أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْأَشْعَثِ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قالت: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُحِبُّ التَّيَمُّنَ مَا اسْتَطَاعَ فِي طُهُورِهِ وَتَنَعُّلِهِ وَتَرَجُّلِهِ، وَقَالَ: بِوَاسِطٍ فِي شَأْنِهِ كُلِّهِ".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 421
421۔ اردو حاشیہ: جوتا پہننا اور کنگھی کرنا اگرچہ عبادات میں داخل نہیں مگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں بھی دائیں جانب کو اختیار کرنا پسند فرمایا۔ بعض لوگ عادات اور عبادات میں فرق کرتے ہیں اور عادات میں اتباع رسول کو صرف مستحسن قرار دیتے ہیں، ضروری نہیں سمجھتے، لیکن محدثین دونوں ہی میں اتباع کو ضروری سمجھتے ہیں، الا یہ کہ وہ عادات صرف خصوصی ماحول کا نتیجہ یا آپ کے خاص مزاج و طبیعت کا حصہ ہوں۔ مزید دیکھیے حدیث 112 اور اس کے فوائد۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 421
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 41
´ ہر اچھے کام میں دائیں جانب سے ابتداء`
«. . . وعن عائشة رضي الله عنها قالت: كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم يعجبه التيمن في تنعله وترجله وطهوره، وفي شانه كله . . .»
”. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے، بالوں میں کنگھی کرنے اور وضو کرنے بلکہ ہر کام کیلئے دائیں جانب کو پسند فرماتے تھے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 41]
� لغوی تشریح:
«يُعْجِبُهُ التَّيَمُّنُ» یعنی آپ کو دائیں جانب کو مقدم کرنا محبوب و پسندیدہ تھا۔
«فِيْ تَنَعُّلِهِ» ”جوتا پہننے میں۔“
«وَتَرَجُّلِهِ» ”اور بالوں میں کنگھی کرنے میں۔“
فوائد و مسائل:
➊ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہر اچھے کام میں دائیں جانب کو پسند فرماتے، مثلاً مسجد میں داخل ہونے، نماز سے فارغ ہونے کے وقت سلام پھیرنے، اعضائے وضو کو دھونے، کھانے پینے، مصافحہ کرنے، دودھ دوہنے، لباس پہننے، سرمہ لگانے اور مسواک وغیرہ کرنے میں۔
➋ دور جدید کا مسلمان ان گراں مایہ چیزوں کو فراموش کر بیٹھا ہے اور غیروں کی نقالی میں دائیں کی بجائے بائیں جانب کو پسند کرنے لگا ہے۔ یہ بڑی قابل افسوس بات ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 41
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 168
´ ہر کام میں داہنی طرف سے کام کی ابتداء کرنا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْجِبُهُ التَّيَمُّنُ فِي تَنَعُّلِهِ وَتَرَجُّلِهِ وَطُهُورِهِ وَفِي شَأْنِهِ كُلِّهِ . . .»
”. . . ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ وہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جوتا پہننے، کنگھی کرنے، وضو کرنے اور اپنے ہر کام میں داہنی طرف سے کام کی ابتداء کرنے کو پسند فرمایا کرتے تھے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ التَّيَمُّنِ فِي الْوُضُوءِ وَالْغُسْلِ: 168]
تخريج الحديث:
[152۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 21 باب التيمن فى الوضوء والغسل 168، مسلم 268، ترمذي 608]
لغوی توضیح:
«التَّيَمُّن» تمام کاموں میں دائیں ہاتھ، دائیں پاؤں اور دائیں جانب سے ابتدا کرنا۔
«تَنَعُّلِه» جوتی پہننا۔
«تَرَجُّلِه» سر یا داڑھی میں کنگھی کرنا۔
«طُهُوْرِه» وضو کرنا۔
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 152
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 112
