سنن نسائي
كتاب المواقيت
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
4. بَابُ : تَعْجِيلِ الظُّهْرِ فِي الْبَرْدِ
باب: جاڑے میں ظہر جلدی پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 500
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ، قال: حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ دِينَارٍ أَبُو خَلْدَةَ، قال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، قال: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا كَانَ الْحَرُّ أَبْرَدَ بِالصَّلَاةِ، وَإِذَا كَانَ الْبَرْدُ عَجَّلَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب گرمی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز ۱؎ ٹھنڈی کر کے پڑھتے ۲؎ اور جب جاڑا ہوتا تو جلدی پڑھتے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجمعة 17 (906)، وفیہ ’’یعنی الجمعة‘‘، (تحفة الأشراف: 823) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری کی روایت میں کسی راوی نے «صلاة» کی تفسیر ”جمعہ“ سے کی ہے، کیونکہ اسی حدیث کی ایک روایت میں ہے کہ کسی سائل نے انس رضی اللہ عنہ سے جمعہ ہی کے بارے میں پوچھا تھا (فتح الباری) مؤلف نے اس کے مطلق لفظ «الصلاة» سے استدلال کیا ہے، نیز یہ کہ جمعہ اور ظہر کا وقت معتاد ایک ہی ہے۔ ۲؎: یعنی گرمی کی شدت کے سبب اس کے معتاد وقت سے اسے اتنا مؤخر کرتے کہ دیواروں کا اتنا سایہ ہو جاتا کہ اس میں چل کر لوگ مسجد آ سکیں، اور گرمی کی شدت کم ہو جائے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
سنن نسائی کی حدیث نمبر 500 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 500
500 ۔ اردو حاشیہ: ابراد کے معنی ہیں: نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھنا، مگر حقیقتاً ٹھنڈا وقت مراد نہیں ہے کیونکہ وہ تو گرمیوں میں مغرب کے قریب ہو گا بلکہ نصف النہار کے مقابلے میں کچھ ٹھنڈا وقت مراد ہے، یعنی جب دیواروں کا سایہ پاؤں رکھنے کے قابل ہو جائے۔ سردیوں میں دن چھوٹے ہوتے ہیں، وقت کم ہوتا ہے، اول وقت سے تاخیر کی کوئی وجہ بھی نہیں ہوتی، اس لیے آپ نماز جلدی ادا فرماتے۔ مزید تفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائی ملاحظہ فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 500