Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه
ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا
161. بَابُ : غَسْلِ الرِّجْلَيْنِ فِي غَيْرِ الْمَكَانِ الَّذِي يَغْتَسِلُ فِيهِ
باب: غسل کی جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 254
أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ، قال: أَنْبَأَنَا عِيسَى، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ كُرَيْبٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قال: حَدَّثَتْنِي خَالَتِي مَيْمُونَةُ، قالت: أَدْنَيْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلَهُ مِنَ الْجَنَابَةِ" فَغَسَلَ كَفَّيْهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَدْخَلَ بِيَمِينِهِ فِي الْإِنَاءِ، فَأَفْرَغَ بِهَا عَلَى فَرْجِهِ ثُمَّ غَسَلَهُ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ ضَرَبَ بِشِمَالِهِ الْأَرْضَ فَدَلَكَهَا دَلْكًا شَدِيدًا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، ثُمَّ أَفْرَغَ عَلَى رَأْسِهِ ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ مِلْءَ كَفِّهِ، ثُمَّ غَسَلَ سَائِرَ جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى عَنْ مَقَامِهِ فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ، قَالَتْ: ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِالْمِنْدِيلِ فَرَدَّهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میری خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل جنابت کا پانی لا کر رکھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو یا تین بار اپنے دونوں پہونچے دھوئے، پھر اپنا داہنا ہاتھ برتن میں داخل کیا تو اس سے اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، پھر اسے اپنے بائیں ہاتھ سے دھویا، پھر اپنے بائیں ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے زور سے ملا، پھر اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، پھر اپنے سر پر تین لپ بھربھر کر ڈالا، پھر اپنے پورے جسم کو دھویا، پھر آپ اپنی جگہ سے الگ ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: پھر میں تولیہ لے کر آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کر دیا۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الغسل 1 (249)، 5 (257)، 7 (259)، 8 (260)، 10 (265)، 11 (266)، 16 (274)، 18 (276)، 21 (281)، صحیح مسلم/الحیض 9 (317)، سنن ابی داود/الطھارة 98 (245)، سنن الترمذی/فیہ 76 (103)، سنن ابن ماجہ/فیہ 94 (573)، (تحفة الأشراف: 18064)، مسند احمد (6/329، 330، 335، 336)، سنن الدارمی/الطہارة 40 (738)، 67 (774)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 408، 418، 419، 428 (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 254 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 254  
254۔ اردو حاشیہ:
➊ مٹی پر ہاتھ رگڑنا بدبو اور لیس کو ختم کرتا ہے اور آلودگی سے وسوسے کو بھی دور کر دیتا ہے، لہٰذا استنجے کے بعد یہ مستحب ہے۔
➋ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں فرش کچے ہوتے تھے، لہٰذا غسل کا پانی پاؤں میں جمع ہو جاتا تھا۔ اسی جگہ پاؤں دھونے میں کوئی فائدہ نہ تھا، لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک طرف ہٹ کر پاؤں دھوتے تھے، البتہ اگر پانی جمع نہ ہوتا ہو تو اسی جگہ پاؤں دھوئے جا سکتے ہیں۔
➌ غسل یا وضو کے بعد رومال استعمال کیا جا سکتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کا رومال پیش کرنا، اس کے جواز کی دلیل ہے کہ آپ کے گھر میں رومال تھا۔ باقی رہا آپ کا واپس کرنا تو وہ کسی اور وجہ سے ہو گا، مثلاً: آپ چاہتے ہوں گے کہ پانی کچھ دیر جسم پر رہے تاکہ ٹھنڈک محسوس ہو، وغیرہ۔
➍ رومال پانی کے ساتھ ساتھ میل کچیل کو بھی اچھی طرح صاف کر دیتا ہے اور یہی غسل سے مطلوب ہے، نیز غسل کے بعد پانی کا جسم پر رہنا شرعاً مطلوب نہیں اور یہ رہ بھی نہیں سکتا، ہوا یا کپڑوں سے جلد یا بدیر خشک ہو ہی جائے گا۔
➎ جو شخص ٹب وغیرہ سے چلو بھر کر پانی لینا چاہے، اسے چاہیے کہ اپنی ہتھیلیاں پہلے دھو لے تاکہ پانی آلودہ نہ ہو۔
➏ شرم گاہ دھونے کے لیے دائیں ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالنا چاہیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 254   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 245  
´غسل جنابت کے طریقے کا بیان `
«. . . حَدَّثَنَا ابْنُ عَبَّاسٍ، عَنْ خَالَتِهِ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا يَغْتَسِلُ بِهِ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَأَكْفَأَ الْإِنَاءَ عَلَى يَدِهِ الْيُمْنَى فَغَسَلَهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ صَبَّ عَلَى فَرْجِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ بِشِمَالِهِ، ثُمَّ ضَرَبَ بِيَدِهِ الْأَرْضَ فَغَسَلَهَا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَجَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى نَاحِيَةً فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ، فَنَاوَلْتُهُ الْمِنْدِيلَ فَلَمْ يَأْخُذْهُ وَجَعَلَ يَنْفُضُ الْمَاءَ عَنْ جَسَدِهِ . . .»
. . . ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل جنابت کا پانی رکھا، تاکہ آپ غسل کر لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے برتن کو اپنے داہنے ہاتھ پر جھکایا اور اسے دوبار یا تین بار دھویا، پھر اپنی شرمگاہ پر پانی ڈالا، اور بائیں ہاتھ سے اسے دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر مارا اور اسے دھویا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرہ اور دونوں ہاتھ دھوئے، پھر اپنے سر اور جسم پر پانی ڈالا، پھر کچھ ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے، میں نے بدن پونچھنے کے لیے رومال دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں لیا، اور پانی اپنے بدن سے جھاڑنے لگے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب الْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ: 245]
فوائد و مسائل:
➊ غسل جنابت ہو یا عام غسل، مسنون طریقہ یہی ہے جو ان احادیث میں آیا ہے کہ پہلے استنجا اور زیریں جسم دھویا جائے، بعد ازاں وضو کر کے باقی جسم پر پانی بہایا جائے۔ اس وضو میں سر پر مسح کرنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل جنابت سے پہلے والے وضو میں سر کے مسح کا ذکر نہیں ملتا، صرف تین مرتبہ سر پر پانی بہانے کا ذکر ہے۔ اسی لیے امام نسائی رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے غسل جنابت سے پہلے وضو میں سر کے مسح کا چھوڑ دینا۔ اس باب کے تحت حدیث میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے۔ یہاں تک کہ جب آپ سر پر پہنچے، تو اس کا مسح نہیں کیا، بلکہ اس پر پانی بہایا۔ [سنن نسائي حديث: 422]
➋ مختلف احادیث میں وضو کا انداز مختلف نقل ہوا ہے۔ بعض میں پاؤں دھونے کے موقع کا بالکل ذکر نہیں ہے۔ بعض میں صراحت ہے کہ غسل سے فراغت کے بعد دھوئے اور بعض میں دو دفعہ کا ذکر ہے۔ پہلی دفعہ میں وضو کے ساتھ اور دوسری دفعہ فراغت کے بعد اور ظاہر ہے کہ سب ہی صورتیں جائز ہیں۔
➌ غسل کے بعد تولیہ کا استعمال مباح ہے، نہ کرے تو سنت رسول پر عمل کے ثواب کا امیدوار ہونا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 245   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 249  
´غسل میں شرمگاہ کو وضو سے پہلے دھونا`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: " تَوَضَّأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ غَيْرَ رِجْلَيْهِ، وَغَسَلَ فَرْجَهُ وَمَا أَصَابَهُ مِنَ الْأَذَى، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَيْهِ الْمَاءَ، ثُمَّ نَحَّى رِجْلَيْهِ فَغَسَلَهُمَا هَذِهِ غُسْلُهُ مِنَ الْجَنَابَةِ " . . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما سے، وہ میمونہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ سے روایت ہے، انہوں نے بتلایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے وضو کی طرح ایک مرتبہ وضو کیا، البتہ پاؤں نہیں دھوئے۔ پھر اپنی شرمگاہ کو دھویا اور جہاں کہیں بھی نجاست لگ گئی تھی، اس کو دھویا۔ پھر اپنے اوپر پانی بہا لیا۔ پھر پہلی جگہ سے ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں کو دھویا۔ آپ کا غسل جنابت اسی طرح ہوا کرتا تھا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ الْوُضُوءِ قَبْلَ الْغُسْلِ:: 249]
تشریح:
حافظ ابن حجررحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس روایت میں تقدیم تاخیر ہو گئی ہے۔ شرمگاہ کو وضو سے پہلے دھونا چاہئیے جیسا کہ دوسری روایات میں ہے۔ پھر وضو کرنا مگر پیر نہ دھونا پھر غسل کرنا پھر باہر نکل کر پیر دھونا یہی مسنون طریقہ غسل ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 249   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 257  
´غسل میں ایک ہی بار سارے بدن پر پانی ڈالنا`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَتْ مَيْمُونَةُ: " وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاءً لِلْغُسْلِ، فَغَسَلَ يَدَيْهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَفْرَغَ عَلَى شِمَالِهِ فَغَسَلَ مَذَاكِيرَهُ، ثُمَّ مَسَحَ يَدَهُ بِالْأَرْضِ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ تَحَوَّلَ مِنْ مَكَانِهِ فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ " . . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ دو مرتبہ یا تین مرتبہ دھوئے۔ پھر پانی اپنے بائیں ہاتھ میں لے کر اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر زمین پر ہاتھ رگڑا۔ اس کے بعد کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہا لیا اور اپنی جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھوئے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ الْغُسْلِ مَرَّةً وَاحِدَةً:: 257]
تشریح:
یعنی غسل میں ایک ہی بار سارے بدن پر پانی ڈالنا کافی ہے۔ گو باب کی حدیث میں ایک بار کی صراحت نہیں، مطلق پانی بہانے کا ذکر ہے جو ایک ہی بار پر محمول ہو گا اسی سے ترجمہ باب نکلا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 257   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 259  
´غسل جنابت کرتے وقت کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَتْنَا مَيْمُونَةُ، قَالَتْ: " صَبَبْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا، فَأَفْرَغَ بِيَمِينِهِ عَلَى يَسَارِهِ فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ، ثُمَّ قَالَ: بِيَدِهِ الْأَرْضَ فَمَسَحَهَا بِالتُّرَابِ ثُمَّ غَسَلَهَا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ وَأَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِمِنْدِيلٍ فَلَمْ يَنْفُضْ بِهَا " . . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، کہا ہم سے میمونہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کو دائیں ہاتھ سے بائیں پر گرایا۔ اس طرح اپنے دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑ کر اسے مٹی سے ملا اور دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ پھر اپنے چہرہ کو دھویا اور اپنے سر پر پانی بہایا۔ پھر ایک طرف ہو کر دونوں پاؤں دھوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رومال دیا گیا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پانی کو خشک نہیں کیا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ الْمَضْمَضَةِ وَالاِسْتِنْشَاقِ فِي الْجَنَابَةِ:: 259]
تشریح:
معلوم ہوا کہ وضو اور غسل دونوں میں کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا واجب ہے۔
«كذا قال اهل الحديث وامام احمد بن حنبل رحمه الله .» ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ وضو کے بعد اعضاء کے پونچھنے کے بارے میں کوئی حدیث نہیں آئی۔ بلکہ صحیح احادیث سے یہی ثابت ہے کہ غسل کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومال واپس کر دیا۔ جسم مبارک کو اس سے نہیں پونچھا۔
امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ اس بارے میں بہت اختلاف ہے۔ کچھ لوگ مکروہ جانتے ہیں، کچھ مستحب کہتے ہیں، کچھ کہتے ہیں کہ پونچھنا اور نہ پونچھنا برابرہے۔ ہمارے نزدیک یہی مختارہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 259   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 260  
