Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب المواقيت
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
44. بَابُ : الْوَقْتِ الَّذِي يَجْمَعُ فِيهِ الْمُقِيمُ
باب: مقیم کے جمع بین الصلاتین کرنے کے وقت کا بیان۔
حدیث نمبر: 591
أَخْبَرَنِي أَبُو عَاصِمٍ خُشَيْشُ بْنُ أَصْرَمَ، قال: حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ، حَدَّثَنَا حَبِيبٌ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ هَرِمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ صَلَّى بِالْبَصْرَةِ الْأُولَى وَالْعَصْرَ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ وَالْمَغْرِبَ وَالْعِشَاءَ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ، فَعَلَ ذَلِكَ مِنْ شُغْلٍ، وَزَعَمَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّهُ" صَلَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ الْأُولَى وَالْعَصْرَ ثَمَانِ سَجَدَاتٍ لَيْسَ بَيْنَهُمَا شَيْءٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کہ انہوں نے بصرہ میں پہلی نماز ۱؎ (ظہر) اور عصر ایک ساتھ پڑھی، ان کے درمیان کوئی اور نماز نہیں پڑھی، اور مغرب و عشاء ایک ساتھ پڑھی ان کے درمیان کوئی اور نماز نہیں پڑھی، انہوں نے ایسا کسی مشغولیت کی بناء پر کیا، اور ابن عباس رضی اللہ عنہم کا کہنا ہے کہ انہوں نے مدینہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پہلی نماز (ظہر) اور عصر آٹھ رکعتیں پڑھی، ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز فاصل نہیں تھی۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 5377) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نماز ظہر کو اولیٰ کہتے تھے کیونکہ یہی وہ پہلی نماز تھی جسے جبرائیل علیہ السلام نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو پڑھائی تھی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 591 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 591  
591 ۔ اردو حاشیہ: اس روایت کا مفہوم بھی سابقہ روایت والا ہی ہے، یعنی یہ بظاہر جمع تاخیر تھی۔ ایسا کبھی کبھار ہونا چاہیے بالخصوص جبکہ واقعی مصروفیت بھی ہو جیسا کہ آپ سے بھی ایک ہی دفعہ ثابت ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 591   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 204  
´جمع بین الصلاتین کن حالتوں میں جائز ہے`
«. . . عن عبد الله بن عباس انه قال: صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الظهر والعصر جميعا والمغرب والعشاء جميعا فى غير خوف ولا سفر . . .»
. . . سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوف اور سفر کے بغیر ظہر و عصر کی دونوں نمازیں اور مغرب و عشاء کی دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 204]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 705، من حديث مالك به وصرح ابوزبير بالسماع عنده705/51]

تفقه
➊ طائفۂ شازہ کو چھوڑ کر علماء کا اجماع ہے کہ بغیر عذر کے حضر (اپنے رہائشی علاقے میں) جمع بین الصلاتین جائز نہیں ہے۔ دیکھئے: [التمهيد 210/12]
➋ جمع بین الصلاتین درج ذیل حالتوں میں جائز ہے:
سفر، حج، بارش، کفار سے جنگ میں، حالت خوف، شرعی عذر مثلاً رفع حرج شدید اور مرض شدید وغیرہ۔
➌ سفر میں جمع بین الصلاتین کے لئے دیکھئے: [الموطأ حديث 108، 199، ومسلم: 2281، 703] اور [ماهنامه الحديث حضرو: 52ص17]
➍حج میں ظہر و عصر کی دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھنے کے لئے دیکھئے: [مسلم 1218، ترقيم دار السلام: 2950، وصحيح بخاري 1662]
➎ بارش میں بیع بین الصلاتین جائز ہے۔ جب امراء (حکمران) بارش میں مغرب و عشاء کی نمازیں جمع کرتے تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ یہ نمازیں جمع کر لیتے تھے۔ [الموطا 145/1 ح 329 وسندہ صحیح]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 109   

  الشيخ غلام مصطفٰے ظهير امن پوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 1629  
تحریر: غلام مصطفےٰ ظہیر امن پوری
سوال: بارش میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا کیسا ہے؟
جواب: بارش میں دو نمازوں کو جمع کر کے پڑھنا جائز ہے، جیسا کہ:
◈ امام الائمہ، ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«ولم يختلف علماء الحجاز ان الجمع بين الصلاتين فى المطر جائز.»
علماءِ حجاز کا اس بات پر اتفاق ہے کہ بارش میں دو نمازوں کو جمع کرنا جائز ہے۔ [صحيح ابن خزيمة 85/2]

