Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب السَّلَمِ
کتاب: بیع سلم کے بیان میں
6. بَابُ الرَّهْنِ فِي السَّلَمِ:
باب: بیع سلم میں گروی رکھنا۔
حدیث نمبر: 2252
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ مَحْبُوبٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، قَالَ: تَذَاكَرْنَا عِنْدَ إِبْرَاهِيمَ، الرَّهْنَ فِي السَّلَفِ، فَقَالَ: حَدَّثَنِي الْأَسْوَدُ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" اشْتَرَى مِنْ يَهُودِيٍّ طَعَامًا إِلَى أَجَلٍ مَعْلُومٍ، وَارْتَهَنَ مِنْهُ دِرْعًا مِنْ حَدِيدٍ".
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالواحد بن زیاد نے بیان کیا، ان سے اعمش نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم نے ابراہیم نخعی کے سامنے بیع سلم میں گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا ہم سے اسود نے بیان کیا، اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے ایک مقررہ مدت کے لیے غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی زرہ گروی رکھ دی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2252 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2252  
حدیث حاشیہ:
یہ مسئلہ تو قرآن شریف سے ثابت ہے ﴿إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَاكْتُبُوهُ﴾ (البقرة: 283)
آخر تک۔
پھر فرمایا فرہانا مقبوضة (البقرة: 283)
یعنی جب کسی مقررہ وقت کے لیے قرض لو تو کوئی چیز بطور ضمانت گروی رکھ لو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2252   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2252  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان اور حدیث سے امام بخاری ؒ نے ان حضرات کی تردید فرمائی ہے جو کہتے ہیں کہ بیع سلم میں رہن جائز نہیں۔
(2)
علامہ اسماعیلی نے ایک روایت بیان کی ہے کہ ایک شخص نے حضرات ابراہیم نخعی سے کہا کہ حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ سلم میں رہن رکھنا سود ہے۔
حضرت ابراہیم نخعی نے مذکورہ حدیث بیان کرکے اس کی تردید کی، یعنی جب قیمت وصول کرنے کےلیے رہن رکھی جاسکتی ہے تو خرید کردہ چیز وصول کرنے کےلیے گروی کیوں نہیں رکھی جاسکتی۔
دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔
(فتح الباري: 547/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2252   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4613  
´ایک شخص ایک مدت تک کے لیے ادھار اناج (غلہ) خرید لے اور بیچنے والا قیمت کے بدلے کوئی چیز گروی رکھ لے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک یہودی سے کچھ مدت تک کے لیے ادھار اناج خریدا اور اس کے پاس اپنی زرہ رہن رکھی۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4613]
اردو حاشہ:
ضمانت کے طور پر جو چیز حق دار کے پاس رکھی جائے کہ جب قیمت ادا کروں گا، مجھے میری چیز واپس مل جائے گی، اسے گروی رکھنا کہا جاتا ہے۔ جائز مقصد کے لیے کوئی چیز گروی رکھنے میں کوئی خرابی یا قباحت نہیں، لہٰذا شرعاً یہ جائز ہے۔ حالت اقامت ہو یا سفر۔ قرآن مجید میں سفر کی قید اتفاقی ہے، البتہ گروی رکھی ہوئی چیز سے فائدہ اٹھانا ناجائز ہے، ورنہ یہ سود بن جائے گا۔ الا یہ کہ گروی رکھی ہوئی چیز پر خرچ کرنا پڑتا ہو تو خرچ کر کے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے، مثلاً جانور گروی رکھا گیا ہو تو اسے گھاس اور چارہ وغیرہ ڈال کر اس پر سواری کر سکتا ہے اور بس۔ زیادہ فائدہ اٹھائے تو رقم میں کمی کرے، مثلاً: زمین گروی رکھی ہے تو اس کا کرایہ قرض سے منہا کرنا ضروری ہے، ورنہ یہ سود بن جائے گا۔ بہتر ہے ایسی چیز گروی رکھے جس پر خرچ کرنے کی ضرورت نہ ہو، جیسے زیور وغیرہ تاکہ وہ فائدہ نہ اٹھا سکے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4613   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2200  
