Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب الإمامة
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
22. بَابُ : مَوْقِفِ الإِمَامِ وَالْمَأْمُومُ صَبِيٌّ
باب: مقتدی بچہ ہو تو امام کے کھڑے ہونے کی جگہ کا بیان۔
حدیث نمبر: 807
أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال:" بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ فَقُمْتُ عَنْ شِمَالِهِ فَقَالَ بِي هَكَذَا فَأَخَذَ بِرَأْسِي فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گزاری، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات میں اٹھ کر نماز پڑھنے لگے تو میں بھی آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ اس طرح کیا یعنی آپ نے میرا سر پکڑ کر مجھے اپنی داہنی جانب کھڑا کر لیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأذان 59 (699)، تحفة الأشراف: 5529)، مسند احمد 1/360، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العلم 41 (117)، الوضوء 5 (138)، الأذان 57 (697)، 79 (728)، الوتر 1 (992)، اللباس 71 (5919)، صحیح مسلم/المسافرین 26 (763)، سنن ابی داود/الصلاة 70 (610)، مسند احمد 1/215، 252، 285، 287، 341، 347، 354، 357، 365، سنن الدارمی/الصلاة 43 (1290) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

سنن نسائی کی حدیث نمبر 807 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 807  
807 ۔ اردو حاشیہ: پیچھے گزر چکا ہے کہ جماعت کے مسئلے میں سمجھ دار بچہ بالغ کی طرح ہے لہٰذا وہ اگر ایک ہے تو امام کے ساتھ ہی کھڑا ہو گا نیز معلوم ہوا کہ مقتدی ایک ہو تو وہ امام کی دائیں طرف کھڑا ہو گا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 807   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 58  
´نیند سے بیدار ہونے پر مسواک کرنا`
«. . . فَلَمَّا اسْتَيْقَظَ مِنْ مَنَامِهِ، أَتَى طَهُورَهُ، فَأَخَذَ سِوَاكَهُ فَاسْتَاكَ . . .»
. . . جب آپ نیند سے بیدار ہوئے تو اپنے وضو کے پانی کے پاس آئے، اپنی مسواک لے کر مسواک کی . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 58]
فوائد ومسائل:
➊ اس قصے میں مسواک کے اہتمام کا ذکر ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی جاگے مسواک کی۔
➋ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ واقعہ ان کی کم عمری کا ہے۔ اس میں ان کی نجابت و سعادت کا واضح بیان ہے، بالخصوص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمول جاننے کا شوق اور اس غرض کے لیے رات کی بیداری کی مشقت۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 58   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1364  
´تہجد کی رکعتوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز (تہجد) کیسے ہوتی تھی؟ تو انہوں نے کہا: ایک رات میں آپ کے پاس رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین میمونہ کے پاس تھے، آپ سو گئے، جب ایک تہائی یا آدھی رات گزر گئی تو بیدار ہوئے اور اٹھ کر مشکیزے کے پاس گئے، جس میں پانی رکھا تھا، وضو فرمایا، میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وضو کیا، پھر آپ کھڑے ہوئے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں پہلو میں کھڑا ہو گیا تو آپ نے مجھے اپنے دائیں جانب کر لیا، پھر اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا جیسے آپ میرے کان مل رہے ہوں گویا مجھے بیدار کرنا چاہتے ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلکی سی دو رکعتیں پڑھیں ان میں سے ہر رکعت میں آپ نے سورۃ فاتحہ پڑھی، پھر سلام پھیر دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی یہاں تک کہ مع وتر گیارہ رکعتیں ادا کیں، پھر سو گئے، اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! نماز، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں پڑھیں پھر آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1364]
1364. اردو حاشیہ: فائدہ: نماز میں حسب ضرورت کوئی عمل جائز اور مباح ہے، خواہ دوسرے کی اصلاح ہی کرنی ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1364   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 117  
´ اس بارے میں کہ سونے سے پہلے رات کے وقت علمی باتیں کرنا جائز ہے `
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ، ثُمَّ قَالَ: نَامَ الْغُلَيِّمُ أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا، ثُمَّ قَامَ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى خَمْسَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ نَامَ حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ أَوْ خَطِيطَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ . . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی۔ پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت (نماز نفل) پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر اٹھے اور فرمایا کہ (ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا۔ پھر آپ (نماز پڑھنے) کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کر لیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے (باہر) تشریف لے آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ السَّمَرِ بِالْعِلْمِ:: 117]
تشریح:
کتاب التفسیر میں بھی امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ حدیث ایک دوسری سند سے نقل کی ہے۔ وہاں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ دیر حضرت میمونہ رضی اللہ عنہ سے باتیں کیں اور پھر سو گئے، اس جملے سے اس حدیث کی باب سے مطابقت صحیح ہو جاتی ہے۔ یعنی سونے سے پہلے رات کو علمی گفتگو کرنا جائز و درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 117   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 138  
´انبیاء علیہم السلام کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَامَ حَتَّى نَفَخَ، ثُمَّ صَلَّى، وَرُبَّمَا قَالَ: اضْطَجَعَ حَتَّى نَفَخَ، ثُمَّ قَامَ فَصَلَّى، ثُمَّ حَدَّثَنَا بِهِ سُفْيَانُ مَرَّةً بَعْدَ مَرَّةٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: " بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ لَيْلَةً، فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ اللَّيْلِ، فَلَمَّا كَانَ فِي بَعْضِ اللَّيْلِ قَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَوَضَّأَ مِنْ شَنٍّ مُعَلَّقٍ وُضُوءًا خَفِيفًا يُخَفِّفُهُ عَمْرٌو وَيُقَلِّلُهُ، وَقَامَ يُصَلِّي فَتَوَضَّأْتُ نَحْوًا مِمَّا تَوَضَّأَ، ثُمَّ جِئْتُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ وَرُبَّمَا، قَالَ سُفْيَانُ: عَنْ شِمَالِهِ فَحَوَّلَنِي فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، ثُمَّ صَلَّى مَا شَاءَ اللَّهُ، ثُمَّ اضْطَجَعَ فَنَامَ حَتَّى نَفَخَ، ثُمَّ أَتَاهُ الْمُنَادِي فَآذَنَهُ بِالصَّلَاةِ فَقَامَ مَعَهُ إِلَى الصَّلَاةِ فَصَلَّى وَلَمْ يَتَوَضَّأْ، قُلْنَا لِعَمْرٍو: إِنَّ نَاسًا يَقُولُونَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَنَامُ عَيْنُهُ وَلَا يَنَامُ قَلْبُهُ، قَالَ عَمْرٌو: سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ، يَقُولُ: رُؤْيَا الْأَنْبِيَاءِ وَحْيٌ، ثُمَّ قَرَأَ: إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ سورة الصافات آية 102 " . . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما سے خبر دی کہ` نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوئے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خراٹے لینے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور کبھی (راوی نے یوں) کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لیٹ گئے۔ پھر خراٹے لینے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اس کے بعد نماز پڑھی۔ پھر سفیان نے ہم سے دوسری مرتبہ یہی حدیث بیان کی عمرو سے، انہوں نے کریب سے، انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا کہ وہ کہتے تھے کہ (ایک مرتبہ) میں نے اپنی خالہ (ام المؤمنین) میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گزاری، تو (میں نے دیکھا کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھے۔ جب تھوڑی رات باقی رہ گئی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اٹھ کر ایک لٹکے ہوئے مشکیزے سے ہلکا سا وضو کیا۔ عمرو اس کا ہلکا پن اور معمولی ہونا بیان کرتے تھے اور آپ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، تو میں نے بھی اسی طرح وضو کیا۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ پھر آ کر آپ کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا اور کبھی سفیان نے «عن يساره» کی بجائے «عن شماله» کا لفظ کہا (مطلب دونوں کا ایک ہی ہے) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پھیر لیا اور اپنی داہنی جانب کر لیا۔ پھر نماز پڑھی جس قدر اللہ کو منظور تھا۔ پھر آپ لیٹ گئے اور سو گئے۔ حتیٰ کہ خراٹوں کی آواز آنے لگی۔ پھر آپ کی خدمت میں مؤذن حاضر ہوا اور اس نے آپ کو نماز کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ پھر آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ (سفیان کہتے ہیں کہ) ہم نے عمرو سے کہا، کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں سوتی تھیں، دل نہیں سوتا تھا۔ عمرو نے کہا میں نے عبید بن عمیر سے سنا، وہ کہتے تھے کہ انبیاء علیہم السلام کے خواب بھی وحی ہوتے ہیں۔ پھر (قرآن کی یہ) آیت پڑھی۔ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ التَّخْفِيفِ فِي الْوُضُوءِ:: 138]
تشریح:
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو جو وضو فرمایا تھا تو یا تو تین مرتبہ ہر عضو کو نہیں دھویا، یا دھویا تو اچھی طرح ملا نہیں، بس پانی بہا دیا۔ جس سے ثابت ہوا کہ اس طرح بھی وضو ہو جاتا ہے۔ یہ بات صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھی کہ نیند سے آپ کا وضو نہیں ٹوٹتا تھا۔ آپ کے علاوہ کسی بھی شخص کو لیٹ کریوں غفلت کی نیند آ جائے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ تخفیف وضو کا یہ بھی مطلب ہے کہ پانی کم استعمال فرمایا اور اعضاء وضو پر زیادہ پانی نہیں ڈالا۔

آیت میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا قول ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے سے فرمایا تھا۔ عبید نے ثابت کیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے خواب کو وحی ہی سمجھا اسی لیے وہ اپنے لخت جگر کی قربانی کے لیے مستعد ہو گئے۔ معلوم ہوا کہ پیغمبروں کا خواب بھی وحی الٰہی کا درجہ رکھتا ہے اور یہ کہ پیغمبر سوتے ہیں مگر ان کے دل جاگتے رہتے ہیں۔ عمرو نے یہی پوچھا تھا۔ جسے عبید نے ثابت فرمایا۔ وضو میں ہلکا پن سے مراد یہ کہ ایک ایک دفعہ دھویا اور ہاتھ پیروں کو پانی سے زیادہ نہیں ملا۔ بلکہ صرف پانی بہانے پر اقتصار کیا۔ [فتح الباری]
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 138   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 183  
´بےوضو ہونے کی حالت میں تلاوت قرآن کرنا`
«. . . عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، " أَنَّهُ بَاتَ لَيْلَةً عِنْدَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ خَالَتُهُ، فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ، وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ، اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الْآيَاتِ الْخَوَاتِمَ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهَا فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَقُمْتُ فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ، فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ فَوَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي وَأَخَذَ بِأُذُنِي الْيُمْنَى يَفْتِلُهَا، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى أَتَاهُ الْمُؤَذِّنُ، فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ " . . . .»
. . . کریب ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام سے نقل کرتے ہیں کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ اور اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں گزاری۔ (وہ فرماتے ہیں کہ) میں تکیہ کے عرض (یعنی گوشہ) کی طرف لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اہلیہ نے (معمول کے مطابق) تکیہ کی لمبائی پر (سر رکھ کر) آرام فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوتے رہے اور جب آدھی رات ہو گئی یا اس سے کچھ پہلے یا اس کے کچھ بعد آپ بیدار ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے اپنی نیند کو دور کرنے کے لیے آنکھیں ملنے لگے۔ پھر آپ نے سورۃ آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں، پھر ایک مشکیزہ کے پاس جو (چھت میں) لٹکا ہوا تھا آپ کھڑے ہو گئے اور اس سے وضو کیا، خوب اچھی طرح، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں میں نے بھی کھڑے ہو کر اسی طرح کیا، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تھا۔ پھر جا کر میں بھی آپ کے پہلوئے مبارک میں کھڑا ہو گیا۔ آپ نے اپنا داہنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو رکعتیں پڑھیں۔ پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں پڑھ کر اس کے بعد آپ نے وتر پڑھا اور لیٹ گئے، پھر جب مؤذن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو آپ نے اٹھ کر دو رکعت معمولی (طور پر) پڑھیں۔ پھر باہر تشریف لا کر صبح کی نماز پڑھی۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ قِرَاءَةِ الْقُرْآنِ بَعْدَ الْحَدَثِ وَغَيْرِهِ:: 183]
تشریح:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے اٹھنے کے بعد بغیر وضو آیات قرآنی پڑھیں، اس سے ثابت ہوا کہ بغیر وضو تلاوت قرآن شریف جائز ہے۔ وضو کر کے تہجد کی بارہ رکعتیں پڑھیں اور وتر بھی ادا فرمائے، پھر لیٹ گئے، صبح کی اذان کے بعد جب مؤذن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جگانے کے لیے پہنچا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی سنتیں کم قرات کے ساتھ پڑھیں، پھر فجر کی نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر (مسجد میں) تشریف لے گئے۔

سنت فجر کے بعد لیٹنا صاحب انوار الباری کے لفظوں میں:
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تہجد میں وتر کے بعد لیٹنا مذکور ہے اور دوسری روایت سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنت فجر کے بعد بھی تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔ اسی بنا پر اہل حدیث کے ہاں یہ اضطجاع معمول ہے۔ صاحب انوار الباری کے لفظوں میں اس کی بابت حنفیہ کا فتویٰ یہ ہے حنفیہ سنت فجر کے بعد لیٹنے کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ پر معمول کرتے ہیں۔ اور سنت مقصودہ آپ کے حق میں نہیں سمجھتے۔ لہٰذا اگر کوئی شخص آپ کی عادت مبارکہ کی اقتداءکے طریقہ پر ایسا کرے گا ماجور ہو گا، اسی لیے ہم اس کو بدعت نہیں کہہ سکتے اور جس نے ہماری طرف ایسی نسبت کی ہے وہ غلط ہے۔ [انوار الباري،ج5،ص: 137]