´کس پاؤں کو پہلے دھوئے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا ذکر کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے وضو کرنے میں، جوتا پہننے میں، اور کنگھی کرنے میں طاقت بھر داہنی جانب کو پسند کرتے تھے۔ شعبہ کہتے ہیں: پھر میں نے اشعث سے مقام واسط میں سنا وہ کہہ رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام امور کو داہنے سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے، پھر میں نے کوفہ میں انہیں کہتے ہوئے سنا کہ آپ حتیٰ المقدور داہنے سے شروع کرنے کو پسند کرتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 112]
112۔ اردو حاشیہ:
➊ معلوم ہوا کہ حدیث میں دونوں لفظ ہیں۔ ایک کا ذکر ایک موقع پر ہو گیا اور دوسرے کا دوسرے موقع پر، یہ دونوں الفاظ ایک دوسرے کے خلاف نہیں، بلکہ مآل ایک ہی ہے۔
➋ دیگر پسندیدہ کاموں کی طرح وضو میں بھی دھوئے جانے والے اعضاء میں دائیں جانب سے ابتدا کرنا مستحب ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نیک اور جنتی لوگوں کے لیے ﴿اصحاب الیمین﴾ [الواقعة: 27: 56]
”دائیں طرف والے“ کا لقب پسند فرمایا ہے۔ قدرتی طور پر عموماً دائیں جانب میں بائیں سے زیادہ قوت ہوتی ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شریعت کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ پسندیدہ اور تزیین والے کاموں میں دائیں جانب سے ابتدا کرنا مستحب ہے، مثلاً: لباس پہننا، مسجد میں داخل ہونا، کنگھی کرنا اور نماز میں سلام پھیرنا وغیرہ اور جو کام اس کے برعکس ہیں، انہیں بائیں جانب سے شروع کرنا مستحب ہے، مثلاً: بیت الخلا میں جانا، مسجد سے نکلنا اور لباس اتارنا وغیرہ۔ دیکھیے: [شرح مسلم للنوي: 205/3، تحت حدیث: 268]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 112
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5062
´بالوں میں داہنی طرف سے کنگھی کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کاموں کو) دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے (کوئی چیز) لیتے تھے تو دائیں ہاتھ سے، دیتے تھے تو دائیں ہاتھ سے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر کام میں داہنی طرف سے ابتداء کرنا پسند فرماتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5062]
اردو حاشہ:
تمام معاملات، مراد وہ معاملات ہیں جو دائیں سے مناسبت رکھتے ہیں ورنہ استنجا کرنا، ناک جھاڑنا وغیرہ بائیں ہی سے مستحب ہیں، نیز معاملات ایک ہاتھ سے سرانجام دیے جاسکتے ہوں ورنہ جو کام دونوں ہاتھوں سے ہوتے ہیں، وہاں دونوں ہاتھ استعمال ہوں گے۔ مثلاً: روٹی پکانا بلکہ بعض چیزوں کو کھانا، جیسے ہڈی سے گوشت نوچنا۔ البتہ ایسے کاموں میں بھی دائیں سے ابتداء کی جائے، نیز یہ صرف مستحب ہے۔ اسے فرض نہیں سمجھ لینا چاہیے۔ ہاں کھانے پینے میں دائیں ہاتھ کا استعمال ضروری ہے، نیز عبادات میں کہ عبادات عادات سے مختلف ہوتی ہیں۔ مزید دیکھئے، حدیث: 112)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5062
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5242
´دائیں طرف سے کنگھی شروع کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طاقت بھر دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے: وضو کرنے، جوتے پہننے اور کنگھی کرنے (وغیرہ امور) میں۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5242]
اردو حاشہ:
دیکھیے، حدیث: 5062۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5242
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 33
´داہنا ہاتھ وضو اور کھانے کے لیے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ:" كَانَتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيُمْنَى لِطُهُورِهِ وَطَعَامِهِ، وَكَانَتْ يَدُهُ الْيُسْرَى لِخَلَائِهِ، وَمَا كَانَ مِنْ أَذًى. . .»
”. . . ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا داہنا ہاتھ وضو اور کھانے کے لیے، اور بایاں ہاتھ پاخانہ اور ان چیزوں کے لیے ہوتا تھا جن میں گندگی ہوتی ہے“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 33]
فوائد و مسائل:
سنن ابي داود حدیث [33، 34] ضعیف ہیں۔
تاہم سنن ابي داود حدیث [32] صحیح ہے اور اس سے یہ مسئلہ ثابت ہے جیسا کہ اس کے فوائد کی تفصیل گزری۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 33
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث401
´دائیں طرف سے وضو شروع کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب طہارت (وضو و غسل) کرتے اور جب کنگھا کرتے، اور جب جوتے پہنتے تو دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 401]
اردو حاشہ:
(1)
”طهور“ سے مراد ہروہ عمل ہےجس کا تعلق صفائی اور پاکیزگی سے ہو۔
یہاں اس سے مراد وضو اور غسل ہے۔
(2)
ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں:
(وَفِي شَاْنِه كُلِّه)
اور اپنے ہر کام میں یعنی دوسرے کا موں میں بھی دائیں طرف سے شروع کرنا پسند فرماتے تھے۔ (صحيح البخاري، الوضوء، باب التيمن في الوضوء والغسل، حديث: 168 وصحيح مسلم، الطهارة، باب التيمن في الطهور وغيره، حديث: 268)
لیکن اس سے بعض چیزیں مستثنی ہیں مثلاً استنجاء کرنا، مسجد سے باہر نکلنا، جوتا اتارنا، ناک صاف کرنا، اور اس قسم کے دوسرے کام جن میں طبعی کراہت پائی جاتی ہے۔
(3)
جو کام صرف ایک ہاتھ سے کیے جاتے ہیں۔
ان میں (تيمن)
سے مراد دائیں ہاتھ سے کام کرنا ہوگا، مثلاً:
مصافحہ کرنا، کوئی چیز لینا یا دینا، لکھنا وغیرہ۔
بعض علماء نے اس حدیث کی روشنی میں کہا ہے کہ گھڑی بھی دائیں ہاتھ میں پہننا بہتر ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 401
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 616
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے: ”کہ رسول اللہ ﷺ وضو میں جب وضو فرماتے، کنگھی کرنے میں جب کنگھی کرتے، اور جوتا پہننے میں جب جوتا پہنتے، دائیں طرف سے آغاز کرنا پسند فرماتے تھے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:616]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
(1)
التَّيَمُّنَ:
دائیں طرف سے آغاز کرنا،
اس فعل کا تعلق ہاتھ سے ہویا پاؤ سےیاجانب سے۔
(2)
تَرَجُّل:
کنگھی کرنا۔
(3)
انْتِعَالٌ:
نعل (جوتا،
چپل)
سے ہے،
جوتا پہننا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 616
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 617
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے: ”کہ رسول اللہ ﷺ اپنے تمام کاموں میں دائیں طرف سے ابتدا کرنا پسند فرماتے تھے، اپنے جوتے پہننے میں، اپنی کنگھی کرنے میں اور اپنے وضو کرنے میں۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:617]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
وہ کام جن کا تعلق نظافت وطہارت وپاکیزگی سے ہے اور ان سے حسن ونکھار یا عزت وشرف کا اظہار ہوتا ہے،
ان میں عام طور پر آپ ﷺ دائیں طرف سے آغاز فرماتے تھے،
بعض جگہ آپ نے بائیں طرف سے بھی آغاز فرمایا ہے،
جیسا کہ جوتا پہلے بایاں اتارتے،
مسجد سے پہلے بایاں پاؤں نکالتے،
بیت الخلاء میں پہلے بایاں پاؤں داخل فرماتے تھے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 617
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5854
5854. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہ کہ نبی ﷺ طہارت کرنے کنگھی کرنے اور جوتا پہننے میں دائیں جانب کو پسند کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5854]
حدیث حاشیہ:
ایک روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ ہر کام میں آپ دائیں طرف کو پسند فرماتے مگر بعض کام مستثنیٰ ہیں جیسے جوتا اتارنا، مسجد سے باہر نکلنا یا پاخانہ جانا وغیرہ ان سے پہلے بایاں پیر استعمال کرنا ہے۔
اسلام میں دائیں اور بائیں میں کافی امتیاز برتاگیا ہے۔
