صحيح البخاري
كِتَاب السَّلَمِ
کتاب: بیع سلم کے بیان میں
2. بَابُ السَّلَمِ فِي وَزْنٍ مَعْلُومٍ:
باب: بیع سلم مقررہ وزن کے ساتھ جائز ہے۔
حدیث نمبر: 2243
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنِ ابْنِ أَبِي الْمُجَالِدِ، وحَدَّثَنَا يَحْيَى، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْمُجَالِدِ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدٌ أَوْ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي الْمُجَالِدِ، قَالَ: اخْتَلَفَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، وَأَبُو بُرْدَةَ فِي السَّلَفِ، فَبَعَثُونِي إِلَى ابْنِ أَبِي أَوْفَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ:" إِنَّا كُنَّا نُسْلِفُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَبِي بَكْرٍ، وَعُمَرَ فِي الْحِنْطَةِ، وَالشَّعِيرِ، وَالزَّبِيبِ، وَالتَّمْرِ"، وَسَأَلْتُ ابْنَ أَبْزَى، فَقَالَ: مِثْلَ ذَلِكَ.
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابن ابی مجالد نے (تیسری سند) اور ہم سے یحییٰ نے بیان کیا، ان سے وکیع نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے، ان سے محمد بن ابی مجالد نے۔ (دوسری سند) ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا، ان سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ مجھے محمد اور عبداللہ بن ابی مجالد نے خبر دی، انہوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن شداد بن الہاد اور ابوبردہ میں بیع سلم کے متعلق باہم اختلاف ہوا۔ تو ان حضرات نے مجھے ابن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بھیجا۔ چنانچہ میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کے زمانوں میں گیہوں، جَو، منقی اور کھجور کی بیع سلم کرتے تھے۔ پھر میں نے ابن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے بھی یہی جواب دیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2243 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2243
حدیث حاشیہ:
حافظ ؒ فرماتے ہیں:
أجمعوا علی أنه إن کان في السلم ما یکال أو یوزن فلا بد فیه من ذکر الکیل المعلوم و الوزن المعلوم فإن کان فیما لا یکال و لا یوزن فلا بد فیه من عدد معلوم۔
یعنی اس امر پر اجماع ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ یا وزن کے قابل ہیں ان کا وزن مقرر ہونا ضروری ہے اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے۔
حدیث مذکورہ سے معلوم ہوا کہ مدینہ میں اس قسم کے لین دین کا عام رواج تھا۔
فی الحقیقت کاشتکاروں اور صناعوں کو پیشگی سرمایہ کی ضرورت ہوتی ہے جو اگر نہ ہو تو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔
سند میں حضرت وکیع بن جراح کا نام آیا۔
اور ان سے بہت سی احادیث مروی ہیں۔
کوفہ کے باشندے ہیں۔
بقول بعض ان کی اصل نیشاپور کے قریہ سے ہے۔
انہوں نے ہشام بن عروہ اور اوزاعی اور ثوری وغیرہ اساتذہ حدیث سے حدیث کی سماعت کی ہے۔
ان کے تلامذہ میں اکابر حضرات مثلاً عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل، یحییٰ بن معین اور علی بن مدینی بھی نظر آتے یں۔
بغداد میں رونق افروز ہو کر درس حدیث کا حلقہ قائم فرمایا۔
فن حدیث میں ان کا قول قابل اعتماد تسلیم کیا گیا ہے۔
حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ صحابی ہیں۔
حدیبہ اور خیبر میں اور اس کے بعد تمام غزوات میں شریک ہوئے۔
اور ہمیشہ مدینہ میں قیام فرمایا۔
یہاں تک کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کا حادثہ سامنے آگیا۔
اس کے بعد آپ کوفہ تشریف لے گئے۔
87ھ میں کوفہ میں ہی انتقال فرمایا۔
کوفہ میں انتقال کرنے والے یہ سب سے آخری صحابی رسول اللہ ﷺ ہیں۔
ان سے امام شعبی وغیرہ نے روایت کیا ہے۔
امام شعبی عامر بن شرحبیل کوفی مشہور ذی علم اکابر میں سے ہیں۔
حضرت عمر ؓ کے دور خلافت میں پیدا ہوئے۔