2200. حضرت اعمش سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم نے ابراہیم نخعی سے قرض کے عوض گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ پھر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ ادھار خریدا اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2200]
حدیث حاشیہ:
مقصد باب یہ ہے کہ غلہ بوقت ضرورت ادھار بھی خریدا جاسکتا ہے۔
اور ضرورت لاحق ہو تو اس قرض کے سلسلہ میں اپنی کسی بھی چیز کو گروی رکھنا بھی جائز ہے اور یہ بھی ثابت ہوا کہ اس قسم کے دنیاوی معاملات غیر مسلموں سے بھی کئے جاسکتے ہیں۔
خود نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ ادھار حاصل فرمایا۔
اور آپ پر خوب واضح تھا کہ یہودیوں کے ہاں ہر قسم کے معاملات ہوتے ہیں۔
ان حالات میں بھی آپ نے ان سے غلہ ادھار لیا اور ان کے اطمینان مزید کے لیے اپنی زرہ مبارک کو اس یہودی کے ہاں گروی رکھ دیا۔
سند میں مذکورہ راوی حضرت اعمش ؒ سلیمان بن مہران کاہلی اسدی ہیں۔
بنوکاہل کے آزاد کردہ ہیں۔
بنوکاہل ایک شاخ بنواسد خزیمہ کی ہے۔
یہ 60ھ میں رے میں پیدا ہوئے اور کسی نے ان کو اٹھا کر کوفہ میں لاکر فروخت کردیا تو بنی کاہل کے کسی بزرگ نے خرید کر ان کو آزاد کر دیا۔
علم حدیث و قرات کے مشہور ائمہ میں سے ہیں اہل کوفہ کی روایات کا زیادہ مدار ان پر ہی ہے۔
148ھ میں وفات پائی۔
رحمة اللہ علیه۔
نیز حضرت اسود بھی مشہور تابعی ہیں جو ابن ہلال محاربی سے مشہور ہیں۔
عمرو بن معاذ اور حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ سے روایت کرتے ہیں۔
اور ان سے زہری نے روایت کی ہے۔
84ھ میں وفات پائی۔
رحمة اللہ علیه رحمة واسعة۔
آمین۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2200   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2251  
2251. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے ادھار پر غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی زرہ گروی رکھ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2251]
حدیث حاشیہ:
تو وہ زرہ بطور ضمانت یہودی کے پاس رہی، معلوم ہوا کہ سلم یا قرض میں اگر دوسرا کوئی شخص سلم والے یا قرض دار کا ضامن ہو تو یہ درست ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2251   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2386  
2386. حضرت اعمش بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم نخعی کے ہاں بیع سلیم (قرض) میں گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا: مجھ سے اسود نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے ایک یہودی سے ایک معین مدت کے لیے (ادھار پر) غلہ خریدا اور اس کے پاس لوہے کی زرہ گروی رکھ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2386]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت کوئی اپنی چیز رہن بھی رکھی جاسکتی ہے۔
لیکن آج کل الٹا معاملہ ہے کہ رہن کی چیز از قسم زیور وغیرہ پر بھی مہاجن لوگ سود لیتے ہیں۔
نتیجہ یہ ہے کہ وہ زیور جلدی واپس نہ لیا جائے تو ایک نہ ایک دن سارا سود کی نذ ر ہوکر ختم ہوجاتا ہے۔
مسلمانوں کے لیے جس طرح سود لینا حرام ہے ویسے ہی سود دینا بھی حرام ہے، لہٰذا ایسا گروی معاملہ ہرگز نہ کرنا چاہئیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2386   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2513  
2513. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2513]
حدیث حاشیہ:
یہودی کا نام ابوالشحم تھا۔
آپ ﷺ نے اس یہودی سے جو کے تیس صاع قرض لیے تھے اور جو زرہ گروی تھی اس کا نام ذات الفضول تھا۔
بعضوں نے کہا کہ آپ نے وفات سے پہلے یہ زرہ چھڑا لی تھی۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ کی وفات تک وہ گروی رہی۔
(وحیدی)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2513   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4467  
