سنن نسائي
كتاب الإمامة
کتاب: امامت کے احکام و مسائل
2. بَابُ : الصَّلاَةِ مَعَ أَئِمَّةِ الْجَوْرِ
باب: ظالم حکمرانوں کے پیچھے نماز پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 780
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زِرٍّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَعَلَّكُمْ سَتُدْرِكُونَ أَقْوَامًا يُصَلُّونَ الصَّلَاةَ لِغَيْرِ وَقْتِهَا فَإِنْ أَدْرَكْتُمُوهُمْ فَصَلُّوا الصَّلَاةَ لِوَقْتِهَا وَصَلُّوا مَعَهُمْ وَاجْعَلُوهَا سُبْحَةً".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عنقریب تم کچھ ایسے لوگوں کو پاؤ گے جو نماز کو بے وقت کر کے پڑھیں گے، تو اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو تم اپنی نماز وقت پر پڑھ لیا کرو، اور ان کے ساتھ بھی پڑھ لیا کرو ۱؎ اور اسے سنت (نفل) بنا لو“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجہ/إقامة 150 (1255)، (تحفة الأشراف: 9211)، مسند احمد 1/379، 455، 459، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 5 (534) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے ظالم حکمرانوں کے ساتھ نماز پڑھنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔ ۲؎: صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں «واجعلوا صلاتکم معہم نافلۃ» یعنی بعد میں ان کے ساتھ جو نماز پڑھو اسے نفل سمجھو۔
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 780 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 780
780 ۔ اردو حاشیہ:
➊ ثابت ہوا کہ اگر امام میں کوئی خرابی ہو تو مقتدیوں کی نماز ہو جائے گی۔ امام کی کمی بیشی کا سوال اس سے ہو گا، لہٰذا کسی امام کے پیچھے اس بنا پر نماز پڑھنے سے انکار نہ کیا جائے کہ اس میں فلاں خرابی یا عیب ہے۔ عیوب سے منزہ تواللہ تعالیٰ ہی کی ذات اقدس ہے۔
➋ اگر ایک دفعہ وقت پر نماز پڑھ لی جائے، پھر جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے یا فتنے سے بچنے کے لیے دوبارہ پڑھنی پڑے تو دوسری نماز نفل ہو گی، فرض پہلی ہو گی۔ ظالم اور فاسق کی امامت کے متعلق مزید تفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 780
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 432
´جب امام نماز کو دیر سے پڑھے تو کیا کرنا چاہئے؟`
عمرو بن میمون اودی کہتے ہیں کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قاصد بن کر ہمارے پاس یمن آئے، میں نے فجر میں ان کی تکبیر سنی، وہ ایک بھاری آواز والے آدمی تھے، مجھ کو ان سے محبت ہو گئی، میں نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا یہاں تک کہ میں نے ان کو شام میں دفن کیا، پھر میں نے غور کیا کہ ان کے بعد لوگوں میں سب سے بڑا فقیہ کون ہے؟ (تو معلوم ہوا کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں) چنانچہ میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور ان کے ساتھ رہا یہاں تک کہ وہ بھی انتقال فرما گئے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”تم اس وقت کیا کرو گے جب تمہارے اوپر ایسے حکمراں مسلط ہوں گے جو نماز کو وقت پر نہ پڑھیں گے؟“، تو میں نے کہا: اللہ کے رسول! جب ایسا وقت مجھے پائے تو آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز کو اول وقت میں پڑھ لیا کرنا اور ان کے ساتھ اپنی نماز کو نفل بنا لینا ۱؎۔“ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 432]
432۔ اردو حاشیہ:
مذکورہ بالا دونوں حدیثوں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام فتنہ کی خاص اہم بات ذکر فرمائی وہ ”نماز کو بےوقت کر کے پڑھنا ہے۔“ سرے سے چھوڑ دینا تو اور زیادہ ظلم ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکام کے دیگر ظلم و جور کو جن کا تعلق مال و آبرو سے ہو سکتا ہے ذکر نہیں فرمایا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کے لئے اللہ کے دین میں نماز کے مقابلے میں کسی اور چیز کی اہمیت نہیں ہے اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو دین حق کی معرفت اور اس کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عنایت فرمائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 432
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 800