اہل حدیث کے اس معمول کو برادران احناف عموماً بلکہ اکابر احناف تک بہ نظر تخفیف دیکھا کرتے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ محترم صاحب انوار الباری نے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تسلیم کر لیا اور اس کی اقتدا کرنے والے کو ماجور قرار دیا اور بدعتی کہنے والوں کو خاطی قرار دیا۔ الحمد للہ اہل حدیث کے لیے باعث فخر ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات مبارکہ اپنائیں اور ان کو اپنے لیے معمول قرار دیں جب کہ ان کا قول ہے:
«ما بلبليم نالاں گلزار ما محمد صلى الله عليه وسلم . . . ما عاشقيم بے دل دلدار ما محمد صلى الله عليه وسلم»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 183   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 697  
697. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک مرتبہ اپنی خالہ حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر رات بسر کی۔ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے فراغت کے بعد گھر تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر سو گئے۔ بعد ازاں (نماز کے لیے) اٹھے تو میں بھی آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ نے مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا، پھر پانچ رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد دو رکعت (سنت فجر) پڑھ کر سو گئے یہاں تک کہ میں نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی۔ پھر آپ صبح کی نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:697]
حدیث حاشیہ:
حدیث ہذا سے ثابت ہوا کہ جب امام کے ساتھ ایک ہی آدمی ہو تو وہ امام کے داہنی طرف کھڑا ہو جوان ہو یا نابالغ۔
پھر کوئی دوسرا آجائے تو وہ امام کے بائیں طرف نیت باندھ لے، پھر امام آگے بڑھ جائے یا مقتدی پیچھے ہٹ جائیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 697   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 726  
726. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے ایک رات نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی۔ میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے پیچھے سے میرا سر پکڑ کر مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر دیا، پھر نماز پڑھی اور سو گئے۔ جب مؤذن آیا تو آپ کھڑے ہوئے، نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:726]
حدیث حاشیہ:
سو جانے پر بھی آپ ﷺ کا وضو باقی رہتا تھا۔
اس لیے کہ دل جاگتا اور ظاہر میں آنکھیں سو جاتی تھیں۔
یہ خصوصیات نبوی میں سے ہے۔
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 726   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 728  
728. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں ایک شب نماز پڑھنے کے لیے نبی ﷺ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ نے میرا ہاتھ یا کندھا پکڑ کر مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا اور میرے پیچھے ہی سے اپنے ہاتھ سے مجھے پکڑا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:728]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں فقط امام کے داہنی طرف کا بیان ہے اور شاید امام بخاری ؒ نے اس حدیث کی طرف اشارہ کیا جس کو نسائی نے براء سے نکالا کہ ہم جب آپ کے پیچھے نماز پڑھتے تو داہنی جانب کھڑا ہونا پسند کرتے تھے۔
اور ابوداؤد نے نکالا کہ اللہ رحمت اتارتا ہے اور فرشتے دعا کرتے ہیں صفوں کے داہنے جانب والوں کے لیے اور یہ اس کے خلاف نہیں جو دوسری حدیث میں ہے کہ جو کوئی مسجد کا بایاں جانب معمور کرے تواس کو اتنا ثواب ہے۔
کیوں کہ اول تو یہ حدیث ضعیف ہے۔
دوسرے یہ آپ نے اس وقت فرمایا جب سب لوگ داہنی جانب کھڑے ہونے لگے اور بایاں جانب بالکل اجڑ گیا۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 728   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 992  
992. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے ہاں رات بسر کی، فرماتے ہیں: میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ محترمہ اس کے طول میں محوِ استراحت ہوئے۔ آپ آدھی یا اس کے لگ بھگ رات تک سوئے رہے، پھر جب بیدار ہوئے تو چہرے پر ہاتھ پھیر کر نیند کے اثرات دور کیے۔ اس کے بعد آپ نے سورہ آل عمران کی دس آیات تلاوت فرمائیں، پھر آپ پانی سے بھری ہوئی آویزاں پرانی مشک کی طرف آئے، اس سے اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں بھی اسی طرح کرتا ہوا آپ کے پہلو میں جا کھڑا ہوا۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، اس کے بعد دو رکعت، پھر دو رکعت، بعد ازاں دو رکعت، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں مزید ادا کیں، پھر وتر پڑھ کر آپ لیٹ گئے تاآنکہ آپ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:992]
حدیث حاشیہ:
بعض محدثین نے لکھا ہے کہ چونکہ ابن عباس ؓ بچے تھے۔
اس لیے لا علمی کی وجہ سے بائیں طرف کھڑے ہو گئے۔
آنحضور ﷺ نے آپ کا کان بائیں طرف سے دائیں طرف کرنے کے لیے پکڑا تھا۔
اس تفصیل کے ساتھ بھی روایتوں میں ذکر ہے۔
لیکن ایک دوسری روایت میں ہے کہ میرا کان پکڑ کر آپ ﷺ اس لیے ملنے لگے تھے تاکہ رات کی تاریکی میں آپ کے دست مبارک سے میں مانوس ہو جاؤں اور گھبراہٹ نہ ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں روایتیں الگ ہیں۔
آپ نے ابن عباس ؓ کا کان بائیں سے دائیں طرف کرنے کے لیے بھی پکڑا تھا اور پھر تاریکی میں انہیں مانوس کرنے کے لیے آپ کا کان ملنے بھی لگے تھے۔
آپ کو آپ کے والد حضرت عباس ؓ نے آنحضور ﷺ کے گھر سونے کے لیے بھیجا تھا تاکہ آپ کی رات کے وقت کی عبادت کی تفصیل ایک عینی شاہد کے ذریعہ معلوم کریں، چونکہ آپ بچے تھے اور پھر آنحضور ﷺ کی ان کے یہاں سونے کی باری تھی۔
آپ بے تکلفی کے ساتھ چلے گئے اور وہیں رات بھر رہے۔
بچپنے کے باوجود انتہائی ذکی فہیم تھے۔
اس لیے ساری تفصیلات یادرکھیں (تفہیم البخاری)
یہ نماز تہجد تھی جس میں آپ ﷺ نے دو دوکعت کرکے بارہ رکعت کی تکمیل فرمائی، پھر ایک رکعت وتر پڑھا۔
اس طرح آپ نے تہجد کی تیرہ رکعتیں ادا کیں مطابق بیان حضرت عائشہ ؓ آپ کی رات کی نماز گیارہ اور تیرہ سے کبھی زیادہ نہیں ہوئی۔
رمضان شریف میں اس کو تراویح کی شکل میں ادا کیا گیا، اس کی بھی ہمیشہ آٹھ رکعت سنت تین وتر یعنی کل گیارہ رکعات کا ثبوت ہے۔
جیسا کہ پارہ میں مفصل گزر چکا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 992   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4569  
4569. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک رات میں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر میں گزاری۔ رسول اللہ ﷺ کچھ دیر تک تو اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ محو گفتگو رہے، اس کے بعد سو گئے۔ جب تہائی شب رہ گئی تو آپ اٹھ بیٹھے، آسمان کی طرف نظر اٹھا کر یہ آیات تلاوت فرمائیں: "بےشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور دن اور رات کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل مندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔" پھر آپ اٹھ کھڑے ہوئے، وضو کیا، مسواک کی اور گیارہ رکعت نماز پڑھی۔ اس کے بعد حضرت بلال ؓ نے اذان دی تو دو رکعت (سنت) پڑھیں۔ اس کے بعد آپ باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4569]
حدیث حاشیہ:
یہی گیارہ رکعتیں رمضان میں لفظ تراویح کے ساتھ موسوم ہوئیں۔
پس تراویح کی یہی گیارہ رکعات سنت نبوی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4569   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4571  
4571. حضرت ابن عباس ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت کریب سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں بتایا: انہوں نے ایک مرتبہ اپنی خالہ حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر رات بسر کی جو نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں۔ انہوں نے کہا: میں وہاں تکیے کے عرض میں سو گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی بیوی اس کے طول میں آرام فرما ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کم و بیش آدھی رات تک سوئے رہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرہ انور سے نیند دور کرنے لگے۔ بعد ازاں سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں اور اٹھ کر ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف گئے، اس سے اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز شروع کی۔ میں نے بھی وہی کچھ کیا جو آپ نے کیا تھا۔ پھر میں آپ کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے۔ اس کے بعد آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4571]
حدیث حاشیہ:
روایت میں آنحضرت ﷺ کا تہجد کے لیے اٹھنا اور آیات مذکورہ کا بطور دعا تلاوت کرنا مذکور ہے۔
حدیث اور باب میں یہی وجہ مطابقت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4571   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4572  
4572. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت کریب سے روایت ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں بتایا کہ وہ ایک رات نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر سوئے اور وہ آپ کی خالہ تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں تکیے کے عرض میں لیٹ گیا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ تکیے کی لمبائی میں محو استراحت ہوئے۔ آپ نے کم و بیش آدھی رات تک آرام فرمایا۔ پھر رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر چہرے سے نیند کے آثار دور کرنے کے لیے ہاتھ پھیرنے لگے۔ بعد ازاں آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں۔ پھر اٹھ کر لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف گئے اوراس کے پانی سے خوب اچھی طرح وضو کیا، بعد ازاں کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں بھی اٹھ کھڑا ہوا جس طرح آپ نے کیا تھا اسی طرح میں نے بھی کیا، پھر جا کر آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4572]
حدیث حاشیہ:
آیات مذکورہ کو آپ تہجد کے وقت اٹھنے کے بعد اکثر پڑھا کرتے۔
یہاں بیان کرنے کا یہی مقصد ہے۔
ان دعائیہ آیات کے رموز ونکات وہی حضرات جا ن سکتے ہیں جن کو سحر کے وقت اٹھنا اور مناجات میں مشغول ہونے کی لذت سے شنا سائی ہو۔
وذلك فضل اللہ یؤتیه من یشاء
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4572   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5919  
5919. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک رات اپنی خالہ سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے گھر سویا جبکہ اس رات رسول اللہ ﷺ ان کی باری کی وجہ سے ان کے پاس تھے۔ رسول اللہ ﷺ رات کی نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کی بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ ﷺ نے میرےگیسو پکڑے اور مجھے اپنی دائیں جانب کر لیاعمرو بن محمد نے کہا: ہم سے ہیشم نے بیان کیا، انہیں ابو بشیر نے خبر دی کہ ابن عباس نے کہا: آپ نے میری چوٹی یا میرا سر پکڑا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5919]
حدیث حاشیہ:
حدثنا عمرو بن محمد، حدثنا هشيم، أخبرنا أبو بشر، بهذا، وقال بذؤابتي أو برأسي‏. ہم سے عمرو بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے ہشیم نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوبشر نے خبر دی، پھر یہی حدیث نقل کی اس میں یوں ہے کہ میری چوٹی پکڑ کریا میرا سر پکڑ کر آپ نے مجھے اپنے داہنے جانب کردیا۔
تشریح:
معلوم ہوا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما گیسووالے تھے۔
باب اور حدیث میں یہی مطابقت ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بال پکڑ کر دائیں طرف کھڑا کر دیا۔
اس لیے کہ ان کا بائیں طرف کھڑا ہونا غلط تھا۔
ایسی حالت میں مقتدی کو امام کے دائیں کھڑا ہونا چاہیئے۔
بدعتی قبر پرست پیر زادوں کا سجادہ نشینوں کی طرح گیسورکھ کر ان کو کاندھوں سے بھی نیچے تک لٹکانا اور ریاکاری کے لیے اپنے کو پیر درویش ظاہر کرنا یہ وہ بد ترین حرکت ہے جس سے اہل اسلام کو سخت پر ہیز کی ضرورت ہے۔
بلکہ ایسے پیروں اور فقیروں اورمکاروں کے جال میں ہر گز نہ آنا چاہیئے۔
اے بسا ابلیس آدم روئے ہست پس بہر دستے نہ باید داد دست
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5919   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 859  
859. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے پاس گزاری، نبی ﷺ نے بھی ان کے ہاں قیام فرمایا۔ جب رات کا کچھ حصہ گزر گیا تو رسول اللہ ﷺ اٹھ کھڑے ہوئے، ایک لٹکتے ہوئے پرانے مشکیزے سے ہلکا سا وضو کیا۔۔ راوی حدیث حضرت عمرو اسے بہت ہلکا اور خفیف سا بیان کرتے تھے۔۔ پھر آپ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ اس دوران میں میں بھی اٹھا اور آپ کے وضو جیسا وضو کیا، پھر آ کر آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے مجھے اپنے پیچھے سے پھیر کر اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا، پھر جس قدر اللہ کو منظور تھا آپ نے نماز پڑھی۔ اس کے بعد آپ لیٹ گئے اور نیند میں خراٹے بھرنے لگے۔ اتنے میں مؤذن آیا اور اس نے آپ کو نماز کی اطلاع دی تو آپ ﷺ اس کے ہمراہ نماز کے لیے کھڑا ہوئے آپ نے نماز پڑھی اور وضو نہیں کیا۔ ہم نے حضرت عمرو سے کہا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:859]
حدیث حاشیہ:
ترجمہ باب اس سے نکلا کہ حضرت ابن عباس ؓ نے وضو کیا اور نماز میں شریک ہوئے حالانکہ اس وقت وہ نابالغ لڑکے تھے آیت مذکورہ سورہ صافات میں ہے حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیل ؑ سے کہا تھا کہ میں نے خواب میں دیکھا کہ تجھے ذبح کر رہا ہوں یہاں خواب بمعنی وحی ہے صاحب خیر جاری لکھتے ہیں:
ولما کانت وحیا لم یکن نومھم نوم غفلة مودیة إلی الحدیث بل نوم تنبه وتیقظ وانتباہ وانتظار للوحي الخ اور جب انبیا کا خواب بھی وحی ہے تو ان کا سونا نہ ایسی غفلت کا سونا جس سے وضو کرنا فرض لازم آئے بلکہ وہ سونا محض ہوشیار ہونا اور وحی کا انتظار کرنے کاسوناہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 859   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1198  
1198. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے ہاں رات بسر کی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں سرہانے کے عرض پر لیٹ گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ محترمہ اس کے طول میں آرام فرما ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ سو گئے حتی کہ جب آدمی رات ہوئی یا اس سے تھوڑا سا پہلے یا بعد تو پھر آپ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرہ انور سے نیند کے اثرات دور کرنے لگے۔ پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد آپ اٹھ کر لٹکتے ہوئے مشکیزے کے پاس گئے اور اس سے اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ پھر میں گیا اور آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1198]
حدیث حاشیہ:
حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کا کان مروڑنے سے آپ ﷺ کی غرض ان کی اصلاح کرنی تھی کہ وہ بائیں طرف سے دائیں طرف کو پھر جائیں۔
کیونکہ مقتدی کا مقام امام کے دائیں طرف ہے۔
یہیں سے امام بخاری ؒ نے ترجمہ باب نکالا کیونکہ جب نمازی کو دوسرے کی نماز درست کرنے کے لیے ہاتھ سے کام لینا درست ہوا تو اپنی نماز درست کرنے کے لیے تو بطریق اولیٰ ہاتھ سے کام لینا جائز ہوگا (وحیدی)
اس حدیث سے یہ بھی نکلا کہ آپ کبھی تہجد کی نماز تیرہ رکعتیں بھی پڑھتے تھے۔
نماز میں عمداً کام کرنا بالاتفاق مفسد صلوۃ ہے۔
بھول چوک کے لیے امید عفو ہے۔
یہاں آپ ﷺ کا نماز تہجد کے آخر میں ایک رکعت وتر پڑھ کر ساری نماز کا طاق کرلینا بھی ثابت ہوا۔
اس قدر وضاحت کے باوجود تعجب ہے کہ بہت سے ذی علم حضرات ایک رکعت وتر کا انکار کرتے ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1198   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 183  
183. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ ؓ، جو ان کی خالہ ہیں، کے گھر ایک رات بسر کی۔ انھوں نے کہا: میں تو بستر کے عرض میں لیٹ گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ دونوں بستر کے طول میں محو استراحت ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ سو گئے تاآنکہ جب آدھی رات ہوئی یا اس سے کچھ پہلے یا کچھ بعد، تو آپ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر ہاتھ کے ذریعے سے چہرہ مبارک سے نیند کے اثرات دور کرنے لگے۔ پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں۔ پھر آپ لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے اچھی طرح وضو فرمایا، پھر نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور وہی کچھ کیا جو آپ نے کیا تھا۔ پھر میں اٹھ کر آپ کے پہلو میں جا کھڑا ہوا، چنانچہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے مروڑا۔ پھر آپ نے دو رکعات ادا کیں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:183]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے اٹھنے کے بعد بغیر وضو آیات قرآنی پڑھیں، اس سے ثابت ہوا کہ بغیروضو تلاوت قرآن شریف جائز ہے۔
وضو کرکے تہجد کی بارہ رکعتیں پڑھیں اور وتر بھی ادا فرمائے، پھر لیٹ گئے، صبح کی اذان کے بعد جب مؤذن آپ کو جگانے کے لیے پہنچا تو آپ نے فجر کی سنتیں کم قراءت کے ساتھ پڑھیں، پھر فجر کی نماز کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم باہر (مسجد میں)
تشریف لے گئے۔
سنت فجر کے بعد لیٹنا صاحب انوارالباری کے لفظوں میں:
اس حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تہجد میں وتر کے بعد لیٹنا مذکور ہے اور دوسری روایت سے ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سنت فجر کے بعد بھی تھوڑی دیر کے لیے دائیں کروٹ پر لیٹا کرتے تھے۔
اسی بنا پر اہل حدیث کے ہاں یہ اضطجاع معمول ہے۔
صاحب انوارالباری کے لفظوں میں اس کی بابت حنفیہ کا فتویٰ یہ ہے:
حنفیہ سنت فجر کے بعد لیٹنے کو حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ پر معمول کرتے ہیں۔
اور سنت مقصودہ آپ کے حق میں نہیں سمجھتے۔
لہٰذا اگر کوئی شخص آپ کی عادت مبارکہ کی اقتداء کے طریقہ پر ایسا کرے گا ماجور ہو گا، اسی لیے ہم اس کو بدعت نہیں کہہ سکتے اور جس نے ہماری طرف ایسی نسبت کی ہے وہ غلط ہے۔
(أنوارالباري:
ج: 5، ص: 137)