قرآن مجید نے اہل جنت کو ”اصحاب الیمین“ یعنی دائیں طرف والے اور اہل دوزخ کو ”اصحاب الشمال“ بائیں طرف والے کہا ہے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ صرف مجھ کو بلکہ جملہ قارئین بخاری شریف کو روز محشر اصحاب الیمین میں داخلہ نصیب فرمائے، آمین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5854
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5926
5926. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ہر کام میں جہاں تک ممکن ہوتا دائیں جانب سے شروع کرنے کو پسند کرتے تھے کنگھی کرنے اور وضو کرنے میں بھی (اسی جانب کو اختیار کرتے) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5926]
حدیث حاشیہ:
آپ دائیں طرف سے شروع کرتے تھے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5926
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5380
5380. سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ممکن حد تک وضو کرنے، جوتا پہننے اور کنگھی کرنے میں دائیں جانب (سے ابتدا کرنے) کو پسند کرتے تھے۔ راوئ حدیث (شعبہ) جب واسط شہر میں تھے تو اس کو یوں بیان کرتے: ہر تکریم والے کام میں آپ ﷺ میں آپ ﷺ اپنی دائیں جانب سے ابتدا کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5380]
حدیث حاشیہ:
حدیث کے تر جمہ میں لا پرواہی:
آج کل جو تراجم بخاری شریف شائع ہو رہے ہیں ان میں بعض حضرات ترجمہ کرتے وقت اس قدر کھلی غلطی کرتے ہیں جسے لا پرواہی کہنا چاہیئے۔
چنانچہ روایت میں لفظ ''واسط'' سے شہر جہاں راوی کی سکو نت رکھتے تھے مراد ہے مگر برخلاف ترجمہ یوں کیا گیا ہے۔
کہ (اشعث نے واسط کے حوالے سے اس سے پہلے بیان کیا) (دیکھو تفہیم البخاری پارہ: 22 ص: 85)
گویا مترجم صاحب کے نزدیک واسط کسی راوی کا نام ہے حالانکہ یہاں شہر واسط مراد ہے جو بصرہ کے قریب ایک بستی ہے۔
شارحین لکھتے ہیں وکان قال بواسط أي کان شعبة قال ببلد واسط في الزمان السابق في شانه کله أي زاد علیه ھذہ الکلمة قال بعض المشائخ القائل بواسط ھو أشعث واللہ أعلم کذا في الکرماني (حاشیہ بخاری، پارہ: 22 ص 810)
یعنی شعبہ نے یہ لفظ کہے تو وہ واسط میں تھے بعض لوگوں نے اس سے اشعث کومراد لیا ہے، واللہ أعلم۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5380
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:168
168. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ نے جوتا پہننا ہوتا، کنگھی کرنی یا پاکی حاصل کرنی ہوتی، الغرض آپ کو ہر ذی شان کام میں دائیں جانب سے آغاز کرنا اچھا لگتا تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:168]
حدیث حاشیہ:
1۔
عربی زبان میں تیمُّن کے کئی معنی ہیں۔
مثلاً دائیں جانب سے ابتدا کرنا، دائیں ہاتھ سے کوئی چیز لینا، تبرک حاصل کرنا اور قسم کھانا، وغیرہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مذکورہ حدیث تیمُّن کا معنی متعین فرمایا کہ اس سے مراد دائیں جانب سے آغاز کرنا ہے۔
یہ لفظ سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر کام میں تیمُّن پسند تھا۔
(فتح الباري: 358/1)
امام بخاری کی عنوان بندی کے متعلق معروف عادت ہے کہ جب انھیں کسی زیر بحث مسئلے کے استدلال میں تنگی نظر آتی ہے تو عنوان کو وسعت دینے کے لیے اس کے ساتھ اسی طرح کی کوئی اور چیز شامل کر دیتے ہیں جس سے مطلب حاصل کرنے میں آسانی ہو جاتی ہے یہاں بھی وضو میں دائیں جانب سے آغاز کے متعلق جب احادیث میں تنگی نظر آئی تو آپ نے وضو کے ساتھ غسل کا مسئلہ شامل کردیا تاکہ غسل کے متعلق مسئلہ تیمُّن سے وضو میں دائیں جانب سے آغاز کرنے کا مسئلہ واضح ہو جائے کیونکہ اس مسئلے میں غسل اور وضو کا حکم یکساں ہے چنانچہ جب غسل میت کے وضو میں دائیں جانب سے شروع کرنا مطلوب ہے تو پھر نماز کے وضو میں رعایت بدرجہ اولیٰ ملحوظ رہنی چاہیے۔
2۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو غسل دینے کے متعلق جو ہدایات دی تھیں، ان میں دو باتیں ہیں۔
(1)
۔
دائیں جانب سے شروع کرنا۔
(2)
۔
