أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَكَمِ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ، قال: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ مُحَمَّدٍ، قال: سَمِعْتُ نَافِعًا، يُحَدِّثُ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ، أَنَّهَا قالت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا طَلَعَ الْفَجْرُ لَا يُصَلِّي إِلَّا رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 584
584 ۔ اردو حاشیہ: یہ نماز فجر کی دو سنتیں ہیں جو انتہائی مؤکدہ ہیں۔ انہیں آپ نے حضر میں چھوڑا نہ سفر میں، بلکہ ایک دفعہ فجر کی نماز قضا ہو گئی تو آپ نے دن چڑھے نماز پڑھی مگر ان دو سنتوں کو نہ چھوڑا۔ پہلے یہ پڑھیں، پھر فرض پڑھے۔ دیکھیے: [صحیح مسلم، المساجد، حدیث: 681]
یاد رہے کہ طلوع فجر سے طلوع شمس تک ان دو رکعتوں کے علاوہ نفل نماز جائز نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 584
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 150
´ فجر کی دو سنتیں ہلکی (مختصر) پڑھنی چاہیئں`
«. . . وبه: عن ابن عمر ان حفصة ام المؤمنين اخبرته ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا سكت المؤذن من الاذان لصلاة الصبح، صلى ركعتين خفيفتين قبل ان تقام الصلاة . . .»
”. . . سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہیں ام المؤمنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ جب موذن صبح کی نماز کے لئے اذان سے فارغ ہو کر خاموش ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی اقامت سے پہلے دو ہلکی رکعتیں پڑ ھتے تھے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 150]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 618، و مسلم 723، من حديث مالك به]
تفقه:
➊ صبح کی اذان کے بعد صرف دو سنتیں ہیں۔
➋ جو شخص گھر میں صبح کی دو سنتیں پڑھ کر مسجد جائے تو وہ تحية المسجد نہ پڑھے۔ یا تو کھڑا رہے یا بیٹھ جائے۔
➌ صبح صادق ہوتے ہی صبح کی اذان دینی چاہئے۔
➍ صبح کی دو سنتیں بہت زیادہ لمبی نہیں پڑھنی چاہیئں۔
➎ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی دو سنتوں کا بہت زیادہ اہتمام کرتے تھے۔ دیکھئے [صحيح بخاري 1169، وصحيح مسلم 724/94]
معلوم ہوا کہ یہ سنت موکدہ ہیں۔ دیکھئے: [التمهيد 311/15]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 201
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1761
´فجر کی دو رکعت (سنت) کے وقت کا بیان۔`
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب صبح کی نماز کی اذان دی جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے پہلے کہ نماز کھڑی ہو ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1761]
1761۔ اردو حاشیہ: اصل وقت یہی ہے، البتہ اگر کسی وجہ سے رہ جائیں تو فرض نماز پڑھنے کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1761
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1767
´فجر کی دو رکعت (سنت) کا وقت اور نافع کی روایت میں رواۃ کے اختلاف کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر کی اذان اور اقامت کے درمیان ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: دونوں حدیثیں ہمارے نزدیک غلط ہیں ۱؎ واللہ اعلم۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1767]