اہل حدیث کے اس معمول کو برادران احناف عموماً بلکہ اکابر احناف تک بہ نظر تخفیف دیکھا کرتے ہیں۔
مقام شکرہے کہ محترم صاحب انوارالباری نے اسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ تسلیم کر لیا اور اس کی اقتدا کرنے والے کو ماجور قرار دیا اور بدعتی کہنے والوں کو خاطی قرار دیا۔
الحمد للہ اہل حدیث کے لیے باعث فخر ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عادات مبارکہ اپنائیں اور ان کو اپنے لیے معمول قرار دیں جب کہ ان کا قول ہے:
ما بلبلیم نالاں گلزار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم ما عاشقیم بیدل دلدار ما محمد صلی اللہ علیہ وسلم
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 183   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6215  
6215. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے ایک رات سیدہ میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر بسر کی۔ نبی ﷺ نے اس رات وہیں قیام فرمایا۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ گیا تو آپ ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آسمان کی طرف اٹھا کر یہ آیات پڑھنے لگے: بلاشبہ زمین آسمان کی پیدائش میں اور رات دن کے بدلتے رہنے میں عقل والوں کے لیے عظیم نشانیاں ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6215]
حدیث حاشیہ:
رات کو اٹھنے والے خوش نصیبوں کے لئے نظارہ آسمانی کو دیکھنا اور ان آیات کو بغور پڑھنا بڑی نعمت ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6215   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7452  
7452. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک رات سیدہ میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر رہا جبکہ اس رات نبی ﷺ بھی ان کے پاس موجود تھے۔ وہاں رات گزارنے کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز دیکھنا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کچھ وقت اپنی زوجہ محترمہ سے محو گفتگو رہے، پھر سو گئے، جب رات کا آخری تہائی حصہ یا کچھ حصہ باقی رہ گیا تو آپ اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف دیکھ کر یہ آیت پڑھی: بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں (رات اور دن کے باری باری آنے جانے میں) اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ پھر اٹھ کر آپ نے وضو فرمایا اور مسواک کی، اس کے بعد گیارہ رکعتیں پڑھیں۔ پھر سیدنا بلال ؓ نے نماز کے لیے اذان دی تو آپ ﷺ نے دو رکعت (سنت فجر) پڑھیں پھر باہر تشریف لے گئے اور لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7452]
حدیث حاشیہ:
آیت (إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ إِلَى قَوْلِهِ لِأُولِي الْأَلْبَابِ)
میں اللہ تعالیٰ نےآسمان وزمین کی پیدائش اوراس میں غورکرنے کا ذکر فرمایا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی صفات فعلیہ میں اختلاف ہے۔
حضرت امام ابوحنیفہ  نےان کو بھی قدیم کہا ہے اور اشعری اور محقیقین اہل حدیث کہتے ہیں کہ صفات فعلیہ جیسے کلام، نزول، استواء تکوین وغیرہ یہ سب حادث ہیں اور ان کے حدوث سےپروردگار کا حدوث لازم نہیں آتا اور یہ قاعدہ فلاسفہ کا باندھا ہوا کہ حوادث کا محل بھی حادث ہوتا ہے محض غلط اور لغو ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بے شمار کام کرتا ہے۔
فرمایا:
(کل یوم ھو فی شان)
پھر کیا اللہ حادث ہے ہرگز نہیں وہ قدیم ہے اب جن لوگوں نے صفات کو بھی قدیم کہا ہے ان کا مطلب یہ ہے کہ اصل صفت قدیم ہے مگر اس کا تعلق حادث ہے۔
مثلا خلق کی صفت قدیم ہے لیکن زید سے اس کا تعلق حادث ہے اسی ح صفت استواء قدیم ہے مگر عرش سے اس کا تعلق حادث ہے۔
ام المؤمنین حضرت میمونہ ؓ ام الفضل حضرت عباس ؓ کی بیوی کی بہن ہیں جو بیوہ ہوگئی تھیں بعد میں خود حضرت عباس کی درخواست پر ان کا حرم نبوی میں داخلہ ہوا۔
نکاح خود حضرت عباس ؓ نے پانچ سو درہم مہر پر کیا۔
یہ حضور ﷺ کا آخری نکاح تھا جوماہ ذی القعدہ سنہ 7ھ میں بمقام سرف ہوا۔
بہت ہی نیک خدا ترس خاتون تھیں۔
سنہ 51ھ میں بمقام سرف ہی انتقال فرمایا اور اسی جگہ دفن ہوئیں۔
عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ میمونہ ؓ صالحہ اور نیک نام اور ہم سب سے زیادہ تقویٰ والی تھیں۔
وہ اپنے قرابت داروں سے بہت سلوک کرتی تھیں۔
رضي اللہ عنها و أرضاھا (آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7452   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 117  
´سونے سے پہلے رات کے وقت علمی باتیں کرنا`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" بِتُّ فِي بَيْتِ خَالَتِي مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَهَا فِي لَيْلَتِهَا، فَصَلَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ جَاءَ إِلَى مَنْزِلِهِ فَصَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ نَامَ، ثُمَّ قَامَ، ثُمَّ قَالَ: نَامَ الْغُلَيِّمُ أَوْ كَلِمَةً تُشْبِهُهَا، ثُمَّ قَامَ، فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَجَعَلَنِي عَنْ يَمِينِهِ، فَصَلَّى خَمْسَ رَكَعَاتٍ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ نَامَ حَتَّى سَمِعْتُ غَطِيطَهُ أَوْ خَطِيطَهُ، ثُمَّ خَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں کہ ایک رات میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس دن) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز مسجد میں پڑھی۔ پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت (نماز نفل) پڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، پھر اٹھے اور فرمایا کہ (ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے یا اسی جیسا لفظ فرمایا۔ پھر آپ (نماز پڑھنے) کھڑے ہو گئے اور میں (بھی وضو کر کے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کر لیا، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ رکعت پڑھیں۔ پھر دو پڑھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے۔ یہاں تک کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹے کی آواز سنی، پھر آپ کھڑے ہو کر نماز کے لیے (باہر) تشریف لے آئے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 117]
فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
بظاہر حدیث اور باب میں مناسبت معلوم نہیں ہوتی مگر جب بصیرت کی نگاہ کو بروئے کار لایا جائے تو مناسبت کے کئی پہلو نکلتے ہیں، دراصل امام بخاری رحمہ اللہ کی یہ عادت ہے کہ وہ حدیث لا کر اس کے دوسرے طریق کی طرف اشارہ کرتے ہیں جس کو خود امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب التفسیر میں نکالا اور اس حدیث میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گھڑی تک اپنی بیوی سے باتیں کیں جو اس مسئلے پر دلالت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو اپنی بیوی کو علم سکھلایا اس کے علاوہ ایک اور تطبیق بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے وقت تہجد پڑھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئی سنتوں پر عمل کر کے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بتلایا کیوں کہ صرف زبان سے ہی تبلیغ نہیں ہوتی بلکہ آدمی اچھی بات پر عمل کر کے بھی دعوت و تبلیغ کی بنیاد بنا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ بھی کئی احادیث «السمر فى العلم» رات کے وقت علمی گفتگو پر دلالت کرتی ہیں۔

◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ويدخل فى هذا الباب حديث انس رضى الله عنه أن النبى صلى الله عليه وسلم خطبهم بعد العشاء، وذكره المصنف فى كتاب الصلاة ولأنس حديث اخرني قصة اسيد بن حضير وقد ذكره المصنف فى المناقب، وحديث عمر كان النبى صلى الله عليه وسلم يسسرع ابي بكر فى الامر من امور المسلمين .» [فتح الباري، ج1 ص284]
اس باب میں کئی احادیث داخل ہیں (مثلاً) سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیا، انہیں عشاء کے بعد (جو کہ «السمر فى العلم» کی دلیل ہے) جسے امام بخاری نے کتاب الصلاۃ میں ذکر فرمایا اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث اسید بن حضیر کا جو قصہ ہے جسے مصنف نے کتاب المناقب میں ذکر فرمایا ہے اور حدیث سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جس میں یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت (عشاء کے بعد) مسلمانوں کے مسائل پر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے گفتگو فرمایا کرتے تھے۔‏‏‏‏

بعضوں نے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت کا ذکر یوں بھی کیا ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو فرمایا کہ لڑکا سو رہا ہے؟ یعنی یہ جملہ «السمر فى العلم» ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ کہنے سے وہ اٹھ گئے، وضو کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا فرمائی، لہٰذا یہ کلمہ اس بات پر مثبت ہے کہ یہ «السمر» تھا۔

◈ ابن المنیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«يحتمل أنه يريد هذه الكلمة فيثبت بها أصل السمر» [المتواري ص64]
یعنی یہ جملہ لڑکا سو رہا ہے۔ احتمال یہ ہے کہ یہی «سمر فى العلم» ہے۔
لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت واضح ہوتی ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 112   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 94  
´اگر کوئی شرعی عذر ہو تو نماز میں عمل جائز ہے چاہے وہ عمل قلیل ہو یا عمل کثیر`
«. . . مالك عن مخرمة بن سليمان عن كريب مولى عبد الله بن عباس ان عبد الله بن عباس اخبره انه بات عند ميمونة زوج النبى صلى الله عليه وسلم وهى خالته، قال: فاضطجعت فى عرض الوسادة واضطجع رسول الله صلى الله عليه وسلم، واهله فى طولها . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں ایک رات رہے جو کہ ان کی خالہ تھیں، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں سرہانے کی چوڑائی میں لیٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے گھر والے اس کی لمبائی میں لیٹ گئے، . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 94]
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 183، ومسلم 182/763، من حديث مالك به]
تفقه:
① وضو کے بغیر زبانی قرآن مجید پڑھنا جائز ہے۔
② نوافل کھڑے ہو کر ہی پڑھنے چاہئیں الا یہ کہ کوئی شرعی عذر ہو۔
③ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کتاب وسنت کے علم اور اس پر عمل کے لئے ہر وقت کوشاں رہتے تھے۔
④ عبادات اور دینی امور اسی طرح سرانجام دینے چاہئیں جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کئے ہیں۔
⑤ اگر کوئی شرعی عذر ہو تو نماز میں عمل جائز ہے چاہے وہ عمل قلیل ہو یا عمل کثیر۔
⑥ رات کی نفل نماز دو دو رکعت ہے۔ نیز دیکھئے حدیث: 200، 202
⑦ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رات کی نفل نماز میں ایک سلام کے ساتھ چار اکٹھی رکعتیں پڑھنا صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔
⑧ اگر دو آدمی جماعت سے نماز پڑھنا چاہیں تو امام بائیں طرف کھڑا ہو گا۔
⑨ ہمیشہ یہ کوشش کرنی چاہئے کہ تہجد کبھی فوت نہ ہو اور تہجد کی نماز انتہائی لمبی اور خشوع وخضوع والی ہو اور اس میں ریاکاری کے بجائے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود ہو۔ ایسی نماز پڑھیں گویا یہ آپ کی آخری نماز ہے۔
⑩ امام کے لئے یہ ضروری نہیں کہ وہ نماز پڑھتے وقت مقتدیوں کی امامت کی نیت بھی کرے۔
اس حدیث سے دیگر فوائد بھی ثابت ہیں مثلاََ رات کو نیند سے بیدار ہوتے وقت آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت مستحب ہے - نیز دیکھئے [التمهيد 207/13-218] اور یہ کہ گیارہ رکعات سے زیادہ بھی پڑھ سکتا ہے - وغیرہ
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 193   

