أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ حَمَّادٍ، قال: أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ الْمُنْذِرِ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ حَدَّثَتْهُ، أَنَّهَا أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَشَكَتْ إِلَيْهِ الدَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ، فَانْظُرِي إِذَا أَتَاكِ قَرْؤُكِ فَلَا تُصَلِّي، وَإِذَا مَرَّ قَرْؤُكِ فَلْتَطَهَّرِي ثُمَّ صَلِّي مَا بَيْنَ الْقَرْءِ إِلَى الْقَرْءِ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: قَدْ رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ مَا ذَكَرَ الْمُنْذِرُ.
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 358
358۔ اردو حاشیہ: ہشام بن عروہ کی روایت اس کے بعد والی ہے۔ ان دونوں روایتوں میں دو فرق ہیں: ایک یہ کہ ہشام بن عروہ کی روایت میں یہ صراحت نہیں کہ حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے حضرت عروہ کو یہ روایت بالمشافہ بیان کی ہے۔ دوسرا اس میں «ما بين القرء الي القرء» کے الفاظ مذکور نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 358
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 280
´عورت کے مستحاضہ ہونے کا بیان اور ان لوگوں کی دلیل جو کہتے ہیں کہ مستحاضہ اپنے حیض کے ایام کے بقدر نماز چھوڑ دے۔`
عروہ بن زبیر کہتے ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے ان سے بیان کیا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (استحاضہ کے) خون آنے کی شکایت کی اور مسئلہ پوچھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”یہ تو صرف ایک رگ ہے، پس تم دیکھتی رہو، جب تمہیں حیض آ جائے تو نماز نہ پڑھو، پھر جب حیض ختم ہو جائے تو غسل کرو، پھر دوسرا حیض آنے تک نماز پڑھتی رہو۔“ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 280]
280۔ اردو حاشیہ:
معلوم ہوا کہ اگر پہلے سے ایام و تواریخ معلوم و متعین ہوں تو انہی ایام کو ایام حیض شمار کیا جائے اور اگر معلوم نہ ہوں تو خون کی رنگت سے اندازہ لگایا جائے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 280
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 362
´حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق کا بیان۔`
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ انہیں استحاضہ آتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جب حیض کا خون ہو تو وہ سیاہ خون ہوتا ہے پہچان لیا جاتا ہے، تو تم نماز سے رک جاؤ، اور جب دوسرا ہو تو وضو کرو، کیونکہ یہ رگ (کا خون) ہے۔“ محمد بن مثنی کا کہنا ہے کہ ہم سے یہ حدیث ابن ابی عدی نے اپنی کتاب سے بیان کی ہے۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 362]
362۔ اردو حاشیہ: دونوں روایات کی سند میں کچھ فرق ہے۔ کتاب والی روایت میں عروہ براہ راست حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے بیان فرماتے ہیں جبکہ حفظ والی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا واسطہ ہے۔ حضرت عروہ نے دونوں سے روایت سنی ہے۔ حضرت فاطمہ سے بھی اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی، کیونکہ ان کی دونوں سے ملاقات ثابت ہے۔ بعض محدثین نے اسے ابن ابی عدی کی غلطی قرار دے کر پہلی روایت کو منقطع قرار دیا ہے، لیکن پہلی بات درست ہے۔ واللہ أعلم۔ مزید دیکھیے، حدیث: 216 اور اس کے فوائد و مسائل۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 362
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 201
´حیض سے غسل کرنے کا بیان۔`
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا جو قریش کے قبیلہ بنو اسد کی خاتون ہیں کہتی ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا کہ انہیں استحاضہ کا خون آتا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے، جب حیض کا خون آئے تو نماز ترک کر دو، اور جب ختم ہو جائے تو خون دھو لو پھر (غسل کر کے) نماز پڑھ لو۔“ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 201]
201۔ اردو حاشیہ:
➊ ”حیض“ وہ خون ہے جو ہر جوان عورت کو رحم سے ہر ماہ باقاعدگی کے ساتھ چند دن آتا ہے۔ یہ عورت کی صحت کی علامت ہے۔ اس خون کی بندش یا بےقاعدگی عورت کے مریض ہونے پر دلالت کرتی ہے۔ یہ خون آ رہا ہو تو جماع، نماز اور روزے کی ممانعت ہے۔ حیض ختم ہو جائے، یعنی یہ خون آنا بند ہو جائے، تو غسل فرض ہو جاتا ہے۔ غسل کرنے کے بعد یہ تمام کام جائز ہو جاتے ہیں۔
➋ ”استحاضہ“ اس خون کو کہتے ہیں جو ان معینہ دنوں کے علاوہ رحم سے آئے، چونکہ وہ بیماری ہے، لہٰذا اس میں مندرجہ بالا کام جائز رہتے ہیں اور اس سے غسل بھی واجب نہیں ہوتا۔
➌ «عِرْقٌ» کے معنی”رگ“ ہیں جو رحم کے قریب ہوتی ہے، اس سے یہ خون آتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 201
