سنن نسائي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
6. بَابُ : الْمُحَافَظَةِ عَلَى الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ
باب: پانچوں نمازوں کی محافظت کا بیان۔
حدیث نمبر: 462
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ ابْنِ مُحَيْرِيزٍ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي كِنَانَةَ يُدْعَى الْمُخْدَجِيّ سَمِعَ رَجُلًا بِالشَّامِ يُكْنَى أَبَا مُحَمَّدٍ، يَقُولُ: الْوِتْرُ وَاجِبٌ، قال الْمُخْدَجِيُّ: فَرُحْتُ إِلَى عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ فَاعْتَرَضْتُ لَهُ وَهُوَ رَائِحٌ إِلَى الْمَسْجِدِ فَأَخْبَرْتُهُ بِالَّذِي قال أَبُو مُحَمَّدٍ، فَقَالَ عُبَادَةُ: كَذَبَ أَبُو مُحَمَّدٍ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" خَمْسُ صَلَوَاتٍ كَتَبَهُنَّ اللَّهُ عَلَى الْعِبَادِ، مَنْ جَاءَ بِهِنَّ لَمْ يُضَيِّعْ مِنْهُنَّ شَيْئًا اسْتِخْفَافًا بِحَقِّهِنَّ كَانَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ أَنْ يُدْخِلَهُ الْجَنَّةَ، وَمَنْ لَمْ يَأْتِ بِهِنَّ فَلَيْسَ لَهُ عِنْدَ اللَّهِ عَهْدٌ إِنْ شَاءَ عَذَّبَهُ وَإِنْ شَاءَ أَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ".
ابن محریز سے روایت ہے کہ بنی کنانہ کے ایک آدمی نے جسے مخدجی کہا جاتا تھا شام میں ایک آدمی کو جس کی کنیت ابو محمد تھی کہتے سنا کہ وتر واجب ہے، مخدجی کہتے ہیں: تو میں عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا، اور میں نے مسجد جاتے ہوئے انہیں راستے ہی میں روک لیا، اور انہیں ابو محمد کی بات بتائی، تو عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ابو محمد نے جھوٹ کہا ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اللہ نے اپنے بندوں پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں، جو انہیں ادا کرے گا، اور ان میں سے کس کو ہلکا سمجھتے ہوئے ضائع نہیں کرے گا، تو اللہ کا اس سے پختہ وعدہ ہے کہ وہ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور جس نے انہیں ادا نہیں کیا تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں ہے، اگر چاہے تو اسے عذاب دے، اور چاہے تو اسے جنت میں داخل کرے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 337 (1420)، سنن ابن ماجہ/إقامة 194 (1401)، (تحفة الأشراف: 5122)، موطا امام مالک/صلاة اللیل 3/14 (14)، مسند احمد 5/315، 319، 322، سنن الدارمی/الصلاة 208 (1618) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن نسائی کی حدیث نمبر 462 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 462
462 ۔ اردو حاشیہ:
➊احناف وتر کو واجب کہتے ہیں مگر ان کا استدلال ایسی روایات سے ہے جو کمزور ہیں یا وہ ایک سے زائد معانی کا احتمال رکھتی ہیں، جب کہ ان کے مقابلے میں صحیح اور قطعی روایات جو تواتر کو پہنچتی ہیں، پانچ نمازوں کی فرضیت کا اعلان کرتی ہیں اور زائد کی فرضیت ووجوب کی نفی کرتی ہیں، لہٰذا ان کی بات صحیح نہیں، بلکہ اسے سنت مؤکدہ کہنا چاہیے جسے بلاوجہ ترک نہیں کیا جا سکتا۔
➋وتر کے معنی عربی میں ”طاق“ کے ہیں۔ تعداد رکعات کا لحاظ رکھتے ہوئے اس نماز کو وتر کہا جاتا ہے۔
➌حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کا استدلال واضح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صریح طور پر پانچ نمازوں کی فرضیت کا اظہار فرمایا اور انہیں دخول جنت کا لازمی سبب بتایا ہے۔ اگر وتر فرض ہوتا تو آپ اس کا بھی ذکر فرماتے۔
➍ «أَدْخَلَهُ اللہ الْجَنَّةَ» کیونکہ نماز دوسرے فرائض کی ادائیگی اور منہیات سے اجتناب کا سبب بنتی ہے، بلکہ ضامن ہے، اس لیے نمازی کے لیے دخول جنت کا انعام ہے، اولاً ہو یا ثانیاً۔
➎ ”چاہے تو جنت میں داخل کرے۔“ یہ اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت ہے کہ اپنے حقوق میں کوتاہی پر بازپرس نہ کرے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 462
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 425
´اوقات نماز کی حفاظت اور اہتمام کا بیان۔`
عبداللہ بن صنابحی نے کہا کہ ابومحمد کا کہنا ہے کہ وتر واجب ہے تو اس پر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: ابومحمد نے غلط کہا ۱؎، میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”اللہ تعالیٰ نے پانچ نماز فرض کی ہیں، جو شخص ان کے لیے اچھی طرح وضو کرے گا، اور انہیں ان کے وقت پر ادا کرے گا، ان کے رکوع و سجود کو پورا کرے گا تو اللہ تعالیٰ کا اس سے وعدہ ہے کہ اسے بخش دے گا، اور جو ایسا نہیں کرے گا تو اللہ کا اس سے کوئی وعدہ نہیں چاہے تو اس کو بخش دے، چاہے تو عذاب دے۔“ [سنن ابي داود/كتاب الصلاة /حدیث: 425]
425۔ اردو حاشیہ:
➊ ابومحمد صحابی ہیں۔ ان کے نام کی تعیین میں اختلاف ہے۔ مسعود بن اوس زید بن اصرم یا مسعود بن زید سبیع یا قیس بن عامرخولانی یا مسعود بن یزید سعد بن اوس قیس بن عبایہ وغیرہ کئی نام بیان ہوئے ہیں۔ [الإصابة لابن حجر]