  حافظ ابويحييٰ نورپوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 699  
´صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، فَقُمْتُ أُصَلِّي مَعَهُ فَقُمْتُ عَنْ يَسَارِهِ فَأَخَذَ بِرَأْسِي فَأَقَامَنِي عَنْ يَمِينِهِ . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہ آپ نے بتلایا کہ میں نے ایک دفعہ اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے گھر رات گذاری۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز میں شریک ہو گیا۔ میں (غلطی سے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہو گیا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا سر پکڑ کے دائیں طرف کر دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْأَذَانِ: 699]
فقہ الحدیث
اگر امام کی اقتدا میں نماز پڑھی جا رہی ہو تو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی کوئی بھی نماز کسی بھی صورت میں نہیں ہوتی۔
اشکال:
مجوزین صحیح بخاری کی یہ حدیث اپنے دلائل میں پیش کرتے ہیں۔
مجوزین کے مزعومہ دلائل کا منصفانہ تجزیہ
بعض لوگوں کا خیال ہے کہ صف کے پیچھے اکیلے آدمی کی نماز ہو جاتی ہے لیکن جیسا کہ امام ابن حزم رحمہ اللہ کا کلام ہے، کتاب و سنت یا اجماع امت میں سے کوئی بھی دلیل ان کا ساتھ نہیں دیتی۔ اپنے باطل مذہب کو ثابت کرنے کے لیے جو دلائل وہ پیش کرتے ہیں، ان کا منصفانہ تجزیہ پیش خدمت ہے:
دلیل نمبر 2:
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں:
«فقام يصلي من الليل، فقمت عن يساره، فتناولني من خلف ظهره، فجعلني على يمينه.»
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز کے لیے کھڑے ہوئے، میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوا تو آپ نے مجھے میرے پیچھے سے پکڑا اور اپنی دائیں جانب کر دیا۔ [صحيح البخاري:699 صحيح مسلم: 1801]
اسی طرح سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ایسا ہی واقعہ منقول ہے۔ [صحيح مسلم: 3010]
محل استشہاد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دونوں صحابہ کو پکڑ کر اپنے پیچھے سے دائیں جانب لانا ہے اور وجہ استشہاد یہ ہے کہ جب دونوں صحابہ کو پیچھے لایا گیا تو وہ «خلف الصف» یعنی صف کے پیچھے ہو گئے تھے۔ ان کی نماز ایسا کرنے سے باطل نہیں ہوئی، لہٰذا صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز جائز ہے۔
تجزیہ: اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کے جائز ہونے کا استدلال درست نہیں کیونکہ سیدنا ابن عباس اور سیدنا جابر رضی اللہ عنہم نے صف کے پیچھے نماز نہیں پڑھی بلکہ صرف ایک مجبوری کی بنا پر جگہ تبدیل کی ہے۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ ان دونوں صحابہ نے صف کے پیچھے سے اپنی جگہ تبدیل کرتے ہوئے نماز کا کچھ حصہ ادا کیا تھا تو بھی اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ایک مرد اپنی پوری نماز ہی صف کے پیچھے اکیلا اداکر لے بلکہ زیادہ سے زیادہ مجبوری کی بنا پر جگہ تبدیل کرتے ہوئے ایسا کرنا جائز ہو گا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کو عمومی طور پر کالعدم قرار دیا ہے، اس سے یہ جگہ تبدیل کرنے کی مجبوری والی صورت خاص دلیل کی بنا پر خارج ہو جائے گی۔ صف میں نماز پڑھنے والے شخص کو صف تبدیل کرتے ہوئے اپنی صف کے پیچھے ہونے والی نماز دہرانی نہیں پڑے گی جبکہ باہر سے آ کر جماعت کے ساتھ ملنے والا شخص اگر صف کے پیچھے اکیلا نماز پڑھے گا تو اسے ہماری ذکر کردہ پہلی دلیل کی بنا پر نماز دہرانی پڑے گی کیونکہ فرمان رسول یہی ہے۔ یوں سب احادیث پر عمل ہو جائے گا۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«وهذا لا حجة فيه لهم، لما ذكرنا من أنه لا يحل ضرب السنن بعضها ببعض، وهذا تلاعب بالدين، وليت شعري ما الفرق بين من ترك حديث جابر وابن عباس الحديث وابصة وعلي بن شيبان، وبين من ترك حديث وابصة وعلي الحديث جابر وابن عباس، وهل هذا كله إلا باطل بحت، وتحكم بلا برهان، بل الحق فى ذلك الاخذ بكل ذلك، فكله حق، ولا يحل خلافه»
اس حدیث میں ان کے لیے کے لیے کوئی دلیل نہیں کیونکہ ہم ذکر کر چکے ہیں کہ احادیث کی ایک دوسرے سے ٹکر دینا جائز ہیں۔ یہ تو دین کے ساتھ مذاق اور تمسخر ہے۔ وابصہ اور علی بن شیبان رضی اللہ عنہما کی روایت کو بنیاد بنا کر جابر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو چھوڑ دینے والے اور جابر و ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کو بنیاد بنا کر وابصہ و علی بن شیبان رضی اللہ عنہم کی روایت کو چھوڑ دینے والے اس کام میں برابر ہیں۔ یہ سب صورتیں بالکل باطل ہیں اور بلا دلیل فتوے ہیں۔ اس سلسلے میں حق یہ ہے کہ ساری احادیث پر عمل کیا جائے، یہ ساری حق ہیں، ان کی مخالفت جائز نہیں۔ [المحلي لابن حزم: 57/4]

نیز لکھتے ہیں:
«وما سمي قط المدار عن شمال إلٰي يمين مصليا و حدهٔ خلف الصف.»
بائیں سے دائیں جانب گھمائے جانے والے شخص کو کبھی بھی صف کے پیچھے اکیلے نماز پڑھنے والے کا نام نہیں دیا گیا۔
معلوم ہوا کہ اس حدیث سے صف کے پیچھے اکیلے مرد کی نماز کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔
صف کے پیچھے اکیلے کی نماز مفصل مضمون پڑھنے کے لیے سنن ترمذی حدیث نمبر 230 کے فوائد و مسائل دیکھئیے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم ، شمارہ نمبر 40، حدیث/صفحہ نمبر: 40   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 443  
´نیند کی وجہ سے وضو کا حکم۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک رات نماز پڑھی تو میں (جا کر) آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنی داہنی طرف کر لیا، اور نماز ادا کی، پھر لیٹے اور سو گئے اتنے میں مؤذن آپ کے پاس آیا (اس نے آپ کو جگایا) تو آپ نے (جا کر) نماز پڑھی، اور وضو نہیں کیا روایت مختصر ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 443]
443 ۔ اردو حاشیہ:
➊ امام کے ساتھ ایک مقتدی ہو تو وہ آگے پیچھے کی بجائے برابر کھڑے ہوں گے۔ امام بائیں طرف، مقتدی دائیں طرف۔
➋ لیٹ کر سونا اور پھر وضو نہ کرنا آپ کا خاصہ ہے کیونکہ آپ کا دل اس حالت میں بھی جاگتا رہتا تھا۔ آپ نے خود فرمایا ہے: میری آنکھیں سوتی ہیں، دل (دماغ) جاگتا رہتا ہے۔ [صحیح البخاری، التهجد، حدیث: 1147، وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 738]
ہماری یہ کیفیت نہیں ہے، لہٰذا ہمیں ایسی صورت میں وضو کرنا ہو گا۔ مذکورہ روایت یہاں سنن نسائی میں تو مختصر ہے لیکن صحیحین، یعنی صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں تفصیلاً موجود ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاری، الوضوء، حدیث: 138، و صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 763]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 443   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 687  
´مؤذن کا امام کو نماز کی خبر دینے کا بیان۔`
کریب مولی ابن عباس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہم سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد (صلاۃ اللیل) کیسی تھی؟ تو انہوں نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کے ساتھ گیارہ رکعتیں پڑھیں، پھر سو گئے یہاں تک کہ نیند گہری ہو گئی، پھر میں نے آپ کو خراٹے لیتے ہوئے دیکھا، اتنے میں آپ کے پاس بلال رضی اللہ عنہ آئے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! نماز؟ تو آپ نے اٹھ کر دو رکعتیں پڑھیں، پھر لوگوں کو نماز پڑھائی اور (پھر سے) وضو نہیں کیا۔ [سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 687]
687 ۔ اردو حاشیہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نیند ناقض (وضو توڑنے والی) نہیں تھی کیونکہ آپ کا دل جاگتا رہتا تھا۔ دیکھیے: [صحیح البخاري، الإعتصام بالکتاب و السنة، حدیث: 7281]
یعنی آپ کو حدث (بے وضو ہونے) وغیرہ کا پتہ چل جاتا تھا۔ خراٹے بھرنا گہری نیند کی دلیل ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 687   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 843  
´جب دو آدمی ہوں تو باجماعت نماز کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو میں آپ کے بائیں کھڑا ہوا، تو آپ نے مجھے اپنے بائیں ہاتھ سے پکڑا، اور (پیچھے سے لا کر) اپنے دائیں کھڑا کر لیا۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 843]
843 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث 807۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 843   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1621  
´قیام اللیل کس دعا سے شروع کی جائے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ انہوں نے ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات گزاری (وہ ان کی خالہ تھیں) تو وہ تکیہ کے چوڑان میں لیٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اہلیہ دونوں اس کی لمبان میں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہے یہاں تک کہ جب آدھی رات ہوئی، یا اس سے کچھ پہلے، یا اس کے کچھ بعد تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، چہرہ سے نیند بھگانے کے لیے اپنے ہاتھ سے آنکھ ملتے ہوئے اٹھ کر بیٹھ گئے، پھر آپ نے سورۃ آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں، پھر آپ ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف بڑھے، اور اس سے وضو کیا تو خوب اچھی طرح سے وضو کیا، پھر آپ نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں: میں بھی اٹھا، اور میں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے آپ نے کیا، پھر میں گیا، اور آپ کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا داہنا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے، آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر آپ نے وتر پڑھی ۱؎ پھر آپ لیٹے یہاں تک کہ آپ کے پاس مؤذن آیا تو آپ نے پھر ہلکی دو رکعتیں پڑھیں۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1621]
1621۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کے توسط سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے باقاعدہ رات گزارنے کی اجازت لی تھی۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہما ان دنوں حیض کی حالت میں تھیں۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تہجد کی کیفیت کو جاننا تھا۔
کان مروڑا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑے ہو گئے تھے۔ ان کو اپنی دائیں جانب کھڑا کرنے کے لیے ان کے کان سے پکڑ کر اپنی دائیں جانب کھڑا کیا۔
➌ آپ کبھی کبھار تیرہ رکعت بھی پڑھ لیتے تھے اگرچہ اکثر معمول گیارہ کا تھا۔ بعض نے پہلی دو رکعتوں کو تحیۃ الوضوع یا افتتاح تہجد سمجھا ہے۔ گویا اصل تہجد گیارہ رکعت ہی تھیں۔
دوہلکی رکعتیں مراد فجر کی سنتیں ہیں۔
➎ اہل خانہ سے معاشرت اور چھوٹے بچوں پر شفقت اور نرمی سے پیش آنا چاہیے۔
➏ چھوٹے بچے کی نماز صحیح ہے۔
➐ وضو اچھے طریقے سے کرنا چاہیے لیکن کوشش کرنی چاہیے کہ پانی کم سے کم استعمال ہو۔
➑ ایک باقاعدہ مؤذن مسجد میں مقرر کرنا چاہیے۔
➒ نفلی نماز کی جماعت مشروع ہے۔
➓ جس آدمی نے شروع نماز میں امامت کی نیت نہ کی ہو اس کی اقتدا میں بھی نماز پڑھنا جائز ہے۔ باب10: جب رات کو تہجد کے لیے اٹھے تو مسواک کرے
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1621   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 331  
´نماز باجماعت اور امامت کے مسائل کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کی۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے سے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 331»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأذان، باب إذا قام الرجل عن يسار الإمام، حديث:698، ومسلم، صلاة المسافرين، باب الدعاء في صلاة الليل وقيامه، حديث:763.»
تشریح:
1. اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر جماعت سے نماز پڑھنے والے دو ہی شخص ہوں تو مقتدی کو امام کے دائیں طرف کھڑا ہونا چاہیے اور اگر غلطی و نادانی سے مقتدی بائیں طرف کھڑا ہو جائے تو امام کھینچ کر (یا اشارے سے) اسے اپنے دائیں طرف کر لے۔
اتنے عمل سے نماز فاسد نہیں ہوتی کیونکہ یہ فعل بھی نماز ہی کے لیے کیا گیا ہے‘ نماز سے خارج کسی کام کے لیے نہیں۔
مقتدی کو بھی فوراً تعمیل کر کے بائیں سے دائیں جانب آجانا چاہیے۔
ایسی تبدیلی ٔمکان سے نماز فاسد نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ نماز کی اصلاح و درستی کے لیے کی گئی ہو۔
2. اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جماعت دو افراد سے بھی ہو جاتی ہے۔
گویا دو کی تعداد جماعت کی تعریف میں آجاتی ہے۔
3 اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نفل نماز کی جماعت بھی جائز ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 331   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث423  
´وضو میں میانہ روی کی فضیلت اور حد سے تجاوز کرنے کی کراہت کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات بسر کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں بیدار ہوئے، اور آپ نے ایک پرانے مشکیزے سے بہت ہی ہلکا وضو کیا، میں بھی اٹھا اور میں نے بھی ویسے ہی کیا جیسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 423]
اردو حاشہ:
(1)
یہ ایک طویل حدیث کا ٹکڑا ہے جس میں اس کے بعد نبیﷺ کی نماز تہجد کا ذکر ہے جس میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی بطور مقتدی شریک تھے۔

(2)
نفلی عبادت میں بھی بچوں کو شریک کرنا چاہیےتاکہ انھیں اس کی عادت ہوجائے۔

(3)
وضو میں ضرورت سے زیادہ پانی استعمال کرنا درست نہیں ہے بلکہ تھوڑے پانی کے ساتھ ہلکا وضو کرلینا بھی کافی ہے۔

(4)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ ہر کام میں نبی ﷺ کے طریقے پر عمل کرنے کی کوشش کرتے تھے خواہ وہ کام واجب ہو یا مستحب۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 423   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث973  
´دو آدمی کے جماعت ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس رات بسر کی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات میں نماز (تہجد) کے لیے اٹھے، میں بھی اٹھا اور جا کر آپ کے بائیں جانب کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنے دائیں جانب کھڑا کر لیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 973]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دو افراد نماز باجماعت ادا کرسکتے ہیں۔

(2)
نفل نماز خصوصاً نماز تہجد باجماعت ادا کرنا درست ہے۔
اما م کے ساتھ اگر صرف ایک مقتدی ہو تو مقتدی کو دایئں طرف کھڑا ہونا چاہیے۔
اگرچہ وہ نابالغ ہی ہو۔

(4)
اگر کوئی شخص اکیلا نماز شروع کرے اور بعد میں دوسرا آدمی ساتھ مل جائے تو وہ امامت کی نیت کرسکتا ہے۔

(5)
نماز کی ضرورت کےلئے آگے پیچھے یا دایئں بایئں حرکت کرنے سے نماز فاسد نہیں ہوتی۔

(6)
اگر مقتدی غلطی سے بایئں طرف کھڑا ہوجائے تو نماز کے دوران ہی میں اسے دایئں طرف آنے کا اشارہ کردینا چاہیے۔
اس طرح اگر وہ آدمی باجماعت نماز ادا کر رہے ہوں۔
اور تیسرا آدمی آجائے۔
تو پہلے مقتدی کو پچھلی صف میں چلے جانا چاہیے۔
یا امام آگے بڑھ جائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 973   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1363  
´تہجد میں کتنی رکعتیں پڑھے؟`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ وہ اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس سوئے، وہ کہتے ہیں: میں تکیہ کی چوڑان میں لیٹا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی بیوی اس کی لمبائی میں لیٹے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، جب آدھی رات سے کچھ کم یا کچھ زیادہ وقت گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے، اور نیند کو زائل کرنے کے لیے اپنا ہاتھ اپنے چہرہ مبارک پر پھیرنے لگے، پھر سورۃ آل عمران کی آخری دس آیتیں پڑھیں، اس کے بعد ایک لٹکی ہوئی مشک کے پاس گئے، اور اس سے اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے، میں بھی اٹھا،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1363]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبدا للہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انکی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے گھر میں رات گزارنے کی اجازت دی کیونکہ وہ ام المومنین کے بھانجے ہونے کی وجہ سے محرم تھے۔