´ گندگی پاک کرنے کے بعد ہاتھ مٹی سے ملنا`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ، " أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ، فَغَسَلَ فَرْجَهُ بِيَدِهِ ثُمَّ دَلَكَ بِهَا الْحَائِطَ، ثُمَّ غَسَلَهَا، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ غُسْلِهِ غَسَلَ رِجْلَيْهِ " . . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے میمونہ رضی اللہ عنہا سے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کیا تو پہلے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے دھویا۔ پھر ہاتھ کو دیوار پر رگڑ کر دھویا۔ پھر نماز کی طرح وضو کیا اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے غسل سے فارغ ہو گئے تو دونوں پاؤں دھوئے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَسْحِ الْيَدِ بِالتُّرَابِ لِيَكُونَ أَنْقَى:: 260]
تشریح:
پہلے بھی یہ حدیث گزر چکی ہے، مگر یہاں دوسری سند سے مروی ہے۔ حضرت امام رحمۃ اللہ علیہ ایک ہی حدیث کو کئی بار مختلف مسائل نکالنے کے لیے بیان کرتے ہیں مگر جدا جدا اسنادوں سے تاکہ تکرار بے فائدہ نہ ہو۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 260   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 265  
´غسل اور وضو کے درمیان فصل کرنا`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَتْ مَيْمُونَةُ: " وَضَعْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَاءً يَغْتَسِلُ بِهِ، فَأَفْرَغَ عَلَى يَدَيْهِ فَغَسَلَهُمَا مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَفْرَغَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فَغَسَلَ مَذَاكِيرَهُ، ثُمَّ دَلَكَ يَدَهُ بِالْأَرْضِ، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ، ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ وَغَسَلَ رَأْسَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ أَفْرَغَ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى مِنْ مَقَامِهِ فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ " . . . .»
. . . عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پانی اپنے ہاتھوں پر گرا کر انہیں دو یا تین بار دھویا۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں پر گرا کر اپنی شرمگاہوں کو دھویا۔ پھر ہاتھ کو زمین پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا پھر اپنے چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ پھر اپنے سر کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہایا، پھر آپ اپنی غسل کی جگہ سے الگ ہو گئے۔ پھر اپنے قدموں کو دھویا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ تَفْرِيقِ الْغُسْلِ وَالْوُضُوءِ:: 265]
تشریح:
امام احمد کی روایت میں یوں ہے کہ آپ نے فرمایا میں نہیں چاہتا۔ آداب غسل سے ہے کہ دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر پہلے خوب اچھی طرح سے استنجاء کر لیا جائے۔ ترجمہ باب حدیث سے ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 265   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 266  
´جس نے غسل میں اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی گرایا`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ مَيْمُونَةَ بِنْتِ الْحَارِثِ، قَالَتْ: " وَضَعْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا وَسَتَرْتُهُ فَصَبَّ عَلَى يَدِهِ فَغَسَلَهَا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ، قَالَ سُلَيْمَانُ: لَا أَدْرِي أَذَكَرَ الثَّالِثَةَ أَمْ لَا، ثُمَّ أَفْرَغَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ، ثُمَّ دَلَكَ يَدَهُ بِالْأَرْضِ أَوْ بِالْحَائِطِ، ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ وَغَسَلَ رَأْسَهُ، ثُمَّ صَبَّ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ فَنَاوَلْتُهُ خِرْقَةً، فَقَالَ: بِيَدِهِ هَكَذَا، وَلَمْ يُرِدْهَا " . . . .»
. . . ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، انہوں نے میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا سے، انہوں نے کہا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے (غسل کا) پانی رکھا اور پردہ کر دیا، آپ نے (پہلے غسل میں) اپنے ہاتھ پر پانی ڈالا اور اسے ایک یا دو بار دھویا۔ سلیمان اعمش کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں راوی (سالم بن ابی الجعد) نے تیسری بار کا بھی ذکر کیا یا نہیں۔ پھر داہنے ہاتھ سے بائیں پر پانی ڈالا۔ اور شرمگاہ دھوئی، پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرے اور ہاتھوں کو دھویا۔ اور سر کو دھویا۔ پھر سارے بدن پر پانی بہایا۔ پھر ایک طرف سرک کر دونوں پاؤں دھوئے۔ بعد میں میں نے ایک کپڑا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا اس طرح کہ اسے ہٹاؤ اور آپ نے اس کپڑے کا ارادہ نہیں فرمایا۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنْ أَفْرَغَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فِي الْغُسْلِ:: 266]
تشریح:
یہاں حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہ نکالا ہے کہ موالات واجب نہیں ہے۔ یہاں تک کہ آپ نے سارا وضو کر لیا۔ مگر پاؤں نہیں دھوئے۔ یہاں تک کہ آپ غسل سے فارغ ہوئے، پھر آپ نے پیر دھوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 266   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 276  
´غسل جنابت کے بعد ہاتھوں سے پانی جھاڑ لینا (سنت نبوی ہے)`
«. . . عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَتْ مَيْمُونَةُ " وَضَعْتُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غُسْلًا فَسَتَرْتُهُ بِثَوْبٍ وَصَبَّ عَلَى يَدَيْهِ فَغَسَلَهُمَا، ثُمَّ صَبَّ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ فَضَرَبَ بِيَدِهِ الْأَرْضَ فَمَسَحَهَا، ثُمَّ غَسَلَهَا فَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ عَلَى رَأْسِهِ وَأَفَاضَ عَلَى جَسَدِهِ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ، فَنَاوَلْتُهُ ثَوْبًا فَلَمْ يَأْخُذْهُ، فَانْطَلَقَ وَهُوَ يَنْفُضُ يَدَيْهِ " . . . .»
. . . ابن عباس سے روایت ہے، آپ نے کہا کہ میمونہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا اور ایک کپڑے سے پردہ کر دیا۔ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انہیں دھویا۔ پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ میں پانی لیا اور شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر مارا اور دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور چہرے اور بازو دھوئے۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم مقام غسل سے ایک طرف ہو گئے۔ پھر دونوں پاؤں دھوئے۔ اس کے بعد میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑا دینا چاہا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نہیں لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھوں سے پانی جھاڑنے لگے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ نَفْضِ الْيَدَيْنِ مِنَ الْغُسْلِ عَنِ الْجَنَابَةِ:: 276]
تشریح:
باب اور حدیث کی مطابقت ظاہر ہے، معلوم ہوا کہ افضل یہی ہے کہ وضو اور غسل میں بدن کپڑے سے نہ پونچھے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 276   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 281  
´لوگوں میں نہاتے وقت پردہ کرنا ضروری ہے`
«. . . عَنْ مَيْمُونَةَ، قَالَتْ: " سَتَرْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ فَغَسَلَ يَدَيْهِ، ثُمَّ صَبَّ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ فَغَسَلَ فَرْجَهُ وَمَا أَصَابَهُ، ثُمَّ مَسَحَ بِيَدِهِ عَلَى الْحَائِطِ أَوِ الْأَرْضِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ وُضُوءَهُ لِلصَّلَاةِ غَيْرَ رِجْلَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى جَسَدِهِ الْمَاءَ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ قَدَمَيْهِ "، تَابَعَهُ أَبُو عَوَانَةَ، وَابْنُ فُضَيْلٍ فِي السَّتْرِ . . . .»
. . . میمونہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ` جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت فرما رہے تھے میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پردہ کیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے اپنے ہاتھ دھوئے، پھر داہنے ہاتھ سے بائیں پر پانی بہایا اور شرمگاہ دھوئی اور جو کچھ اس میں لگ گیا تھا اسے دھویا پھر ہاتھ کو زمین یا دیوار پر رگڑ کر (دھویا) پھر نماز کی طرح وضو کیا۔ پاؤں کے علاوہ۔ پھر پانی اپنے سارے بدن پر بہایا اور اس جگہ سے ہٹ کر دونوں قدموں کو دھویا۔ اس حدیث میں ابوعوانہ اور محمد بن فضیل نے بھی پردے کا ذکر کیا ہے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ التَّسَتُّرِ فِي الْغُسْلِ عِنْدَ النَّاسِ:: 281]
تشریح:
ابوعوانہ کی روایت اس سے پہلے خود امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ ذکر فرما چکے ہیں اور محمد بن فضیل کی روایت کو ابوعوانہ نے اپنی صحیح میں نکالا ہے۔ ابوعوانہ کی روایت کے لیے حدیث نمبر 260 ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 281   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 265  
265. حضرت میمونہ بنت حارث‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انهوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا اور پردہ کر دیا۔ آپ نے اپنے (دائیں ہاتھ سے بائیں) ہاتھ پر پانی ڈالا، پھر اسے ایک یا دو مرتبہ دھویا۔ حضرت سلیمان اعمش کہتےہیں: مجھے یاد نہیں، سالم نے تیسری مرتبہ کا ذکر کیا یا نہیں۔ پھر آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا، پھر زمین یا دیوار سے اپنا ہاتھ رگڑا۔ پھر آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، اور اپنے چہرہ مبارک اور ہاتھوں کو دھویا اور سر کو دھویا، پھر بدن پر پانی بہایا۔ اس کے بعد ایک طرف ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ بعد ازاں میں نے ایک کپڑا دیا لیکن آپ نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا اور اس کے لینے کا ارادہ نہیں فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:265]
حدیث حاشیہ:
یہاں حضرت امام بخاری ؒ نے یہ نکالا ہے کہ موالات واجب نہیں ہے۔
یہاں تک کہ آپ نے سارا وضو کرلیا۔
مگرپاؤں نہیں دھوئے۔
یہاں تک کہ آپ غسل سے فارغ ہوئے، پھر آپ نے پیردھوئے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 265   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 274  
´جنابت میں وضو لینے کے بعد باقی جسم کو دھونا اور وضو کے اعضاء دوبارہ نہ دھونا`
«. . . وَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضُوءًا لِجَنَابَةٍ فَأَكْفَأَ بِيَمِينِهِ عَلَى شِمَالِهِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ غَسَلَ فَرْجَهُ، ثُمَّ ضَرَبَ يَدَهُ بِالْأَرْضِ أَوِ الْحَائِطِ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَغَسَلَ وَجْهَهُ وَذِرَاعَيْهِ، ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ، ثُمَّ غَسَلَ جَسَدَهُ، ثُمَّ تَنَحَّى فَغَسَلَ رِجْلَيْهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے دو یا تین مرتبہ اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا۔ پھر شرمگاہ دھوئی۔ پھر ہاتھ کو زمین پر یا دیوار پر دو یا تین بار رگڑا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور بازوؤں کو دھویا۔ پھر سر پر پانی بہایا اور سارے بدن کا غسل کیا۔ پھر اپنی جگہ سے سرک کر پاؤں دھوئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل: 274]
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے باب قائم فرمایا کہ جنابت میں وضو لینے کے بعد باقی جسم کو دھونا اور وضو کے اعضاء دوبارہ نہ دھونا۔ کیوں کہ ابتداء ہی میں وضو کیا جاتا ہے جب آخری مرتبہ جسم پر پانی ڈال دیا جائے تو دوبارہ وضو کی ضرورت نہیں جیسا کہ حدیث کے متن میں واضح ہے کہ آپ نے پورے جسم پر پانی بہایا اور اس جگہ سے ہٹ کر اپنے پیر دھوئے اور اس کے بعد دوبارہ وضو نہیں کیا۔