◈ سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ تعلق کہتے ہیں کہ صحابی رسول سیدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا:
«جمع رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الظهر والعصر، والمغرب والعشاء بالمدينة، فى غير خوف، ولا مطر (وفي لفظ: ولا سفر)، قلت لابن عباس: لم فعل ذلك؟ قال: كي لا يخرج أمته .»
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں ظہر و عصر اور مغرب و عشا کو بغیر کسی خوف اور بارش (ایک روایت میں بغیر کسی خوف اور سفر) کے جمع کیا۔ (سعید بن جبیر کہتے ہیں:) میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے دریافت کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیوں کیا؟ فرمایا: اس لئے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی امت پر کوئی مشقت نہ ہو۔ [صحيح مسلم: 54/705، 50]

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما ہی کا بیان ہے:
«صليت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة ثمانيا جميعا، وسبعا جميعا، الظهر والعصر، والمغرب والعشاء .»
میں نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں ظہر و عصر کی آٹھ رکعات اور مغرب و عشا کی سات رکعات جمع کر کے پڑھیں۔ [صحيح البخاري: 543، 1174، صحيح مسلم: 55/705]

◈ شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں:
«والجمع الذى ذكره ابن عباس لم يكن بهذا ولا بهذا، وبهذا استدل أحمد به على الجمع لهذه الأمور بطريق الأولى، فإن هذا الكلام يدل على أن الجمع لهذه الأمور أولى، وهذا من باب التنبيه بالفعل، فانه اذا جمع ليرفع الحرج الحاصل بدون الخوف والمطر والسفر، فالخرج الحاصل بهذه أولى أن يرفع، والجمع لها أولى من الجمع لغيرها.»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جس جمع کا ذکر کیا ہے، وہ نہ خوف کی وجہ سے تھی، نہ بارش کی وجہ سے۔ اسی حدیث سے امام احمد رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ خوف اور بارش میں تو بالاولیٰ جمع ہو گی. اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان امور میں نمازوں کو جمع کرنا بالاولیٰ جائز ہے۔ یہ تنبیہ بالفعل کی قبیل سے ہے . جب خوف، بارش اور سفر کے بغیر جو مشقت ہوتی ہے، اس مشقت کو ختم کرنے کے لیے دو نمازوں کو جمع کیا جا سکتا ہے، تو ان اسباب کی مشقت کو ختم کرنا تو بالاولیٰ جائز ہو گا، لہٰذا خوف، بارش اور سفر کی بنا پر نمازوں کو جمع کرنا دیگر امور کی بنا پر جمع کی نسبت زیادہ جائز ہو گا۔ [مجموع الفتاوي: 76/24]

◈ محدث العصر، علامہ البانی رحمہ اللہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قول «فى غير خوف ولا مطر» کی شرح میں فرماتے ہیں:
«فإنه يشعر أن الجمع للمطر كان معروفا فى عهدم صلى الله عليه وسلم، ولو لم يكن كذلك، لما كان ثمة فائدة من نفي المطر كسبب مبرر للجمع، فتامل»
یہ الفاظ اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بارش کی وجہ سے نمازوں کو جمع کرنا معروف تھا۔ غور فرمائیے! اگر ایسا نہ ہوتا، تو بارش کو جمع کے جواز کے سبب کے طور پر ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ [ارواءالغليل: 3 40]

◈ نافع مولیٰ ابن عمر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
«كانت أمراء نا إذا كانت ليلة مطيرة، أبطأوا بالمغرب وعجلوا بالعشاء قبل أن يغيب الشفق، فكان ابن عمر يصلي معهم، لا يرى بذلك بأسا، قال عبيد الله: ورأيت القاسم، وسالما يصليان معهم، فى مثل تلك الليلة.»
جب بارش والی رات ہوتی، تو ہمارے امرا مغرب کو تاخیر سے ادا کرتے اور شفق غروب ہونے سے پہلے عشا کے ساتھ جمع کر لیتے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما ان کے ساتھ ہی نماز پڑھتے تھے اور اس میں کوئی حرج خیال نہیں کرتے تھے . عبید اللہ بیان کرتے ہیں: میں نے قاسم اور سالم رحمها اللہ کو دیکھا کہ وہ دونوں ان کے ساتھ ایسی رات میں مغرب و عشاء کو جمع کرتے تھے . [المؤطأ للإمام مالك: 331، السننن الكبريٰ للبيهقي: 168/3، و سنده صحيح]

◈ ہشام بن عروہ تابعی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
«رأيت أبان بن عثمان يجمع بين الصلاتين فى الليلة المطيرة؛ المغرب والعشاء، فيصليهما معا، عروة بن الزبير، وسعيد بن المسيب، وأبو بكر بن عبدالرحمن، وأبو سلمة بن عبدالرحمن، لاينكرونه .»
میں نے ابان بن عثمان رحمہ اللہ کو بارش والی رات مغرب و عشا کی نمازوں کو جمع کرتے دیکھا. عروہ بن زبیر، سعید بن مسیب، ابوبکر بن عبدالرحمٰن، ابوسلمہ بن عبدالرحمن رحمہ اللہ اس پر کوئی اعترض نہیں کرتے تھے۔ [مصنف ابن ابي شيبة: 234/2، السنن الكبريٰ للبيهقي: 168/3، 169، و سنده صحيح]