(2)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقصد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ملاحظہ کرنا تھا۔
اسلئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں موقع عنایت فرمایا کہ وہ عملی نمونہ دیکھ سکیں۔

(3)
تہجد کے لئے جاگ کر سورہ آل عمران کی آخری آیات پڑھنا مسنون ہے۔

(4)
تلاوت کے لئے با وضو ہونا ضروری نہیں۔

(5)
  امام کے ساتھ صرف ایک مقتدی ہوتو بھی نماز باجماعت ادا کی جاسکتی ہے۔

(6)
نماز تہجد نفلی نماز ہے۔
تاہم اس کی باجماعت ادایئگی درست ہے۔
اور بارہ رکعت تہجد اور ایک وتر پڑھنا درست ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا کان مروڑا تاکہ ان سے نیند کا اثر ختم ہوجائے۔

(7)
نماز کے دوران میں ضرورت کے تحت حرکت سے نماز میں خرابی نہیں آتی۔

(8)
تہجد سے فارغ ہوکرفجر کی آذان سے پہلے لیٹ جانا درست ہے۔
جبکہ یہ خطرہ نہ ہو کہ فجر کی نماز کے لئے بروقت جاگ نہیں آئے گی۔

(9)
امام کو نماز کا وقت ہوجانے پر گھر سے بلا لینا درست ہے۔

(10)
مقتدی بے خبری کی وجہ سے بایئں جانب کھڑا ہوجائے۔
تو امام اسے پکڑ کراپنی دایئں جانب کرلے۔ (جیسا کہ اس روایت کے اکثر طرق میں اس طرح ہی بیان ہوا ہے۔)
کیونکہ جب دو شخص جماعت کے ساتھ نمازپڑھیں۔
تو مقتدی کو امام بننے والے شخص کی دایئں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1363   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:477  
477- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: ایک مرتبہ میں رات کے وقت اپنی خالہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ٹھہر گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت بیدار ہوئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لٹکے ہوئے مشکیزے سے وضو کیا، جو مختصر تھا۔ پھر سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کی صفت بیان کرتے ہوئے بتایا: وہ تھوڑا سا تھا، تو میں بھی اٹھا، اور میں نے بھی اسی طرح کیا، جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا، پھر میں آیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف کھڑا ہوگیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے سے گزار کر اپنے دائیں طرف کھڑا کرلیا، پھر آپ ص۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:477]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضو خفیف بھی کر سکتے ہیں، اور جب امام اور ایک مقتدی ہو تو امام کو بائیں جانب اور مقتدی کو دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے۔ نماز میں آدمی ضرورت کے وقت چل سکتا ہے، کوئی غلطی کر رہا ہو تو اس کی نماز میں اصلاح کرنا ٹھیک ہے۔ اس پر کئی ایک دلائل پیش کیے جا سکتے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
① ایک دلیل تو یہی مسند حمیدی کی حدیث ہے جو زیر شرح ہے۔
② حالت نماز میں چند قدم چلنا، جیسے کسی کو پکڑ کر اگلی صف میں کر دینا وغیرہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہوتے تھے اور دروازہ بند ہوتا پس میں آ کر دروازہ کھلواتی (یعنی کھٹاکھٹاتی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل کر دروازہ کھولتے پھر جائے نماز کی طرف لوٹ جاتے۔ [سنن ابوداود: 922 سنن الترمذي 201 سنن نسائي 1206 - حسن]
③ اگر کوئی سترہ کے بغیر نماز پڑھ رہا ہے تو اسے سترہ کے قریب کردینا ہی درست ہے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کسی آدمی کو جو دو ستونوں کے درمیان نماز پڑھ رہا تھا، ستون کے قریب کر دیا اور فرمایا: اس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ۔ [صحيح البخاري تعليقاً قبل ح 502] یہ اثر موصولا [مصنف ابن ابي شيبه: 146/2] میں ہے اور اس میں یہ وضاحت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں گدی سے پکڑ کر ستون کے پاس کھڑا کر دیا۔
ان دلائل سے معلوم ہوا کہ نماز میں کسی مصلحت کی خاطر چلنا درست ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سو جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا تھا، یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا، درج ذیل محدثین نے اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ قرار دیا ہے، مثلاً
● امام سفیان [صحيح مسلم تحت حديث: مسند حميدي: 479]
● امام ابن خزیمہ [صحيح ابن خزيمه: 1]
● امام نووی [شرح مسلم للنووي: درسي]
امام کی عدم موجودگی میں جلدی جماعت نہیں کروانی چاہیے، بلکہ امام کو بلا لینا چا ہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 477   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:480  
480- سفیان کہتے ہیں: عمرو بن دینار نے ہمیں یہ بات بتائی ہے کہ انہوں نے عبید بن عمیر کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے انبیائے کرام کے خواب وحی ہوتے ہیں، اور انہوں نے دلیل کے طور پر یہ آیت تلاوت کی۔ «إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ» میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کررہا ہوں۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:480]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام پر وحی کا مختلف صورتوں میں نزول ہوتا تھا، ان میں سے ایک طریقہ خواب کا بھی تھا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 480   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 596  
حضرت ابنِ عباس ؓنے ایک رات نبی اکرمﷺ کے ہاں گزاری، تو نبی اکرم ﷺ رات کے آخری حصہ میں اٹھے، باہر نکل کر آسمان پر نظر ڈالی، پھر سورۂ آلِ عمران کی یہ آیت پڑھی: ﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ* الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللَّـهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَـٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴾ (آل عمران: 190-191) پھر لوٹ کر اندر آگئے اور مسواک کر کے وضو فرمایا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھی، پھر لیٹ گئے، پھر کھڑے ہوئے، باہر نکل... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:596]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بقول امام نووی﷬:
مسواک ہر وقت کرنا پسندیدہ عمل ہے،
لیکن پانچ اوقات میں مسواک کرنا زیادہ بہتر ہے۔
(1)
نماز کے وقت چاہے با وضو ہو یا تیمم کیا ہو۔
(2)
وضو کے ساتھ۔
(3)
قرآن مجید کی قرآت کرتے وقت۔
(4)
شب بیدار ہونے کے بعد۔
(5)
منہ کی بو جب تبدیل ہوجائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 596   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1789  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ انھوں نے ایک رات ام المومنین میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں گزاری جو ان کی خالہ تھیں، تو میں سرہانے یعنی بستر) کے عرض میں لیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپﷺ کی اہلیہ اس کے طول (لمبائی) میں لیٹے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے یہاں تک کہ رات آدھی ہو گئی۔ یا اس سے کچھ قبل یا کچھ بعد، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدا ر ہو گئے اور اپنے ہاتھ کے ساتھ اپنے چہرے سے نیند... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1789]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

نابالغ محرم کا میاں بیوی کے ساتھ زمین پر ایک بستر میں سو جانا درست ہے سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما آپﷺ کے سرہانے یا بائیں چوڑائی میں سوئے تھے اور آپﷺ کی اہلیہ لمبائی میں اور یہ تبھی ممکن ہے کہ آپﷺ کا بستر زمین پر ہو۔

لیکن اس دور میں جنسی جذبات وقت سے پہلے بیدار نہیں ہوتے تھے۔
جبکہ آج پرنٹ اورالیکٹرانک میڈیا سے بچہ بلوغ سے بہت پہلے بالغ ہو جاتا ہے۔
اس لیے بچوں کے سامنے میاں بیوی کو اکٹھا لیٹنا نہیں چاہیے۔

نماز میں بیدار رکھنے کے لیے ساقط کھڑا ہو جانے والے بچہ کا کان مروڑنا درست ہے۔

رات کو بیدارہو کر آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت کرنی چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1789   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1791  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں سویا اور اس رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انھیں کے پاس تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر کھڑے ہوئے اور نماز پڑھنے لگے، میں آپﷺ کی بائیں طرف کھڑا ہو گیا تو آپﷺ نے مجھے پکڑ کر اپنی دائیں کر لیا۔ اس رات آپﷺ نے تیرہ رکعات پڑھیں۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے حتیٰ کہ آپﷺ کےخراٹے لینے لگے، اور آپﷺ جب... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1791]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام صاحب نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کی یہ حدیث تقریباً پندرہ سندوں سے بیان کی ہے،
بعض میں تفصیل ہے اور بعض میں اجمال واختصار اس لیے اصل حقیقت تمام روایات کو سامنے رکھنے سے کھلتی ہے وگرنہ بعض اجمالی روایات کو ہی سامنے رکھا جائے تو اس واقعہ کے بارے میں الجھن پیدا ہوتی ہے ہر جگہ روایت کا صحیح مفہوم سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ واقعہ سے متعلقہ تمام روایات کو اکٹھا کیا جائے اور مجموعہ سے مطلب ومعنی اخذ کیا جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1791   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1792  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں بسر کی، میں نے ان سے عرض کیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھیں تو آپ مجھے بھی بیدار کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے تو میں آپﷺ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپﷺ نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنی دائیں پہلو میں کر لیا، جب مجھے جھپکی آنے لگتی تو آپﷺ میرے کان کی لو پکڑ لیتے، آپﷺ نے گیارہ رکعات پڑھیں، پھر آپﷺ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1792]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہاں نماز کے آغاز میں جو آپﷺ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھی تھیں ان کو نظر انداز کر دیا گیا،
کیونکہ آپﷺ نے تیرہ رکعات پڑھی تھیں جیسا کہ صراحتاً گزر چکا ہے۔
اور یہاں سونے کی صورت اِحْتِبَاء کو بتایا گیا ہے اور اِحْتِبَاء کہتے ہیں اپنی ٹانگیں پیٹ کے ساتھ ملا کر پشت کی طرف سے کپڑے کے ساتھ باندھ لینا،
تاکہ انسان کو گرنے سے سہارا میسر آ جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1792   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1793  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، کہ میں نے اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاں رات بسر کی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم را ت کو اٹھے اور بوسیدہ مشک سے جو لٹکی ہوئی تھی وضو کیا، وضو خفیف کیا (کریب نے) کہا: انھوں (ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما) نے آپﷺ کے وضو کی یہ کیفیت بیان کی پانی کم استعمال کیا اور مرات بھی کم تھے (یعنی اعضاء تین دفعہ نہ دھوئے)،ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کہتے ہیں: میں نے اٹھ کر نبی اکرم ﷺ جیسا عمل کیا... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1793]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
اَخْلَفَنِيْ:
مجھے پیچھے سے گھمایا تاکہ میں آپ کے سامنے نہ آؤں۔
فوائد ومسائل:
گہری نیند سے انسان کے ہوش وحواس قائم نہیں رہتے اور ہوا کےخارج ہونے کا پتہ نہیں چلتا اس لیے ایسی نیند کو وضوء کے ٹوٹنے کا محل اور موقعہ سمجھا جاتا ہے اور انسان کو نئے سرے سے وضو کرنا پڑتا ہے۔
لیکن چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوش وحواس قائم رہتے تھے،
اس لیے آپﷺ کی گہری نیند کو مظنہ نقض (وضو ٹوٹنے کا محل)
نہیں سمجھا جاتا۔
اور آپﷺ نیند سے بیدار ہو کر اسی طرح بلا وضو نماز پڑھ لیتے تھے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1793   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1800  
ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایک رات اپنی خالہ میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس بسر کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نفلی نماز پڑھنے کے لئے اٹھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھ کر مشک کی طرف گئے اور وضو فرمایا، پھر اٹھ کر نماز شروع کر دی، جب میں نے آپﷺ کو یہ کرتے دیکھا تو میں بھی اٹھا اور میں نے بھی مشک سے وضو کیا، پھر میں آپﷺ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو آپﷺ نے اپنی پشت کے پیچھے سے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1800]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
يَعْدِلُنِيْ كَذَالِكَ:
یعنی جس طرح آپﷺ نے میرے ہاتھ کو اپنی پشت کے پیچھے سے پکڑا تھا،
اسی طرح اپنے پیچھے ہی سے بائیں جانب سے دائیں جانب کر لیا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1800   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:117  
117. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک رات نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ، اپنی خالہ حضرت میمونہ بنت حارث‬ ؓ ک‬ے ہاں بسر کی۔ اس رات نبی ﷺ بھی انہی کے پاس تھے۔ نبی ﷺ نے عشاء (مسجد میں) ادا کی، پھر اپنے گھر تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر سو رہے۔ پھر بیدار ہوئے اور فرمایا: کیا بچہ سو گیا ہے؟ یا اس سے ملتی جلتی بات فرمائی۔ اور پھر نماز پڑھنے لگے، میں بھی آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ نے مجھے اپنی دائیں جانب کر لیا اور پانچ رکعات پڑھیں۔ اس کے بعد دو رکعت (سنت فجر) ادا کیں۔ پھر سو گئے، یہاں تک کہ میں نے آپ کے خراٹے بھرنے کی آواز سنی۔ پھر (صبح کی) نماز کے لیے باہر تشریف لے گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:117]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کا عنوان سے تعلق ظاہر کرنے کے لیے مختلف انداز اختیار کیے گئے ہیں۔
(الف)
۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
بچہ سوگیا ہے؟ اس سے عنوان ثابت ہوتا ہے کیونکہ آپ نے حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے خطاب فرماتے ہوئے یہ کلمہ کہا تھا۔
(ب)
۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا ساری رات بیدار رہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کو دیکھنا اور سیکھنا سمربالعلم ہے، گویا ان کے عمل سے عنوان ثابت ہوگیا ہے۔
(ج)
۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کو بائیں جانب سے ہٹا کر دائیں جانب کھڑا کیا تو گویا آپ نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ میری دائیں جانب کھڑے ہو جاؤ، اس سے عنوان ثابت ہوتا ہے۔
لیکن یہ سب تکلفات ہیں۔
دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی عادت یہ ہے کہ وہ طالب علم کے ذہن کو تیز کرتے ہیں اور حدیث کے مختلف طرق پر نظر رکھنے کے لیے بسا اوقات ایسا کرتے ہیں اور دوسرے طریق سے عنوان ثابت کرتے ہیں جو کسی دوسری جگہ پر بیان ہوتا ہے۔
یہی روایت ایک دوسرے مقام پر بایں الفاظ ہے کہ آپ نے کچھ وقت اپنی اہلیہ کے ساتھ گفتگو کی۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4569)
ان الفاظ سے عنوان کا ثبوت ملتا ہے اس سے کوئی تکلف یا دقت بھی نہیں ہوتی اور نہ اس میں کوئی خلاف عقل بات ہی ہے۔
(فتح الباري: 282/1)