شاہ صاحب فرماتے ہیں:
«فرض المصنف ان اعادة غسل سائر اعضاء الوضؤ غير لازم والاستدلال بظاهر الحديث» [شرح تراجم ابواب البخاري: ص 112]
امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ غسل کے بعد تمام اعضاء وضوء تو دوبارہ دھونا لازم نہیں ہے اور مصنف رحمہ اللہ نے حدیث کے ظاہر سے استدلال فرمایا۔

ابن قدامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کلی اور ناک میں پانی ڈالتے وقت اگر غسل اور وضو کی نیت ہے تو دوبارہ اعضاء کو دھونے پر اختیار ہے، یعنی غسل میں کیا گیا وضو کافی ہو گا۔ جب کہ اس نے دونوں کی نیت کی ہے۔ [المغني۔ ج1۔ ص289]
ہاں البتہ اتنا یاد رکھنا چاہئیے کہ غسل کے دوران شرمگاہ پر ہاتھ لگ جائے تو وضو کا اعادہ ضروری ہو گا۔

ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«يجب الوضوء إذا مس فرجه فى الغسل»
جب شرمگاہ پر ہاتھ لگ جائے تو وضوء لازم ہو جاتا ہے۔ [عارضة الاجوزي، ج1، ص163]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 141   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 418  
´پانی بہانے سے پہلے جنبی کا اپنے اوپر لگی ہوئی گندگی دور کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، البتہ اپنے دونوں پاؤں نہیں دھوئے، اور (وضو سے پہلے) آپ نے اپنی شرمگاہ اور اس پر لگی ہوئی گندگی دھوئی، پھر اپنے جسم پر پانی بہایا، پھر اپنے دونوں پاؤں کو ہٹایا اور انہیں دھویا، یہی (آپ کے) غسل جنابت کا طریقہ تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 418]
418۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں استنجا کرنے سے پہلے وضو کرنے کا بیان ہے۔ یہ بیان میں سہو ہے۔ اگلی روایت سے اس کی وضاحت ہو جاتی ہے کہ سب سے پہلے گندگی صاف کی جائے، یعنی استنجا کیا جائے، اس کے بعد نماز پڑھی جائے۔ صرف سر کا مسح نہیں ہو گا۔ اس کی بجائے تین چلو پانی سر میں ڈالا جائے گا اور پاؤں بھی غسل کرنے کے بعد آخر میں دھوئے جائیں گے، لیکن یہ ضروری نہیں بلکہ شروع میں بھی دھوئے جاسکتے ہیں جبکہ بعد میں پاؤں کے آلودہ ہونے کا خدشہ نہ ہو۔ واللہ اعلم۔ مزید دیکھیے، حدیث 254 اور اس کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 418   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 419  
´شرمگاہ دھونے کے بعد زمین پر ہاتھ ملنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ بنت حارث رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر اپنے داہنے ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالتے، اور اپنی شرمگاہ دھوتے، پھر زمین پر اپنا ہاتھ مارتے، پھر اسے ملتے، پھر دھوتے، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے، پھر اپنے سر اور باقی جسم پر پانی ڈالتے، پھر وہاں سے ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوتے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 419]
419۔ اردو حاشیہ:
➊ اگرچہ استنجا کرنے سے شرم گاہ کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی صاف ہو جاتا ہے مگر چونکہ ہاتھ افضل جزو ہے۔ نماز، قرأت قرآن اور کھانے پکانے وغیرہ میں استعمال ہوتا ہے، لہٰذا اس کی خصوصی صفائی کرنی چاہیے، یعنی اسے مٹی یا صابن وغیرہ سے مل کر اچھی طرح دھویا جائے۔
➋ مٹی نجاست کی بو اور چکناہٹ وغیرہ کو ختم کرتی ہے، اس لیے استنجا کے بعد ہاتھ کو مٹی سے ملنا چاہیے۔ آج کل صابن یہی کام کر سکتا ہے۔ مزید دیکھیے حدیث254 اور اس کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 419   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 428  
´غسل میں اعضاء کو ایک ایک بار دھونے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنابت کا غسل کیا، تو آپ نے اپنی شرمگاہ کو دھویا، اور زمین یا دیوار پر اپنا ہاتھ رگڑا، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کیا، پھر اپنے سر اور پورے جسم پر پانی بہایا ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 428]
428۔ اردو حاشیہ: غسل جنابت میں شرط یہ ہے کہ جسم کا کوئی حصہ خشک نہ رہے، خواہ پانی جسم پر ایک دفعہ ڈالا جائے یا زیادہ دفعہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 428   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث467  
´وضو اور غسل کے بعد رومال استعمال کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کر چکے تو میں آپ کے پاس ایک کپڑا لائی، آپ نے اسے واپس لوٹا دیا اور (بدن سے) پانی جھاڑنے لگے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 467]
اردو حاشہ:
نبیﷺ نے کپڑا اس لیے واپس کردیا کہ اسے ضروری نہ سمجھ لیا جائے تاکہ اس سے امت کے لیے مشکل نہ پیدا ہو، پھر کسی موقع پر ایک آدمی کے لیے بدن پونچھنے کے لیے الگ کپڑا موجود نہ ہوتو وہ حرج محسوس کرے گا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 467   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث573  
´غسل جنابت کا طریقہ۔`
ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غسل کا پانی رکھا، آپ نے غسل جنابت کیا اور برتن کو اپنے بائیں ہاتھ سے دائیں ہاتھ پر انڈیلا، اور دونوں ہتھیلی کو تین مرتبہ دھویا، پھر اپنی شرمگاہ پہ پانی بہایا، پھر اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا، پھر کلی کی، ناک میں پانی ڈالا، اور اپنا چہرہ اور بازو تین تین بار دھویا، پھر پورے جسم پر پانی بہایا، پھر غسل کی جگہ سے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 573]
اردو حاشہ:
(1)
پانی میں ہاتھ دالنے سے پہلے ہاتھ دھونے چاہیے۔

