أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ صَالِحٍ الْبَغْدَادِيُّ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ مُحَمَّدٍ، قال: حَدَّثَنِي ابْنُ عَجْلَانَ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" نَهَى أَنْ يُبَالَ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ، ثُمَّ يُغْتَسَلَ فِيهِ مِنَ الْجَنَابَةِ".
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 398
398۔ اردو حاشیہ: ٹھہرا پانی وضو یا غسل کے کام آسکتا ہے اور یہی اس کا اصل مقصود اور استعمال ہے، لہٰذا اسے پیشاب کر کے ناقابل استعمال نہیں بنانا چاہیے کیونکہ اجازت عامہ کی صورت میں آخر وہ پانی متعفن ہو ہی جائے گا۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (کتاب المیاہ کا ابتدائیہ اور حدیث: 35، 221، 222 کے فوائدومسائل)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 398
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 5
´کھڑا پانی اگر مقدار میں کم ہے تو پھر وہ ناپاک ہو جائے گا`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: لا يغتسل احدكم في الماء الدائم وهو جنب . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو شخص حالت جنابت میں ہو وہ کھڑے (ساکن) پانی میں غسل نہ کرے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 5]
� لغوی تشریح:
«الدَّائِمِ» ایسا ساکن جو بہتا نہ ہو۔
«جُنُبٌ» ”جیم“ اور ”نون“ کے ضمہ کے ساتھ ہے۔ جسے جنابت لاحق ہو جائے۔ جنابت ایسی کیفیت ہے جو جماع یا احتلام کی وجہ سے انزال کے بعد پیدا ہوتی ہے۔
«ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ» اس میں «ثُمَّ» استبعاد، یعنی دوری ظاہر کرنے کے لیے ہے، یعنی عقل مند آدمی سے یہ بعید ہے کہ وہ ایسا کرے۔ اور «يَغْتَسِلُ» کے آخر میں پیش (رفع) بھی جائز ہے، مبتدا محذوف «ھُوَ» کی خبر ہونے کے اعتبار سے۔ اور سکون (جزم) بھی جائز ہے، اس صورت میں اس کا عطف «لَا یَبُولَنَّ» میں نہی کے محل پر ہو گا اور «اَنْ» مقدر ماننے کی صورت میں اس پر نصب (زبر) بھی جائز ہے۔
فوائد ومسائل:
➊ مسلم کی روایت میں «فِیهِ» کی جگہ «مِنْهُ» ہے۔ اگر «فِیهِ» ہو تو اس سے مراد ہے کہ اس پانی میں داخل ہونا اور غوطہ لگانا منع ہے۔ اور «مِنْهُ» ہو تو اس سے مراد ہے کہ اس میں سے کسی برتن میں پانی لے کر الگ طور پر غسل کرنے کی بھی نہی ہے۔ بہر حال صحیح مسلم کی روایت سے صرف غسل کرنے کی ممانعت نکلتی ہے اور صحیح بخاری کی روایت میں اس میں پیشاب کرنے اور اس میں غسل کرنے دونوں کے جمع کرنے کی ممانعت ہے جبکہ ابوداؤد کی روایت کی رو سے دونوں کی انفرادی طور پر بھی ممانعت ہے، یعنی اس میں پیشاب کرنا بھی ممنوع ہے اور اس پانی میں سے کچھ لے کر نہانا دونوں کی ممانعت ہے۔ تمام روایات سے حاصل یہ ہوا کہ یہ تمام عمل ہی ممنوع ہیں۔
➋ یہ اس بنا پر ہے کہ کھڑا پانی اگر مقدار میں کم ہے تو پھر وہ ناپاک ہو جائے گا اور کثیر مقدار میں ہے تو یکے بعد دیگرے پیشاب اور غسل کرنا پانی کے اوصاف میں تغیر و تبدل کا موجب ہو گا، چنانچہ نہی تحریم کے لئے ہے جبکہ پانی کم مقدار میں ہو اور جب پانی مقدار میں کثیر ہو تو پھر نہی تنزیہی ہے کیونکہ کثیر مقدار والا پانی رواں اور جاری کے حکم میں ہوتا ہے اور وہ ناپاک ونجس نہیں ہوتا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 5
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 70
´کوئی بھی ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے`
«. . . قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ وَلَا يَغْتَسِلُ فِيهِ مِنَ الْجَنَابَةِ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں ہرگز پیشاب نہ کرے اور نہ ہی اس میں جنابت کا غسل کرے . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 70]
فوائد و مسائل:
➊ حوض اور تالاب کے پانی کو پاک صاف رکھنا ازحد ضروری ہے، کیونکہ یہ عوام الناس کی بنیادی ضرورتوں میں سے ہے۔
➋ مستعمل پانی اگرچہ پاک رہتا ہے مگر گندا تو ضرور ہو جاتا ہے۔ نہانے کی ضرورت ہو تو الگ ہو کر نہانا چاہیے۔ لوگ اس میں اگر پیشاب کرنا شروع کر دیں تو یقیناً ناپاک ہو جائے گا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 70
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 239
´اس بارے میں کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے`
«. . . وَبِإِسْنَادِهِ وَبِإِسْنَادِهِ قَالَ: " لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لَا يَجْرِي، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ " . . . .»