1767۔ اردو حاشیہ: دونوں روایتوں سے مراد روایت 1766 اور 1767 ہیں۔ پہلی روایت میں غلطی یہ ہے کہ نافع اور حفصہ رضی اللہ عنہما کے درمیان صفیہ کی بجائے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کا واسطہ چاہیے جیسا کہ روایت نمبر 1767 اور مابعد روایات میں ہے، یعنی نافع کے شاگردان میں سے صرف عبدالحمید بن جعفر، نافع عن صفیۃ عن حفصۃ کے طریق سے روایت کرتا ہے۔ باقی تمام تلامذہ، جن کی تعداد تقریباً نو ہے، یہ سب نافع اور حفصہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ابن عمر رضی اللہ عنہما کا واسطہ ذکر کرتے ہیں، ہاں عن صفیۃ عن حفصۃ کے بیان میں حضرت سالم بن عبداللہ نافع کی متابعت کرتے ہیں۔ واللہ اعلم۔ (ذخیرۃ العقبٰی شرح سنن النسائی: 18؍154) اور دوسری روایت: 1767 میں غلطی یہ ہے کہ اس میں اوزاعی کے شاگرد شعیب کے بجائے یحییٰ (بن حمزہ) درست ہیں جیسا کہ آئندہ روایت میں مذکور ہے۔ واللہ اعلم۔ تاہم جہاں تک مسئلے کا تعلق ہے، وہ صحیح ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1767
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1777
´فجر کی دو رکعت (سنت) کا وقت اور نافع کی روایت میں رواۃ کے اختلاف کا بیان۔`
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب فجر طلوع ہو جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوائے دو ہلکی رکعتوں کے کچھ اور نہیں پڑھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1777]
1777۔ اردو حاشیہ: فجر طلوع ہونے کے بعد عام نوافل سورج بلند ہونے تک منع ہیں۔ صرف صبح کی دو سنتیں ہی مشروع ہیں۔ فرض نماز سے قبل، وہ اگر رہ جائیں تو نماز کے بعد بھی پڑھی جا سکتی ہیں اور کوئی نفل نماز جائز نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1777
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1778
´فجر کی دو رکعت (سنت) کا وقت اور نافع کی روایت میں رواۃ کے اختلاف کا بیان۔`
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فجر کی اذان دے دی جاتی تو نماز کے لیے کھڑے ہونے سے پہلے ہلکی ہلکی دو رکعتیں پڑھتے۔ اور سالم نے بھی ابن عمر رضی اللہ عنہم سے، اور انہوں نے حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے، (ان کی روایت آگے آ رہی ہے)۔ [سنن نسائي/كتاب قيام الليل وتطوع النهار/حدیث: 1778]
1778۔ اردو حاشیہ: اب تک یہ روایت حضرت نافع کے واسطے سے ذکر کی گئی ہے، لیکن یہ روایت حضرت نافع کے ساتھی حضرت سالم بھی اسی سند سے بیان کرتے ہیں اب ان کی روایت ذکر کی جارہی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1778
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 618
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب مؤذن صبح کی اذان صبح صادق کے طلوع ہونے کے بعد دے چکا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اذان اور تکبیر کے بیچ نماز قائم ہونے سے پہلے دو ہلکی سی رکعتیں پڑھتے۔ [صحيح بخاري ح: 618]
فوائد:
➊ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ باب اس لیے قائم کیا ہے کہ بعض اہل علم فجر سے پہلے اذان کو فجر کی نماز کے لیے کافی سمجھتے ہیں، بلکہ بعض نے تو یہاں تک کہا ہے کہ آدھی رات کے بعد اذان کہہ دی جائے تو صبح کی اذان کی جگہ کافی ہے۔ بخاری رحمہ اللہ کا مقصد یہ ہے کہ صبح کی نماز کے لیے اذان فجر کے بعد کہنا ضروری ہے، اس سے پہلے کہی ہوئی اذان نمازِ فجر کے لیے کافی نہیں، کیونکہ اس کا مقصد صبح کی نماز کی اطلاع دینا نہیں بلکہ کچھ اور ہے۔ اس لیے امام صاحب نے فجر کے بعد اذان کہنے کا باب پہلے ذکر کیا اور فجر سے پہلے اذان کہنے کا باب بعد میں ذکر کیا۔
