صحيح البخاري
كِتَاب السَّلَمِ
کتاب: بیع سلم کے بیان میں
3. بَابُ السَّلَمِ إِلَى مَنْ لَيْسَ عِنْدَهُ أَصْلٌ:
باب: اس شخص سے سلم کرنا جس کے پاس اصل مال ہی موجود نہ ہو۔
حدیث نمبر: 2246
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنَا عَمْرٌو، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْبَخْتَرِيِّ الطَّائِيَّ، قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ السَّلَمِ فِي النَّخْلِ، قَالَ:" نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ النَّخْلِ، حَتَّى يُوكَلَ مِنْهُ، وَحَتَّى يُوزَنَ"، فَقَالَ الرَّجُلُ: وَأَيُّ شَيْءٍ يُوزَنُ، قَالَ رَجُلٌ: إِلَى جَانِبِهِ حَتَّى يُحْرَزَ، وَقَالَ مُعَاذٌ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ عَمْرٍو، قَالَ أَبُو الْبَخْتَرِيِّ سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، نَهَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِثْلَهُ.
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، انہیں عمرو نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ میں نے ابوالبختری طائی سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کھجور کے درخت میں بیع سلم کے متعلق پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ درخت پر پھل کو بیچنے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت تک کے لیے منع فرمایا تھا جب تک وہ کھانے کے قابل نہ ہو جائے یا اس کا وزن نہ کیا جا سکے۔ ایک شخص نے پوچھا کہ کیا چیز وزن کی جائے گی۔ اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہما کے قریب ہی بیٹھے ہوئے ایک شخص نے کہا کہ مطلب یہ ہے کہ اندازہ کرنے کے قابل ہو جائے اور معاذ نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے عمرو نے کہ ابوالبختری نے کہا کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا تھا۔ پھر یہی حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2246 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2246
حدیث حاشیہ:
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک اس کی پختگی نہ کھل جائے اس وقت تک سلم جائز نہیں کیوں کہ یہ سلم خاص درختوں کے پھل پر ہوئی۔
اگر مطلق کھجور میں کوئی سلم کرے تو وہ جائز ہے۔
گو درخت پر پھل نکلے بھی نہ ہوں۔
یا مسلم الیہ کے پاس درخت بھی نہ ہوں۔
اب بعض نے کہا کہ یہ حدیث درحقیقت بعد والے باب سے متعلق ہے۔
بعض نے کہا اسی باب سے متعلق ہے اور مطابقت یوں ہوتی ہے کہ جب معین درختوں میں باوجود درختوں کے سلم جائز نہ ہوئی تو معلوم ہوا کہ درختوں کے وجود سے سلم پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور اگر درخت نہ ہوں جو مال کی اصل ہیں جب بھی سلم جائز ہوگی۔
باب کا یہی مطلب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2246
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2246
حدیث حاشیہ:
(1)
بیع سلم کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص پیشگی رقم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ اتنی مدت کے بعد اتنے من کھجوریں درکار ہیں۔
بیع سلم کے اعتبار سے ایسا کرنا جائز ہے۔
اس میں یہ بحث نہیں ہوگی کہ کہاں سے لاکر دے گا، اس کے پاس باغ وغیرہ ہے یا نہیں۔
دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص پیشگی رقم دیتے وقت کہتا ہے کہ فلاح باغ کے فلاں درختوں پر لگی ہوئی کھجوریں درکار ہیں۔
ایسا کرنا جائز نہیں جب تک کھجوروں میں کھانے کی صلاحیت ظاہر نہ ہوجائے۔
باغ اور درخت کے تعین سے نقصان اور دھوکے کا اندیشہ ہے،اس لیے ایسا سودا جائز نہیں ہوگا۔
(2)
امام بخاری ؒ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ فروخت کار کے پاس کسی چیز کی اصل کا نہ ہونا اس وقت فائدہ مند ہے جب عام پھل فراہم کرنے کا سودا لیکن جب کسی خاص باغ کے خاص درختوں پر لگے ہوئے پھلوں کا سودا ہوگا تو اصل ہونے کے باوجود اس وقت تک سودا جائز نہیں ہوگا جب تک اس پھل میں صلاحیت پیدا نہ ہوجائے۔
اس کی مزید وضاحت آئندہ ہوگی۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2246
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3873
ابو البختری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ سے کھجوروں کی بیع کے بارے میں پوچھا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کو بیچنے سے منع فرمایا، حتیٰ کہ وہ کھا سکے یا کھلا سکے اور وزن کے قابل ہو جائیں، وزن کے قابل ہونے سے کیا مراد ہے؟ تو ان کے پاس بیٹھے ہوئے ایک آدمی نے کہا، درخت پر اس کا اندازہ لگایا جا سکے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3873]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حتي يحزر کا مقصد ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکے کہ وہ کتنی ہوں گی،
درختوں پر پھل کا اندازہ لگا لیا جاتا تھا کہ وہ پکنے کے بعد کتنا ہو گا،
اور بعض نے اس کا یہ معنی کیا ہے کہ اس کی حفاظت و صیانت کی جائے،
بہرحال اصل مقصد پکنے کی صلاحیت کا ظہور ہے،
کیونکہ اس کے بعد ہی مالک اس کی حفاظت کا اہتمام کرتا ہے اور اس کی مقدار کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3873