بہت سے صحابہ سے روایت کرتے ہیں۔
انہوں نے پانچ سو صحابہ کرام ؓ کو دیکھا۔
حفظ حدیث کا یہ ملکہ خداداد تھا کہ کبھی کوئی حرف کاغذ پر نوٹ نہیں فرمایا۔
جو بھی حدیث سنی اس کو اپنے حافظہ میں محفوظ کر لیا۔
امام زہری کہا کرتے تھے کہ دور حاضر ہ میں حقیقی علماءتو چار ہی دیکھے گئے ہیں۔
یعنی ابن مسیب مدینہ میں، شعبی کوفہ میں، حسن بصرہ میں اور محکول شام میں۔
بعمر82 سال104ھ میں انتقال فرمایا۔
رحمه اللہ رحمة واسعة۔
آمین
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2243
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2243
حدیث حاشیہ:
(1)
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس امر پر اجماع امت ہے کہ بیع سلم میں جو چیزیں ماپ اور وزن کے قابل ہیں ان کا ماپ اور وزن مقرر ہونا ضروری ہے اور جو چیزیں محض عدد سے تعلق رکھتی ہیں ان کی تعداد کا مقرر ہونا ضروری ہے، نیز اوصاف کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے تاکہ دوسری چیزوں سے ممتاز ہوسکے اور آئندہ کسی قسم کا جھگڑا پیدا نہ ہو۔
(فتح الباري: 543/4)
(2)
دراصل کاریگروں اور کاشت کاروں کو پیشگی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے، اگر ایسا کام جائز نہ ہوتو وہ کاروبار نہیں کرسکیں گے۔
(3)
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس قسم کا لین دین مدینہ طیبہ میں بہت عام تھا۔
رسول اللہ ﷺ نے اس کی اصلاح فرما کر اسے جاری رکھا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2243
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2245
2245. محمد بن ابو مجالد سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن شداد اور ابوہریرۃ ؓ نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ کے پاس یہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین گندم میں بیع سلم کیاکرتے تھے؟ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ نے فرمایا: ہاں! ہم شام کے کاشتکاروں سے گندم، جو اور روغن میں ایک معین ماپ اور معین مدت ٹھہرا کر بیع سلم کیا کرتے تھے۔ میں نے دریافت کیا: آیا تم اس شخص سے یہ سودا کرتے تھے جس کے پاس اصل مال ہوتا تھا؟انھوں نے جواب دیا: ہم ان سے یہ نہیں پوچھتے تھے۔ پھر انہوں نے مجھے عبدالرحمان بن ابزی کے پاس بھیجا۔ میں نے ان سے دریافت کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بیع سلم کیا کرتے تھے۔ اور ہم ان سے یہ نہیں پوچھتے تھے کہ ان کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2245]
حدیث حاشیہ:
یہیں سے ترجمہ باب نکلتا ہے۔
یعنی اس بات کو ہم دریافت نہیں کرتے تھے کہ اس کے پاس مال ہے یانہیں۔
معلوم ہوا کہ سلم ہر شخص سے کرنا درست ہے۔
مسلم فیہ یا اس کی اصل اس کے پاس موجود ہو یا نہ ہو اتنا ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ معاملہ کرنے والا ادا کرنے اور وقت پر بازار سے خرید کر یا اپنی کھیتی یا مزدور وغیرہ سے حاصل کرکے اس کے ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے یا نہیں۔
اگر کوئی شخص قلاش محض ہو اور وہ بیع سلم کر رہا ہو تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس دھوکہ سے اپنے بھائی مسلمان کا پیسہ ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔
اور آج کل عام طور پر ایسا ہوتا رہتاہے۔
حدیث میں وارد ہوا ہے کہ ادائیگی کی نیت خالص رکھنے والے کی اللہ بھی مدد کرتا ہے کہ وہ وقت پر ادا کردیتا ہے اور جس کی ہضم کرنے ہی کی نیت ہو تو قدرتی امداد بھی اس کو جواب دے دیتی ہے۔
لفظ انباط کی تحقیق میں علامہ شوکانی فرماتے ہیں:
جَمْعُ نُبَيْطٍ:
وَهُمْ قَوْمٌ مَعْرُوفُونَ كَانُوا يَنْزِلُونَ بِالْبَطَائِحِ بَيْنَ الْعِرَاقَيْنِ قَالَهُ الْجَوْهَرِيُّ، وَأَصْلُهُمْ قَوْمٌ مِنْ الْعَرَبِ دَخَلُوا فِي الْعَجَمِ وَاخْتَلَطَتْ أَنْسَابُهُمْ وَفَسَدَتْ أَلْسِنَتُهُمْ، وَيُقَالُ لَهُمْ:
النَّبَطُ بِفَتْحَتَيْنِ، وَالنَّبِيطُ بِفَتْحِ أَوَّلِهِ وَكَسْرِ ثَانِيهِ وَزِيَادَةِ تَحْتَانِيَّةٍ، وَإِنَّمَا سُمُّوا بِذَلِكَ لِمَعْرِفَتِهِمْ بِإِنْبَاطِ الْمَاءِ:
أَيْ:
اسْتِخْرَاجِهِ لِكَثْرَةِ مُعَالَجَتِهِمْ الْفِلَاحَةَ وَقِيلَ:
هُمْ نَصَارَى الشَّامِ، وَهُمْ عَرَبٌ دَخَلُوا فِي الرُّومِ وَنَزَلُوا بَوَادِي الشَّامِ وَيَدُلُّ عَلَى هَذَا قَوْلُهُ:
" مِنْ أَنْبَاطِ الشَّامِ " وَقِيلَ:
هُمْ طَائِفَتَانِ:
طَائِفَةٌ اخْتَلَطَتْ بِالْعَجَمِ وَنَزَلُوا الْبَطَائِحَ وَطَائِفَةٌ اخْتَلَطَتْ بِالرُّومِ وَنَزَلُوا الشَّامَ (نیل الأوطار)
یعنی لفظ انباط نبیط کی جمع ہے۔
یہ لوگ اہل عراق کے پتھریلے میدانوں میں سکونت پذیر ہوا کرتے تھے، اصل میں یہ لوگ عربی تھے، مگر عجم میں جانے سے ان کے انساب اور ان کی زبانیں سب مخلوط ہو گئیں۔
نبط بھی ان ہی کو کہا گیا ہے اور نبیط بھی۔
یہ اس لیے کہ یہ قوم کھیتی کیاری کے فن میں بڑا تجربہ رکھتی تھی۔
اور پانی نکالنے کا ان کو خاص ملکہ تھا۔
انباط پانی نکالنے کو ہی کہتے ہیں۔
اسی نسبت ان کو قوم انباط کہا گیا۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ شام کے نصاریٰ تھے جو نسلاً عرب تھے۔
مگر روم میں جاکر وادی شام میں مقیم ہو گئے۔
روایت میں لفظ انباط الشام اس پر دلالت کررہا ہے۔
یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان کے دو گروہ تھے ایک گروہ عجمیوں کے ساتھ اختلاط کرکے عراقی میدانوں میں سکونت پذیر تھا۔
اور دوسرا گروہ رومیوں سے مخلوط ہو کر شام میں قیام پذیر ہو گیا۔
بہرحال یہ لوگ کاشتکار تھے، اور گندم کے ذخائر لے کر ملک عرب میں فروخت کے لیے آیا کرتے تھے۔
خاص طور پر مسلمانان مدینہ سے ان کا تجارتی تعلق اس درجہ بڑھ گیا تھا کہ یہاں ہر جائز نقد اور ادھار سودا کرنا ان کا معمول تھا جیسا کہ حدیث ہذا سے ظاہر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2245
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2245
2245. محمد بن ابو مجالد سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے عبداللہ بن شداد اور ابوہریرۃ ؓ نے حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ ؓ کے پاس یہ دریافت کرنے کے لیے بھیجا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین گندم میں بیع سلم کیاکرتے تھے؟ حضرت عبداللہ بن ابی اوفی ؓ نے فرمایا: ہاں! ہم شام کے کاشتکاروں سے گندم، جو اور روغن میں ایک معین ماپ اور معین مدت ٹھہرا کر بیع سلم کیا کرتے تھے۔ میں نے دریافت کیا: آیا تم اس شخص سے یہ سودا کرتے تھے جس کے پاس اصل مال ہوتا تھا؟انھوں نے جواب دیا: ہم ان سے یہ نہیں پوچھتے تھے۔ پھر انہوں نے مجھے عبدالرحمان بن ابزی کے پاس بھیجا۔ میں نے ان سے دریافت کیا تو انھوں نے بھی یہی جواب دیا کہ نبی کریم ﷺ کے عہد مبارک میں نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین بیع سلم کیا کرتے تھے۔ اور ہم ان سے یہ نہیں پوچھتے تھے کہ ان کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:2245]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں اصل سے مراد” آئندہ ادا کی جانے والی چیز“ کی اصل ہے،چنانچہ گندم کی اصل کھیتی ہے اور پھلوں کی اصل درخت ہیں۔
مطلب یہ ہے کہ بیع سلم میں کوئی شخص یہ شرط نہ لگائے کہ جس شخص سے معاملہ کیا جارہا ہے وہ مطلوبہ چیز کے ذرائع بھی رکھتا ہو،مثلاً:
یہ ضروری نہیں کہ جن لوگوں سے انڈے لینے کا معاملہ کیاجارہا ہے ان کے پاس کوئی پولٹری فارم ہویا گندم کا معاملہ صرف کھیتی یا مالکان زمین سے ہوسکتا ہے۔
ممکن ہے کہ کسی کے پاس ایک مرغی یا گندم کا ایک پودا بھی نہ ہو لیکن وہ ہزاروں درجن انڈے یا ہزاروں من گندم فراہم کرسکتا ہو۔
(2)
اس میں یہ اعتراض ہوسکتا ہے کہ اس بیع میں دھوکا ممکن ہے، اس لیے کہ جب ذریعہ ہی نہیں تو کہاں سے فراہم ہوں گے،اس حدیث میں اسی اعتراض کا جواب دیا گیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2245