4467. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے وفات پائی تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس (30) صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4467]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابوبکر ؓ نے اس یہودی کا قرض ادا کرکے آپ کی زرہ چھڑالی، ان حالات میں اگر ذرا سی بھی عقل والا آدمی غور کرے گا تو صاف سمجھ لے گا کہ آپ سچے پیغمبر تھے۔
دنیا کے بادشاہوں کی طرح ایک بادشاہ نہ تھے۔
اگر آپ دنیا کے بادشاہوں کی طرح ہوتے تو لاکھوں کروڑوں روپے کی جائیداد اپنے بچوں اور بیویوں کے لیے چھوڑ دیتے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 4467   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2096  
2096. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے ادھار طعام خریدااور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2096]
حدیث حاشیہ:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بذات خود ایک یہودی سے ادھار خریدا۔
بلکہ اپنی زرہ اس کے ہاں گروی رکھ دی۔
سو یہ امر مروت کے خلاف نہیں ہے، کوئی امام ہو یا بادشاہ نبی سے کسی کا درجہ بڑا نہیں ہے۔
اپنا سودا بازار سے خود خریدنا اور خو دہی اس کو اٹھا کر لے آنا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔
اور جو اس کو برا یا عزت کے خلاف سمجھے وہ مردود و شقی ہے۔
بلکہ بہتر یہی ہے کہ جہاں تک ہو سکے انسان اپنا ہر کام خود ہی انجام دے تو اس کی زندگی پرسکون زندگی ہوگی۔
اسوہ حسنہ اسی کا نام ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2096   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2916  
2916. حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس صاع جوکے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ (راوی حدیث) یعلی کی روایت کے یہ الفاظ ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے لوہے کی ایک زرہ رہن رکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2916]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے زرہ رکھنے کا ثبوت ہوا۔
زرہ لوہے کا کرتہ جس سے جنگ میں سارا جسم چھپ جاتا ہے اور اس پر کسی نیزے یا برچھے کا اثر نہ ہوتا تھا۔
قدیم زمانے میں تقریباً ساری ہی دنیا میں میدان جنگ میں زرہ پہننے کا رواج تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2916   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2096  
2096. حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے ادھار طعام خریدااور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2096]
حدیث حاشیہ:
(1)
دیگر روایات سے پتہ چلتا ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اشیائے ضرورت کی خرید کا معاملہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے سپرد تھا،البتہ آپ نے امت کو تعلیم دینے کے لیے بعض اوقات خود بھی خریداری کی ہے۔
(2)
اس عنوان کامقصد یہ بیان کرنا ہے کہ بنفس نفیس خرید وفروخت کرنا مروت کے خلاف نہیں۔
بہرحال تواضع اور انکسار کے طور پر یہ امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی سرانجام دیتے تھے، چنانچہ آپ نے بذات خود ایک یہودی سے ادھار غلہ خریدا اور اپنی زرہ اس کے ہاں گروی رکھی۔
کوئی امام ہویا بادشاہ اس کا درجہ نبی سے بڑا نہیں ہے۔
اپنا سودا سلف خریدنا اور خود ہی اسے اٹھا کر لے جانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، اس لیے بہتر ہے کہ انسان اپنا کام خود کرے۔
ایسا کرنے سے اس کی زندگی بہت پرسکون ہوگی۔
(فتح الباری: 4/404)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2096   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2200  