”. . . اور اسی سند سے (یہ بھی) فرمایا کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو جاری نہ ہو پیشاب نہ کرے۔ پھر اسی میں غسل کرنے لگے؟ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْبَوْلِ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ:: 239]
تشریح:
یعنی یہ ادب اور نظافت کے خلاف ہے کہ اسی پانی میں پیشاب کرنا اور پھر اسی سے غسل کرنا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 239
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 239
´ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا منع ہے `
«. . . قَالَ: لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لَا يَجْرِي، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ . . .»
”. . . فرمایا کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو جاری نہ ہو پیشاب نہ کرے، پھر اسی میں غسل کرنے لگے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ الْبَوْلِ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ: 239]
تخريج الحديث:
[161۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضوء: 68 باب البول فى الماء الدائم 239، مسلم 282، دارمي 730]
لغوی توضیح:
«لَا يَبُوْلَنَّ» ہرگز پیشاب نہ کرے۔
«الدَّائِم» ساکن اور ٹھہرنے والی چیز۔
فھم الحدیث:
معلوم ہوا کہ کھڑے پانی میں پیشاب کرنا، یا پیشاب کے بعد اس میں غوطہ لگا کر نہانا ممنوع و ناجائز ہے۔ شیخ عبداللہ بسام رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ ممانعت کا ظاہر یہی ہے کہ خواہ پانی کم ہو یا زیادہ یہ عمل حرام ہے۔ [توضيح الأحكام شرح بلوغ المرام 129/1]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 161
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 5
«ومتحرك و ساكن»
”متحرک و ساکن پانی کے درمیان کوئی فرق نہیں۔“
جمہور علماء اسی کے قائل ہیں۔ [الروضة الندية 66/1]
جن علماء نے مندرجہ ذیل حدیث سے استدلال کرتے ہوئے متحرک اور ساکن پانی کے درمیان فرق کیا ہے اور کہا ہے کہ کھڑا پانی مجرد نجاست گرنے سے ہی ناپاک ہو جاتا ہے اگرچہ اس کے اوصاف ثلثہ میں سے کوئی تبدیل ہو یا نہ ہو اور یہ کہ اس حدیث میں منع کا سبب یہ ہے کہ جب کھڑے پانی میں غسل کیا جائے گا تو وہ مستعمل ہو جائے گا اور مستعمل پانی مطہر نہیں ہوتا، ان کی یہ بات درست نہیں بلکہ باطل و بےبنیاد ہے کیونکہ اس کے اثبات میں کوئی شرعی دلیل موجود نہیں۔ لہٰذا پانی اپنی اصل (طہارت) پر ہی باقی رہے گا جب تک کہ اس کے اوصاف ثلثہ میں سے کوئی متغیر نہ ہو جائے اور باقی رہی یہ حدیث تو اس میں صرف کھڑے پانی میں پیشاب یا غسل کی ممانعت ہے اور پیشاب کرنے والے کے لیے اس سے غسل یا وضو کی ممانعت ہے۔ اس کے علاوہ وہ شخص اس پانی سے فائدہ حاصل کر سکتا ہے اور پیشاب کرنے والے کے علاوہ کسی دوسرے شخص کے لیے اس سے غسل اور وضو کرنا جائز ومباح ہے۔ [المحلى بالآثار 186/1، الأحكام لابن حزم 21/1]
کھڑے پانی سے غسل کا طریقہ یہ ہو گا کہ کسی برتن کے ذریعے پانی باہر نکال کر اس سے غسل کیا جائے جیسا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے۔ «يَتَنَاوَلُهُ تَنَاوُلًا» [صحيح مسلم/ فواد: 283، دارالسلام: 658]
(البانی) اسی کو ترجیح دیتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ حدیث میں صرف جنبی کے لیے کھڑے پانی میں غوطہ (لگا کر غسل کرنے) کی ممانعت ہے جبکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے کلام سے پتہ چلتا ہے کہ پانی کو باہر نکال کر اس سے طہارت حاصل کرنا درست ہے۔ [التعليقات الرضية على الروضة الندية 98/1]
