سنن نسائي
كتاب الإمامة
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
6. بَابُ : اجْتِمَاعِ الْقَوْمِ وَفِيهِمُ الْوَالِي
باب: کئی لوگ ایک ساتھ ہوں اور ان میں حاکم بھی موجود ہو تو کون امامت کرے؟
حدیث نمبر: 784
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ التَّيْمِيُّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ أَوْسِ بْنِ ضَمْعَجٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يُؤَمُّ الرَّجُلُ فِي سُلْطَانِهِ وَلَا يُجْلَسُ عَلَى تَكْرِمَتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ".
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آدمی کی امامت ایسی جگہ نہ کی جائے جہاں اس کی سیادت و حکمرانی ہو، اور بغیر اجازت اس کی مخصوص نشست گاہ پر نہ بیٹھا جائے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 781 (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس روایت سے معلوم ہوا کہ اگر حاکم موجود ہو تو وہی امامت کا مستحق ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 784 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 784
784 ۔ اردو حاشیہ: یعنی جب مختلف لوگ جمع ہوں اور حکمران یا والی بھی موجود ہو تو بلا امتیاز کوئی بھی اس کی اجازت کے بغیر امامت نہیں کرا سکتا، امام صاحب رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب سے یہی مقصد معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یہ تب ہے جب حکمران دیندار اور باشرع ہو، فاسق حکمران کی امامت مراد نہیں کیونکہ زیر بحث اصول و ضوابط اور مسائل کا انطباق تبھی ممکن ہے جب معاشرہ اسلامی اور حکمران دیندار ہو۔ بعض نے «فِي سُلْطَانِهِ» سے کسی کا دائرۂ اختیار مراد لیا ہے، معروف معنیٰ سلطنت یا حکمرانی مراد نہیں لیے، سب اس سے صرف حکمران یا صاحب اقتدار شخص مراد نہ ہو گا۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 784