ایک حدیث میں ہے کہ سمر (رات کو گفتگو)
کی اجازت صرف نماز پڑھنے والے اور راستہ طے کرنے والے کو ہے۔
(مسند احمد: 444/1)
اس سے شبہ ہوتا ہے کہ ان کے ماسوا کے لیے سمر جائز نہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ سمر فی العلم، سمر فى الصلاة کے ساتھ معلق ہے۔
حضرت عمر اور حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہما رات بھر علمی مذاکرے میں مصروف رہے۔
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب نماز کے متعلق کہا تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ہم پہلے بھی نماز ہی میں تھے۔
اس لیے یہ حدیث رات کو علمی گفتگو کرنے کے خلاف نہیں۔
(فتح الباري: 282/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 117   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:138  
138. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ سوئے، یہاں تک کہ خراٹے بھرنے لگے، پھر آپ نے (بیدار ہو کر) نماز پڑھی، کبھی حضرت ابن عباس ؓ نے کہا: نبی ﷺ کروٹ پر لیٹے، یہاں تک کہ سانس کی آواز آنے لگی، پھر بیدار ہو کر آپ نے نماز پڑھی۔ پھر حضرت سفیان نے اس روایت کو دوبارہ تفصیل سے بیان کیا کہ ابن عباسؓ نے فرمایا: میں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر رات گزاری۔ نبی ﷺ رات کے کسی حصے میں بیدار ہوئے۔ جب کچھ رات گزر گئی تو آپ کھڑے ہوئے اور لٹکتے ہوئے مشکیزے سے ہلکا وضو فرمایا۔ عمرو (راوی) اس (وضو) کا ہلکا پن اور معمولی ہونا بیان کرتا ہے۔ اور کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ میں نے بھی آپؐ ہی کی طرح وضو کیا، پھر میں آ کر آپؐ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ سفیان نے کبھی یسار کے بجائے شمال کا لفظ استعمال کیا۔ آپؐ نے مجھے پھیرا اور اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ پھر آپؐ نے جس قدر اللہ کی توفیق میسر آئی، (تہجد۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:138]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے وضو کی دو اقسام بیا ن کی ہیں: 1۔
وضوئے خفیف۔

وضوئے تام۔
وضوئے خفیف کی دو صورتیں ہیں:
(الف)
۔
اعضائے وضو کا ایک ایک بار دھونا۔
یہ وضو کا ادنیٰ درجہ ہے۔
(ب)
۔
اعضائے وضو کو اچھی طرح دھونے کے بجائے صرف پانی بہا لیا جائے۔
وضوئے طعام اور وضوئے نوم کو بھی ہلکا وضو کہا جاتا ہے۔
وضوئے تام کی ایک ہی صورت ہے کہ اعضائے وضو کوتین تین بار اچھی طرح دھویا جائے۔
اس کی تفصیل آئندہ باب میں بیان ہوگی، نیز راوی حدیث نے وضوئے خفیف کے لیے دولفظ استعمال کیے ہیں۔
(ج)
۔
تخفیف۔
اس سے کیفیت، یعنی میعار کی طرف اشارہ ہے پانی کے خرچ کے اعتبار سے تخفیف ہے۔
(د)
۔
تقلیل۔
اس سے کمیت، یعنی مقدار کی طرف اشارہ ہے یعنی ایک ایک مرتبہ دھونا، تقلیل ہے۔
لیکن وضوئے خفیف کی تفسیر احادیث میں بایں طور ہے کہ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں، آپ نے بہترین وضو فرمایا۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4571)
دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے درمیانی طریقے سے وضو فرمایا، بکثرت پانی بھی نہیں بہایا، تمام اعضاء تک پانی بھی اچھی طرح پہنچایا۔
(صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6316)
ان احادیث سے وضوئے خفیف کی تفسیر ہوتی ہے۔

جب حدیث میں یہ ذکر ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند سے بیدار ہو کر وضو کیے بغیر نماز ادا کی تو تلامذہ میں سے کسی نے راوی حدیث حضرت عمرو سے پوچھا کہ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چشم مبارک سوتی ہیں لیکن دل مبارک بیدار رہتا ہے، تو اس کی کیا حقیقت ہے؟ انھوں نے کہا:
جب انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی ہوتے ہیں اوروحی کا یاد رکھنا اور اس کی حفاظت دل کی بیداری پر موقوف ہے، اگر دل بیدار نہ ہوگا تو پھر وحی کی حفاظت نہیں ہوسکتی۔
جب وحی محفوظ نہ رہی ہو تو وہ شریعت کا مدار بھی نہیں بن سکے گی تو معلوم ہوا کہ حضرات انبیاء علیہ السلام کے قلوب نیند میں بھی بیدار رہتے ہیں اور جب دل بیدار رہتا ہے تو وہ بدستور نیند کی حالت میں بھی ادراک کرتا رہے گا، لہذا محض نیند کی وجہ سے وضو ٹوٹنے کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، البتہ اگرریح کا خروج ہو تو وضو جاتا رہے گا۔
یہ وجہ ہے کہ بعض اوقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نیند کے بعد وضو فرمایا۔
اور مدار نقض بحالت نیند حقیقی خروج ہے نہ کہ صرف مظنہ خروج کیونکہ یہ عام لوگوں کے حق میں ہے۔
اس کی تائید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایک خواب اور اس کے مطابق عملی اقدام پیش کیا گیا ہے، یعنی اگر انبیاء علیہم السلام کے خواب وحی کے حکم میں نہ ہوتے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام خواب کی بنیاد پر ایک ایسے اقدام کے لیے تیار نہ ہوتے جس میں بظاہر قتل نفس اور قطع رحم ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 138   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:183  
183. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ ؓ، جو ان کی خالہ ہیں، کے گھر ایک رات بسر کی۔ انھوں نے کہا: میں تو بستر کے عرض میں لیٹ گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ دونوں بستر کے طول میں محو استراحت ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ سو گئے تاآنکہ جب آدھی رات ہوئی یا اس سے کچھ پہلے یا کچھ بعد، تو آپ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر ہاتھ کے ذریعے سے چہرہ مبارک سے نیند کے اثرات دور کرنے لگے۔ پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں۔ پھر آپ لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے اچھی طرح وضو فرمایا، پھر نماز پڑھنے لگے۔ ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور وہی کچھ کیا جو آپ نے کیا تھا۔ پھر میں اٹھ کر آپ کے پہلو میں جا کھڑا ہوا، چنانچہ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے مروڑا۔ پھر آپ نے دو رکعات ادا کیں،۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:183]
حدیث حاشیہ:

ابن بطال نے عنوان سے حدیث بالا کی مطابقت بایں الفاظ ظاہر کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوکراٹھے اور وضو سے پہلے ہی سورہ آل عمران کی دس آیات تلاوت فرمائیں۔
اس سے معلوم ہوا کہ حدیث کے بعد وضو کیے بغیرقرآنی آیات تلاوت کرنا صحیح ہے۔
(شرح ابن بطال: 279/1)
لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نیند ناقض وضو نہیں، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری آنکھیں سو جاتی ہیں، لیکن میرا دل بیداررہتا ہے۔
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا جواب یہ دیا ہے کہ اس حدیث کا صرف یہ مطلب ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب مبارک پر غفلت طاری نہیں ہوتی اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس دوران میں ریاح وغیرہ کا بھی اخراج نہ ہو۔
فرق صرف یہ ہے کہ ہم لوگوں پر نیند کے ساتھ غفلت بھی طاری ہوجاتی ہے۔
اس لیے خروج ریح کا پتہ نہیں چلتا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دوران نیند غفلت طاری نہیں ہوتی، اس لیے ممکن ہے کہ آپ کو بحالت نیند حدث لاحق ہوا ہو، جسے آپ جانتے تھے، اس کے باوجود آپ نے وضو کے بغیر تلاوت فرمائی اور بعد میں وضو کیا، اس لیے بے وضو قراءت درست ہے اور ابن بطال کا موقف صحیح ہے۔
(فتح الباري: 377/1)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی اس توجیہ پر علامہ عینی نے اعتراض کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہےکہ حالت نوم میں آپ کو حدث لاحق نہیں ہوتا۔
پیغمبر اور غیر پیغمبرمیں یہی فرق ہے۔
ان کے نزدیک یہ کوئی فرق نہیں کہ انھیں احساس ہوجاتا ہے، جبکہ ہمیں دوران نیند کسی چیز کا غفلت کی وجہ سے احساس نہیں ہوتا۔
(عمدة القاري: 524/2)
قارئین کرام خود فیصلہ کریں کہ علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ کے اعتراض میں کسی قدر وزن ہے۔
جبکہ وہ خود مطابقت بایں الفاظ بیان کرتے ہیں، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کی بنیاد مذکورہ حدیث کے ظاہر پر رکھی ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو کراٹھنے کے بعد وضو فرمایا، یعنی اس حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی ناقض وضو پیش آیا ہوگا اورقرآنی آیات تلاوت کرنے کے بعد آپ نے وضو کیا۔
یہ ممکن ہے کہ نقض وضو بعد از تلاوت پیش آیا ہو، یا آپ نے حدث کے بغیر ہی وضو کی تجدید کی ہو۔
(عمدة القاري: 521/2)
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور توجیہ بیان کی ہے کہ عنوان سے حدیث کی مطابقت حضرت ابن عباسؓ کے فعل سے ہے کہ آپ نے کہا:
میں نے بھی اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عباسؓ کو وضو کے بغیر آیات کی تلاوت کرتے سنا اور آپ نے انھیں منع نہیں فرمایا۔
اگر یہ تلاوت درست نہ ہوتی توآپ ضرور تنبیہ فرمادیتے۔
(فتح الباري: 377/1)
بعض نے کہا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ اس وقت نابالغ تھے، لہٰذا ان کا فعل حجت نہیں۔
یہ اعتراض بھی بے بنیاد ہے کیونکہ حضرت ابن عباسؓ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں جانب کھڑے ہوئے تو آپ نے دوران نماز ہی میں فوراً اصلاح فرمائی۔
اگرتلاوت درست نہ ہوتی تو اس کی بھی اصلاح کردینی چاہیے تھی۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نوم طویل کے بعد اٹھے تھے اور عام طور پر اتنے طویل وقت میں کسی حدث کا پیش آنا بعید از امکان نہیں، اس لیے مذکورہ حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا استدلال صحیح ہے۔