(2)
استنجاء کرنے کے بعد مٹی پر ہاتھ رگڑنے سے صفائی اچھی طرح ہوجاتی ہے۔
اس مقصد کے لیے صابن کا استعمال بھی درست ہے۔

(3)
غسل کے دوران میں وضو کرتے ہوئے پاؤں نہ دھوئے جائیں۔
غسل سے فارغ ہو کردھوئے جائیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 573   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:318  
فائدہ:
اس حدیث میں غسل جنابت کا طریقہ بیان ہوا ہے۔ یاد رہے کہ غسل جنابت کے وضو میں دونوں ہاتھوں کو کہنیوں تک دھونا چاہیے، لیکن اس کے بعد سر اور کانوں کا مسح نہیں کرنا چاہیے، اور نہ ہی پاؤں دھونے چاہئیں، اس کی مفصل حدیث سنن النسائی (422) میں ہے، جس میں وضاحت ہے کہ غسل جنابت میں سر کا مسح نہیں کرنا چاہیے، اور یہ بات معلوم ہے کہ کان سر میں سے ہیں، جب سر کا ہی مسح نہیں ہے تو کانوں کا مسح بھی نہیں کیا جائے گا۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث پر یوں باب باندھا ہے «باب ترك مسح الرأس فى الوضوء من الجنابة» ‏‏‏‏ (غسل جنابت کے وضو میں سر کا مسح نہ کرنے کا بیان)۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 318   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:249  
249. حضرت میمونہ‬ ؓ ز‬وجہ نبی ﷺ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے (غسل کے وقت) اس طرح وضو فرمایا جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے، لیکن پاؤں نہیں دھوئے، البتہ اپنی شرمگاہ کو اور جسم پر لگی ہوئی آلائش کو دھویا۔ پھر اپنے اوپر پانی بہایا، اس کے بعد جائے غسل سے الگ ہو کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ یہ آپ کا غسل جنابت تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:249]
حدیث حاشیہ:

غسل چونکہ جامع طہارت ہے، اس میں طہارت استنجا بھی ہے، طہارت وضو بھی اور طہارت غسل بھی، جب یہ تمام طہارتوں کو شامل ہے تو پھر اس کی ترتیب کیا ہونی چاہیے؟ امام بخاری ؒ کا مقصد غسل سے قبل وضو کی مشروعیت کو بیان کرنا ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کی ابتدا وضو سے فرماتے تھے، بلکہ حضرت عائشہ ؓ کی ایک روایت میں صراحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے غسل کی ابتدا استنجا سے کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 718 (316)
حضرت میمونہ ؓ کی ایک روایت میں یہ بھی وضاحت ہے کہ استنجا کے بعد اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑتے اور اسے خوب صاف کرتے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 722 (317)
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں:
کسی حدیث میں (غسل جنابت کرتے وقت)
سر کے مسح کا ذکر نہیں ہے۔
(فتح الباری: 472/1)
حضرت عائشہ ؓ حضرت ابن عمر ؓ رسول اللہ ﷺ کے غسل جنابت میں وضو کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ آپ نے سر کا مسح نہیں کیا بلکہ اس پر پانی ڈالا۔
(سنن النسائي، الغسل والتیمم، حدیث: 422)
امام نسائی نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے۔
جنابت کے وضو میں سر کے مسح کو ترک کرنا حضرت عائشہ ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وضو کرتے وقت پاؤں بھی دھو لیے جائیں جب کہ حضرت میمونہ ؓ کی روایت میں وضاحت ہے کہ پاؤں غسل سے فراغت کے بعد دھوئے جائیں، ان روایات میں تطبیق کی صورت یہ ہے کہ اگر نہانے کی جگہ صاف ستھری ہے اور وہاں پانی نہیں ٹھہرتا تو پاؤں وضو کرتے وقت دھولیے جائیں۔
اگر پانی وہاں جمع ہو جاتا ہے تو غسل سے فراغت کے بعد انھیں دھو لیا جائے۔
علامہ قرطبی لکھتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ اپنے پاؤں غسل سے فراغت کے بعد اس لیے دھوتے تھے تاکہ غسل کا افتتاح اور اختتام اعضائے وضو سے ہو۔
(فتح الباري: 470/1)
بعض حضرات نے ان دونوں روایات کو بایں طور بھی جمع کیا ہے کہ حضرت عائشہ ؓ کی حدیث پر عمل کرتے ہوئے پاؤں پہلے بھی دھولیے جائیں اور حضرت میمونہ ؓ کی روایت کے پیش نظر غسل سے فراغت کے بعد بھی دھولیے جائیں تاکہ دونوں حدیثوں پر عمل ہو جائے۔

ان دونوں روایات کے پیش نظر غسل کے لیے ضروری ہے کہ پہلے پردے کا اہتمام کیا جائے۔
پھر دونوں ہاتھ دھوئے جائیں۔
بعد ازاں دائیں ہاتھ سے پانی ڈال کر بائیں ہاتھ سے شرمگاہ کو دھویا جائے اور اس پر لگی ہوئی آلائش کو دور کیا جائے۔
پھر وضو کا اہتمام ہو، بعد میں بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچا کر انھیں اچھی طرح ترکیا جائے۔
پھر تمام بدن پر پانی بہا لیا جائے، اگر غسل خانہ صاف ستھرا ہواور پانی جمع نہ ہوتا ہو تو وضو کرتے وقت پاؤں بھی دھوئے جائیں بصورت دیگر غسل سے فراغت کے بعد اس جگہ سے الگ ہو کر پاؤں دھوئے جائیں۔
اس کی تفصیل آئندہ احادیث میں بیان ہو گی۔

شارحین نے امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عنوان کے تین مفہوم بیان کیے ہیں۔
* غسل کا وضو غسل سے پہلے ہے بعد میں نہیں جب غسل کر لیا اور طہارت حاصل ہو گئی تو بلا ضرورت غسل کے بعد وضو کرنا خلاف سنت ہے۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل کے بعد وضو نہ کرتے تھے۔
(سنن النسائي، الغسل، حدیث: 430)
* اس سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ غسل سے پہلے وضو کرنا غسل کا ایک حصہ ہے، اس کی مستقل حیثیت نہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جو اعضاء وضو کرتے وقت دھولیے ہیں انھیں دوران غسل میں دوبارہ دھونے کی ضرورت نہیں۔
اس کے متعلق امام بخاری ؒ آگے ایک مستقل عنوان (رقم16)
لا رہے ہیں۔
* غسل سے پہلے وضو کی کیفیت بیان کرنا مقصود ہے، یعنی اس کا طریقہ وضو جیسا ہے۔
فرق صرف اتنا ہے کہ اگر جائے غسل صاف ہے اور وہاں پانی کھڑا نہیں ہوتا تو پاؤں غسل سے پہلے وضو کے ساتھ ہی دھو لیے جائیں، بصورت دیگر فراغت کے بعد وہاں سے ہٹ کر دھونا چاہیے۔

حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ حدیث میمونہ ؓ میں تقدیم و تاخیر ہو گئی ہے، کیونکہ شرمگاہ کا دھونا وضو سے پہلے ہے، جیسا کہ امام بخاری ؒ نے آئندہ عبد اللہ بن مبارک ؒ کے طریق میں بیان کیا ہے، وہاں پہلے ہاتھوں کا دھونا پھر استنجا کرنا، پھر زمین پر رگڑ کر انھیں صاف کرنا، اس کے بعد وضو کرنا، پاؤں دھونے کے علاوہ پھر تمام جسم پر پانی بہانے کا ذکر ہے۔
(صحیح البخاری، الغسل، حدیث: 281)
اورغسل جنابت کا صحیح طریقہ یہی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 249   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:257  
257. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انهوں نے کہا: حضرت میمونہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: میں نے ایک مرتبہ نبی ﷺ کے غسل کے لیے پانی رکھا۔ آپ نے اپنا ہاتھ دو یا تین مرتبہ دھویا۔ پھر آپ نے اپنے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا، بعد ازاں کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر چہرہ مبارک اور دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ اس کے بعد آپ نے اپنے جسم پر پانی بہایا۔ پھر اپنی جگہ سے ہٹ کر دونوں پاؤں دھوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:257]
حدیث حاشیہ:

شارحین نے اس عنوان کے دو مطلب بیان کیے ہیں۔
* فریضہ غسل ایک مرتبہ پانی بہا لینے سے ادا ہو جاتا ہے جس طرح وضو میں ایک مرتبہ پانی ڈالنا ادائے فرض کے لیے کافی ہے۔
جن روایات میں تین مرتبہ کا ذکر ہے وہ تحصیل کمال کے پیش نظر ہے۔
اس کے لیے وقت اور پانی میں گنجائش کا ہونا ضروری ہے۔
* بعض روایات میں ہے کہ شروع شروع میں غسل جنابت کے لیے سات مرتبہ پانی بہانا ضروری تھا۔
رسول اللہ ﷺ کے باربار سوال کرنے پر اسے ایک بار کر دیا گیا۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 247) (یہ روایت ضعیف ہے)
امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ ابتدائے اسلام کا وہ عمل منسوخ ہے اور اب ایک مرتبہ پانی بہانا ادائے فرض کے لیے کافی ہے۔