2200. حضرت اعمش سے روایت ہے انھوں نے کہا: ہم نے ابراہیم نخعی سے قرض کے عوض گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انھوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ پھر انہوں نے حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ ادھار خریدا اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2200]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بوقت ضرورت غلہ ادھار پر خریدا جاسکتا ہے۔
ممکن ہے کہ مسلمانوں میں سے کسی کے پاس زائد غلہ نہ ہو یا اس بنا پر یہودی سے معاملہ کیا ہوکہ کوئی مسلمان رواداری کے طور پر اس کی قیمت وصول نہ کرتا، اس لیے آپ نے انھیں زحمت دینا گوارا نہ فرمایا۔
ایک دوسری روایت میں ہے:
آپ نے اس یہودی سے جو لیے تھے اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی تھی لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور اپنی گروی رکھی ہوئی زرہ قیمت دے کر واپس نہ لے سکے۔
حضرت ابو بکر ؓ نے اسے قیمت ادا کر کے زرہ واپس لی۔
(2)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ آپ کی زندگی کے آخری ایام کا ہے جبکہ صاحب تدبر حدیث نے اسے مدینہ طیبہ کے ابتدائی دور کا قرار دیا ہے۔
یہ ہے ان حضرات کا مبلغ علم؟ ان کے نزدیک یہ روایت قابل اعتماد نہیں ہے۔
(تدبر حدیث: 485/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2200   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2251  
2251. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے ادھار پر غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی لوہے کی زرہ گروی رکھ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2251]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام بخاری ؒ نے رہن رکھنے سے کفالت کا مسئلہ ثابت کیا ہے کیونکہ گروی رکھنے سے مقصود بھی کفالت ہی ہوتا ہے، لہٰذا کسی کی کفالت پر بھی کوئی معاملہ کیا جاسکتا ہے۔
(2)
دراصل امام بخاری ؒ کی عادت ہے کہ وہ بعض اوقات عنوان سے کسی حدیث کی طرف اشارہ کردیتے ہیں،چنانچہ انھوں نے خود کتاب الرہن میں ایک روایت ذکر کی ہے کہ حضرت ابراہیم نخعی کے پاس رہن اور بیع سلم میں کفیل کا ذکر کیا گیا تو انھوں نے اس کے ثبوت کے لیے مذکورہ حدیث عائشہ پیش کردی۔
(صحیح البخاري، الرھن، حدیث: 2509)
گویا ابراہیم نخعی نے بیع سلم میں خرید کردہ چیز موقع پر دینے کے لیے اس حدیث سے کفالت کو ثابت کیا ہے۔
امام بخاری ؒ کا بھی یہی مقصود ہے، لہٰذا یہ کہنا صحیح نہیں کہ مذکورہ حدیث پیش کردہ عنوان پر دلالت نہیں کرتی۔
والله أعلم.
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2251   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2386  
2386. حضرت اعمش بیان کرتے ہیں کہ ہم نے ابراہیم نخعی کے ہاں بیع سلیم (قرض) میں گروی رکھنے کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا: مجھ سے اسود نے بیان کیا کہ حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی ﷺ سے بیان کرتی ہیں کہ آپ نے ایک یہودی سے ایک معین مدت کے لیے (ادھار پر) غلہ خریدا اور اس کے پاس لوہے کی زرہ گروی رکھ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2386]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابن عباس ؓ سے مروی ایک حدیث ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
جب میرے پاس رقم نہیں ہو گی تو میں کسی قسم کی خریدوفروخت نہیں کروں گا۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3344)
امام بخاری ؒ نے مذکورہ عنوان اور پیش کردہ احادیث سے اس حدیث کے کمزور ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے۔
(2)
قیمت نہ ہونے کی دو صورتیں ہیں:
٭ رقم بالکل موجود نہ ہو، جیب میں بھی نہیں اور گھر میں بھی موجود نہیں۔
ایسی صورت میں بھی اشیائے ضرورت خریدی جا سکتی ہیں جیسا کہ دوسری حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
