سنن نسائي
كتاب المواقيت
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
54. بَابُ : إِعَادَةِ مَا نَامَ عَنْهُ مِنَ الصَّلاَةِ لِوَقْتِهَا مِنَ الْغَدِ
باب: جس نماز سے آدمی سو جائے تو اسے دوسرے روز اس کے وقت پر دوبارہ پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 618
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ ثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَامُوا عَنِ الصَّلَاةِ حَتَّى طَلَعَتِ الشَّمْسُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَلْيُصَلِّهَا أَحَدُكُمْ مِنَ الْغَدِ لِوَقْتِهَا".
ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب لوگ نماز سے سو گئے یہاں تک کہ سورج نکل آیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اسے دوسرے روز اس کے وقت پر پڑھنا“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 12093) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ آج نیند کی وجہ سے تقصیر ہو گئی تو ہو گئی، اس کی ابھی قضاء پڑھ لی ہے، لیکن کل سے اسے اپنے وقت پر پڑھنا، کیونکہ صحیح مسلم میں اس روایت کے الفاظ یوں ہیں «فلیصلھاحین ینتبہ لھا، فإذا کان الغد فلیصلھاعند وقتھا» یعنی: اس نماز کو جب اٹھے تب پڑھ لے (یعنی قضاء کر کے)، اور کل سے اس کو اپنے وقت پر پڑھا کرے) مؤلف سے ذہول ہوا ہے، اسی ذہول کی بنا پر انہوں نے مذکورہ باب باندھا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 618 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 618
618 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت سے بعض علماء نے استدلال کیا ہے کہ اگر کوئی نماز قضا ہو گئی تو آج قضا ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اگلے دن اصل وقت پر دوبارہ قضا ادا کرنا ہو گی، مگر یہ استدلال کمزور ہے کیونکہ فوت شدہ نماز کی قضا ایک دفعہ ہی ہو گی۔ اس کی تائید دیگر عمومات اور دلائل سے ہوتی ہے۔ مثلاً: «فَلْيُصَلِّها إِذا ذَكَرَها» یعنی سونے یا بھول جانے کی صورت میں آپ نے یاد آنے پر صرف اسی نماز کو پڑھنے کا حکم دیا ہے مزید کچھ نہیں فرمایا۔ بعض روایات میں ہے: «لا كَفّارَةَ لَها إِلّا ذلكَ» ”اس کا صرف یہی کفارہ ہے۔“ اس حدیث میں حصر ہے، یعنی مزید پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ پھر مزید غور کیا جائے تو یہ بات بھی ذہن میں آتی ہے کہ دن رات میں باقاعدہ صرف پانچ نمازیں ہی فرض ہیں، آئندہ روز اس کی دوبار قضا ادا کرنے سے تو چھ بن جائیں گی اور یہ عام مسلمہ اصول دین کے خلاف ہے، اس لیے لامحالہ ایسا مفہوم مراد لینا ہو گا کہ جس سے تمام دلائل میں تطبیق ہو جائے۔ مزید برآں یہ کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی اگلے روز اسی نماز کی دوبارہ قضا ادا کرنے کی نفی کی ہے جیسا کہ درج ذیل ترجمۃ الباب سے ظاہر ہوتا ہے: «باب من نسی صلاة فلیصل إذا ذکرھا، ولا یعید إلا تلک الصلاة» لہٰذا ان معروضات کی روشنی میں امام نسائی رحمہ اللہ کا ترجمۃ الباب میں بیان کردہ استدلال محل نظر ہے۔ رہا یہ کہ دوبارہ قضا کی جو صریح روایت آتی ہے جس میں آپ نے یہ حکم دیا: «فمَن أَدْرَكَ منكم صلاةَ الغَداةِ من غَدٍ صالِحًا فلْيَقْضِ معها مِثْلَها» ”لہٰذا جس نے تم میں سے آئندہ کل صبح کی نماز عافیت کی حالت میں پالی تو وہ اس کے ساتھ مزید ایسی ہی نماز ادا کر لے۔“ [ضعیف سنن أبي داود للألباني، حدیث: 438]
تو وہ شاذ اور ناقابل حجت ہے۔ اس روایت کے صحیح معنی یہ ہیں کہ کل کو تم نماز وقت پر پڑھنا، آج کی طرح تاخیر نہ کر دینا، یعنی لیٹ پڑھنے کی عادت نہیں ہونی چاہیے۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [فتح الباري: 2؍93]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 618