شارح بخاری ابن بطال ؒ کہتے ہیں:
امام بخاری ؒ کا قائم کردہ عنوان پھر اپنے جسم پر پانی بہایا کے الفاظ سے بایں طور ثابت ہو رہا ہے کہ حضرت میمونہ ؓ نے کوئی عدد ذکر نہیں کیا، اس لیے کم ازکم تعداد یعنی ایک مرتبہ پر اسے محمول کیا جائے گا، اصل یہی ہے کہ ایک مرتبہ پر اضافہ نہ کیا جائے، یعنی تکرار خلاف اصل ہے اور اس کے لیے دلیل کی ضرورت ہے اور علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غسل میں استیعاب اور تعمیم شرط ہے، تعداد وغیرہ کا لحاظ ضروری نہیں۔
(شرح ابن بطال: 474/1)
علامہ سندھی نے ایک اور انداز سے اس عنوان کو ثابت کیا ہے، فرماتے ہیں:
حضرت میمونہ ؓ اس روایت میں رسول اللہ ﷺ کے غسل کی پوری کیفیت بیان کر رہی ہیں، انھوں نے ہاتھ دھونے کی تعداد ذکر کی، لیکن پانی بہانے میں ذکر تعداد سے سکوت فرمایا، یہ سکوت اس بات کی دلیل ہے کہ پانی بہانے میں تکرار نہیں، بلکہ صرف ایک بار بہانے پر اکتفا کیا گیا۔
(حاشیة السندي: 57/1)
ابن بطال نے عدم ذکر سے عدم واقعہ پر استدلال لیا ہے۔
جبکہ علامہ سندھی نے محل بیان سے سکوت کو بطور دلیل پیش کیا ہے اور محل بیان کا سکوت حجت ہوتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 257   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:259  
259. حضرت میمونہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا تو آپ نے اپنےدائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور دونوں ہاتھوں کو دھویا۔ پھر آپ نے اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنا ہاتھ زمین پر رکھا اور اسے مٹی سے رگڑا اور دھویا۔ بعد ازاں آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر چہرہ مبارک کو دھویا اور اپنے سر پر پانی بہایا۔ اس کے بعد آپ اس جگہ سے الگ ہوئے اور اپنے پاؤں دھوئے۔ پھر آپ کو ایک رومال پیش کیا گیا لیکن آپ نے اس سے اپنا بدن صاف نہیں فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:259]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے مذکورہ بالا باب کیوں قائم کیا ہے؟ اس کے متعلق علماء کی دو رائے ہیں:
* امام بخاری ؒ مضمضة اور استنشاق کا الگ باب قائم کر کے غسل میں اس کا وجوب ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
علامہ عینی ؒ نے اس کا ذکر کیا ہے۔
(عمدة القاري: 26/3)
امام بخاری ؒ کا مقصد مضمضة اور استنشاق کا عدم وجوب ثابت کرنا ہے، اس کے قائل ابن بطال ہیں اور حافظ ابن حجر ؒ کا رجحان بھی اسی طرف ہے۔

مضمضة اور استنشاق غسل میں واجب ہیں یا سنت؟ احناف اور حنابلہ واجب کہتے ہیں جبکہ مالکیہ اور شوافع اسے سنت قراردیتے ہیں۔
امام بخاری ؒ کے ترجمۃ الباب سے یہ معلوم ہوتا ہے غالباً وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ غسل سے پہلے اگر وضو نہ کیا جائے۔
(کیونکہ اسے وجوب کا درجہ حاصل نہیں صرف سنت ہی ہے)
تو غسل سے پہلے مضمضة (کلی کرنے)
اور استنشاق (ناک میں پانے ڈالنے)
کا اہتمام ضرور کر لیا جائے۔
واللہ أعلم 3۔
اس روایت میں ہے کہ غسل کے بعد رسول اللہ ﷺ کو بدن صاف کرنے کے لیے رومال پیش کیا گیا، لیکن آپ نے اس سے اپنا بدن صاف نہیں فرمایا۔
دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنے ہاتھوں سے بدن صاف کیا۔
(صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 274۔
276)

اس سے ان حضرات کی تردید ہوتی ہے جو کہتے ہیں کہ وضو اور غسل چونکہ عبادت کا مقدمہ ہیں اس لیے ان کا پانی بدن میں جذب ہونا چاہیے، اسے ہاتھ یا کپڑے سے صاف کرنا عبادت کے اثر کو زائل کرنا ہے جو درست نہیں، اس مسئلے میں ایک حدیث بھی پیش کی جاتی ہے کہ وضو کے بعد اپنے ہاتھوں کو صاف نہ کرو۔
یہ حدیث صحیح نہیں۔
ابن صلاح نے لکھا ہے کہ مجھے اس حدیث کا سراغ نہیں ملا۔
یہ حدیث امام ابن حبان ؒ نے اپنی تالیف "الضعفاء" میں اور ابن ابی حاتم ؒ نے کتاب العلل میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے بیان کی ہے، لیکن یہ معیار محدثین پر پوری نہیں اترتی، لہٰذا قابل حجت نہیں۔
بہر حال وضو اور غسل میں اعضاء پر لگا ہوا پانی صاف کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
(فتح الباري: 471/1)
باقی رہا یہ کہ رسول اللہ ﷺ نے اس رومال کو استعمال نہیں فرمایا تو اس سے صرف اتنا معلوم ہوا کہ غسل کے بعد اس کا استعمال ضروری نہیں، اگر ضرورت ہو تو اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں، کیونکہ ممانعت کی کوئی صحیح دلیل نہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 259   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:260  
260. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، وہ حضرت میمونہ‬ ؓ س‬ے روایت کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے بایں طور غسل جنابت کیا کہ پہلے اپنی شرمگاہ کو اپنے ہاتھ سے دھویا، پھر ہاتھ کو دیوار سے رگڑا اور اسے دھویا، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کیا۔ اور جب آپ غسل سے فارغ ہو گئے تو اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:260]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے استنجا کرنے کے بعد ہاتھ کو اچھی طرح دھونے کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے۔
حالانکہ یہ بات پہلے باب میں معلوم ہو چکی تھی۔
یہ تکرار نہیں، کیونکہ پہلے باب میں ہاتھ کو مٹی پر رگڑنے اور یہاں دیوار پر مارنے کا ذکر ہے، ان دونوں میں فرق ہے۔
(عمدة القاري: 27/3)
اس کے علاوہ کرمانی ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اپنے مختلف شیوخ کے استنباط و استخراج کی طرف اشارہ فرمایا ہے، مثلاً:
عبد اللہ بن زبیر حمیدی نے مسح الید بالتراب ثابت کرنے کے لیے حدیث میمونہ کو بیان کیا ہے، جبکہ اس سے پہلے امام بخاری ؒ کے استاد عمر بن حفص بن غیاث نے اس حدیث سے مضمضة اور استنشاق کا استخراج کیا تھا۔
لہٰذا دونوں روایات کو ایک دوسرے سے قوت و تائید بھی حاصل ہوگئی۔
(شرح الکرماني: 123/1)