مطلوبہ احادیث درج ذیل ہیں:
❀ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ الَّذِي لَا يَجْرِي، ثُمَّ يَغْتَسِلُ فِيهِ»
”تم میں سے کوئی بھی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے اور پھر اس میں غسل کرے۔“ [صحيح البخاري/ ح: 239]
❀ جامع ترمذی میں یہ لفظ ہیں:
«ثُمَّ يَتَوَضَّأُ مِنْهُ» ”پھر اس سے وضو کرے۔“ [سنن ترمذي/ ح: 68]
❀ سنن ابی داود اور مسند احمد میں ہیں:
«لَا يَبُولَنَّ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ وَلَا يَغْتَسِلُ فِيهِ مِنَ الْجَنَابَةِ»
”تم میں سے کوئی بھی کھڑے پانی میں پیشاب نہ کرے اور نہ ہی اس میں غسل جنابت کرے۔ [سنن ابي داود/ ح: 70]
❀ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
«أَنَّهُ نَهَى أَنْ يُبَالَ فِي الْمَاءِ الرَّاكِدِ»
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے پانی میں پیشاب سے منع فرمایا ہے۔ [صحيح مسلم/ فواد: 281، دارالسلام: 655]
❀ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں مرفوعاً یہ الفاظ بھی موجود ہیں:
«لَا يَغْتَسِلْ أَحَدُكُمْ فِي الْمَاءِ الدَّائِمِ وَهُوَ جُنُبٌ»
”تم میں سے کوئی بھی حالت جنابت میں کھڑے پانی میں غسل نہ کرے۔“ [صحيح مسلم/ فواد:283، دارالسلام: 658] ۱؎
(علامہ عینی) فرماتے ہیں کہ یہ حدیث عام ہے اور اسے بالاتفاق خاص کرنا ضروری ہے (یا تو) ایسے وسیع الظرف پانی کے ساتھ جس کے ایک کنارے کو حرکت دینے سے دوسرا کنارہ متحرک نہ ہو یا حدیث قلتین کے ساتھ جیسا کہ امام شافی رحمہ اللہ کے قائل ہیں یا ایسی عمومات کے ساتھ جو پانی کے اس وقت تک پاک ہونے پر دلالت کرتی ہیں جب تک کہ اس کے اوصاف ثلثہ میں سے کوئی تبدیل نہ ہو جائے جیسا کہ امام مالک رحمہ اللہ کا یہی موقف ہے۔ [عمدة القاري 50/3]
(شوکانی) اس حدیث میں شارع علیہ السلام کی طرف سے ایسا کوئی بیان نہیں ہے کہ ممانعت کا سبب یہ ہے کہ پانی مستعمل ہو جائے گا اور مستعمل پانی مطہر نہیں ہوتا۔ بلکہ زیادہ سے زیادہ اس سے جو اخذ کیا جا سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں منع کا سبب (اس میں پیشاب یا غسل کرنے کے ساتھ) اس کے کھڑا رہنے کی وجہ سے اس کے خراب ہونے کا اندیشہ ہے۔ [السيل الجرار 57/1]
(ابن حزم) ان لوگوں کا یہ کہنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جنبی کو کھڑے پانی میں داخل ہونے سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں پانی مستعمل نہ ہو جائے باطل ہے۔ [المحلی 186/1]
(نووی) کھڑے پانی میں داخل ہو کر جنبی شخص کے غسل کرنے سے ممانعت کی حدیث اس عمل کے مکروہ تنزیہی ہونے کی دلیل ہے۔ [شرح مسلم 189/3]
جاری پانی کے متعلق مختلف اقوال ہیں۔
➊ جسے عرف میں جاری تسلیم کیا جاتا ہو۔
➋ جس میں خشک تنکے بہ جائیں۔
➌ پانی اس قدر ہو کہ وضو کرنے والے کے دوبارہ چلو بھرنے پر پہلے پانی کے بجائے (چلنے کی وجہ سے) نیا پانی ہاتھ لگے۔ [فتح القدير 83/1]
(را جح) پہلا قول را جح ہے۔
* * * * * * * * * * * * * *
فقہ الحدیث، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 133
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 57
´ٹھہرے ہوئے پانی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے وضو کرے۔“ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 57]