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ عنوان میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدث کو مطلق بیان کیا تھا۔
اس حدث سے اسے مقید کیاجاسکتا ہے کہ اس سے مراد حدث اصغر ہے کیونکہ اگرحدث اکبر(جماع وغیرہ)
لاحق ہوتا تو غسل کی ضرورت تھی جس کا مذکورہ حدیث میں کوئی ذکر نہیں۔
(فتح الباري: 377/1)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ایک اور توجیہ بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت میمونہؓ کے ساتھ لیٹے تھے، اس لیے ملامست کی وجہ سے نقض وضو ہوا تھا، لیکن یہ توجیہ اس لیے درست نہیں کہ خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اسے ناقض وضو شمار نہیں کرتے، پھر وہ اس پر اپنے عنوان کی بنیاد کیونکر رکھ سکتے ہیں؟ البتہ ملاعبت کی صورت میں اکثر مذی کا خروج ہوجاتا ہے اور مذی ناقض وضو ہے، لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس سے تعرض نہیں فرمایا اور جوبات ذکر کی ہے اس سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اتفاق نہیں۔
واللہ أعلم وعلمه أتم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 183   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:697  
697. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں نے ایک مرتبہ اپنی خالہ حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر رات بسر کی۔ رسول اللہ ﷺ عشاء کی نماز سے فراغت کے بعد گھر تشریف لائے اور چار رکعت پڑھ کر سو گئے۔ بعد ازاں (نماز کے لیے) اٹھے تو میں بھی آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ نے مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کیا، پھر پانچ رکعتیں پڑھیں۔ اس کے بعد دو رکعت (سنت فجر) پڑھ کر سو گئے یہاں تک کہ میں نے آپ کے خراٹوں کی آواز سنی۔ پھر آپ صبح کی نماز کے لیے تشریف لے گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:697]
حدیث حاشیہ:
(1)
جمہور کے نزدیک اگر نماز پڑھنے کے لیے صرف دو آدمی ہوں تو مقتدی کو چاہیے کہ وہ امام کی دائیں جانب کھڑا ہو، کسی صورت میں اس کے آگے یا پیچھے نہ ہو، لیکن امام شافعی ؒ کے نزدیک ایسے حالات میں مقتدی کو تھوڑا سا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہونا چاہیے۔
امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور حدیث کے ذریعے سے شوافع کے موقف کی تردید فرمائی ہے۔
اس مسئلے میں تمام علماء کا اتفاق ہے کہ اگر امام کے ساتھ ایک ہی مقتدی ہو تو اسے امام کے دائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے، لیکن امام نخعی ؒ نے اس موقف سے اختلاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب امام کے ہمراہ ایک ہی مقتدی ہو تو اسے امام کے پیچھے کھڑا ہونا چاہیے، اس کے بعد اگر کسی دوسرے نمازی کے آنے سے پہلے پہلے امام رکوع کردے تو وہ فورا امام کے برابر دائیں جانب چلا جائے لیکن ان کا یہ موقف صریح نص کے خلاف ہے۔
(فتح الباري: 247/2) (2)
حضرت ابن عباس ؓ کو رسول اللہ ﷺ نے نماز ہی میں اپنی بائیں جانب سے دائیں جانب کرلیا۔
اس سے معلوم ہوا کہ اگر نماز میں کوئی کراہت کا معاملہ آجائے تو اسے دوران نماز ہی میں رفع کردینا چاہیے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 697   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:698  
698. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں ایک رات حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے ہاں سو گیا۔ نبی ﷺ بھی اس رات ان کے پاس تھے۔ آپ نے وضو فرمایا پھر اٹھ کر نفل پڑھنے لگے۔ میں بھی آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ نے مجھے پکڑا اور اپنی دائیں جانب کر دیا۔ آپ تیرہ رکعت پڑھ کر سو گئے یہاں تک کہ آپ خراٹے لینے لگے اور یہ آپ کی عادت تھی کہ جب سوتے تو خراٹے لیتے تھے۔ اس کے بعد مؤذن آیا، آپ تشریف لے گئے نماز پڑھائی اور وضو نہ کیا۔ عمرو بن حارث کہتے ہیں کہ میں نے جب بکیر بن عبداللہ سے یہ حدیث لی تو اس نے حضرت کریب سے براہ راست اسے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:698]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام احمد بن حنبل ؒ کا موقف یہ ہے کہ مقتدی اگر امام کی بائیں جانب کھڑا ہوجائے تو اس کی نماز باطل ہوجاتی ہے جبکہ جمہور کہتے ہیں کہ اس طرح کھڑا ہونے سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آتی۔
امام بخاری ؒ نے جمہور کی تائید کرتے ہوئے اس حدیث کو پیش کیا اور ثابت کیا ہے کہ مقتدی اگر امام کی بائیں جانب کھڑا ہوجاتا ہے تو اس سے نماز میں کسی قسم کا فساد نہیں آتا۔
جیسا کہ حدیث میں واضح طور پر موجود ہے۔
امام سعید بن مسیب ؒ فرماتے ہیں کہ جب مقتدی ایک ہو تو اسے امام کی بائیں جانب کھڑا ہونا چاہیے، لیکن حدیث سے اس کی تائید نہیں ہوتی۔
(2)
امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں عمرو بن حارث کے حوالے سے علو سند کو بیان کیا ہے، کیونکہ ان کی سند میں کریب تک صرف بکیر بن عبداللہ کا ایک واسطہ ہے، جبکہ حدیث کی بیان کردہ سند میں عمرو بن حارث کے بعد کریب تک حضرت عبدربہ بن سعید اور مخرمہ بن سلیمان کے دو واسطے ہیں۔
(فتح الباري: 248/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 698   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:699  
699. حضرت ابن عباس ؓ سے رایت ہے انہوں نے فرمایا: میں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے ہاں رات بسر کی۔ جب نبی ﷺ رات کو نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کے ساتھ بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ نے میرا سر پکڑا اور مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:699]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے قائم کردہ عنوان میں کوئی واضح فیصلہ نہیں کیا کہ امام کو امامت کی نیت کرنی چاہیے یا نہیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ مذکورہ روایت میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے امامت کی نیت نہیں کی تھی اور نہ یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ نے آغاز نماز یا حضرت ابن عباس ؓ کے کھڑے ہونے کے بعد امامت کی نیت کی ہو۔
البتہ سیدنا ابن عباس ؓ کو مقتدی کے مقام پر کھڑا کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ان کے کھڑے ہونے کے بعد امامت کی نیت ضرور کی ہوگی۔
(2)
اس مسئلے میں اختلاف ہے، جمہور کا موقف ہے کہ اگر کوئی شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہو اور اس نے امامت کی نیت نہ کی ہو اور کچھ لوگ ازخود اس کی اقتدا میں نماز ادا کرنے لگیں تو ان کی نماز صحیح ہے۔
حنابلہ کے نزدیک فرض نماز میں امامت کی نیت شرط ہے، البتہ نوافل میں گنجائش ہے کہ امامت کی نیت نہ کی جائے تو بھی نماز صحیح ہوگی، لیکن فرض اور نفل میں فرق کرنے سے متعلق حنابلہ کا موقف محل نظر ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا کہ ایک شخص اکیلا نماز پڑھ رہا ہے تو آپ نے فرمایا:
کوئی آدمی ایسا ہے جو اس پر صدقہ کرتے ہوئے اس کے ساتھ نماز پڑھنا شروع کردے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 574)
اس حدیث سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ اکیلا نماز پڑھنے والا فرض ادا کررہا تھا تو اس کے ساتھ کھڑے ہونے کی صورت میں اس نماز نے باجماعت کی صورت اختیار کرلی، لہٰذا حنابلہ کا فرض نوافل میں فرق کرنا صحیح نہیں۔
امام بخاری ؒ نے اس سلسلے میں کوئی شرط بیان نہیں کی۔
گویا انھوں نے جمہور کی تائید کی ہے۔
(فتح الباري: 249/2)
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 699   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:726  
726. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ میں نے ایک رات نبی ﷺ کے ہمراہ نماز پڑھی۔ میں آپ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ ﷺ نے پیچھے سے میرا سر پکڑ کر مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر دیا، پھر نماز پڑھی اور سو گئے۔ جب مؤذن آیا تو آپ کھڑے ہوئے، نماز پڑھائی اور وضو نہیں کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:726]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ معمولی معمولی باریکیوں کا خیال رکھتے ہوئے عنوان قائم کرتے ہیں اور ایک ہی حدیث سے کئی کئی مسائل کا استنباط کرتے ہیں۔
اس حدیث کو پہلے ہی متعدد مرتبہ بیان کرچکے ہیں۔
اس قسم کا عنوان پہلے بھی معمولی تبدیلی کے ساتھ قائم کیا تھا۔
وہاں مقصد یہ تھا کہ اگر نماز کی اصلاح کے لیے دوران نماز میں کوئی عمل کیا جائے تو اس سے نماز میں کوئی نقص نہیں آتا، پھر یہ بھی وضاحت فرمائی کہ اگر مقتدی غلط مقام پر کھڑا ہوجائے، اسے صحیح مقام پر لا کھڑا کیا جائے تو بھی اس کی نماز صحیح ہے، کیونکہ وہ جہالت کی وجہ سے معذور ہے، نیز امام اگر مقتدی کو دائیں بائیں کرتے وقت اپنے بدن کے کسی حصے کو ادھر ادھر کرتا ہے تو اس سے نماز میں کوئی خرابی نہیں آئے گی، کیونکہ اس نے اپنی صف کو نہیں چھوڑا اور اس نے یہ نقل وحرکت مصلحت نماز کے لیے کی ہے۔
(فتح الباري: 274/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 726   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:728  
728. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ میں ایک شب نماز پڑھنے کے لیے نبی ﷺ کی بائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ آپ نے میرا ہاتھ یا کندھا پکڑ کر مجھے اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا اور میرے پیچھے ہی سے اپنے ہاتھ سے مجھے پکڑا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:728]
حدیث حاشیہ:
(1)
جب دو شخص آمنے سامنے ہوں تو ایک کی دائیں جانب کی طرف دوسرے کی بائیں جانب ہوتی ہے، اس اصول کے پیش نظر امام کا میمنہ تو اس کی دائیں جانب ہوگا، لیکن مسجد کا چہرہ چونکہ امام کی طرف ہوتا ہے، اس لیے مسجد کی دائیں جانب امام کے برعکس ہوگی، کیونکہ بالمقابل کی دائیں جانب دوسرے کی بائیں جانب ہوتی ہے۔
امام بخاری ؒ نے اس وہم کو دور فرمایا ہے کہ جو امام کا میمنہ ہے وہی مسجد کا میمنہ ہے، دونوں میں کوئی فرق نہیں، یعنی نماز کے استقبال کا لحاظ رکھا جائے گا، اسی طرح مسجد کا میمنہ بھی استقبال کے اعتبار سے ہوگا۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ اپنے قائم کردہ عنوان میں بعض اوقات ایسی روایت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو قابل اعتبار ہوتی ہیں، لیکن ان کی شرط کے مطابق نہیں ہوتی، چونکہ حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ ہم نماز کے لیے دائیں جانب کو پسند کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1642(709)
اس سے مسجد کی دائیں جانب کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
پیش کردہ روایت میں اگرچہ امام کی دائیں جانب کا ذکر ہے، تاہم امام بخاری ؒ کا اشارہ ان روایات کی طرف بھی ہے جن میں صفوں کی دائیں جانب کا ذکر ہے۔
(2)
سنن ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ جس نے مسجد کی بائیں جانب کو آباد کیا اسے دو گنا اجر دیا جائے گا۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلوات، حدیث: 1007)
اس میں بائیں جانب کی فضیلت کا ذکر ہے۔
اس کا جواب یہ ہے کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 728   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:992  
992. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے ہاں رات بسر کی، فرماتے ہیں: میں بستر کے عرض میں لیٹ گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ محترمہ اس کے طول میں محوِ استراحت ہوئے۔ آپ آدھی یا اس کے لگ بھگ رات تک سوئے رہے، پھر جب بیدار ہوئے تو چہرے پر ہاتھ پھیر کر نیند کے اثرات دور کیے۔ اس کے بعد آپ نے سورہ آل عمران کی دس آیات تلاوت فرمائیں، پھر آپ پانی سے بھری ہوئی آویزاں پرانی مشک کی طرف آئے، اس سے اچھی طرح وضو کیا اور نماز کے لیے کھڑے ہو گئے۔ میں بھی اسی طرح کرتا ہوا آپ کے پہلو میں جا کھڑا ہوا۔ آپ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے۔ پھر آپ نے دو رکعتیں پڑھیں، اس کے بعد دو رکعت، پھر دو رکعت، بعد ازاں دو رکعت، پھر دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں مزید ادا کیں، پھر وتر پڑھ کر آپ لیٹ گئے تاآنکہ آپ کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:992]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس روایت کے مطابق رسول اللہ ﷺ نے تیرہ رکعات ادا کیں، چنانچہ دیگر روایات میں اس کی صراحت بھی ہے۔
(صحیح البخاري، الدعوات، حدیث: 6316)
روایات میں یہ بھی وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیرتے تھے۔
(فتح الباري: 623/2)
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ دو رکعت کے بعد مسواک کرتے اور وضو فرماتے تھے۔
(صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1799 (763)
لیکن صحیح بخاری کی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کی ان رکعات کو گیارہ بتایا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، التفسیر، حدیث: 4569)
یہ روایت شریک بن عبداللہ سے مروی ہے جنہوں نے حضرت کریب سے بیان کیا ہے جبکہ کریب کے باقی شاگرد تیرہ رکعات ہی بیان کرتے ہیں، اس بنا پر شریک کی روایت مرجوح ہے۔
حضرت عائشہ ؓ سے بھی صلاۃ اللیل کی تعداد تیرہ ہی مروی ہے۔
جیسا کہ صحیح مسلم میں اس کے متعلق متعدد روایات ہیں۔
(صحیح مسلم، صلاةالمسافرین، حدیث: 1720 (737)
اصل تعداد گیارہ رکعت ہے۔
جیسا کہ حضرت عائشہ ؓ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی صلاۃ اللیل رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہ ہوتی تھی۔
(صحیح البخاري، التھجد، حدیث: 1147) (2)
تیرہ رکعات کی چند ایک صورتیں حسب ذیل ہیں:
٭ رسول اللہ صلاۃ اللیل سے پہلے ہلکی سی دو رکعت بطور افتتاح پڑھتے تھے، پھر گیارہ رکعت پڑھتے۔
(سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1366)
٭ وتر کے بعد دو رکعت بیٹھ کر پڑھتے۔
انہیں شمار کر کے تیرہ رکعت ہوتی ہیں۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1724 (738)
٭ نماز صبح کی دو سنتوں کو شمار کر کے تیرہ رکعت بیان کی گئی ہیں۔
(سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1365)
دراصل حضرت ابن عباس ؓ سے بیان کرنے والے متعدد راوی ہیں، بعض تو تعداد کا ذکر نہیں کرتے، جنہوں نے تعداد بیان کی ہے وہ تیرہ سے زیادہ اور گیارہ سے کم بیان نہیں کرتے۔
(فتح الباري: 624/2)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 992   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1198  
1198. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک مرتبہ اپنی خالہ ام المومنین حضرت میمونہ ؓ کے ہاں رات بسر کی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں سرہانے کے عرض پر لیٹ گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ محترمہ اس کے طول میں آرام فرما ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ سو گئے حتی کہ جب آدمی رات ہوئی یا اس سے تھوڑا سا پہلے یا بعد تو پھر آپ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرہ انور سے نیند کے اثرات دور کرنے لگے۔ پھر آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات کی تلاوت فرمائی۔ اس کے بعد آپ اٹھ کر لٹکتے ہوئے مشکیزے کے پاس گئے اور اس سے اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں بھی اٹھا اور اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔ پھر میں گیا اور آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1198]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابن عباس ؓ کے کان دو وجوہات کی بنا پر مروڑے:
ایک تو انہیں مانوس کرنے کے لیے کیونکہ رات کا اندھیرا تھا، اس لیے محبت و شفقت سے کان کو پکڑا۔
دوسرا چونکہ وہ بائیں جانب کھڑے ہوئے تھے جبکہ مقتدی کا مقام امام کے دائیں طرف ہے، لہٰذا آپ نے اس امر کی اصلاح کے لیے کان مروڑا اور پیچھے سے گھما کر انہیں اپنی دائیں جانب کر لیا۔
جب نماز کا دوسرے کی اصلاح کے لیے اپنے ہاتھ سے کام لینا درست ہے تو اپنی نماز درست رکھنے کے لیے بطریق اولیٰ دوران نماز ہاتھ سے کام لینا جائز ہو گا۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز میں اپنے ہاتھ سے مدد لی جا سکتی ہے۔
(فتح الباري: 94/3) (2)
اگر کوئی نمازی اپنے موبائل فون کی گھنٹی بند کرنا بھول جائے اور دوران نماز میں گھنٹی بجنے لگے تو اسے اپنے ہاتھ سے بند کرنا جائز ہے کیونکہ اس کا جاری رہنا دوسرے نمازیوں کے لیے باعث تشویش ہو گا۔
جب نماز کی مصلحت کے پیش نظر دوران نماز اپنے ہاتھ سے کوئی بھی کام کیا جا سکتا ہے تو موبائل بند کر دینے میں چنداں حرج نہیں۔
واللہ أعلم۔
رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز میں بچھو اور سانپ مارنے کی بھی اجازت دی ہے۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 921)
نیز حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ نماز پڑھ رہے تھے اور گھر کا دروازہ بند تھا، میں آئی اور دروازہ کھٹکھٹایا تو رسول اللہ ﷺ نے دوران نماز میں چل کر دروازہ کھولا، پھر آپ اپنے مقام نماز پر واپس چلے گئے۔
حدیث میں وضاحت ہے کہ آپ کے گھر کا دروازہ قبلے کی جانب تھا۔
(سنن أبي داود، الصلاة، حدیث: 922)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1198   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4569  
4569. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: ایک رات میں نے اپنی خالہ حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر میں گزاری۔ رسول اللہ ﷺ کچھ دیر تک تو اپنی زوجہ محترمہ کے ساتھ محو گفتگو رہے، اس کے بعد سو گئے۔ جب تہائی شب رہ گئی تو آپ اٹھ بیٹھے، آسمان کی طرف نظر اٹھا کر یہ آیات تلاوت فرمائیں: "بےشک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور دن اور رات کے بدل بدل کر آنے جانے میں عقل مندوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔" پھر آپ اٹھ کھڑے ہوئے، وضو کیا، مسواک کی اور گیارہ رکعت نماز پڑھی۔ اس کے بعد حضرت بلال ؓ نے اذان دی تو دو رکعت (سنت) پڑھیں۔ اس کے بعد آپ باہر تشریف لائے اور صبح کی نماز پڑھائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4569]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے رات کے وقت آسمان کی طرف دیکھ کر مذکورہ آیت تلاوت فرمائی۔
اس میں شک نہیں ہے۔
کہ عقل مند انسان جب زمین و آسمان کی پیدائش سورج اور چاند کی گردش سیاروں کے احوال دن اور رات کی آمدورفت کے مضبوط اور مربوط نظام میں غور کرتا ہے کہ کس طرح سب سیارے ایک معین رفتار اور معین قانون کے تحت فضاؤں میں گردش کر رہے ہیں تو اس یقین کرنا پڑتا ہے کہ یہ تمام ترکائنات ایک ہی قادر مطلق اور مختار کل کے ہاتھ میں ہے۔
اسی عظیم ہستی نے اپنے اختیار و قدرت سے کائنات کی ہر چھوٹی بڑی چیز کو اپنی اپنی حدود میں جکڑرکھا ہے۔
کسی کی مجال نہیں کہ وہ اپنی حدود سے تجاوز کر سکے۔