´جب تین آدمی ہوں تو امام کے کھڑے ہونے کی جگہ اور اس میں اختلاف کا بیان۔`
اسود اور علقمہ دونوں کہتے ہیں کہ ہم دوپہر میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، تو انہوں نے کہا: عنقریب امراء نماز کے وقت سے غافل ہو جائیں گے، تو تم لوگ نمازوں کو ان کے وقت پر ادا کرنا، پھر وہ اٹھے اور میرے اور ان کے درمیان کھڑے ہو کر نماز پڑھائی، پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الإمامة/حدیث: 800]
800 ۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ روایت ان کثیر صحیح روایات کے خلاف ہے جن میں دو مقتدیوں کو امام کے پیچھے کھڑا کرنے کا ذکر ہے لہٰذا یہ روایت منسوخ ہے یعنی آغاز میں نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا پھر ترک کر دیا جیسا کہ امام شافعی رحمہ اللہ وغیرہ کا موقف ہے۔ یا پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ بھول گئے ہوں گے۔ انسان تھے اور نسیان بشر کا لازمہ ہے۔ اس کی تائید دیگر قرائن سے بھی ہوتی ہے جیسے ان کا رکوع میں تطبیق کرنا (دونوں ہاتھوں کو بجائے دونوں گھٹنوں پر رکھنے کے ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے میں پیوست کر کے گھٹنوں کے درمیان رکھ لینا) وغیرہ۔ بہرحال حقیقت جو بھی ہو آغاز میں یہ صرف ابن مسعود اور ان کے صاحبین کا موقف تھا۔ باقی تمام صحابہ اور دیگر ائمہ عظام کثیر احادیث کی روشنی میں اسی بات کے قائل ہیں کہ جب تین افراد ہوں تو ایک کو آگے ہی امامت کے لیے کھڑا ہونا چاہیے۔ اور یہی حق ہے۔ اسی پر سب کا اتفاق ہے۔ احادیث و آثار کی تفصیل کے لیے دیکھیے [ذخیرة العقبیٰ شرح سنن النسائي: 84-80/10]
(2) بعض نے اس حدیث کو ہارون بن عنترہ کی وجہ سے سنداً ضعیف قرار دیا ہے لیکن یہ موقف درست نہیں۔ ان کے بقول یہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا ذاتی فعل ہے جو مرفوع احادیث کے خلاف ہے لہٰذا حجت نہیں۔ لیکن درست بات یہ ہے کہ یہ حدیث مرفوعاً درست ہے اور جمہور کے نزدیک ہارون ثقہ ہے۔ الغرض یہ حدیث اب قابل عمل نہیں۔ مزید دیکھیے: [صحیح سنن أبي داود (مفصل) للألباني رقم الحدیث: 626]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 800
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1255
´جب ائمہ و حکمران نماز میں تاخیر کریں تو کیا کرنا چاہئے؟`
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شاید تم لوگ ایسے لوگوں کو پاؤ گے، جو نماز بے وقت پڑھیں گے، اگر تم ایسے لوگوں کو پاؤ تو نماز اپنے گھر ہی میں وقت مقررہ پر پڑھ لو، پھر ان کے ساتھ بھی پڑھ لو اور اسے نفل (سنت) بنا لو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1255]
اردو حاشہ:
فوائد و مشائل:
(1)
شاید تمھیں ایسے لوگ ملیں اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں ایسے لوگ پائے جایئں گے۔
جو بلا وجہ نماز تاخیر سے پڑھائيں گے۔
اور عین ممکن ہے کہ اس وقت تم صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین بھی موجود ہو چنانچہ ایسا ہی ہوا کہ صحابہ کرام رضوان للہ عنہم اجمعین کی موجودگی میں بعض حکمرانوں نے نماز تاخیر سے پڑھنے کی عادت اختیار کرلی۔
(2)
اسلام میں اجتماعیت کی اتنی اہمیت ہے۔
کہ اگر حکام نماز بے وقت پڑھاتے ہوں تب بھی نماز باجماعت کو قائم رکھنا چاہیے۔
لیکن ائمہ اور حکام کو صحیح شرعی حکم بتانا اوراس پر عمل کرنے کی ترغیب دینا بہرحال ضروری ہے۔
(3)
اول وقت نماز کی بھی بہت اہمیت ہے اس لئے گھر میں اول وقت نماز ادا کرلینا چاہیے۔
لیکن اگر مسجد میں نماز کے اوقات کا تعین حکمرانوں کی مداخلت کے بغیر مسلمانوں کے مشورے سے ہوتا ہو۔
تو پھر مسجد میں اول وقت نماز ادا کرنا ضروری ہے۔
(4)
اسے نفل سمجھ لو سے بعض علماء نے یہ سمجھا ہے۔
کہ بلا جماعت اول وقت ادا کی ہوئی نماز نفل ہے لیکن صحیح بات یہ ہے کہ اول وقت پڑھی ہوئی نماز ہی اصل فرض نماز ہے۔
بعد میں جماعت کے ساتھ ادا ہونے والی نماز مزید ثواب کا باعث ہے۔
جیسے کہ حدیث 1257 میں صراحت سے وار د ہے۔
تاخیر سے نماز ادا کرنے والے اماموں کے ساتھ جو نماز پڑھی جائے گی۔
وہ نفل یعنی مزید ثواب کا باعث ہوگی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1255
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1191