57۔ اردو حاشیہ:
➊ گویا اس روایت میں عوف کے دو استاذ ہیں، محمد بن سیرین اور خلاس اور یہ دونوں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کرتے ہیں۔
➋ ٹھہرے پانی میں پیشاب کرنے سے اس لیے منع کیا تھا کہ یہ پانی کی نجاست کا سبب بن سکتا ہے کیونکہ بار بار پیشاب کرنے یا کئی اشخاص کے پیشاب کرنے سے پانی کا رنگ، بو یا ذائقہ بدل سکتا ہے۔ اس طرح پانی ناقابل استعمال ہو جائے گا۔ وضو اور غسل کرنے والوں کو دقت پیش آئے گی۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 57
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 58
´ٹھہرے ہوئے پانی کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ہرگز ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے غسل کرے۔ ابو عبدالرحمٰن (امام نسائی) نے فرمایا: (میرے استاذ) یعقوب بن ابراہیم یہ حدیث دینار لیے بغیر بیان نہیں کرتے تھے۔“ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 58]
58۔ اردو حاشیہ: تعلیم حدیث پر اجرت لینے کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک اجرت لینا جائز نہیں اور بعض اسے جائز سمجھتے ہیں۔ خصوصاً جب محدث تدریس حدیث کے علاوہ کوئی دوسرا کام نہ کرے۔ یعقوب دو رقی کے نزدیک اس پر اجرت لینا جائز ہے، اس لیے وہ یہ حدیث بیان کرنے پر اجرت لیتے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان: «إن أحق ما أخذتم عليه اجرا كتاب الله» ”بے شک جن چیزوں پر تم اجرت لے سکتے ہو، ان میں سب سے زیادہ اس کی مستحق اللہ کی کتاب ہے۔“ [صحیح البخاري، الطب، حدیث: 5737]
سے بھی اس کا جواز ثابت ہوتا ہے، لہٰذا ضرورت کے پیش نظر تدریس حدیث پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں۔ لیکن بلاضرورت اور کشائش کے باوجود اس کی حرص و طمع رکھنا اخلاص کے منافی ہے، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 58
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 400
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہتا نہ ہو ہرگز پیشاب نہ کرے، پھر اسی سے غسل بھی کرے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 400]
400۔ اردو حاشیہ:
➊ دراصل حضرت ہشام بن حساب اس حدیث کو مرفوع بیان فرماتے تھے اور حضرت ایوب اسے موقوف (حضرت ابوہریرہ کا اپنا فرمان) بیان کرتے تھے، اس لیے شاگردوں نے حضرت ہشام سے وضاحت طلب کی۔ جواب کا حاصل یہ ہے کہ یہ روایت مرفوع ثابت ہے۔ حضرت ایوب کا اسے موقوف بیان کرنا ان کی احتیاط ہے۔ بہت سے محدثین حدیث کو مرفوع بیان کرنے سے ڈرا کرتے تھے کہ کہیں کوئی غلط بات آپ کی طرف منسوب نہ ہو جائے، اس لیے وہ تابعی، صحابی تک رک جایا کرتے تھے۔ مگر یہ ضرورت سے زیادہ احتیاط ہے، اس لیے اس سے روایت کی صحت میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔
➋ یہ دراصل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے جسے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نقل فرمایا۔ کسی راوی نے اسے انہیں کی طرف منسوب کر دیا۔ دوسرے راویوں سے بلاشک و شبہ یہ فرمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب بیان ہوا ہے۔
➌ عربی الفاظ میں «الْمَاءُ الدَّائِمُ» کے ساتھ «الَّذِي لَا يَجْرِي» کی قید مزید وضاحت کے لیے ہے۔