◈ عبدالرحمن بن حرملہ رحمہ اللہ کہتے ہیں:
«رايت سعيد بن المسيب يصلي مع الائمة، حين يجمعون بين المغرب والعشاء، فى الليلة المطيرة.»
میں نے امام سعید بن مسیب کو ائمہ کے ساتھ بارش والی رات میں مغرب و عشا کی نمازوں کو جمع کر کے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 234/2، و سنده حسن]

◈ ابومودود، عبدالعزیز بن ابوسلیمان رحمہ اللہ کہتے ہیں:
«صليت مع أبى بكر بن محمد المغرب والعشاء، فجمع بينهما فى الليلة المطيرة.»
میں نے ابوبکر بن محمد کے ساتھ مغرب و عشا کی نماز پڑھی، انہوں نے بارش والی رات میں دونوں نمازوں کو جمع کیا تھا۔ [مصنف ابن ابي شيبه: 234/2، و سنده حسن]

◈ شیخ الاسلام، ابن تیمیہ رحمہ اللہ (661-728ھ) فرماتے ہیں:
«فهذه الآثار تدل على أن الجمع للمطر من الأمر القديم، المعمول به بالمدينة زمن الصحابة والتابعين، مع أنه لم ينقل أن أحدا من الصحابة والتابعين أنكر ذلك، فعلم أنه منقول عندهم بالتوائر جواز ذلك.»
ان آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ بارش کی وجہ سے دو نمازوں کو جمع کرنا قدیم معاملہ ہے، جس پر صحابہ و تابعین کرام کے عہد میں مدینہ منورہ میں بھی عمل رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ کسی ایک بھی صحابی سے اس پر اعتراض کرنا بھی منقول نہیں۔ اس ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ و تابعین سے بالتواتر اس کا جواز منقول ہے ـ [مجموع الفتاوٰي: 83/24]

