Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب المواقيت
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
36. بَابُ : الرُّخْصَةِ فِي الصَّلاَةِ بَعْدَ الْعَصْرِ
باب: عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان۔
حدیث نمبر: 579
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ، قال: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي حَرْمَلَةَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، أَنَّهُ سَأَلَ عَائِشَةَ عَنِ السَّجْدَتَيْنِ اللَّتَيْنِ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، فَقَالَتْ:" إِنَّهُ كَانَ يُصَلِّيهِمَا قَبْلَ الْعَصْرِ، ثُمَّ إِنَّهُ شُغِلَ عَنْهُمَا أَوْ نَسِيَهُمَا فَصَلَّاهُمَا بَعْدَ الْعَصْرِ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَثْبَتَهَا".
ابوسلمہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ان دونوں رکعتوں کے متعلق سوال کیا جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد پڑھتے تھے، تو انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں عصر سے پہلے پڑھا کرتے تھے پھر آپ کسی کام میں مشغول ہو گئے یا بھول گئے تو انہیں عصر کے بعد ادا کیا، اور آپ جب کوئی نماز شروع کرتے تو اسے برقرار رکھتے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسافرین 54 (835)، (تحفة الأشراف: 17752)، مسند احمد 6/40، 61، 241، مسند احمد 6/184، 188 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

سنن نسائی کی حدیث نمبر 579 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 579  
579 ۔ اردو حاشیہ: عصر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو رکعت پرھنے کی یہ توجیہ ہے کہ ایک دن آپ کی ظہر کے بعد والی سنتیں مصروفیت کی وجہ سے رہ گئیں، وہ ادا فرمائی تھیں اور بعد ازاں اپنی عادت طیبہ کے مطابق اس پر دوام فرمایا۔ یہ حدیث بھی ان حضرات کی دلیل ہے جو کہتے ہیں کہ ممنوعہ اوقات میں کوئی بھی سببی نماز پڑھی جا سکتی ہے جیسا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی دو رکعتوں کی عصر کے بعد قضا ادا کی۔ اور مسند احمد کی روایت کے آخر میں جو یہ اضافہ منقول ہے: «افنقضیھما اذا فاتتا؟ قال: (لا)» کیا ہم بھی ان کی قضا ادا کر لیا کریں جب یہ دو رکعتیں رہ جایا کریں تو فرمایا: نہیں۔ سنداً ضعیف اور ناقابل حجت ہے۔ دیکھیے: [الموسوعة الحدیثیة، مسندالإمام أحمد: 44؍277]
لہٰذا رہ جانے والی نماز، عصر کے بعد ادا کی جا سکتی ہے۔ یہ صرف آپ ہی کی خصوصیت نہیں ہے کیونکہ مذکورہ الفاظ ضعیف ہیں، مزید برآں یہ کہ جب تک سورج روشن اور چمک دار ہو تو مطلقاً نوافل بھی پڑھے جاسکتے ہیں جیسا کہ پیچھے تفصیل گزر چکی ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 579   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 590  
´عصر کے بعد قضاء نمازیں یا اس کے مانند مثلاً جنازہ کی نماز وغیرہ پڑھنا`
«. . . أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " وَالَّذِي ذَهَبَ بِهِ مَا تَرَكَهُمَا حَتَّى لَقِيَ اللَّهَ، وَمَا لَقِيَ اللَّهَ تَعَالَى حَتَّى ثَقُلَ عَنِ الصَّلَاةِ، وَكَانَ يُصَلِّي كَثِيرًا مِنْ صَلَاتِهِ قَاعِدًا تَعْنِي الرَّكْعَتَيْنِ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّيهِمَا، وَلَا يُصَلِّيهِمَا فِي الْمَسْجِدِ مَخَافَةَ أَنْ يُثَقِّلَ عَلَى أُمَّتِهِ، وَكَانَ يُحِبُّ مَا يُخَفِّفُ عَنْهُمْ " . . . .»
. . . انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ نے فرمایا کہ اللہ کی قسم! جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے یہاں بلا لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعات کو کبھی ترک نہیں فرمایا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ پاک سے جا ملے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات سے پہلے نماز پڑھنے میں بڑی دشواری پیش آتی تھی۔ پھر اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ کر نماز ادا فرمایا کرتے تھے۔ اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پوری پابندی کے ساتھ پڑھتے تھے لیکن اس خوف سے کہ کہیں (صحابہ بھی پڑھنے لگیں اور اس طرح) امت کو گراں باری ہو، انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں نہیں پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی امت کا ہلکا رکھنا پسند تھا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب مَوَاقِيتِ الصَّلَاةِ/بَابُ مَا يُصَلَّى بَعْدَ الْعَصْرِ مِنَ الْفَوَائِتِ وَنَحْوِهَا:: 590]
تشریح:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات میں داخل تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 590   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 590  
590. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: قسم ہے اس (اللہ) کی جو رسول اللہ ﷺ کو دنیا سے لے گیا! آپ نے عصر کے بعد دو رکعت کبھی ترک نہیں فرمائیں تا آنکہ آپ اللہ سے جا ملے اور جب اللہ سے ملے تو اس وقت بوجہ ضعف آپ نماز سے تھک جاتے تھے اور آپ اکثر نماز کی ادائیگی بیٹھ کر فرماتے تھے، یعنی عصر کے بعد کی دو رکعتیں۔ اور آپ عصر کے بعد دو رکعات ہمیشہ پڑھا کرتے تھے، لیکن انہیں مسجد میں نہیں پڑھتےتھے اس ڈر سے کہ کہیں آپ کی امت پر گراں نہ گزرے، کیونکہ آپ کو اپنی امت کے حق میں تخفیف پسند تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:590]
حدیث حاشیہ:
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ نماز آپ ﷺ کی خصوصیات میں داخل تھی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 590   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 593  
593. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جس دن بھی نبی ﷺ عصر کے بعد میرے ہاں تشریف لاتے تو دو رکعت ضرور پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:593]
حدیث حاشیہ:
مگر امت کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نفل نمازوں سے منع فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 593   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 575  
´عصر کے بعد نماز کی اجازت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد کی دو رکعت کبھی بھی نہیں چھوڑیں ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 575]
575 ۔ اردو حاشیہ: اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ کہا گیا ہے لیکن یہ بات درست معلوم نہیں ہوتی کیونکہ بعض صحابہ اور تابعین نے بھی یہ رکعتیں پڑھی ہیں، جیسے حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہما کے متعلق ملتا ہے کہ یہ بھی عصر کے بعد دورکعت پڑھا کرتے تھے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 575   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1279  
´ان لوگوں کی دلیل جنہوں نے سورج بلند ہو تو عصر کے بعد دو رکعت سنت پڑھنے کی اجازت دی ہے۔`
اسود اور مسروق کہتے ہیں کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: کوئی دن ایسا نہیں ہوتا تھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عصر کے بعد دو رکعت نہ پڑھتے رہے ہوں ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1279]
1279۔ اردو حاشیہ:
