Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الإمامة
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
45. بَابُ : الْجَمَاعَةُ إِذَا كَانُوا اثْنَيْنِ
باب: جب دو آدمی ہوں تو باجماعت نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 844
أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ مَسْعُودٍ، قال: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ أَنَّهُ أَخْبَرَهُمْ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَصِيرٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ شُعْبَةُ، وَقَالَ أَبُو إِسْحَاقَ وَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْهُ وَمِنْ أَبِيهِ قَالَ: سَمِعْتُ أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ يَقُولُ: صَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا صَلَاةَ الصُّبْحِ فَقَالَ:" أَشَهِدَ فُلَانٌ الصَّلَاةَ" قَالُوا: لَا قَالَ:" فَفُلَانٌ" قَالُوا: لَا قَالَ:" إِنَّ هَاتَيْنِ الصَّلَاتَيْنِ مِنْ أَثْقَلِ الصَّلَاةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا وَالصَّفُّ الْأَوَّلُ عَلَى مِثْلِ صَفِّ الْمَلَائِكَةِ وَلَوْ تَعْلَمُونَ فَضِيلَتَهُ لَابْتَدَرْتُمُوهُ وَصَلَاةُ الرَّجُلِ مَعَ الرَّجُلِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ وَحْدَهُ وَصَلَاةُ الرَّجُلِ مَعَ الرَّجُلَيْنِ أَزْكَى مِنْ صَلَاتِهِ مَعَ الرَّجُلِ وَمَا كَانُوا أَكْثَرَ فَهُوَ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا فلاں نماز میں موجود ہے؟ لوگوں نے کہا: نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور فلاں؟ لوگوں نے کہا: نہیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں نمازیں (عشاء اور فجر) منافقین پر سب سے بھاری ہیں، اگر لوگ جان لیں کہ ان دونوں نمازوں میں کیا اجر و ثواب ہے، تو وہ ان دونوں میں ضرور آئیں خواہ چوتڑوں کے بل انہیں گھسٹ کر آنا پڑے، اور پہلی صف فرشتوں کی صف کی طرح ہے، اگر تم اس کی فضیلت جان لو تو تم اس میں شرکت کے لیے ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کرو گے، کسی آدمی کا کسی آدمی کے ساتھ مل کر جماعت سے نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے بہتر ہے ۱؎، اور ایک شخص کا دو آدمیوں کے ساتھ نماز پڑھنا اس کے ایک آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور لوگ جتنا زیادہ ہوں گے اتنا ہی وہ نماز اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہو گی۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 48 (554)، سنن ابن ماجہ/المساجد 16 (790) مختصراً، (تحفة الأشراف: 36)، مسند احمد 5/140، 141، سنن الدارمی/الصلاة 53 (1307، 1308) (حسن)»

وضاحت: ۱؎: اسی جملے سے باب کی مناسبت ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

سنن نسائی کی حدیث نمبر 844 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 844  
844 ۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا نماز کے بعد نمازیوں کی حاضری معلوم کی جا سکتی ہے۔
➋ عشاء اور فجر کی نمازیں منافقین پر اس لیے بوجھل ہیں کہ نیند کا غلبہ ہوتا ہے۔ نیند اور آرام چھوڑنا ایمان کی قوت ہی سے ممکن ہے اور ان میں یہ چیز نہیں ہوتی۔ وہ تو صرف دکھلاوے کے لیے مسجد میں آتے ہیں۔ یہ دو نمازیں اندھیرے کی ہیں، ان میں دکھلاوا نہیں ہوتا، لہٰذا وہ آتے ہی نہیں۔ شوق تو ویسے ہی نہیں۔
فرشتوں کی صف کی طرح۔ یعنی افضل ہے اور اس کا ثواب زیادہ ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ فرشتوں کی صف انسانوں کی صف سے افضل ہے۔
جس قدر زیادہ ہوں۔ معلوم ہوا، جامع مسجد کی نماز محلے کی مسجد کی نماز سے افضل ہو گی، لہٰذا اگر کوئی شخص ثواب کی خاطر بڑی مسجد میں جائے تو جا سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 844   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 554  
´نماز باجماعت کی فضیلت کا بیان۔`
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فجر پڑھائی پھر فرمایا: کیا فلاں حاضر ہے؟، لوگوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا فلاں حاضر ہے؟، لوگوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ دونوں (عشاء و فجر) منافقوں پر بقیہ نماز سے زیادہ گراں ہیں، اگر تم کو ان دونوں کی فضیلت کا علم ہوتا تو تم ان میں ضرور آتے چاہے تم کو گھٹنوں کے بل چل کر آنا پڑتا، اور پہلی صف (اللہ سے قریب ہونے میں) فرشتوں کی صف کی مانند ہے، اگر اس کی فضیلت کا علم تم کو ہوتا تو تم اس کی طرف ضرور سبقت کرتے، ایک شخص کا دوسرے شخص کے ساتھ مل کر جماعت سے نماز پڑھنا اس کے تنہا نماز پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے، اور ایک شخص کا دو شخصوں کے ساتھ مل کر جماعت سے نماز پڑھنا ایک شخص کے ساتھ نماز پڑھنے سے زیادہ بہتر ہے، جتنی تعداد زیادہ ہو اتنی ہی وہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہو گی۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 554]
554۔ اردو حاشیہ:
➊ تربیت اور تزکیر کے لئے نمازیوں کی حاضری لگائی جا سکتی ہے۔
➋ انسانی کمزوری ہے کہ وہ دنیاوی اور فوری فوائد کے لئے ہر طرح کی مشقت برداشت کر لیتا ہے۔ مسلمان کو چاہیے کہ اپنی نظر آخرت پر رکھے۔ نوخیز بچوں کو ترغیب و تشویق کی خاطر اگر انعامات دیئے جایئں تو بھی جائز ہے۔ اسی طرح تبلیغی اجتماعات میں دعوت وغیرہ کا اہتمام لوگوں کی رغبت کو بڑھا سکتا ہے۔
➌ بڑی مسجد میں حاضرین کی کثرت کے لہاظ سے اگرچہ ثواب زیادہ ہے لیکن اگر قریبی مسجد کو آباد کرنے کی نیت سے ترجیح دی جائے تو ان شاء اللہ اس میں بھی بہت فضیلت ہو گی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 554   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 336  
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک آدمی کا دوسرے آدمی کے ساتھ مل کر نماز پڑھنا تنہا نماز پڑھنے سے کہیں زیادہ پاکیزہ ہے اور دو آدمیوں کے ساتھ مل کر نماز پڑھنا ایک آدمی کے ساتھ نماز پڑھنے سے زیادہ پاکیزہ ہے۔ اور جو نماز زیادہ لوگوں کے ساتھ ہو، وہ اللہ عزوجل کو زیادہ پسند ہے۔
اسے ابوداؤد اور نسائی نے روایت کیا ہے اور ابن حبان نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔ «بلوغ المرام/حدیث: 336»
تخریج:
«أخرجه أبوداود، الصلاة، باب في فضل صلاة الجماعة، حديث:554، والنسائي، الإمامة، حديث:844، وابن حبان (الموارد)، حديث:429، وابن خزيمة، حديث:1477.»
تشریح:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جماعت میں نمازیوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی وہ نماز اتنی ہی اللہ کے نزدیک محبوب ہوگی اور اجر و ثواب بھی زیادہ ملے گا۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 336