صحيح البخاري
كِتَاب الْإِجَارَةِ
کتاب: اجرت کے مسائل کا بیان
14. بَابُ أَجْرِ السَّمْسَرَةِ:
باب: دلالی کی اجرت لینا۔
حدیث نمبر: 2274
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ،" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَلَقَّى الرُّكْبَانُ، وَلَا يَبِيعَ حَاضِرٌ لِبَادٍ"، قُلْتُ: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، مَا قَوْلُهُ لَا يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ، قَالَ: لَا يَكُونُ لَهُ سِمْسَارًا.
ہم سے مسدد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے معمر نے بیان کیا، ان سے ابن طاؤس نے، ان سے ان کے باپ نے، اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (تجارتی) قافلوں سے (منڈی سے آگے جا کر) ملاقات کرنے سے منع فرمایا تھا۔ اور یہ کہ شہری دیہاتی کا مال نہ بیچیں، میں نے پوچھا، اے ابن عباس رضی اللہ عنہما! ”شہری دیہاتی کا مال نہ بیچیں“ کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ مراد یہ ہے کہ ان کے دلال نہ بنیں۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2274 کے فوائد و مسائل
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2274
حدیث حاشیہ:
(1)
آج کل ہمارے ہاں کسی کارخانے یا فرم کا مال ایجنٹ بن کر فروخت کیا جاتا ہے، بڑے بڑے کاروبار اسی طرز پر چلتے ہیں۔
طے شدہ کمیشن پر ایسا کرنا جائز ہے۔
صارفین کےلیے اس میں آسانی ہے۔
اگر کسی نے جائیداد خریدنی یا فروخت کرنی ہو تو اسے ڈیلر حضرات کے ذریعے سے فروخت کیا یا خریدا جاسکتا ہے، ان کا کمیشن فیصد کے حساب سے طے ہوتا ہے۔
ڈیلر حضرات کےلیے ضروری ہے کہ وہ جھوٹ اور فریب سے کام نہ لیں اور دیانت داری کے ساتھ اپنی ذمہ داری پوری کریں۔
(2)
اس حدیث میں دیہات سے مال لانے والوں کو آگے بڑھ کر ملنے اور ان سے معاملہ طے کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔
یہ حکم امتناعی اس صورت میں ہے کہ شہری آدمی دیہات سے مال لانے والے کو بازار کے نرخ سے بے خبر رکھے۔
ایسا کرنے سے بازار والوں کے لیے بھی نقصان کا پہلو پیدا ہوتا ہے۔
اگر بازار کے ریٹ پر، دوسرے خریداروں پر اور بازار والوں پر ایسا کرنے سے کوئی غلط اثر یا دباؤ نہیں پڑتا تو اس طریقے سے کسی دوسرے کاایجنٹ بن کر مال خریدا جاسکتا ہے اور اسے فروخت بھی کیا جاسکتا ہے، دونوں طرف سے کمیشن وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(3)
چیز فروخت کرنے کے بعد ایجنٹ حضرات سبزی یا پھلوں سے اپنی پسند کی سبزی یا پھل لے لیتے ہیں، ایسا کرنا جائز نہیں کیونکہ وہ صرف طے شدہ کمیشن کے حق دار ہیں جو انھوں نے وصول کرلیا ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2274
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 674
´بیع کی شرائط اور بیع ممنوعہ کی اقسام`
سیدنا طاؤس نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”سامان تجارت لے کر آنے والے قافلوں کو آگے جا کر نہ ملو اور کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان نہ بیچے۔“ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سوال کیا ”شہری دیہاتی کا سامان فروخت نہ کرے“ کا کیا مطلب ہے؟ انھوں نے فرمایا کہ شہری دیہاتی کا دلال نہ بنے۔ (بخاری و مسلم) اور یہ الفاظ بخاری کے ہیں۔ «بلوغ المرام/حدیث: 674»
تخریج: «أخرجه البخاري، البيوع، باب هل يبيع حاضر لباد، حديث:2158، ومسلم، البيوع، باب تحريم بيع الحاضرة للبادي، حديث:1521.»
