Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
كتاب المواقيت
کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل
3. بَابُ : تَعْجِيلِ الظُّهْرِ فِي السَّفَرِ
باب: سفر میں ظہر جلدی پڑھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 499
أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ شُعْبَةَ، قال: حَدَّثَنِي حَمْزَةُ الْعَائِذِيُّ، قال: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" إِذَا نَزَلَ مَنْزِلًا لَمْ يَرْتَحِلْ مِنْهُ حَتَّى يُصَلِّيَ الظُّهْرَ"، فَقَالَ رَجُلٌ: وَإِنْ كَانَتْ بِنِصْفِ النَّهَارِ؟ قَالَ: وَإِنْ كَانَتْ بِنِصْفِ النَّهَارِ.
حمزہ عائذی کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ظہر سے پہلے) جب کسی جگہ اترتے ۱؎ تو جب تک ظہر نہ پڑھ لیتے وہاں سے کوچ نہیں کرتے، اس پر ایک آدمی نے کہا: اگرچہ ٹھیک دوپہر ہوتی؟ انہوں نے کہا: اگرچہ ٹھیک دوپہر ہوتی ۲؎۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 273 (1205)، (تحفة الأشراف: 555)، مسند احمد 3/120، 129 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: یعنی زوال (سورج ڈھلنے) سے پہلے اترتے، جیسا کہ دیگر روایات میں ہے۔ ۲؎: مراد زوال کے فوراً بعد ہے، کیونکہ ظہر کا وقت زوال کے بعد شروع ہوتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 499 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 499  
499 ۔ اردو حاشیہ: مطلب یہ ہے کہ سورج ڈھلتے ہی نماز ظہر پڑھ لیتے تھے۔ عرف عام میں اسے بھی سورج سر پر ہونے ہی سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 499   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1205  
´مسافر کو شک ہو کہ نماز کا وقت ہوا یا نہیں پھر وہ نماز پڑھ لے تو یہ جائز ہے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مقام پر قیام فرماتے تو ظہر پڑھ کر ہی کوچ فرماتے، تو ایک شخص نے ان سے کہا: گرچہ نصف النہار ہوتا؟ انہوں نے کہا: اگرچہ نصف النہار ہوتا۔ [سنن ابي داود/كتاب صلاة السفر /حدیث: 1205]
1205۔ اردو حاشیہ:
یہ اس صورت میں ہوتا جب زوال سے پہلے کوچ نہ کیا ہوتا، اگر زوال سے پہلے ہی سفر میں چل پڑتے، تو ظہر کو موخر کر کے عصر کے ساتھ اکھٹا کر کے پڑھتے تھے۔ علاوہ ازیں اس حدیث کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ نصف النہار (ذوال) سے قبل ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز پڑھ لیتے تھے بلکہ مطلب یہ ہے کہ زوال کے ہوتے ہی فوراً ظہر کی نماز ادا کر لیتے اور پھر سفر شروع کرتے کیونکہ زوال سے قبل تو ظہر کا وقت ہی نہیں ہوتا۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1205