مام بخاری ؒ کے علاوہ امام ابو داؤد ؒ نے بھی حدیث میمونہ پر ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
"استنجاء سے فراغت کے بعد آدمی کا اپنے ہاتھ کو زمین پر رگڑنے کا بیان" فرق صرف اتنا ہے کہ امام بخاری ؒ نے اسے کتاب الغسل میں بیان کیا ہے، جبکہ امام ابو داود ؒ نے کتاب الطهارة میں ذکر کیا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ امام بخاری ؒ کے قائم کردہ عناوین کی دو قسمیں ہیں:
* عنوان ایک دعوی کی قبیل سے ہوتا ہے اور اس کے بعد آنے والی حدیث اس دعوی کی دلیل ہوتی ہے. صحیح بخاری کے بیشتر عنوان اسی قسم سے متعلق ہیں۔
* عنوان بعد میں آنے والی حدیث کی شرح اور وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔
مذکورہ عنوان اسی قسم سے ہے، کیونکہ اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے استنجے سے فراغت كے بعد اپنے ہاتھ کو دیوار پر رگڑا۔
امام بخاری ؒ نے عنوان میں وضاحت کردی کہ ہاتھ کو دیوار پر رگڑنے سے مقصود صفائی کا حصول تھا۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام بخاری ؒ اس مقام پر ایک اختلاف کی طرف اشارہ کر کے اپنا رجحان بیان کررہے ہیں، اختلاف یہ ہے کہ ہاتھ کو زمین پر رگڑنے سے مقصود حصول نظافت ہے يا حصول طہارت؟ اس اختلاف کی بنیاد ایک دوسرے نظریاتی اختلاف پر ہے، وہ اس طرح کہ بعض حضرات کے نزدیک استنجا کرنے کے بعد جس بد بو کو دور کرنے کے لیے ہاتھوں کو زمین پر رگڑ اجاتا ہے، وہ درحقیقت نجاست کے ان اجزاء کو دور کرنے کے لیے ہے جو نظر نہیں آتے، لیکن ہاتھ میں تحلیل ہو جاتے ہیں، یہ حضرات اپنے اس موقف کی تائید میں کہتے ہیں کہ خروج ریح سے وضو اسی لیے ٹوٹتا ہے کہ نجاست کے اجزا ہوا میں شامل ہو جاتے ہیں جن کے خروج سے طہارت ساقط ہو جاتی ہے، ان کے نزدیک استنجا کرنے کے بعد ہاتھ کو مٹی سے رگڑنا ضروری ہے تاکہ نجس اجزا سے طہارت ہو جائے، جبکہ دوسرے حضرات کا موقف ہے کہ ہوا میں نجاست کے اجزا نہیں ہوتے بلکہ ان کے قریب سے ہوا کے گزرنے کی بنا پر اس میں بوکی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے، ان ہوائی کیفیات کا زائل کرنا ضروری نہیں، بلکہ حصول نظافت کے لیے یہ عمل کیا جا تا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اگر گیلے کپڑے پر بدبو دار ہوا گزر ے تو اس سے کپڑا نجس نہیں ہوتا، اگر اس ہوا میں نجاست آلود اجزاء ہوتے تو اس گندی ہوا کے گزرنے سے کپڑا پلید ہونا چاہیے تھا۔
باقی رہا خروج ریح سے نقض طہارت کا مسئلہ تو یہ شریعت کے ایک منصوص حکم کی وجہ سے ہے۔
وہ اس لیے نہیں کہ نجاست کے اجزاء اس ہوا میں شامل ہو گئے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ ہر قسم کی ہوا ناقض وضو ہے، خواہ اس سے بدبو آئے یا نہ آئے، اس لیے ممکن ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اس اختلاف پر تنبیہ فرمائی ہواور اس امر کو ترجیح دی ہو کہ ہاتھ کو مٹی پر رگڑ کر دھونا طہارت کے لیے نہیں بلکہ نظافت کے لیے ہے، تاکہ ازالہ عین نجاست کے بعد جو بدبو کے اثرات باقی رہ گئے ہیں انھیں بھی دور کردیا جائے، کیونکہ ان کی موجود گی باقی اعضائے جسم دھونے کے لیے نفرت کا باعث ہے۔
(فتح الباري: 483/1)
اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل جنابت کیا تو اپنی شرمگاہ کو دھویا (فغسل فرجه)
کی فا کے متعلق حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ یہاں فا تعقیب کے لیے نہیں، بلکہ تفسیر کے لیے ہے، کیونکہ استنجا غسل سے فراغت کے بعد نہیں ہوا۔
(عمدة القاري: 27/3)
دراصل یہفا عاطفہ ہے جو بیان ترتیب کے لیے استعمال ہوئی ہے اور حدیث کے معنی یہ ہوں گے کہ رسول اللہ ﷺ نے غسل فرمایا تو اپنے غسل کی ترتیب اس طرح فرمائی کہ پہلے غسل فرج کیا، پھر ہاتھ کو مٹی پر رگڑ کر دھویا، پھر وضو فرمایا، بعد ازیں غسل فرما کر اپنے پاؤں وہاں سے الگ ہو کردھوئے۔
(شرح الکرماني: 123/1)
علامہ کرمانی ؒ نے لکھا ہے کہ فا تفصیل کے لیے ہے، کیونکہ غسل کے اجمال کو اسفا کے بعد تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور ہمیشہ تفصیل اجمال کے بعد ہوتی ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 260   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:265  
265. حضرت میمونہ بنت حارث‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انهوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا اور پردہ کر دیا۔ آپ نے اپنے (دائیں ہاتھ سے بائیں) ہاتھ پر پانی ڈالا، پھر اسے ایک یا دو مرتبہ دھویا۔ حضرت سلیمان اعمش کہتےہیں: مجھے یاد نہیں، سالم نے تیسری مرتبہ کا ذکر کیا یا نہیں۔ پھر آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا، پھر زمین یا دیوار سے اپنا ہاتھ رگڑا۔ پھر آپ نے کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا، اور اپنے چہرہ مبارک اور ہاتھوں کو دھویا اور سر کو دھویا، پھر بدن پر پانی بہایا۔ اس کے بعد ایک طرف ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ بعد ازاں میں نے ایک کپڑا دیا لیکن آپ نے اپنے ہاتھ سے اس طرح اشارہ فرمایا اور اس کے لینے کا ارادہ نہیں فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:265]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے مسئلہ موالات بیان کیا ہے، یعنی اعضائے وضو اور غسل کو پے درپے دھونا ضروری نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ جواز تفریق ہی امام شافعی ؒ کا قول جدید ہے جس کے لیے بایں طور استدلال کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعضاء کا دھونا فرض کیا ہے جو شخص بھی اس امر کی تعمیل کرے گا وہ فرض کی ادائیگی سے سبکدوش ہو جائےگا، خواہ تفریق سے کرے یا موالات سے۔
امام بخاری ؒ نے اس کی تائید حضرت ابن عمر ؓ کے عمل سے بھی کر دی ہے۔
یہی موقف ابن مسیب، عطاء اور ایک جماعت کا ہے۔
امام مالک ؒ اور حضرت ربیعہ ؒ کہتے ہیں کہ جو دانستہ تفریق کرے گا، اس پر وضو اور غسل کا اعادہ ہو گا اور جو بھول کر ایسا کرے گا، اسے دوبارہ وضو یا غسل کرنے کی ضرورت نہیں۔
امام مالک ؒ سے ایک روایت یہ بھی ہے کہ اگر تفریق تھوڑے وقفے کی ہے تو بنا کرے، اگر لمبے وقفے کی ہے تو اعادہ کرے۔
امام اوزاعی اور قتادہ کہتے ہیں کہ اگر تفریق اس قدر ہے کہ اعضاء خشک ہو جائیں تو اعادہ ہے۔
بصورت دیگر نہیں۔
امام نخعی ؒ نے غسل میں تو تفریق کی اجازت دی ہے، مگر وضو میں نہیں۔
مذاہب کی یہ تفصیل ابن منذر ؒ نے بیان کی ہے۔
انھوں نے مزید فرمایا کہ جس نے اس معاملے میں اعضاء کے خشک ہونے کی حد كو فاصل قراردیا اس کے پاس کوئی دلیل نہیں۔
(محلی ابن حزم: 69/2)

اس حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے آغاز غسل میں وضو فرمایا، لیکن پاؤں نہیں دھوئے، پھر غسل فرمایا اس کے بعد جائے غسل سے الگ ہو کر پاؤں دھوئے۔
اس سے معلوم ہوا اعضائے وضو میں موالات ضروری نہیں، بلکہ تفریق جائز ہے۔
اس پر یہ اعتراض ہو تا ہے کہ حدیث اور اثر میں صرف وضو کے متعلق تفریق کا جواز ہے، لیکن امام بخاری ؒ نے عنوان میں وضو کے ساتھ غسل کو بھی شامل فرمایا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ موالات و تفریق کے متعلق وضو اور غسل کی حیثیت یکساں ہے جو حضرات موالات کے قائل ہیں، مثلاً:
امام مالک ؒ وغیرہ وہ وضو اور غسل دونوں میں موالات کو شرط قراردیتے ہیں اور جن کے نزدیک موالات ضروری نہیں، وہ دونوں جگہ اسے غیر ضروری قرار دیتے ہیں۔
صرف امام نخعی ؒ نے تفریق و موالات کے سلسلے میں وضو اور غسل میں فرق کیا ہے۔

حافظ ابن حزم ؒ نے بھی اس کے متعلق مفصل بحث کی ہے، انھوں نے بھی وضو اور غسل میں تفریق کو جائز قراردیا ہے، خواہ درمیان میں کتنا ہی وقفہ ہو جائے اور اس کو امام ابو حنیفہ ؒ، امام شافعی ؒ، امام اوزاعی ؒ اور سفیان ثوری ؒ کا مذہب لکھا ہے۔
پھر احادیث وآثار ذکر کر کے امام مالک ؒ کے موقف کی تردید کی ہے۔
(فتح الباري: 487/1)
علامہ طحاوی ؒ نے اس کے متعلق بڑی عمدۃ بات لکھی ہے کہ اعضاء کا خشک ہو جانا حدث نہیں کہ اسے ناقض وضو قراردیا جائے۔
اگر وضو کرنے کے بعد اعضاء خشک ہونے سے وضو نہیں ٹوٹتا تو دوران وضو میں اعضاء کا خشک ہو جانا کیونکر ناقض وضو ہو سکتا ہے۔
(محلی ابن حزم: 68/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 265   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:266  
266. حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ حضرت میمونہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا تو آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انہیں دو یا تین مرتبہ دھویا۔ پھر آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ بعد ازاں آپ نے اپنا ہاتھ زمین پر رگڑا، پھر کلی کی اور ناک میں پانی چڑھایا۔ پھر آپ نے اپنا چہرہ اور اپنے ہاتھوں کو دھویا، پھر اپنے سر کو تین مرتبہ دھویا اور بدن پر پانی بہایا۔ پھر آپ اپنی جگہ سے ہٹ گئے اور دونوں پاؤں دھوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:266]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ کا مقصد ہے کہ جس معاملے میں ایک ہاتھ سے کام نہیں چلتا، بلکہ دونوں ہاتھ استعمال ہوتے ہیں، وہاں گھٹیا کام بائیں ہاتھ سے متعلق ہو گا۔
جیسا کہ استنجے کا معاملہ ہے، اس میں نجاست کا ازالہ بائیں ہاتھ سے ہو گا، دائیں ہاتھ سے اس کی شرافت کے پیش نظر پانی ڈالنے کا کام لیا جائے گا۔
اس مقام پر اعتراض کیا گیا ہے کہ دعوی عام ہے، لیکن جس حدیث کو بطور دلیل پیش کیا گیا ہے وہ خاص ہے، یعنی اس کا تعلق صرف استنجے کی صورت سے ہے، اس کا جواب حافظ ابن حجر ؒ نے بایں الفاظ دیا ہے کہ استنجے والی صورت تو حدیث الباب سے ثابت ہو گئی اور اس کے علاوہ دوسری صورتیں دوسری معروف احادیث سے پہلے ہی معلوم ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہر کام دائیں طرف سے شروع کرنے کو محبوب رکھتے تھے اور یہاں وہ صورت مراد ہو گی کہ چوڑے منہ والے برتن سے پانی چلو کے ذریعے سے نکالا جائے تو ظاہر ہے کہ اس برتن کو دائیں جانب رکھ کر دائیں ہاتھ سے پانی نکالیں گے اور بائیں ہاتھ پر ڈالیں گے۔
اگر تنگ منہ والا برتن ہو جس سے چلو نہ بھرا جاسکتا ہو تو اسے بائیں جانب رکھیں گے، پھر اسے جھکا کر دائیں ہاتھ میں پانی لیں گے۔
جیسا کہ خطابی نے وضاحت کی ہے۔
(فتح الباري: 488/1)
علامہ خطابی کی وضاحت کو کرمانی نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔
(شرح الکرماني: 129/1)