تشریح:
راوئ حدیث:
«حضرت طاوس رحمہ اللہ» ان کی کنیت ابوعبدالرحمن ہے اور نسب یوں ہے: طاوس بن کیسان حمیری۔
حمیر قبیلہ والوں کے مولا ہیں۔
فارسی النسل ہیں۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کا نام ذکوان ہے اور طاوس ان کا لقب ہے۔
ثقہ ہیں۔
نہایت فاضل فقیہ ہیں اور تیسرے طبقے سے ہیں۔
ان کا بیان ہے کہ میں نے پچاس صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو پایا ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا قول ہے:
”میرا گمان ہے کہ طاوس جنتی ہے۔
“ عمروبن دینار کا قول ہے:
”میں نے ان جیسا کوئی نہیں دیکھا۔
“ ۱۰۶ ہجری میں فوت ہوئے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 674
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4504
´آگے بڑھ کر تجارتی قافلے سے ملنا منع ہے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی آگے جا کر تجارتی قافلے سے ملے، اور کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان بیچے، (راوی طاؤس کہتے ہیں:) میں نے ابن عباس سے کہا: اس قول ”کوئی شہری دیہاتی کا سامان نہ بیچے“ کا کیا مطلب ہے؟ انہوں نے کہا: یعنی شہری دلال نہ بنے۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4504]
اردو حاشہ:
”دلال نہ بنے“ یعنی کمیشن لے کر اس کی چیز نے بیچے کیونکہ اس طرح مہنگائی ہو گی۔ کمیشن کی رقم بھی تو اس چیز کی قیمت میں شامل ہو گی۔ ہاں، اگر وہ ازراہ ہمدردی دیہاتی کا سامان بیچے تاکہ اسے اپنی سادگی کی بنا پر کوئی نقصان نہ ہو اور اس سے کمیشن وصول نہ کرے تو کوئی حرج نہیں کیونکہ اس طرح مہنگائی کا خطرہ نہیں۔ کمیشن ہی مہنگائی کا سبب ہے دلال کو آج کل کمیشن ایجنٹ کہا جاتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4504
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2177
´شہری باہر سے آنے والے دیہاتی کا مال (مہنگا کرنے کے ارادے سے) نہ بیچے۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری کو دیہاتی کا مال بیچنے سے منع فرمایا ہے۔ طاؤس کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول: «حاضر لباد» کا کیا مفہوم ہے؟ تو انہوں نے کہا: بستی والا باہر والے کا دلال نہ بنے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2177]
اردو حاشہ:
فائدہ:
اس مسئلے کی تفصیل کے لیے حدیث: 2145 کے فوائد ملاحظہ فرمائیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2177
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3825
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اس سے کہ تجارتی قافلہ کو شہر سے باہر ملا جائے اور اس سے کہ شہری بدوی کے لیے بیع کرے۔ طاؤس کہتے ہیں، میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے پوچھا، حاضر لَبادٍ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3825]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
جنگلی اپنا مال فروخت کے لیے منڈی میں لاتا ہے اور اس کا مقصد یہ ہے کہ میں اپنا مال فروخت کر کے چلا جاؤں اور اس سامان کی شہر والوں کو ضرورت ہے،
اس لیے مال فوراً بک جائے گا،
لیکن شہری اس کو کہتا ہے،
اپنا سامان میرے سپرد کر دو،
میں یہ مال موجودہ نرخ سے بعد میں مہنگا فروخت کر دوں گا،
اس طرح جو چیز شہریوں کو سستی مل سکتی تھی،
وہ بعد میں مہنگی ملے گی یا اس کا خطرہ ہو گا،
شوافع اور حنابلہ نے اس کی حرمت کے لیے چار شرطیں لگائی ہیں:
(1)
شہری خود پیشکش کرے کہ سامان کی فروخت کے لیے مجھے وکیل یا دلال بنا لو۔
(2)
جنگلی یا بدوی کو نرخ کا علم نہ ہو،
اگر بھاؤ کا پتہ ہو تو پھر حرام نہیں ہے۔
(3)
وہ سامان فوری فروخت کے لیے لایا ہو اور اس دن کے بھاؤ پر بیچنا چاہتا ہو۔
(4)