◈ جناب عبدالشکور لکھنوی، فاروقی، دیوبندی لکھتے ہیں:
امام شافعی رحمہ اللہ کے نزدیک سفر میں اور بارش میں بھی دو نمازوں کا ایک وقت میں پڑھ لینا جائز ہے اور ظاہر احادیث سے بھی ایسا ہی معلوم ہوتا ہے، لہٰذا اگر کسی ضرورت سے کوئی حنفی بھی ایسا کرے، تو جائز ہے۔ [علم الفقه، حصه دوم، ص: 150]
↰ یاد رہے کہ بارش کی صورت میں جمع تقدیم و تاخیر، دونوں جائز ہیں۔ تقدیم میں زیادہ آسانی ہے، نیز جمع صوری کو بھی اختیار کیا جا سکتا ہے۔
   ماہنامہ السنہ جہلم، شمارہ 61-66، حدیث/صفحہ نمبر: 238   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 602  
´دوران اقامت (حضر میں) جمع بین الصلاتین کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر خوف اور بغیر سفر کے ظہر و عصر اور مغرب و عشاء کو جمع کر کے پڑھی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 602]
602 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی فوائد حدیث: 590
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 602   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:475  
475- سيدنا عبدالله بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدأ میں مدینۂ منورہ میں آٹھ رکعات ایک ساتھ اور سات رکعات ایک ساتھ ادا کی ہیں۔ عمر و بن دینار مکی نامی راوی کہتے ہیں: میں نے (اپنے استاد) جابر بن زید سے دریافت کیا: اے ابو شعثاء! میرا خیال ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز تاخیر سے ادا کی ہوگی اور عصر کی نماز جلدی ادا کرلی ہوگی اور مغرب کی تاخیر سے ادا کی ہوگی، اور عشاء کی نماز جلدی ادا کرلی ہوگی، تو وہ بولے: میرا بھی یہی خیال ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:475]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نمازوں کو جمع کرنے کی صورت میں صرف فرض پڑھے جائیں گے، اور ظہر کو مؤخر اور عصر کو مقدم کر کے اور مغرب کو مؤخر اور عشاء کو مقدم کر کے پڑھا جائے۔ یہ حد بیث بحالت اقامت بغیر کسی عذر کے نمازوں کو جمع کرنے کے جواز پر دلیل ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک بار بصرہ میں ظہر اور عصر کو جمع کیا ان دونوں کے درمیان کچھ نہ پڑھا پھر انہوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مد بینہ میں ظہر اور عصر کی آٹھ رکعات اکٹھی پڑھی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے درمیان میں کچھ نہیں پڑھا تھا۔ [سنن النسائي: 591 مختصراً فى صحيح البخاري: 543]
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 475   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1629  
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مدینہ میں خوف اور سفر کے بغیر ظہر اور عصر کو جمع کیا۔ ابوزبیر کہتے ہیں میں نے (ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے شاگرد) سعید سے پوچھا، آپ نے ایسا کیوں کیا تھا؟ انہوں نے جواب دیا، جیسے تو نے مجھ سے یہ سوال کیا ہے۔ میں نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے سوال کیا تھا تو انہوں نے کہا، آپ ﷺ نے چاہا کہ اپنی امت کے کسی فرد کو تنگی اور دشواری میں نہ ڈالیں۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1629]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بعض حضرات نے اس جمع کو مطر(بارش)
پر محمول کیا ہے لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ آگے تصریح آ رہی ہے کہ یہ کام بارش کے دن نہیں کیا۔
یعنی سفر،
خوف اور بارش تینوں میں سے کوئی ایک عذر بھی نہ تھا۔
لیکن نسائی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جمع صوری تھی کہ (أَخَّرَ الظُّهْرَ وَعَجَّلَ الْعَصْرَ)
علامہ البانی نےان الفاظ کو مُدْرَجْ قرار دیا ہے۔
نیز أَخَّرَ الظُّهْرَ سے ظاہر یہی ہوتا ہے کہ ظہر کو عصر تک مؤخر کیا اور عصر میں جلدی کی کہ دونوں کو عصر کے اول وقت میں پڑھ لیا أَخَّرَ الظُّهْرَ کا یہ معنی کرنا کہ ظہر اپنے آخری وقت میں پڑھی اس کا کوئی قرینہ نہیں ہے۔
لیکن ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما شاگرد ابوشعشاء اور اس کے شاگرد عمرو بن دینار نے بھی یہی تاویل کی ہے اور ان کے انداز اور اسلوب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کو جمع صوری پر محمول کرتے تھے سفر اور حضر کا امتیاز اور فرق بھی یہی چاہتا ہے کہ حضر میں شاذ ونادر طور پر جمع صوری جائز ہے جمع حقیقی درست نہیں ہے۔
اگرچہ بعض محدثین نے کبھی کبھارکسی مقصد کے تحت حضر میں جمع حقیقی کی بھی اجازت دی ہے۔
مثلاً دونوں نمازوں کے لیے الگ الگ وضو کرنے میں وقت ہے یا کسی جگہ وعظ ونصیحت کی مجلس قائم ہے درمیان میں وقفہ کرنا درست نہیں ہے جیسا کہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے وعظ کے موقع پر ایسے کیا تھا اس کو عادت بنانا درست نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1629   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1637  
ایک شخص نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے کہا، نماز پڑھو، آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ خاموش رہے، اس نے پھر کہا، نماز پڑھو، وہ پھر بھی چپ رہے۔ اس نے پھر کہا، نماز، تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ چپ رہے۔ پھر کہنے لگے، تجھ پر حیرت ہے تو کیا ہمیں نماز کی تعلیم دیتا ہے۔ ہم رسول اللہ ﷺ کے دور میں دو نمازیں جمع کر لیا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1637]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
لَا أُمَّ لَكَ:
تیری ماں نہیں ہے یا تو اپنی ماں کو نہیں جانتا،
یہ کلمہ کسی کی تردید اور مذمت کے وقت استعمال کرتے ہیں کہ تیرا یہ کام افسوس ناک ہے۔
فوائد ومسائل:
احناف نے ایک نماز کے وقت میں دوسری نماز پڑھنے کے عدم جواز کی دلیل آیت مبارکہ:
﴿إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَّوْقُوتًا﴾ (نساء: 103)
کہ نماز مسلمانوں پر اوقات مقررہ میں فرض ہے پیش کرتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کا وہی مفہوم معتبر ہے جو اس کے شارح اور مبین نے جس پر قرآن اتارا گیا ہے اور معلمِ قرآن ہے،
نے ہی بیان کیا ہے۔
نیز اس آیت مبارکہ کا تعلق عام حالات سے ہے۔
اس لیے آیت کے اس ٹکڑا سے پہلے یہ الفاظ ہیں۔
﴿فَإِذَا اطْمَأْنَنْتُمْ فَأَقِيمُوا الصَّلاةَ﴾ جب تمھیں اطمینان اور سکون حاصل ہو تو پھر نماز کا اہتمام کرو مزید برآں مزدلفہ اور عرفات میں دو نمازوں کا ایک نماز کے وقت میں پڑھنا تو احناف کے نزدیک بھی جائز ہے کیا وہ اس آیت کے منافی نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1637