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 212
´قرء کا بیان۔`
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور آپ سے خون آنے کی شکایت کی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”یہ ایک رگ (کا خون) ہے، تو دیکھتی رہو جب حیض (کا دن) آ جائے تو نماز چھوڑ دو، پھر جب تمہارے حیض (کے دن) گزر جائیں، اور تم پاک ہو جاؤ، تو پھر دونوں حیض کے درمیان نماز پڑھو“ ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن کہتے ہیں: یہ حدیث ہشام بن عروہ نے عروہ سے روایت کی ہے ۲؎ انہوں نے اس چیز کا ذکر نہیں کیا جس کا ذکر منذر نے کیا ہے ۳؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 212]
212۔ اردو حاشیہ:
امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود یہ ہے کہ یہ حدیث عر وہ نے براہ راست حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے نہیں سنی جیسا کہ منذر کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے بلکہ انہوں نے یہ حدیث دراصل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنی ہے جیسا کہ آئندہ حدیث: [213] سے سمجھ میں آ رہا ہے۔ گویا منذر کی روایت منقطع ہے، نیز ہمارے فاضل محقق نے منذر کو مجہول الحال قرار دیا ہے، اس لیے مذکورہ روایت سند کے اعتبار سے ضعیف ہے، تاہم معناً صحیح ہے کیونکہ اگلی صحیح روایت اسی کے ہم معنی ہے، نیز شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے، دیکھیے: [صحيح سنن النسائي، للألباني، رقم: 221]
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 212
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 216
´حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق کا بیان۔`
فاطمہ بنت ابوحبیش رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہیں استحاضہ آتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: ”جب حیض کا خون ہو تو نماز سے رک جاؤ کیونکہ وہ سیاہ خون ہوتا ہے، پہچان لیا جاتا ہے، اور جب دوسرا ہو تو وضو کر لو، کیونکہ وہ ایک رگ (کا خون) ہے۔“ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 216]
216۔ اردو حاشیہ:
➊ حیض کا خون ابتدا میں زیادہ سیاہی مائل ہوتا ہے۔ آہستہ آہستہ رنگ ہلکا ہوتا جاتا ہے۔ آخر میں سرخ ہو جاتا ہے۔
➋ استحاضہ والی عورت ہر نماز کے لیے نیا وضو کرے گی، تاہم ”جمع صوری“ اور ”جمع حقیقی“ میں ایک غسل اور ایک وضو سے دو نمازیں پڑھ سکتی ہے۔ ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا حکم اس صورت میں ہے جب دو نمازیں اپنے اول وقت میں پڑھی جائیں۔ «والله أعلم»
ہر نماز کے لیے وضو کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ حقیقتاً خون جاری ہونے کی وجہ سے اس کا وضو نہیں ہوتا، مگر شریعت نے مجبوری کی بنا پر نماز کی ادائیگی کے لیے اسے باوضو فرض کیا ہے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد چونکہ ضرورت نہ رہی، لہٰذا اصل حکم لوٹ آیا، یعنی عدم طہارت۔
➌ ہر وہ شخص جس کا وضو قائم نہ رہتا ہو، مثلاً: ہر وقت پیشاب کے قطرے گرتے رہیں یا ہوا خارج ہوتی رہے وغیرہ تو اس کے لیے حکم یہی ہے کہ ایک وضو سے ایک نماز پڑھے، پھر نیا وضو کرے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 216
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3583
´قرء کا بیان۔`
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ سے خون آنے کی شکایت کی تو آپ نے ان سے کہا: یہ کسی رگ سے آتا ہے (رحم سے نہیں) تم دھیان سے دیکھتی رہو جب تمہیں «قرؤ» یعنی حیض آئے ۱؎ تو نماز نہ پڑھو اور جب حیض کے دن گزر جائیں تو (نہا دھو کر) پاک ہو جایا کرو اور پھر ایک حیض سے دوسرے حیض کے درمیان نماز پڑھا کرو۔ [سنن نسائي/كتاب الطلاق/حدیث: 3583]
اردو حاشہ:
لفظ ”قُرْؤُ“ لغت کے لحاظ سے طہر کی حالت کو بھی کہتے ہیں اور حیض کو بھی مگر قرآن وحدیث میں یہ جہاں استعمال ہوا ہے حیض کے معنیٰ میں استعمال ہوا ہے۔ یہی بات محقق ہے۔ یہ حدیث کتاب الطہارہ میں گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3583
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث620
´مستحاضہ جس کے حیض کی مدت استحاضہ والے خون سے پہلے متعین ہو اس کے حکم کا بیان۔`
فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور آپ سے (کثرت) خون کی شکایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ رگ کا خون ہے، تم دیکھتی رہو جب مدت حیض آئے تو نماز نہ پڑھو، اور جب حیض گزر جائے تو غسل کرو، پھر دوسرے حیض کے آنے تک نماز پڑھتی رہو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 620]
اردو حاشہ:
یہ روایت ہمارے محقق کے نزدیک سنداً ضعیف ہے جبکہ متناً معناً درست ہے جیسا کہ اگلی روایت میں یہی مسئلہ بیان ہوا ہے۔
غالباً اسی وجہ سے دوسرے محققین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 620