یہ ہمیشگی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی اور ان رکعتوں کی اصل ابتداء ظہر کی سنتیں قضا پڑھنے سے ہوئی تھی۔ دیکھیے حدیث سنن ابي داود: [1273]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1279   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:194  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ نماز عصر کے بعد دو رکعت پڑھنا مسنون ہیں، اور جو اس کو خاصہ قرار دے، اس پر دلیل لازم ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی عصر کے بعد دو رکعات پڑھنے کا ثبوت ملتا ہے تفصیل کے لیے المحلیٰ لا بن حزم (2/34۔ 40) کا مطالعہ کریں۔ ان دورکعتوں کی وجہ صحيح مسلم (کتاب الصلاۃ، باب صـلاة المسافرين وقصرها، حدیث: 835) میں موجود ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ آپ نماز عصر کے بعد دو رکعت کیوں پڑھتے ہیں، اس کے جواب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں یہ دو رکعتیں نماز ظہر کے بعد پڑھتا تھا، میرے پاس مال آیا، مال نے مجھے مشغول کر دیا، میں وہی دونوں رکعتیں اب پڑھتا ہوں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 194   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1937  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جس دن بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی باری میرے ہاں ہوتی، آپﷺ میرے ہاں دورکعت یعنی عصر کے بعد دو رکعت پڑھتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:1937]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ان احادیث سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا روزانہ عصر کے بعد دو رکعت پڑھنا ثابت ہوتا ہے جب کہ دوسری احادیث میں آپﷺ نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا ہے۔
ان احادیث کی تطبیق سنن ابی داؤد کی صحیح حدیث سے ہوتی ہے جس میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد نماز سے منع فرمایا مگر اس حال میں کہ سورج بلند ہو اس سے معلوم ہوا کہ عصر کے بعد جب تک سورج بلند رہے نوافل خصوصاً دو رکعتیں پڑھ سکتا ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ادا کیا کرتے تھے ہاں جب سورج بلند نہ رہے تو پھر نماز پڑھنا منع ہے صرف وہ نمازیں پڑھ سکتا ہے جن کا کوئی سبب ہو مثلاً قضاء،
تحیۃ الوضوء،
تحیۃ المسجد،
صلوۃ الکسوف،
صلوٰہ طواف وغیرہ بلا سبب نوافل جائز نہیں عصر کے بعد مطلقاً نماز سے منع کرنے کی وجہ یہ تھی کہ کہیں ناواقف لوگ سورج کے نیچے چلے جانے کے بعد بھی نفلی نماز نہ پڑھتے رہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 1937   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:590  
590. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: قسم ہے اس (اللہ) کی جو رسول اللہ ﷺ کو دنیا سے لے گیا! آپ نے عصر کے بعد دو رکعت کبھی ترک نہیں فرمائیں تا آنکہ آپ اللہ سے جا ملے اور جب اللہ سے ملے تو اس وقت بوجہ ضعف آپ نماز سے تھک جاتے تھے اور آپ اکثر نماز کی ادائیگی بیٹھ کر فرماتے تھے، یعنی عصر کے بعد کی دو رکعتیں۔ اور آپ عصر کے بعد دو رکعات ہمیشہ پڑھا کرتے تھے، لیکن انہیں مسجد میں نہیں پڑھتےتھے اس ڈر سے کہ کہیں آپ کی امت پر گراں نہ گزرے، کیونکہ آپ کو اپنی امت کے حق میں تخفیف پسند تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:590]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ عصر کے بعد دورکعات ہمیشہ پڑھا کرتے تھے۔
جبکہ متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مروی ہے کہ آپ نے ایک مرتبہ انھیں ادا کیا تھا لیکن ایک مرتبہ پڑھنے والی روایات ضعیف ہیں اور ہمیشہ پڑھنے والی روایات قوی ہیں، اس لیے ان کو ترجیح ہوگی۔
آپ کے اس عمل کے بارے میں متعدد توجیہات کی گئی ہیں، مثلاً:
یہ آپ کاخاصہ تھا، بیان جواز کے لیے تھا، آپ ایک مرتبہ جو عمل کرلیتے، اس پر دوام فرماتے تھے، وغیرہ وغیرہ، نیز ہمیشہ پڑھنے کا مطلب یہ نہیں کہ جب سے نماز فرض ہوئی تھی آپ ان رکعات کی ادائیگی کا اہتمام کرتے تھے، بلکہ واقعۂ وفد عبدالقیس کے بعد ان کے ادا کرنے پر دوام فرمایا۔
والله أعلم. (2)
رسول اللہ ﷺ کے افعال کی دو اقسام ہیں:
ایک وہ ہیں جنھیں آپ نے بطور اسوہ اور نمونہ ادا فرمایا ہے، وہ شریعت کا حصہ ہیں اور امت کےلیے ایسے افعال کی پیروی کرنا ضروری ہے۔
دوسری قسم ان افعال کی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی خصوصیت پر محمول ہیں، وہ امت کےلیے نمونہ یا اسوہ نہیں۔
عصر کے بعد دورکعت پڑھنا اور پھر اس پردوام بھی خصوصیت کی قبیل سےہے، جیسا کہ متعدد روایات سے معلوم ہوتا ہے، چنانچہ حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ انھیں عصر سے پہلے (ظہرکے بعد)
پڑھا کرتے تھے، پھر کسی مصروفیت یا بھولنے کی وجہ سے انھیں نہ پڑھ سکے تو عصر کے بعد ادا فرمایا، پھر اس کو برقرار رکھا۔
اور آپ جب کسی نماز کو شروع کرلیتے تو اس پر دوام فرماتے۔
(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 1934(835)
حضرت عائشہ ؓ ہی کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ انھیں عصر کے بعد خود ادا فرماتے لیکن آپ دوسروں کو منع فرماتے تھے۔
(سنن أبي داود، التطوع، حدیث: 1280)
حضرت ام سلمہ ؒ کا بیان ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ نے میرے گھر عصر کے بعد دو رکعت ادا کیں تو میں نے عرض کیا:
اللہ کے رسول!آپ نے پہلے تو کبھی انھیں ادا کرنے کا اہتمام نہیں کیا تھا؟ آپ نے فرمایا:
میرے پاس کچھ مال آگیا تھا، میں اس کی تقسیم میں ایسا مصروف ہوا کہ ظہر کے بعد دو رکعت نہ پڑھ سکا، وہ میں نے اب پڑھی ہیں۔
میں نے عرض کیا:
اللہ کے رسول!اگر ہم کسی وجہ سے ان دو رکعات کو نہ پڑھ سکیں تو بعد میں پڑھ سکتے ہیں؟آپ نے فرمایا:
نہیں۔
(مسند أحمد: 315/6)
ان روایات کا مدعا یہ ہے کہ ظہر کی دو سنت عصر کے بعد ادا کرنا، پھر اس پر مداومت فرمانا رسول اللہ ﷺ کا خاصہ ہے اور یہ امت کے لیے اسوہ یا نمونہ نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 590   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:593  
593. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جس دن بھی نبی ﷺ عصر کے بعد میرے ہاں تشریف لاتے تو دو رکعت ضرور پڑھتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:593]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد ان دورکعات کو صرف ایک مرتبہ ان کے گھر ادا کیا جبکہ حدیث عائشہ رضی اللہ عنہا سے پتا چلتا ہے کہ آپ انھیں ہمیشہ پڑھتے رہے۔
ان میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ پہلی مرتبہ آپ نے ان دو رکعات کو بطور قضا پڑھا جیسا کہ حدیث ام سلمہ رضی اللہ عنہا میں وضاحت ہےکہ یہ دورکعات نماز ظہر کے بعد والی ہیں جنھیں مصروفیت کی وجہ سے نہیں پڑھا جاسکا تھا۔
(سنن النسائي، المواقیت، حدیث: 580)
اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر بطور خصوصیت ہمیشہ پڑھتے رہے جیسا کہ حدیث بالا میں وضاحت ہے۔
(2)
بعض صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم عصر کے بعد دورکعات کو سنت سمجھ کر ادا کرتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ انھیں منع کرتے اور ان پر سختی بھی فرماتے تھے۔
مبادا دوسرے لوگ گروب آفتاب تک نماز کے جواز کا حیلہ بنا لیں۔
(3)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل سے امام ابن حزم رحمہ اللہ نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ ان اوقات میں ممانعت کی احادیث منسوخ ہیں لیکن ہمارے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ ممانعت کی احادیث محکم ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عصر کے بعد دو رکعت اس لیے ادا کی تھیں کہ وفد عبدالقیس کی آمد کی وجہ سے آپ ظہر کی دو سنت نہیں پڑھ سکے تھے، لہٰذا آپ نے وہ دوسنت عصر کے بعد ادا کرلیں اور آپ کا یہ معمول تھا کہ جب کوئی عمل شروع کرتے تو بعد میں اس پر مداومت فرماتے، اس بنا پر عصر کے بعد دو رکعت پڑھنے کا آپ نے معمول بنا لیا اور یہ عمل صرف آپ کے ساتھ ہی خاص تھا۔
عصر کے بعد دو رکعت ادا کرنا امت کے لیے کوئی مسنون عمل نہیں جیسا کہ بعض اہل علم کی طرف سے یہ تاثر دیا جا رہا ہے۔
والله اعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 593