مقامات وضو سے شروع کرنا ان دونوں باتوں پر بیک وقت عمل کی یہی صورت ہو سکتی ہے کہ غسل کا آغاز اعضائے وضو سے اسی طرح کیا جائے کہ پہلے میت کا دایاں ہاتھ دھویا جائے پھر بایاں ہاتھ اسی طرح جب پاؤں دھونے کی نوبت آئے تو پہلے دایاں پاؤں پھر بایاں پاؤں دھویا جائے۔
اس کے بعد تمام جسم کو غسل دیا جائے۔
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دوسرے نمبر پر بیان کیا ہے حالانکہ اس میں لفظ ”طہور“ موجود ہےجو وضو کرتے وقت دائیں جانب سے شروع کرنے کے متعلق بڑی وزنی دلیل ہے لیکن آپ نے اپنے عنوان کے لیے اس حدیث کو بنیاد نہیں بنایا کیونکہ اس حدیث میں تیمُّن اور طہور کے الفاظ اشتراک واجمال کی وجہ سے مقصد کے لیے نص نہیں ہیں جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ہے کہ لفظ تیمُّن دائیں جانب سے شروع کرنے، قسم کھانے، تبرک حاصل کرنے اور دائیں ہاتھ سے لینے کے معانی میں مشترک ہے اسی طرح لفظ طہور میں اجمال ہے کہ اس سے مراد بدن کی طہارت ہے یا کپڑے کی پھر اس سے مراد غسل ہے یا وضو انہی وجوہات کی بنا پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو دوسرا درجہ دیا اور حدیث اُم عطیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو پہلا درجہ دے کر اس سےمسئلہ زیر بحث ثابت فرمایا۔
4۔
دائیں جانب اختیار کرنے کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ جن امور کا تعلق تکریم و تعظیم اور تزئین و تحسین سے ہے وہ دائیں جانب سے شروع کیے جائیں، مثلاً لباس زیب تن کرنا، موزے پہننا، مسجد میں داخل ہونا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا، ناخن کاٹنا، مونچھیں مونڈنا، بالوں میں کنگھی کرنا، بغلوں کے بال اکھاڑنا، سر منڈوانا، نماز میں سلام پھیرنا، اعضائے طہارت دھونا، بیت الخلاء سے نکلنا، کھانا، پینا، مصافحہ کرنا، حجر اسود کو بوسہ دینا وغیرہ اور جو امور ان کے برعکس ہیں ان میں بائیں جانب اختیار کی جائے، مثلاً:
بیت الخلاء میں داخل ہونا، مسجد سے نکلنا، استنجا کرنا، ناک صاف کرنا، کپڑے یا موزے یا جرابیں اتارنا وغیرہ نیز بعض اعضائے وضو ایسے بھی ہیں۔
جن میں دائیں یا بائیں کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا بلکہ انہیں یکبار ہی دھونا پڑتا ہے مثلاً ہاتھ کان رخسار وغیرہ۔
(عمدة القاري: 472/2)
5۔
بعض روایات میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حتی المقدور دائیں جانب اہتمام کرتے۔
(صحیح البخاري، الصلاة، حدیث: 426)
اس کا مطلب یہ ہے کہ دائیں جانب اختیار کرنے میں اگر کوئی رکاوٹ آجائے تو پھر بائیں جانب اختیار کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباري: 354/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 168
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:426
426. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: نبی ﷺ جہاں تک ممکن ہوتا اپنے تمام اچھے کاموں، مثلا: طہارت حاصل کرنے، کنگھی کرنے اور جوتا پہننے میں دائیں طرف سے شروع کرنے کو پسند فرماتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:426]
حدیث حاشیہ:
1۔
حتی المقدور دائیں جانب سے شروع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ دائیں جانب اختیار کرنے میں اگر کوئی رکاوٹ آجائے تو پھر بامر مجبوری بائیں جانب اختیار کرنے میں چنداں حرج نہیں، نیز ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو ہر ذی شان کا م کا دائیں جانب سے آغاز کرنا اچھا لگتا تھا۔
(فتح الباري: 678/1)
دائیں جانب اختیار کرنے کے متعلق قاعدہ یہ ہے کہ جن امور کا تعلق تکریم وتعظیم یا تزئین وتحسین سے ہے، وہ دائیں جانب سے شروع کیے جائیں اور جو امور ان کے برعکس ہیں ان میں بائیں جانب اختیار کی جائے۔
اس حدیث کی مکمل تشریح پہلے ہوچکی ہے۔
اس لیے یہاں ہم اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 168)
2۔
احناف کے نزدیک دائیں جانب سے آغاز کرنابطور عادت کے تھا بطور عبادت کے نہیں تھا، اگربطور عبادت کے ہوتا تو رسول اللہ ﷺ کی ہمیشگی سے یہ افعال مسنون ہوجاتے، کیونکہ ان کے نزدیک تعبد اور تعود میں فرق ہے، لہذا ان افعال کو ان کے ہاں مستحب کہا گیا ہے۔