➋ حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ”وتر پانچ نمازوں کی طرح فرض اور واجب نہیں ہے۔“ مگر مسنون و مؤکد ہونے میں کوئی اختلاف نہیں جیسے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں بھی وتر نہ چھوڑتے تھے۔
➌ کامل و مقبول نماز کے لیے تمام سنن و واجبات کو جاننا اور ان پر عمل کرنا چاہیے یعنی مسنون کامل وضو، مشروع افضل وقت، اعتدال ارکان اور حضور قلب وغیرہ۔
➍ اللہ کے وعدے، جو اس کی شریعت میں بیان کئے گئے ہیں، اعمال حسنہ ہی پر موقوف ہیں۔
➎ ان کے بغیر بھی اللہ جسے چاہے معاف فرما دے یا عذاب دے اسے کوئی نہیں پوچھ سکتا۔ «لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ» [الأنبيا ء: 23]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 425
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1420
´جو شخص وتر نہ پڑھے وہ کیسا ہے؟`
ابن محیریز کہتے ہیں کہ بنو کنانہ کے ایک شخص نے جسے مخدجی کہا جاتا تھا، شام کے ایک شخص سے سنا جسے ابومحمد کہا جاتا تھا وہ کہہ رہا تھا: وتر واجب ہے، مخدجی نے کہا: میں یہ سن کر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور ان سے بیان کیا تو عبادہ نے کہا: ابو محمد نے غلط کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: ”پانچ نمازیں ہیں جو اللہ نے بندوں پر فرض کی ہیں، پس جس شخص نے ان کو اس طرح ادا کیا ہو گا کہ ان کو ہلکا سمجھ کر ان میں کچھ بھی کمی نہ کی ہو گی تو اس کے لیے اللہ کے پاس جنت میں داخل کرنے کا عہد ہو گا، اور جو شخص ان کو ادا نہ کرے گا تو اس کے لیے اللہ کے پاس کوئی عہد نہیں، اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو اسے جنت میں داخل کرے“ ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1420]
1420. اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا کہ ”وتر“ فرض نمازوں کی طرح واجب نہیں ہیں اور یہی حال دیگر سنن کا ہے۔ مثلاً تحیۃ المسجد وغیرہ۔
➋ ترک نماز کفر ہے۔ ایسا شخص بھی اللہ کی مشیت میں ہے، چاہے تو عذاب دے یا چاہے تو بخش دے۔ (لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْأَلُونَ]
[الأنبیاء:23]
”اللہ جو کرے اس کا سوال نہیں ہوسکتا، پوچھ گچھ بندوں سے ہوگی۔“
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1420
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1401
´پنچ وقتہ نماز کی فرضیت اور ان کو پابندی سے ادا کرنے کا بیان۔`
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”پانچ وقت کی نمازیں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر فرض کی ہیں، لہٰذا جو کوئی ان کو بجا لائے اور ان کے حق کو معمولی حقیر سمجھ کر ان میں کچھ کمی نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کو جنت میں داخل کرنے کا وعدہ پورا کرے گا، اور جس کسی نے ان کو اس طرح ادا کیا کہ انہیں معمولی اور حقیر جان کر ان کے حق کی ادائیگی میں کوتاہی کی تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی وعدہ نہیں، چاہے تو اسے عذاب دے، اور چاہے تو بخش دے“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1401]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صرف پانچ نمازیں فرض ہیں۔
باقی سب نفل ہیں۔
لیکن بعض نمازوں کی تاکید زیادہ ہے بعض کی کم۔
تاہم ان کی ادایئگی میں بھی کوتاہی کرنا جائز نہیں۔
کیونکہ فرضوں کی کمی نوافل سے پوری ہوگی۔
(2)
کمی کرنے سے مراد بعض نمازیں ترک کردینا یا نماز کی ادایئگی کے دوران میں خشوع وخضوع وغیرہ کا خیال نہ رکھنا ہے۔
(3)
دین کے فرائض کے کما حقہ اہمیت نہ دینا اللہ کی رضا سے محرومی کا باعث ہے۔
(4)
نماز صحیح طریقے اور پابندی سے ادا کرنے والا یقیناً جنت میں جائے گا۔
اگرچہ بعض گناہوں کی وجہ سے کچھ وقت کے لئے جہنم میں بھی بھیج دیا جائےگا۔
(5)
نماز کو اہمیت نہ دینا مغفرت سے محرومی کا باعث بن سکتا ہے۔
اس لئے ترک نماز کو کفر قرار دیا گیا ہے کہ جس طرح کافر جنت میں نہیں جا سکتا۔
اسی طرح بے نماز بھی عذاب کا مستحق ہوگا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1401
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:392
392- مخدجی بیان کرتے ہیں: سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے کہا گیا: اے ابومحمد یہ کہتے ہیں: وتر واجب ہیں، تو سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا: ابومحمد نے غلط کہا ہے، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: ”پانچ نمازیں ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے دن اور رات میں بندوں پر لازم قرار دیا ہے، جو انہیں ادا کرے اور ان کے حق میں کسی چیز کی کوئی کمی نہ کرے، تو اللہ تعالیٰ پر یہ بات لازم ہے کہ اسے جنت میں داخل کرے اور جو شخص انہیں ادا نہین کرتا، تو اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کے پاس کوئی عہد نہیں ہوگا۔ اگر وہ چاہے گا، تو اس کی مغفرت کردے گا، اگر چاہے گا تو، اسے عذاب د۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:392]
فائدہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وتر واجب نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 392