➋ صحیح بخاری کے اکثر نسخوں میں «كَانَ إِذَا اعْتَكَفَ الْمُؤَذِّنُ لِلصُّبْحِ» کے الفاظ ہیں، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی تحقیق کے مطابق یہ کسی کاتب کی خطا ہے، اسے یوں ہونا چاہیے: «كَانَ إِذَا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ» کہ جب مؤذن صبح کی اذان کہہ کر خاموش ہوتا۔ کیونکہ امام بخاری نے یہ حدیث امام مالک سے روایت کی اور امام مالک کی موطا میں ایسے ہی ہے کہ «إِذا سَكَتَ الْمُؤَذِّنُ» یعنی جب مؤذن صبح کی اذان کہہ کر خاموش ہو جاتا، اور امام مسلم نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے۔ [تيسر الباري]
بعض اہلِ علم نے فرمایا کہ «اعْتَكَفَ» کا معنی ہے کہ مؤذن صبح کے انتظار میں جم کر بیٹھا ہوتا کہ جوں ہی صبح روشن ہو اذان کہہ دے، جب وہ اذان کہتا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم جماعت سے پہلے دو ہلکی رکعتیں پڑھتے۔ چنانچہ بخاری رحمہ اللہ نے «بَابُ الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الظُّهْرِ» میں «عن ايوب عن نافع» کے طریق سے ان الفاظ میں روایت بیان کی ہے: «كَانَ إِذَا أَذَّنَ الْمُؤَذِّنُ وَطَلَعَ الْفَجْرُ ...» ”جب مؤذن اذان کہتا اور فجر طلوع ہوتی تو آپ دو ہلکی رکعتیں پڑھتے۔“ [فتح الباري]
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 618
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 618
618. حضرت حفصہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت تھی کہ جب مؤذن صبح کی اذان کے لیے کھڑا ہو جاتا اور صبح نمایاں ہو جاتی تو آپ نماز کھڑی ہونے سے پہلے ہلکی سی دو رکعتیں پڑھتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:618]
حدیث حاشیہ:
یہ فجر کی سنت ہوتی تھی آپ ﷺ سفر اورحضر ہرجگہ لازماً ان کو ادا فرماتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 618
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:618
618. حضرت حفصہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی عادت تھی کہ جب مؤذن صبح کی اذان کے لیے کھڑا ہو جاتا اور صبح نمایاں ہو جاتی تو آپ نماز کھڑی ہونے سے پہلے ہلکی سی دو رکعتیں پڑھتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:618]
حدیث حاشیہ:
(1)
إذا اعتكف کے معنی یہ ہیں کہ جب مؤذن فجر کے انتظار میں رہتا تاکہ صبح اچھی طرح روشن ہوجائے تو اذان دے۔
مؤذن کی اذان کے بعد رسول اللہ ﷺ دو رکعت سنت فجر پڑھتے تھے۔
جیسا کہ دوسری روایت میں ہے کہ جب مؤذن اذان دیتا اور صبح خوب روشن ہوجاتی تو رسول اللہ ﷺ دو رکعت پڑھتے۔
(صحیح البخاري، التطوع، حدیث: 1181)
ایک اور روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر طلوع ہونے کے بعد ہلکی پھلکی دو رکعت پڑھتے تھے۔
(صحیح البخاري، التطوع، حدیث: 1173)
(2)
امام بخاری ؒ کے اس عنوان پر دواعتراض ہیں:
٭یہ بات تو واضح ہے کہ فجر کے بعد اذان ہوتی ہے، لہٰذا عیاں را چہ بیاں؟ اگر اس عنوان کا اہتمام ضروری تھا تو زوال کے بعد اذان اور غروب کے بعد اذان کے عنوانات کو کیوں نظر انداز کیا گیا ہے؟ ٭ترتیب کا تقاضا یہ تھا کہ پہلے قبل از فجر اذان کا عنوان قائم کیا جاتا، پھر اذان بعد از فجر کا باب ہوتا۔
ہمارے نزدیک ان اعتراضات کی کوئی حیثیت نہیں، کیونکہ امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ اذان فجر جو اصل ہے وہ تو بعد از فجر ہی ہے اور قبل از فجر اذان نماز کے لیے نہیں بلکہ اس کے اور مقاصد ہیں۔
چونکہ اذان بعد از فجر اصل تھی، اس لیے اسے پہلے بیان کیا اور قبل از فجر اذان کی حیثیت ثانوی تھی، اس لیے اسے بعد میں بیان فرمایا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 618