➍جاری پانی میں، جبکہ شدید حاجت ہو، پیشاب کیا جا سکتا ہے کیونکہ وہاں نجاست پانی کے ساتھ ہی آگے چلی جائے گی، بلکہ تحلیل ہو جائے گی اور تعفن پیدا نہیں ہو گا، تاہم جہاں تک ہو سکے بچنا ہی بہتر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 400
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 221
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی ہونے کی حالت میں غسل نہ کرے۔“ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 221]
221۔ اردو حاشیہ:
➊ ٹھہرے پانی میں داخل ہو کر جنبی کا نہانا پانی کو ناقابل استعمال بنا سکتا ہے۔ اگرچہ ایک آدمی کے نہانے سے رنگ، بو اور ذائقے میں تبدیلی نہیں ہو گی مگر اجازت کی صورت میں تو جتنے آدمی بھی چاہیں، نہا سکتے ہیں۔ اس طرح رنگ، بو اور ذائقہ بدلنے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔
➋ نجاست سے قطع نظر پینے والوں کے لیے اس پانی کا استعمال طبعاً گوارا نہ ہو گا جس میں جنبی لوگ نجاست سمیت نہاتے ہوں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 221
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 222
´ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنا اور اس سے غسل کرنا منع ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے، پھر یہ کہ اسی سے غسل بھی کرے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 222]
222۔ اردو حاشیہ:
جب ٹھہرے پانی میں جنبی کا غسل کرنا درست نہیں، تو اس میں پیشاب کرنا تو بدرجہ اولیٰ منع ہو گا، خواہ بعد میں غسل کرے یا نہ کرے، کیونکہ کوئی اور آدمی بھی تو غسل کر سکتا ہے۔ غسل کا ذکر تو تقبیح کے لیے ہے، یعنی یہ تصور کیسا قبیح ہو گا کہ وہیں پیشاب کیا ہو اور وہیں غسل شروع کر دے، خواہ یہ شخص کرے یا کوئی اور، بہرحال اس حدیث سے کھڑے پانی میں پیشاب کرنے کی حرمت ثابت ہوتی ہے۔ مزید دیکھیے: [حديث: 35]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 222
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 332
´ٹھہرے ہوئے پانی میں جنبی کے غسل کرنے کی ممانعت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے اس حال میں کہ وہ جنبی ہو۔“ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 332]
332۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 35، 221 اور 222 اور ان کے فوائد و مسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 332
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث605
´کیا جنبی کا ٹھہرے ہوئے پانی میں غوطہٰ لگا لینا کافی ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل جنابت نہ کرے“، پھر کسی نے کہا: ابوہریرہ! تب وہ کیا کرے؟ کہا: اس میں سے پانی لے لے کر غسل کرے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 605]
اردو حاشہ:
(1)
ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل کرے سے ممانعت میں یہ حکمت ہے کہ اگر اس میں ایک کے بعد دوسرا آدمی غسل کرے گا تو وہ جلد ہی ناقابل استعمال ہوجائے گا۔
جب کہ الگ پانی لے کر نہانے سے باقی پانی صاف ستھرا رہے گا اور دوسرے لوگ اس سے فائدہ حاصل کرسکیں گے۔
(2)
یہ اسلام کی خوبی ہے کہ طہارت و نظافت میں ان آداب کی طرف رہنمائی کی ہے جن کی عام طور پر توجہ مبذول نہیں ہوتی۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 605
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 68
´ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی کراہت کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی آدمی ٹھہرے ہوئے پانی ۱؎ میں پیشاب نہ کرے پھر اس سے وضو کرے۔“ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 68]
اردو حاشہ:
1؎:
ٹھہرے ہوئے پانی سے مراد ایسا پانی ہے جو دریا کی طرح جاری نہ ہو جیسے حوض اور تالاب وغیرہ کا پانی،
ان میں پیشاب کرنا منع ہے تو پاخانہ کرنا بطریق اولیٰ منع ہوگا،
یہ پانی کم ہو یا زیادہ اس میں نجاست ڈالنے سے بچنا چاہئے تاکہ اس میں مزید بدبو نہ ہو،
ٹھہرے ہوئے پانی میں ویسے بھی سرانڈ پیدا ہو جاتی ہے،
اگر اس میں نجاست (گندگی) ڈال دی جائے تو اس کی سرانڈ بڑھ جائے گی اور اس سے اس کے آس پاس کے لوگوں کو تکلیف پہنچے گی۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 68
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:999
999- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”کوئی بھی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے کہ وہ پھر اسی میں غسل بھی کرلے۔“ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:999]
فائدہ:
کھڑے پانی میں پیشاب کر نامنع ہے، کھڑے پانی سے وضو یا غسل کرنا درست ہے، اس کے لیے شرط یہ ہے کہ وہ پانی پاس ہونا چاہیے۔ کھڑے پانی میں عموماً لوگ غسل وغیرہ کرتے ہیں، اس لیے اس میں پیشاب نہیں کرنا چا ہیے، اور اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ چلتے پانی میں پیشاب کرنا درست ہے نہیں ہرگز نہیں، اس طرح پانی میں پاخانہ وغیرہ کرنا بھی درست نہیں ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 999
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 657
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ساکن پانی جو چلتا نہیں ہے، میں پیشاب نہ کرو کہ پھر اس میں نہانے لگو۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:657]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
احادیث مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے۔
کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہیں کرنا چاہیے آپﷺ نے ٹھہرے ہوئے پانی کے لیے قلیل یا کثیر مقدار بیان نہیں فرمائی۔
بلاقید فرمایا ہے کہ ساکن پانی میں پیشاب نہ کرو۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بہتے پانی میں پیشاب کر لیا کرو۔
چونکہ عام طور پر یہ صورتحال ٹھہرے ہوئے پانی میں پیش آتی ہے اس لیے آپﷺ نے اس کی تصریح فرما دی،
اس طرح پیشاب برتن میں کرنےکے بعد،
اس میں ڈالنا یا پھینک دینا بھی مقصد اورروح شریعت کے منافی ہے،
اس لیے یہ بات انتہائی حیران کن ہے۔
جو داؤد ظاہری کی طرف منسوب کی جاتی ہے کہ ممانعت پیشاب کرنے سے خاص ہے پاخانہ کرنا یا برتن میں پیشاب کر کے کھڑے پانی میں پھینک دینا منع نہیں ہے۔
(شرح نووی: 1/ 1138)
اس حدیث کا تعلق بھی آداب اخلاق سے ہے اس کے تحت پانی کے قلیل وکثیر ہونے کی بحث چھیڑنا،
حدیث کے اصل مقصد کے منافی ہے اس لیے ٹھہرا ہوا پانی قلیل ہو یا کثیر ہر دو صورت میں اس میں پیشاب وپاخانہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ اس پانی سے اس کو نہانے کی ضرورت بھی پیش آ سکتی ہے پھر کہاں سے نہائے گا۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں اس میں پیشاب کرنا ہرصورت میں منع ہے نہانہ ہو یا نہ۔
(شرح نووی: 138/1)
مقصد تو یہ ہے پانی میں پیشاب کرنا آداب اور اخلاق کے منافی ہے۔
راکد ٹھہرے ہوئے کی تخصیص تو محض اس لیے کر دی کہ اگرنہانے کی ضرورت پیش آ جائے تو پھر انسان اس سے کراہت ونفرت محسوس کرے گا۔