ہمارے ہاں رسول اللہ ﷺ کےافعال کی یہ تفریق اسوہ حسنہ کے منافی ہے۔
آپ کے جملہ افعال ہمارے لیے مسنون ہیں۔
اگرچہ وہ زندگی میں ایک مرتبہ ہی کیوں نہ ادا ہو۔
سنت کے ثبوت کے لیے عبادت اور مواظبت (ہمیشگی)
کی شرط صحیح نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 426
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5380
5380. سیدنا عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ ممکن حد تک وضو کرنے، جوتا پہننے اور کنگھی کرنے میں دائیں جانب (سے ابتدا کرنے) کو پسند کرتے تھے۔ راوئ حدیث (شعبہ) جب واسط شہر میں تھے تو اس کو یوں بیان کرتے: ہر تکریم والے کام میں آپ ﷺ میں آپ ﷺ اپنی دائیں جانب سے ابتدا کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5380]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کی وضاحت ہم کتاب الوضوء، باب التیمن (حدیث: 168)
میں کر آئے ہیں۔
بہرحال جو کام تکریم کے ہوتے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں دائیں جانب سے شروع کرتے، مثلاً:
وضو، غسل وغیرہ۔
علماء نے اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ دائیں جانب اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے پسند کرتے تھے۔
ممکن ہے کہ دائیں جانب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طبعی چیز تھی، اس لیے یہ ادا اللہ تعالیٰ کو بھی محبوب ہے کیونکہ محب کے لیے محبوب کا فعل بھی محبوب ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5380
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5854
5854. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہ کہ نبی ﷺ طہارت کرنے کنگھی کرنے اور جوتا پہننے میں دائیں جانب کو پسند کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5854]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے تمام کاموں میں دائیں جانب کو پسند کرتے تھے۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 168)
مگر بعض کام اس سے مستثنیٰ ہیں، مثلاً:
جوتا اتارنا، مسجد سے نکلنا اور لیٹرین جانا وغیرہ۔
(2)
بہرحال جو کام تکریم و زینت کے ہیں انہیں دائیں جانب سے شروع کرنا مستحب ہے۔
اسلام میں دائیں، بائیں میں امتیاز کیا گیا ہے۔
قرآن مجید میں اہل جنت کو اصحاب الیمین، دائیں جانب والے اور اہل دوزخ کو اصحاب الشمال، بائیں جانب والے کہا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اصحاب الیمین میں شامل فرمائے۔
آمین
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5854
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5926
5926. سیدہ عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ ہر کام میں جہاں تک ممکن ہوتا دائیں جانب سے شروع کرنے کو پسند کرتے تھے کنگھی کرنے اور وضو کرنے میں بھی (اسی جانب کو اختیار کرتے) [صحيح بخاري، حديث نمبر:5926]
حدیث حاشیہ:
(1)
ترجیل، بالوں میں تیل لگانے، کنگھی کرنے اور انہیں سنوارنے کو کہتے ہیں، خواہ وہ بال سر کے ہوں یا داڑھی کے۔
لیکن ہر وقت انسان اپنی زیب و زینت میں مگن رہے، یہ انداز اختیار کرنا شرعی ذوق کے منافی ہے۔
بالوں کو سنوارنے کی اجازت ضرور ہے لیکن اعتدال کے ساتھ اور ایک دن چھوڑ کر یہ اہتمام ہونا چاہیے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کنگھی کرنے سے منع فرمایا ہے سوائے اس کے کہ ایک دن چھوڑ کر ہو۔
(سنن اأبي داود، الترجل، حدیث: 4159)
بہرحال تکلفات سے پرہیز ایمان کا حصہ ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
”سادگی ایمان سے ہے۔
“ (سنن ابن ماجة، الزھد، حدیث: 4118) (2)
سادہ عادات کا حامل انسان عام نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے جبکہ تکلفات کرنے والا بعض اوقات ایک بڑی نعمت کو بھی اپنے معیار سے کم تر خیال کر کے شکر کے بجائے شکوہ کرنے لگتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5926