اس سامان کی لوگوں کو ضرورت ہو،
اور دیر سے بیچنے سے تنگی اور ضیق کا خطرہ ہو۔
اگر ان شروط کی موجودگی میں شہری بیچے گا تو یہ جرم اور گناہ ہے اور بیع صحیح ہے۔
اور احناف کا موقف یہ ہے اگر اس بیع سے شہریوں کو نقصان پہنچتا ہو تو پھر یہ کام ناجائز ہے۔
لیکن بیع گناہ کے باوجود احناف،
شوافع اور مالکیہ کے نزدیک ہو جائے گی،
اور احناف کے نزدیک دیانتا فسخ ہونا چاہیے کیونکہ بیع مکروہ کا یہی حکم ہے،
امام ابن حزم کے نزدیک یہ بیع منعقد نہیں ہو گی اور امام احمد کا بھی ایک قول یہی ہے اور ایک قول دوسرے ائمہ کے مطابق ہے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما کے نزدیک شہری دلالی (اجرت)
لے کر فروخت کرے تو ناجائز ہے،
اگر بلا اجرت فروخت کرے تو جائز ہے کیونکہ یہ ہمدردی اور خیرخواہی ہے،
امام بخاری کا بھی یہی موقف ہے۔
لیکن جمہور کے نزدیک ہر صورت میں ممنوع ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3825
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2158
2158. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”غلہ لے کر آنے والے قافلے سے ملنے کے لیے پیش قدمی نہ کرو اور کوئی مقامی آدمی کسی بیرونی شخص کے لیے خریدوفروخت نہ کرے۔“ راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا مطلب پوچھا کہ کوئی مقامی کسی بیرونی کے لیے بیع نہ کرے؟تو انھوں نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2158]
حدیث حاشیہ:
اور اس سے دلالی کا حق ٹھہرا کر بستی والوں کو نقصان نہ پہنچائے۔
اگر یہ دلال نہ بنتا تو شاید غریبوں کو غلہ سستا ملتا۔
حنفیہ نے کہا کہ یہ حدیث اس وقت ہے جب غلہ کا قحط ہو۔
مالکیہ نے کہا عام ہے۔
ہمارے احمد بن حنبل ؒ سے منقول ہے کہ ممانعت اس صورت میں ہے جب پانچ باتیں ہوں۔
جنگل سے کوئی اسباب بیچنے کو آئے، اس دن کے نرخ پر بیچنا چاہے، نرخ اس کو معلوم نہ ہو۔
بستی والا قصد کرکے اس کے پاس جائے، مسلمانوں کو اس اسباب کی حاجت ہو، جب یہ پانچ باتیں پائی جائیں گی تو بیع حرام اور باطل ہوگی ورنہ صحیح ہوگی۔
(وحیدی)
سمسارا کی تشریح میں امام شوکانی ؒ فرماتے ہیں بسینین مهملتین قال في الفتح و هو في الأصل القیم بالأمر و الحافظ ثم استعمل في متولی البیع و الشراء لغیرہ۔
یعنی سمسار اصل میں کسی کام کے محافظ اور انجام دینے والے شخص کو کہا جاتا ہے اور اب یہ اس کے لیے مستعمل ہے جو خرید و فروخت کی تولیت اپنے ذمے لیتا ہے جسے آج کل دلال کہتے ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2158
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2158
2158. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”غلہ لے کر آنے والے قافلے سے ملنے کے لیے پیش قدمی نہ کرو اور کوئی مقامی آدمی کسی بیرونی شخص کے لیے خریدوفروخت نہ کرے۔“ راوی کہتا ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس ؓ سے اس کا مطلب پوچھا کہ کوئی مقامی کسی بیرونی کے لیے بیع نہ کرے؟تو انھوں نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کا دلال نہ بنے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2158]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ کے نزدیک مذکورہ حدیث ایک خاص معنی پر محمول ہے کہ اجرت لے کر بیع کرنا ممنوع ہے۔
اس کے برعکس اگر شہری آدمی باہر سے آنے والے کسی دیہاتی کا سامان تعاون اور خیر خواہی کے طور پر فروخت کرتا ہے تو ایسا کرنے میں کوئی قباحت نہیں کیونکہ دوسری احادیث میں مسلمان کی خیر خواہی اور اس کے ساتھ ہمدردی کرنے کا حکم ہے۔
(2)
جو شخص اجرت لے کر کسی کی خریدوفروخت کرتا ہے،اس کا مقصد خیرخواہی نہیں بلکہ صرف اجرت کا حصول ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2158