رسول اللہ ﷺ کا یہ معمول تھا کہ جب رات کے وقت اٹھتے تو آسمان کی طرف منہ کر کے ان آیات کو ضرور پڑھتے تھے۔
اس عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی رات بیدار ہو تو اتباع سنت میں یہ آیات پڑھ لینی چاہئیں۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4569   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4570  
4570. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں ایک رات اپنی خالہ حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر رہا۔ میں نے (دل میں) سوچا کہ آج میں رسول اللہ ﷺ کی نماز کا ضرور بغور مشاہدہ کروں گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ کے لیے بستر بچھا دیا گیا جس پر آپ لمبائی کے رخ لیٹ گئے۔ پھر جب بیدار ہوئے تو اپنے چہرہ مبارک سے نیند کے آثار دور کرنے لگے۔ اس کے بعد آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمانا شروع کیں حتی کہ سورت ختم کر دی۔ پھر آپ ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کے پاس آئے، اسے پکڑا اور اس سے وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی۔ میں بھی اٹھ کھڑا ہوا اور جو کچھ آپ نے کیا تھا وہ سب کچھ میں نے کیا۔ اس کے بعد میں آپ کے پہلو میں آ کھڑا ہو گیا۔ آپ نے اپنا دست مبارک میرے سر پر رکھا، پھر میرا کان پکڑ کر اسے ملنے لگے۔ آپ نے اس وقت دو رکعت پڑھیں، پھر دو رکعت، پھر دو۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4570]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کی پیش کردہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ عقل مند وہ لوگ ہیں جو کار خانہ قدرت میں غور کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی بے پناہ قدرت و تصرف کی حقیقت کے قریب پہنچ جاتے ہیں پھر اس اعتراف حقیقت کے نتیجے میں ان کے بدن کا رواں رواں محبت الٰہی میں سر شار ہو جاتا ہے اور حمد و ثنا کرنے لگتے ہیں ہر وقت اس کا ذکر کرتے ہوئے اس کی عظمت کا عتراف کرتے ہیں لیکن کو لوگ اس کار خانہ قدرت میں غور کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ یہ عالم مادے سے بنا ہے پھر اتفاق سے یوں ہو گیا۔
اور اس مضبوط و مربوط نظام کا ئنات کو محض اتفاقات کا نتیجہ قراردیتے ہیں۔
وہ ہر گز اہل عقل نہیں کیونکہ اتفاق سے کبھی کبھار تو خیر پیدا ہو سکتی ہے لیکن مسلسل خیر کبھی پیدا نہیں ہوتی۔
گویا اس آیات میں دہریت اور نیچریت کا رد موجود ہے۔

بہر حال کائنات، کائنات کا خالق اور اس کائنات میں انسان کا مقام یہ تین چیزیں ایسی ہیں جن کی حقیقت معلوم کرنے کے لیے اہل عقل و خرد ابتدائے آدم سے لے کر غور و فکر کرتے رہے ہیں، پھر جس کی سائنس دان یا فلاسفر نے بھی وحی الٰہی سے بے نیاز ہو کر سوچنا شروع کیا تو اکثر ان کی عقل نے ٹھوکر ہی کھائی ہے۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4570   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4571  
4571. حضرت ابن عباس ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت کریب سے روایت ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں بتایا: انہوں نے ایک مرتبہ اپنی خالہ حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر رات بسر کی جو نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ ہیں۔ انہوں نے کہا: میں وہاں تکیے کے عرض میں سو گیا جبکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی بیوی اس کے طول میں آرام فرما ہوئے۔ رسول اللہ ﷺ کم و بیش آدھی رات تک سوئے رہے۔ پھر رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے چہرہ انور سے نیند دور کرنے لگے۔ بعد ازاں سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں اور اٹھ کر ایک لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف گئے، اس سے اچھی طرح وضو کیا، پھر کھڑے ہو کر نماز شروع کی۔ میں نے بھی وہی کچھ کیا جو آپ نے کیا تھا۔ پھر میں آپ کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا دایاں کان پکڑ کر اسے مروڑنے لگے۔ اس کے بعد آپ نے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4571]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے مذکورہ آیت اور اس حدیث کو اس لیے بیان کیا ہے کہ قیامت کے دن اگر کوئی ذلت و رسوائی سے بچنا چاہتا ہے تو اسے چاہیے نماز تہجد کا اہتمام کرے جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ اپنا ایک خواب بیان کرتے ہیں کہ مجھے خواب میں دو فرشتوں نے پکڑا اور آگ کی طرف لے گئے۔
وہاں میں نے چند ایک جانے پہچانے لوگوں کو دیکھا۔
میں یہ منظر دیکھ کر آگ سے اللہ کی پناہ مانگنے لگا۔
اس دوران میں مجھے ایک اور فرشتہ ملا تو اس نے مجھے کہا:
گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔
میں نے یہ خواب اپنی ہمشیر حضرت حفصہ ؓ سے بیان کیا۔
انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو سنایا تو آپ نے فرمایا:
"عبد اللہ بہت اچھا آدمی ہے کاش یہ نماز تہجد کا اہتمام کرے۔
" اس کے بعد حضرت عبد اللہ ؓ رات کو بہت کم سوتے تھے۔
(صحیح البخاري، التهجد، حدیث: 121۔
122۔
)


اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نماز تہجد کا اہتمام کرنے والا دوزخ کی رسوائی سے محفوظ رہے گا۔
واللہ اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4571   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4572  
4572. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے آزاد کردہ غلام حضرت کریب سے روایت ہے، حضرت ابن عباس ؓ نے انہیں بتایا کہ وہ ایک رات نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر سوئے اور وہ آپ کی خالہ تھیں۔ انہوں نے بتایا کہ میں تکیے کے عرض میں لیٹ گیا۔ رسول اللہ ﷺ اور آپ کی اہلیہ تکیے کی لمبائی میں محو استراحت ہوئے۔ آپ نے کم و بیش آدھی رات تک آرام فرمایا۔ پھر رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے اور بیٹھ کر چہرے سے نیند کے آثار دور کرنے کے لیے ہاتھ پھیرنے لگے۔ بعد ازاں آپ نے سورہ آل عمران کی آخری دس آیات تلاوت فرمائیں۔ پھر اٹھ کر لٹکے ہوئے مشکیزے کی طرف گئے اوراس کے پانی سے خوب اچھی طرح وضو کیا، بعد ازاں کھڑے ہو کر نماز شروع کر دی۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ میں بھی اٹھ کھڑا ہوا جس طرح آپ نے کیا تھا اسی طرح میں نے بھی کیا، پھر جا کر آپ کے پہلو میں کھڑا ہو گیا۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنا دایاں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:4572]
حدیث حاشیہ:

جیسا کہ آیت میں بیان ہوا ہے کہ ہم نے ایک پکارنے والے کو سنا، پکارنے والے سے مراد اللہ تعالیٰ کا پیغمبرہے۔
اس کی آواز پر لبیک کہنے میں ہی نجات ہے۔
امام بخاری ؒ کی پیش کردہ حدیث رسول اللہ ﷺ کی پیروی کرنے کا ایک نمونہ بیان ہوا ہے کہ حضرت ابن عباس ؓ نے اٹھا کر اسی طرح کیا جس طرح رسول اللہ ﷺ نے کیا تھا۔

بہر حال انسان کو چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال لے اس طرح اللہ تعالیٰ ہمیں ان وعدوں کا مصداق بنا دے گا جو اس نے اپنے رسولوں کے ذریعے ہم سے کیے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سےدعا کرتے رہنا چاہیے کہ وہ ہم سے وعدے پورے کردے۔
کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا میں تو پیغمبروں پر ایمان لا کر کافروں کی طعن و تشنیع کا نشانہ بنے ہیں پھر آخرت میں بھی ان کے سامنے ہماری رسوائی ہو اور وہ ہم پر یہ پھبتی کسیں کہ ایمان لا کر بھی تھیں کیا حاصل ہوا۔
واللہ المستعان۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4572   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5919  
5919. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک رات اپنی خالہ سیدہ میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کے گھر سویا جبکہ اس رات رسول اللہ ﷺ ان کی باری کی وجہ سے ان کے پاس تھے۔ رسول اللہ ﷺ رات کی نماز پڑھنے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں بھی آپ کی بائیں طرف کھڑا ہوگیا۔ آپ ﷺ نے میرےگیسو پکڑے اور مجھے اپنی دائیں جانب کر لیاعمرو بن محمد نے کہا: ہم سے ہیشم نے بیان کیا، انہیں ابو بشیر نے خبر دی کہ ابن عباس نے کہا: آپ نے میری چوٹی یا میرا سر پکڑا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5919]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے گیسو تھے۔
اس سے زلفیں بنانے کا جواز ثابت ہوا۔
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھی گیسو تھے، چنانچہ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو آپ کے بالوں کی چار لٹیں، یعنی گندھی ہوئی چار زلفیں تھیں۔
(سنن ابن ماجة، اللباس، حدیث: 3631)
اسی طرح سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میری لمبی لمبی زلفیں تھیں۔
میری والدہ ماجدہ نے مجھے کہا کہ انہیں مت کاٹو کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پیار سے کھینچتے تھے اور پکڑ لیا کرتے تھے۔
(سنن أبي داود، الترجل، حدیث: 4196) (2)
اہل بدعت کے ہاں یہ رواج ہے کہ وہ اپنے پیروں کے نام سے کچھ بال رکھ لیتے ہیں، چنانچہ سر میں ایک لٹ لٹکتی رہتی ہے۔
ان کا یہ عمل حرام ہے کیونکہ یہ بال غیراللہ کے لیے رکھے جاتے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5919   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6215  
6215. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے ایک رات سیدہ میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر بسر کی۔ نبی ﷺ نے اس رات وہیں قیام فرمایا۔ جب رات کا آخری تہائی حصہ رہ گیا تو آپ ﷺ اٹھ کر بیٹھ گئے اور آسمان کی طرف اٹھا کر یہ آیات پڑھنے لگے: بلاشبہ زمین آسمان کی پیدائش میں اور رات دن کے بدلتے رہنے میں عقل والوں کے لیے عظیم نشانیاں ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6215]
حدیث حاشیہ:
ان دونوں حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آسمان کی طرف نظر اٹھانا ثابت ہے، لہذا اہل زہد کا یہ کہنا غلط ہے کہ اللہ سے خوف کرتے ہوئے عجز و انکسار کا تقاضا ہے کہ آسمان کی طرف نہ دیکھا جائے، ہاں دوران نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے کی سخت ممانعت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
لوگوں کو چاہیے کہ وہ دوران نماز میں آسمان کی طرف دیکھنے سے رک جائیں بصورت دیگر ان کی آنکھوں کو اچک لیا جائے گا۔
(صحیح البخاري،الأذان، حدیث: 750)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6215   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7452  
7452. سیدنا ابن عباس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں ایک رات سیدہ میمونہ‬ ؓ ک‬ے گھر رہا جبکہ اس رات نبی ﷺ بھی ان کے پاس موجود تھے۔ وہاں رات گزارنے کا مقصد رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز دیکھنا تھا۔ رسول اللہ ﷺ کچھ وقت اپنی زوجہ محترمہ سے محو گفتگو رہے، پھر سو گئے، جب رات کا آخری تہائی حصہ یا کچھ حصہ باقی رہ گیا تو آپ اٹھ بیٹھے اور آسمان کی طرف دیکھ کر یہ آیت پڑھی: بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں (رات اور دن کے باری باری آنے جانے میں) اہل عقل کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔ پھر اٹھ کر آپ نے وضو فرمایا اور مسواک کی، اس کے بعد گیارہ رکعتیں پڑھیں۔ پھر سیدنا بلال ؓ نے نماز کے لیے اذان دی تو آپ ﷺ نے دو رکعت (سنت فجر) پڑھیں پھر باہر تشریف لے گئے اور لوگوں کو صبح کی نماز پڑھائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7452]
حدیث حاشیہ:

اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز تہجد کے لیے اٹھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین و آسمان کی تخلیق اور ان میں غور و فکر کرنے سے متعلق آیات تلاوت فرمائیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے انھی آیات سے اپنا عنوان ثابت کیا ہے جبکہ مادہ پرست حضرات کا خیال ہے کہ مادے کے اجزا آپس میں ملتے گئے اور کائنات کی ایک ایک چیز کی وجود میں آتی گئی ان کا کوئی خالق نہیں ہائیڈروجن کے ذرات ملنے سے سورج بن گیا اور وہ خود بخود گھومنے لگا پھر اس سے ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ زمین بن گئی دیر تک یہ حصہ پڑا رہنے سے جب ٹھنڈا ہوا تو استعمال کے قابل زمین بن گئی جب زمین نے گھومنا شروع کیا تو اس کا ایک حصہ کٹ کر علیحدہ ہوا تو وہ چاند بن گیا اور اسی طرح دوسرے سیارے وجود میں آتے گئے اس طرح محض اتفاق سے کائنات کی ایک ایک چیز بن گئی پھر اتفاق سے یہ کائنات تباہ ہو جائے گی اور تباہی کے بعد پھر اجزا ملنے شروع ہو جائیں گے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا جبکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کو اس موقف سے اتفاق نہیں۔
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کے فعل خلق کا ذکر ہے اور اس فعل کا نتیجہ آسمانوں اور زمین کا پیدا ہونا ہے جو مخلوق ہیں اللہ تعالیٰ ان کا خالق ہے اور خلق اس کا فعل ہے جس سے وہ ازل سے متصف ہے اور اس فعل کا تعلق آسمانوں اور زمین سے حادث ہے۔

ان آیات میں ہے کہ عقل مند لوگ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں سوچ بچار کرتے ہیں اور پکار کر عرض کرتے ہیں:
(رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَٰذَا بَاطِلًا)
اے ہمارےرب!تونے یہ سب کچھ بے مقصد پیدا نہیں کیا۔
(آل عمران 191)
بہر حال کائنات، کائنات کا خالق اور اس کائنات میں انسان کا مقام یہ تینوں ایسی چیزیں ہیں جن میں غور و فکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے اگر ہم نے وحی سے بے نیاز ہو کر ان کے متعلق سوچ بچار کی تو جگہ جگہ ٹھوکریں کھانے کے علاوہ کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔
وحی الٰہی سے پتا چلتا ہے کہ کائنات کا کوئی خالق ہے جو اسےمستحکم اور ٹھوس بنیادوں پر چلا رہا ہے اور یہ بے مقصد نہیں بلکہ ایک اہم مقصد کے لیے اسے وجود میں لایا گیا اور وہ ہے انسان کی خدمت اور انسان کو پیدا کرنے کا مقصد اللہ کی عبادت ہے اور عبادت کا مفہوم اس قدر وسیع اور جامع ہے کہ اس میں ہر طرح کے شرک کارد توحید کی اہمیت قانون سزاوجزا جنت و دوزخ بلکہ پوری کی پوری شریعت اس میں آ جاتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7452