٭ وقتی طور پر رقم موجود نہ ہو تو بھی خریدوفروخت کرنے میں کوئی حرج نہیں جیسا کہ پہلی حدیث سے پتہ چلتا ہے، البتہ جس نے کوئی چیز خریدی لیکن قیمت ادا کرنے کا ارادہ نہیں بلکہ نیت میں فتور ہے تو ایسے شخص کے لیے خریدوفروخت درست نہیں جیسا کہ آئندہ عنوان سے پتہ چلتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2386   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2509  
2509. حضرت اعمش سے روایت ہے، انھوں نے کہا: ہم ابراہیم نخعی کے پاس بیع سلم میں گروی رکھنے اور ضمانت لینے کے متعلق گفتگو کررہے تھے تو انھوں نے حضرت اسود کے حوالے سے حضرت عائشہ ؓ سے مروی ایک حدیث بیان کی کہ نبی کریم ﷺ نے ایک یہودی سے ایک معین مدت کی ادائیگی تک اناج خریدا اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2509]
حدیث حاشیہ:
حضرت ابراہیم نخعی نے حدیث سے یہ استدلال کیا کہ جب قیمت کی ادائیگی کے لیے کوئی چیز گروی رکھنا جائز ہے تو قیمت والی چیز میں بھی جائز ہے۔
قیمت والی چیز سے مراد بیع سلم میں وہ جنس ہے جسے بعد میں ادا کیا جاتا ہے۔
اس عنوان کی اہمیت بایں طور ہے کہ زرہ اگرچہ ایک دفاعی اسلحہ ہے لیکن بوقت ضرورت اسے بھی گروی رکھا جا سکتا ہے۔
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ابو شحم نامی یہودی سے ایک دینار کے عوض بیس صاع جو خریدے تھے اور ایک سال تک اس کی ادائیگی طے ہوئی تھی لیکن مدت سے پہلے ہی آپ وفات پا گئے۔
آپ کے بعد حضرت ابوبکر ؓ نے قیمت ادا کر کے گروی شدہ زرہ واپس لی اور حضرت علی ؓ کے حوالے کر دی۔
(فتح الباري: 176/5)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2509   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2513  
2513. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک یہودی سے غلہ خریدا اور اس کے پاس اپنی زرہ گروی رکھ دی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2513]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس عنوان کا مقصد یہ ہے کہ غیر مسلم حضرات سے مالی معاملات کرنے جائز ہیں بشرطیکہ وہ حربی نہ ہوں، اس کی دو صورتیں ممکن ہیں:
٭ ان سے صلح کا معاہدہ ہو اور تجارتی لین دین کے لیے عام ہو۔
٭ وہ غیر مسلم کسی مسلمان حکومت کے ماتحت ہوں اور ان کی حیثیت ذمی کی ہو۔
جن غیر مسلم حکومتوں سے صلح نہیں یا جو غیر مسلم کسی مسلمان حکومت کے ماتحت نہیں ہیں ان سے مالی معاملات کرنے درست نہیں۔
(2)
مذکورہ حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ انتہائی متواضع تھے۔
آپ نے قرض لینے کا معاملہ کسی صحابی سے نہیں کیا کہ شاید وہ آپ سے غلے کی قیمت نہ لے یا اس وقت ان کے پاس زائد غلہ نہ ہو گا، اس لیے آپ نے ایک یہودی سے اناج قرض لیا اور اپنی زرہ اس کے پاس گروی رکھ دی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2513   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4467  
4467. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے وفات پائی تو آپ کی زرہ ایک یہودی کے پاس تیس (30) صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:4467]
حدیث حاشیہ:

اس یہودی کا نام ابو شحم تھا۔
جامع ترمذی کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے بیس صاع غلہ لیا تھا۔
(جامع الترمذي، البیوع، حدیث: 1214)
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ غلہ تیس صاع سے کچھ کم ہو گا۔
اگر کسر کو شمار کیا جائے تو تیس صاع اور اگر کسر کو شمار نہ کیا جائے تو بیس صاع ہے۔

رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر ؓ نے وہ زرہ یہودی سے چھڑا کر حضرت علی ؓ کے حوالے کی تھی۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے مراد رسول اللہ ﷺ کے بالکل آخری حالات بیان کرنا ہے اور یہ حدیث حضرت عمرو بن حارث ؓ سے مروی ایک حدیث کے مطابق ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے وفات کے وقت کوئی درہم و دینار نہیں چھوڑا تھا۔
(فتح الباري: 190/8)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 4467