اس لیے امام نووی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
بالاتفاق نہر کے قریب پیشاب کرنا جبکہ پیشاب اس میں جا سکتا ہو ممنوع اور ناپسندیدہ ہے۔
(شرح نووی: 138/1)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 657
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:239
239. اور اسی سند کے ساتھ (مروی ہے کہ) آپ نے یہ بھی فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص ایسے رکے پانی میں پیشاب نہ کرے جو چلتا نہیں، پھر اس میں غسل بھی کرے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:239]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس عنوان کے تحت پہلی حدیث کہ ہم آخر میں آنے والے ہیں مگر سبقت کرجانے والے ہیں، اس کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں، اگرچہ بعض شارحین نے مناسبت پیدا کرنے کے لیے دورازکار تاویلات کا سہارا لیا ہے۔
دراصل امام بخاری ؒ نے اسے بطور علامت ذکر کیا ہے تاکہ اس کے ماخذ کی طرف اشارہ ہوجائے۔
اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ ؓ کے دوشاگرد ہیں:
* عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج * ہمام بن منبہ۔
ان دونوں نے حضرت ابوہریرہ ؓ سے جو احادیث سنیں، انھیں قلم بند کرکے اپنے اپنے صحیفوں میں محفوظ کر لیا۔
امام بخاری ؒ اور امام مسلم ؒ ان دونوں کے مرتب کردہ صحیفوں سے احادیث بیان کرتے ہیں۔
امام مسلم ؒ ان سے بیان کرتے وقت پہلے بطور علامت یہ جملہ لاتے ہیں:
(فذكر أحاديث منها)
پھر قال رسول اللہ ﷺ سے حدیث کا آغاز کرتے ہیں، لیکن امام بخاری ؒ ان سے بیان کرتے وقت:
(نحن الآخرون السابقون)
کاجملہ شرو ع میں لاتے ہیں۔
ویسے امام بخاری ؒ نے مستقل طورپرمکمل حدیث کتاب الجمعہ (875)
میں بیان کی ہے۔
حضرت عبدالرحمان بن ہرمز الاعرج کے طریق سے مندرجہ ذیل مقامات پر یہ انداز دیکھا جاسکتا ہے:
الوضوء(حدیث: 238)
، الجہاد (حدیث 2956)
،الدیات (حدیث 6887)
،التوحید (74959)
بعض مقامات پر اس جملے کے بغیربھی احادیث بیان کی ہیں، مثلاً:
کتاب التوحید، حدیث 7506،7501،7504۔
7505۔
شاید باب میں ایک جگہ ذکر کرنے کو کافی خیال کر لیا گیا ہو۔
اسی طرح ہمام بن منبہ کے طریق سے مندرجہ ذیل مقامات پر یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔
(صحیح البخاري، الإیمان والنذور، حدیث: 6624 وکتاب التعبیر، حدیث: 7036)
بعض اوقات اس جملے کے بغیر بھی اس طریق سے احادیث بیان کی ہیں:
احادیث الانبیاء (حدیث: 3472)
التوحید:
(7498)
واضح رہے کہ امام بخاری ؒ اعرج اورہمام کے علاوہ بھی جب حضرت طاؤس کے طریق سے بیان کرتے ہیں تو بعض اوقات ان الفاظ کو شروع میں لاتے ہیں، مثلاً:
کتاب الجمعہ (حدیث: 896)
، احادیث الانبیاء (حدیث: 3486)
2۔
امام بخاری ؒ کا دوسری حدیث بیان کرنے سے یہ مقصد ہے کہ اگر رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی اجازت دی جائے گی تو ایک راستہ کھل جائے گا، جب اس طرح لوگ اس میں پیشاب کرنے لگیں گے تو ایک نہ ایک دن وہ پانی متغیر ہوکرنجس ہوجائے گا، پھر وہ غسل اور وضو کے قابل نہیں رہے گا، اس لیے رکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت اس دروازے کو بند کرنے کے پیش نظر ہے، تاکہ لوگ کثرت سے پیشاب کرنے کی وجہ سے اسے ناقابل استعمال نہ کردیں۔
3۔
حدیث میں الدائم کے بعد الذی لایجري کے الفاظ بطور صفت کاشفہ نہیں، بلکہ انھیں احتراز کے طور پر بیان کیا گیا ہے، یعنی ماء دائم کی دو اقسام ہیں:
* ماء دائم غیر جاری، جیسے تالاب اور جوہڑ وغیرہ * ماء دائم جاری، جیسے کنویں، جن کا پانی بہنے والے سوتوں کےذریعے سے اوپر آتا رہتا ہے۔
لیکن مذکورہ صفت حکم سے متعلق نہیں کہ اس سے ماء دائم جاری میں پیشاب کرنے کی اجازت ثابت کرنے لگیں، کیونکہ مفہوم مخالف ہرجگہ نہیں ہوتا، بلکہ اس طرح کی قیود کے فوائد دوسرے ہوتے ہیں،مثلاً:
یہاں پانی میں پیشاب کرنے کی قباحت کو نمایاں کرنا مقصود ہے، گویا ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب سے منع کیا، خاص طور پر وہ پانی جو جاری بھی نہ ہو، اس سے پیشاب کرنے کی قباحت کو ظاہرکرنا مقصود ہے۔
4۔
اصحاب ظواہرنے اس حدیث کو اپنے ذوق کے مطابق عجیب معنی پہنائے ہیں، لکھا ہے کہ ممانعت پیشاب کے ساتھ خاص ہے۔
اگر اس میں کوئی پاخانہ کردے تو کوئی حرج نہیں، نہ اس کی ممانعت ہے، یعنی اس پانی سے خود بھی اور دوسرے بھی وضو اور غسل کر سکتے ہیں۔
یہ بھی جائز ہے کہ پیشاب کرنے والا کسی برتن میں پیشاب کرکے پانی میں ڈال دے یا پیشاب قریب میں کرے کہ وہاں سے خودبہہ کر پانی میں چلا جائے تو اس سے بھی وضو کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(محلی بن حزم: 35/1)
5۔
اس عنوان کے تحت پہلی حدیث کیوں بیان کی گئی ہے جبکہ اس کا عنوان سے کوئی تعلق نہیں؟ اسے ہم پہلے بیان کر آئے ہیں، لیکن”اصحاب تدبر“ کے ہاں احادیث بخاری میں تشکیک پیداکرنا ایک محبوب مشغلہ ہے، اس کے لیے وہ کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے، چنانچہ لکھا ہے:
لیکن سوال یہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے دو بے جوڑ باتوں کو یہاں کیوں لیا ہے جبکہ باب کی رعایت سے ان کا تعلق روایت کے آخری ٹکڑے سے تھا، وہ اس کو لے لیتے اور پہلے ٹکڑے کو چھوڑدیتے۔
“ (تدبرحدیث: 329/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 239
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ : 66
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص کھڑے پانی میں ہر گز پیشاب نہ کرے، کہ (پیشاب کرنے کے بعد) پھر اس سے غسل کرے۔ مخزومی کی روایت میں یہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں (پیشاب نہ کرے) کہ پھر اس سے غسل کرے۔ [صحيح ابن خزيمه: 66]
فوائد:
➊ مہلب رحمہ اللہ کہتے ہیں: کھڑے پانی میں پیشاب کرنے کی ممانعت کو اصول فقہ کے قواعد پر پرکھا جائے گا، چنانچہ اگر پانی کثیر دو مٹکوں سے زائد ہو تو کھڑے پانی میں پیشاب کرنے کی نہی تنزیہی ہے، کیونکہ ایسا پانی طاہر ہی رہتا ہے، تاوقتیکہ اس کے تینوں اوصاف میں سے کوئی وصف تبدیل نہ ہو اور اگر پانی قلیل (دومٹکوں سے کم ہو) تو ایسے پانی میں پیشاب نہ کرنا واجب ہے کیونکہ اس میں نجاست گرنے سے پانی فاسد ہو جاتا ہے۔
[شرح ابن بطال: 377/1]
➋ نووی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں حدیث کے مفہوم سے معلوم ہوتا ہے اگر بہنے والا پانی کثیر ہو تو اس میں پیشاب کرنا حرام نہیں، لیکن اس میں پیشاب کرنے سے گریز کرنا افضل ہے، لیکن اگر بہتا پانی قلیل ہو تو ہمارے اصحاب میں سے ایک جماعت کا موقف ہے کہ اس میں پیشاب کرنا مکروہ ہے لیکن راجح یہ ہے کہ اس قلیل پانی میں پیشاب کرنا حرام ہے۔ کیونکہ مذہب شافعی کی رو سے پیشاب اس پانی کو نجس کر دے گا اور بے خبر شخص بے خبری میں اس نجس پانی کو استعمال کر لے گا۔
[نووي: 186/3]
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 66