کر نماز پڑھ سکتا ہے`
«. . . إِذَا أَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يَذْهَبَ الْخَلَاءَ وَقَامَتِ الصَّلَاةُ، فَلْيَبْدَأْ بِالْخَلَاءِ . . .»
”. . . جب تم میں سے کسی کو پاخانہ کی حاجت ہو اور اس وقت نماز کھڑی ہو چکی ہو تو وہ پہلے قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے جائے . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 88]
فوائد و مسائل:
➊ نماز کی قبولیت میں خشوع و خضوع انتہائی بنیادی امر ہے۔ اس کے لیے پوری پوری محنت اور کوشش کرنی چاہیے اور ہر اس حالت سے بچنا چاہئیے، جو اس میں خلل انداز ہو سکتی ہو۔ لہٰذا بیت الخلاء جانے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہو تو پہلے اس سے فارغ ہونا چاہیے۔
➋ ایسے ہی کھانے کا مسئلہ ہے جب کھانا تیار ہو اور بھوک بھی ہو تو پہلے کھانا کھا لینا چاہیے۔ جیسے کہ درج ذیل حدیث میں آ رہا ہے۔
➌ لمبے سفروں میں مسنون یہ ہے کہ اجتماعیت قائم رکھی جائے۔ ایک شخص کو اپنا امیر سفر بنا لیا جائے جیسے کہ سیدنا عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کے بارے میں اوپر بیان ہوا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 88
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث616
´پیشاب یا پاخانہ روک کر نماز پڑھنے کی ممانعت۔`
عبداللہ بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص قضائے حاجت کا ارادہ کرے، اور نماز کے لیے اقامت کہی جائے، تو پہلے قضائے حاجت سے فارغ ہو لے۔“ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 616]
اردو حاشہ:
اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر اسی کیفیت میں نماز شروع کرے گا تو توجہ نماز کی طرف نہیں ہوسکے گیا اور اطمینان سے نماز ادا نہیں کرسکے گا، اس لیے ضروری ہے کہ اس حاجت سے فارغ ہوکر نماز شروع کرے تاکہ توجہ اور اطمینان سے نماز پڑھ سکے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 616
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:896
896- سیدنا عبداللہ بن ارقم زہری رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ بات منقول ہے ایک مرتبہ وہ مکہ تشریف لے جا رہے تھے کچھ لوگ ان کے ساتھ تھے وہ ان کی امامت کیا کرتے تھے۔ ایک دن انہوں نے نماز کے لیے اقامت کہی اور ایک اور شخص کو آگے کر دیا اور یہ بات بیان کی: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: ”جب نماز کے لیے اقامت کہہ لی جائے اور کسی شخص کو قضائے حاجت کی ضرورت محسوس ہو، تو اسے پہلے قضائے حاجت کر لینی چاہیے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:896]
فائدہ:
اس حدیث میں نماز کے آداب میں سے ایک اہم ادب کا ذکر ہے کہ اگر قضائے حاجت کی ضرورت ہو تو پہلے اس سے فارغ ہونا چاہیے، پھر نماز پڑھنی چاہیے، خواد جماعت کے بغیر ہی پڑھنی پڑھے۔ کیونکہ اگر قضائے حاجت کی ضرورت بھی ہو اور انسان ویسے ہی نماز پڑھے تو نماز میں خشوع و خضوع نہیں ہو گا، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ہر وہ کام جس سے نماز میں توجہ بٹ جائے، وہ نہیں کرنا چاہیے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 895