حضرت اسود اور علقمہ رحمتہ اللّٰہ علیہ سے روایت ہے کہ ہم عبداللّٰہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے گھر، ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے پوچھا، کیا ان لوگوں نے جن کو تم پیچھے چھوڑ آئے ہو (حکمران اور ان کے اتباع) نماز پڑھ لی ہے؟ ہم نے عرض کیا، نہیں، انہوں نے کہا، اٹھو اور نماز پڑھو تو انہوں نے ہمیں اذان اور اقامت کہنے کا حکم نہ دیا۔ اور ہم ان کے پیچھے کھڑے ہونے لگے تو انہوں نے ہمارے ہاتھ پکڑ کر ایک کو دائیں اور دوسرے کو اپنے بائیں کردیا۔ جب... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:1191]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يَخْنُقُوْنَهَا:
اس کے وقت کو تنگ کریں،
نماز کو تاخیر سےادا کریں گے۔
(2)
اِلىٰ شَرْقِ الْمَوْتٰي:
اگر اس کوشَرْقُ الشَّمْسِ سے لیں تو معنی ہوگا،
اس وقت نماز پڑھیں گے جب سورج ڈوبنے کے قریب ہوگا اور اگر اس کو شَرْقُ الْمَيِّتِ بِرِيْقَهِ سے لیں تو معنی ہوگا میت کا تھوک سے گلا گھٹ گیا،
اس لیے وہ جلد ہی مرگئی۔
مقصد دونوں صورتوں میں یہ ہو گا کہ اس وقت نماز پڑھیں گے جب سورج کے غروب ہونے میں تھوڑا سا وقت رہتا ہوگا۔
(3)
سُبْحَةً:
نفل،
یعنی جو نماز تم نے الگ اپنے وقت پڑھی ہے وہ فرض ہو گی اور امیروں اور حاکموں سے بچنے کے لیے جو آخر وقت میں ان کے ساتھ نماز پڑھو گے وہ نفل ہو گی۔
(4)
لِيَجْتَاْ:
جھک جائے،
ایک نسخہ میں لِيُحْنِ ہے،
اس کا معنی بھی،
انحنا اور جھکنا ہے،
يَحْنُ ہو تو پھر بھی یہی معنی ہوگا۔
(5)
لِيُطَبِّقَ بَيْنَ كَفَّيْهِ:
دونوں ہتھیلیوں کو ملا لے اور دونوں گھٹنوں کے درمیان کر لے۔
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک جلیل القدر اور عام اوقات میں بطور خدمت گزار آپﷺ کے ساتھ رہنے والے صحابی ہیں لیکن اس کے باوجود رکوع کے وقت تطبیق کے قائل تھے ہمیشہ آپﷺ کے ساتھ نماز پڑھتے تھے لیکن اس کے باوجود انہیں یہ پتہ نہ چل سکا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ جوڑ کر گھٹنوں کے درمیان نہیں رکھتے بلکہ ہاتھوں کو گھٹنوں پر رکھتے ہیں اس لیے امت میں سے کسی صحابی تابعی یا امام نے ان کے موقف کو اختیار نہیں کیا تو اگر انہیں رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین کا پتہ نہ چل سکا ہو تو اس میں اچنبھے کی بات کیا ہے۔
(2)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر امام کے ساتھ دو آدمی ہوں تو ایک کو دائیں طرف اور دوسرے کو بائیں طرف کھڑا کرنے کے قائل ہیں اس کو بھی کسی امام نے اختیار نہیں کیا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کو پیچھے کھڑا کرتے تھے برابر نہیں۔
(3)
اگر امام راتب (نمازوں کے لیے مقرر امام)
تاخیر سے جماعت کراتا ہو تو گھر میں باجماعت نماز پڑھ لینی چاہیے اور اذان کہنے کی صورت میں انتشار و افتراق کا خطرہ ہو تو اذان نہیں کہی جائے گی اقامت بہر حال کہنی ہو گی لیکن حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اقامت کے بھی قائل نہیں ہیں احناف نے ان کے اس موقف کو بھی قبول نہیں۔
(4)
اگر مسجد میں نماز باجماعت نہ پڑھنے سے کسی قسم کا اندیشہ یا خطرہ لاحق ہو تو نماز دوبارہ بطور نفل پڑھ لی جائے گی۔
اور حدیث کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ یہ نماز عصر کی تھی حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ضرورت کے تحت عصر کے بعد نفل پڑھنے کی اجازت دے رہے ہیں لیکن جن لوگوں کا یہ دعوی ہے کہ ہماری فقہ کا مدار حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اقوال پر ہے وہ اس کے بھی قائل نہیں ہیں عجیب بات ہے اگر کسی امام کے قول کو چھوڑ دیا جائے تو اس کی گستاخی اور توہین قرارپاتی ہے لیکن ایک جلیل القدر صحابی کے قول کو چھوڑ دیا جائے تو یہ توہین اور گستاخی نہیں ہے۔
اگر حدیث کے خلاف جلیل القدر صحابی کا قول و فعل ترک کرنا روا ہے تو آئمہ کے ساتھ یہ رویہ اختیار کرنا کیوں جائز نہیں ہے؟ (5)
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قول سے ثابت ہوا نماز اول وقت میں پڑھنا چاہیے نیز جو نماز دوبارہ پڑھی جائے گی تو پہلی نماز بطور فرض ہو گی اور دوسری بار نفل اس لیے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو نماز پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھتے تھے وہ فرض ہوتی تھی اور جو دوبارہ پڑھاتے تھے وہ نفل تھی اس لیے نقل نماز کے پیچھے فرض پڑھنا درست ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1191