اس حدیث میں ہے کہ آپ نے جسم صاف کرنے کے لیے کپڑا نہ لینے کا اشارہ فرمایا۔
آگے وضاحت ہے کہ آپ ﷺ نے لینے کا ارادہ نہیں فرمایا، بعض حضرات نے اس کا ترجمہ یوں کیا ہے کہ آپ ﷺ نے واپس نہیں کیا یہ ترجمہ صحیح نہیں، کیونکہ مسند امام احمد میں مزید وضاحت ہے کہ آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا کہ میں لینا نہیں چاہتا اور حدیث میمونہ کے ایک طریق میں ہے کہ میں نے آپ کو کپڑا دیا لیکن آپ نے نہ لیا۔
(فتح الباري: 488/1)

اس روایت میں ہے کہ اعمش کہتے ہیں مجھے یاد نہیں کہ سالم نے تیسری مرتبہ کا ذکر کیا یا نہیں، حالانکہ اس سے پہلے یہ روایت گزر چکی ہے کہ عبد الواحد جب اعمش سے بیان کرتے ہیں تو دو یا تین مرتبہ میں شک کو بیان کرتے ہیں اور جب حضرت ابن فضیل اعمش سے بیان کرتے ہیں تو وضاحت کے ساتھ کہتے ہیں کہ تین مرتبہ اپنے ہاتھوں پر پانی ڈالا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ابن فضیل جب اعمش سے روایت کرتے ہیں تو اس وقت اعمش کا شک دور ہو گیا ہو گا، کیونکہ اعمش سے ابن فضیل کا سماع بعد کا ہے، بغیر شک کے تین مرتبہ ہاتھوں پر پانی ڈالنے کی روایت کو ابو عوانہ نے اپنی مستخرج میں بیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 488/1)

شریعت مطہرہ کے اصول کی روسے جو کام تکریم و زینت سے تعلق رکھتے ہیں انھیں دائیں جانب سے شروع کرنا مستحب ہے، مثلاً:
مسجد میں داخل ہونا، مصافحہ کرنا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا، بالوں میں کنگھی کرنا، کپڑا زیب تن کرنا، سلام پھیرنا، اعضائےطہارت دھونا، بیت الخلاء سے نکلنا، کھانا، پینا، حجراسود کا استلام کرنا وغیرہ، باقی جو باتیں ان کی ضد ہیں یا بری جگہوں سے متعلق ہیں یا ایسے کام جو ادنی ہیں تو وہاں بائیں کو دائیں پر مقدم کرنا چاہیے، مثلاً:
بیت الخلاء میں داخل ہونا، مسجد سے نکلنا، ناک صاف کرنا، استنجا کرنا، جوتا اتارنا ان میں تیامن (دائیں جانب اختیار کرنے)
کے بجائےتیاسر (بائیں جانب اختیار کرنا)
مستحب ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 266   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:274  
274. حضرت میمونہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ نے غسل جنابت کے لیے پانی رکھا۔ پھر آپ ﷺ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر دو یا تین مرتبہ پانی ڈالا۔ بعد ازاں اپنی شرمگاہ کو دھویا، پھر اپنے ہاتھ کو زمین یا دیوار پر دو، تین مرتبہ رگڑ کر دھویا۔ پھر کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے اور بازوؤں کو دھویا۔ پھر آپ نے اپنے سر مبارک پر پانی بہایا۔ پھر تمام جسم کو دھویا، پھر اپنی جگہ سے ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ حضرت میمونہ‬ ؓ ف‬رماتی ہیں: میں آپ کے پاس ایک کپڑا لے کر آئی تو آپ نے اسے نہیں لیا اور ہاتھوں ہی سے پانی جھاڑنے لگے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:274]
حدیث حاشیہ:

کتاب الوضو کے آغاز میں امام بخاری ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا تھا:
غسل جنابت سے پہلے وضو کرنا وہاں غسل جنابت سے پہلے وضو کرنے کی اہمیت وحیثیت بیان فرمائی تھی، مگر یہ بات کہ اس وضو کے بعد جب غسل کرتے تو کیا پھر بھی اعضائے وضو کو دھونے کا اعادہ کرے یا اس کی ضرورت نہیں؟ امام بخاری ؒ نے اس عنوان میں اس بات کی وضاحت کردی کہ اس کے اعادے کی ضرورت نہیں، کیونکہ وہ اعضاء ایک مرتبہ دھل چکے ہیں اور غسل جنابت میں تمام اعضائے جسم کا دھل جانا کافی ہے، خواہ ان کادھونا وضوکے طورپرہو یا غسل کے طور پر، اسی طرح غسل کے بعد دوبارہ وضو کرنے کی بھی ضرورت نہیں، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد وضو نہیں فرمایا کرتے تھے۔
(جامع الترمذي، الطھارة، حدیث: 107)

علامہ ابن بطال ؒ نے لکھا ہے کہ اس عنوان کے مطابق تو حدیث عائشہ ؓ رقم (172)
تھی جس میں ہے کہ وضو سے فراغت کے بعد جسم کے باقی اعضاء دھوتے، مذکورہ حدیث عنوان کے مطابق نہیں، کیونکہ اس کے الفاظ ہیں:
وضو کے بعد ا پنے جسم کو دھوتے۔
اورجلد کا لفظ عام ہے، اس میں مواضع وضو بھی شامل ہیں۔
(شرح ابن بطال: 389/1)
جب یہ صورت حال ہے تو عدم اعادہ والی بات کیسے ثابت ہوگئی؟ شارحین اس کے مختلف جواب دیتے ہیں، جن کی تفصیل حسب ذیل ہے:
۔
قرینہ حال اور عرف کے تحت سیا ق کلام سے اعضائے وضو مستثنیٰ ہیں، یعنی اعضائے معینہ کے ذکر کے بعد جلد کا ذکر عرف کے طور پر بقیہ جلد کا مفہوم دے رہاہے، اس سے پورا جسم مراد نہیں، کیونکہ اعضائے وضو کو دوبارہ دھونے کاذکر نہیں ہوا۔
(المتواری، ص: 77۔
)

۔
ابن تین نے اس کاجواب بایں طور دیا ہے کہ دوسری روایت کے قرینے سے یہاں بقیہ جسم مراد ہے، کیونکہ ترمذی کی روایت میں:
(ثُمَّ أَفَاضَ عَلَى سَائِرِ جَسَدِهِ)
کے الفاظ ہیں۔
(جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث: 103)
لیکن حافظ ابن حجر ؒ نے اس جواب کومحل نظر قراردیا ہے۔
(فتح الباري: 497/1)
وہ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے (ثُمَّ غَسَلَ جَسَدَه)
کو مجاز پر محمول کیا ہے۔
اس کی دلیل حدیث کے آخر میں آنے والے الفاظ پھر آپ نے اپنے پاؤں دھوئے ہیں۔
اگر (غَسَلَ جَسَدَه)
کو عام معنی پر محمول کیا جائے تو اس کے بعد پاؤں کا ذکر کرنے کی ضرورت نہ تھی، کیونکہ ان کا دھونا توعموم میں آچکا تھا۔
پھر آپ نے لکھا ہے کہ یہ جواب امام بخاری ؒ کی شان تدقیق اورخصوصی تصرفات کے زیاہ مناسب ہے۔
وہ واضح رہے کہ بجائے دقیق نکات کی طرف زیادہ توجہ دیتے ہیں۔
(فتح الباری: 497/1)
اعضائے وضو کو دوران غسل میں دوبارہ دھونے کی ضرورت اس وقت نہیں ہوگی جب وضوئے شرعی کی نیت سے اعضائے وضو کو غسل سے پہلے دھویا گیا ہو۔
اس کے برعکس اگراعضائے وضو کو صرف ان کی شرافت کی وجہ سے غسل سے پہلے دھویا، وضوئے شرعی کی نیت نہیں کی تو اس صورت میں امام بخاری ؒ نے عدم اعادہ کا فیصلہ نہیں دیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 274   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:276  
276. حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: حضرت میمونہ‬ ؓ ن‬ے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کے لیے غسل کا پانی رکھا اور ایک کپڑے سے پردہ بھی کر دیا۔ پہلے آپ نے اپنے دونوں ہاتھوں پر پانی ڈالا اور انہیں دھویا۔ پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا اور اپنی شرمگاہ کو دھویا۔ پھر اپنے ہاتھ کو زمین پر خوب رگڑا اور اسے دھویا۔ اس کے بعد کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا، پھر چہرہ اور بازو دھوئے، پھر اپنے سر پر پانی بہایا اور سارے جسم کو دھویا۔ اس کے بعد ایک طرف ہٹ کر اپنے دونوں پاؤں دھوئے۔ بعدازاں میں نے آپ کو ایک کپڑا دینا چاہا لیکن آپ نے اسے نہیں لیا اور آپ اپنے دونوں ہاتھوں سے پانی جھاڑتے ہوئے چلے گئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:276]
حدیث حاشیہ:

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں کہ غسل کرنے کے بعد جو پانی بدن پررہ گیا وہ پاک ہے، اگرچہ وہ اس پانی کا بقیہ ہے جس سے جنابت کو دور کیا گیا تھا۔
اگر اس میں کوئی مضائقہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اسے ہاتھوں سے نہ جھاڑتے، کیونکہ ایسا کرنے سے چھینٹے اڑتے ہیں اوران کے کپڑوں پر پڑنے کا بھی اندیشہ بدستور ہے، اس لیے مناسب یہ تھا کہ احتیاط کے ساتھ تولیے وغیرہ سے پانی کو خشک کرلیا جاتا، لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔
معلوم ہواکہ پانی پاک ہے اوراس کے کپڑوں پر لگ جانے میں کوئی نقصان نہیں۔

بعض شراح نے لکھا ہے کہ اس عنوان سے امام بخاری ؒ ایک ضعیف حدیث کی تردید کرنا چاہتے ہیں وضو میں اپنے ہاتھوں کو مت جھاڑو کیونکہ یہ تو شیطان کے پنکھے ہیں اس حدیث کے متعلق امام ابن الصلاح ؒ نے لکھا ہے کہ مجھے اس کا سراغ نہیں مل سکا۔
امام نووی ؒ نے بھی ایسا ہی کہا ہے کہ جبکہ اس حدیث کو امام ابن حبان ؒ نے اپنی تالیف الضعفاء میں اورابن ابی حاتم ؒ نے کتاب العلل میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے بیان کیا ہے۔
یہ حدیث دواعتبار سے ناقابل حجت ہے۔
۔
بخاری کی صحیح حدیث اس کے معارض ہے۔
یہ سند کے لحاظ سے بھی قابل التفات نہیں۔
(فتح الباري: 471/1)

علامہ عینی ؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے یہ عنوان قائم کرکے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ہاتھوں سے پانی کا جھاڑنا جائز ہے۔
اس سے عبادت کے اثرات زائل نہیں ہوتے۔
رسول اللہ ﷺ نے جوتولیہ واپس کیا اس کا ہرگز مقصد یہ نہ تھا کہ غسل کے اثرات باقی رہیں، بلکہ آپ نے کپڑا اس لیے استعمال نہیں فرمایا کہ یہ عیش پرست اور فضول خرچ لوگوں کی عادت ہے جس سے تکبر کی بھی بو آتی ہے۔
(عمدة القاري: 55/3)
اگرغسل کے اثر کو باقی رکھنا مقصود ہوتا تو ہاتھوں سے پانی جھٹکنا بھی درست نہ ہوتا۔

حافظ ا بن حجرؒ لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے بعض حضرات نے استدلال کیا ہے کہ غسل کے بعد بدن خشک کرنے کے لیے تولیے کا استعمال مکروہ ہے۔
یہ استدالال صحیح نہیں، کیونکہ یہ تو ایک وقتی حالات کا تقاضا تھا جس میں دوسری باتوں کا بھی احتمال ہے، مثلاً ممکن ہے کہ وہ کپڑا ناپاک ہو یا اور کوئی عذر اس کے لینے میں رکاوٹ بنا ہو، یا آپ جلدی میں ہوں، چنانچہ مہلب نے لکھا ہے:
احتمال ہے کہ آپ نے تولیے کا استعمال اس لیے نہ فرمایا ہو کہ پانی کی برکت جسم پر باقی رہے یا تواضع اور انکساری کے پیش نظر اسے ترک فرمایا ہو یا اور کوئی بات اس کپڑے میں دیکھی ہو کہ وہ ریشم کا ہو یا میلا ہو۔
امام احمد اور محدث اسماعیلی کی یہ روایت بھی منقول ہے کہ حضرت نخعی ؒ سے امام اعمش نے تولیے وغیرہ سے بدن صاف کرنے کے متعلق سوال کیا تو انھوں نے فرمایا:
اس میں کوئی حرج نہیں اوررسول اللہ ﷺ نے اس لیے واپس کیا تھا کہ آپ اس کے عادی نہیں ہونا چاہتے تھے۔
حضرت تیمی نے اپنی شرح میں لکھا ہے:
اس حدیث میں دلیل ہے کہ آپ اسے استعمال کرتے تھے۔
اگرآپ کا عمل معروف نہ ہوتا تو حضرت میمونہ ؓ اسے کیوں پیش فرماتیں!ہاتھ سے پانی صا ف کرنا ہی اس کی دلیل ہے کہ تولیہ وغیرہ بھی استعمال ہوسکتا ہے، کیونکہ دونوں طریقوں سے پانی کا صاف کرنا مقصود ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اعضائے وضو سے گرنے والا پانی پاک ہے جبکہ بعض غالی احناف اسے نجس کہتے ہیں۔
(فتح الباري: 472/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 276   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:281  
281. حضرت میمونہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے نبی ﷺ کا پردہ کیا تھا جبکہ آپ غسل جنابت کر رہے تھے، چنانچہ آپ نے پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوئے، پھر آپ نے اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈالا۔ پھر آپ نے اپنی شرمگاہ اور اس آلائش کو دھویا جو لگی ہوئی تھی۔ بعد ازاں آپ نے اپنا ہاتھ دیوار یا زمین پر رگڑا، پھر آپ نے نماز کے وضو جیسا وضو کیا، البتہ پاؤں نہیں دھوئے، پھر آپ نے پورے جسم پر پانی بہایا۔ اس کے بعد وہاں سے ہٹ کر اپنے پاؤں دھوئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:281]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے پہلے باب میں تنہا اورالگ غسل کرنے کا حکم بتایا تھا، اس باب میں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اگر دوسروں کی موجودگی میں غسل کی حاجت ہو تو تستر(پردہ کرنا)
ضروری ہے۔
یا پردہ ہونے کی قدرت کے باجود برہنہ غسل کرنا حرام ہے۔
شاہ ولی اللہ ؒ شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ دوسروں کی موجودگی میں غسل کرنا ہو تو آڑ اور پردہ کرکے غسل کرنا چاہیے۔
الغرض تستر تو فضا میں بھی مطلوب ہے، اگرچہ کپڑے سے یا کم از کم کسی آڑ ہی سے ہو، ہاں اگر وہاں کسی کے گزرنے کا اندیشہ نہ ہوتوتستر کے بغیر غسل جائز ہے۔
اسی طرح غسل خانہ اورحمام میں بھی برہنہ غسل کرنا جائز ہے۔
امام بخاری ؒ نے اپنے دعویٰ کے ثبوت کے لیے دوروایات پیش کی ہیں:
حدیث میمونہ تو متعدد مرتبہ پہلے آچکی ہے۔
حدیث ام ہانی میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ فتح مکہ کے دن فتح سے فراغت کے بعد حضرت ام ہانی ؓ کے مکان پر تشریف لے گئے، ان کا مکان مکے سے باہر تھا، حضرت فاطمہ ؓ نے پردہ کیا اورآپ نے غسل فرمایا۔
دوران غسل میں حضرت ام ہانی وہاں پہنچیں تو آپ نے دریافت فرمایا:
کون عورت ہے؟ یہ معلوم تھا کہ کوئی مرد زنانے مکان میں نہیں آ سکتا، اس لیے فرمایا کہ کون عورت ہے؟ یہ معلوم تھا کہ کوئی مرد زنانے مکان میں نہیں آسکتا، اس لیے فرمایا کہ کون عورت ہے؟ اس روایت سے ثابت ہوا کہ لوگوں کی موجودگی میں غسل کے لیے پردہ کرنا ضروری ہے۔

علامہ عینی نے لکھا ہےکہ مذکورہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ غسل کے وقت لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوناضروری ہے، لہذا جس طرح ایک شخص اپنے قابل ستر جسم کو دوسروں کے سامنے بلاوجہ ظاہر نہیں کر سکتا، اسی طرح دوسروں کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ قابل سترجسم کو بلاضرورت دیکھیں۔
پھر اس امر پر بھی اجماع ہے کہ مرد اپنی بیوی کا اوربیوی اپنے شوہر کا قابل ستر جسم دیکھ سکتی ہے۔
علامہ نووی نے لکھا ہے کہ ایک شخص اپنی محرم عورتوں کی موجودگی میں غسل کرسکتا ہے، بشرطیکہ درمیان میں پردہ حائل ہو۔
(عمدۃ القاري: 65/3)

لوگوں کے سامنے نہاتے وقت ایک اور بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ صرف کپڑا باندھ کر نہانے پر اکتفا نہ کرے، بلکہ لوگوں کی نگاہوں سے بھی پردہ کرے، جیساکہ حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ برہنہ تو غسل نہیں کررہے تھے، بلکہ کپڑا وغیرہ باندھ کر غسل فرمارہے ہوں گے، اس کے باوجود حضرت فاطمہ ؓ آڑ کیے ہوئے تھیں، وہ بقیہ بدن کے لیے تھی۔
اگرچہ اس کا تستر ضروری نہ تھا، تاہم اس آڑ کا بھی اہتمام کیا۔
وھوالمقصود۔

حدیث میمونہ ؓ میں ہے کہ وہ حدیث غسل میں رسول اللہ ﷺ کو پردہ کیے ہوئے تھیں۔
امام اعمش سے یہ الفاظ بیان کرنے میں سفیان اکیلے نہیں۔
امام بخاری ؒ نے اس کے لیے متابعت بیان فرمائی ہے کہ ان الفاظ کو امام اعمش سے ابوعوانہ الوضاح البصری بھی بیان کرتے ہیں، جسے خود امام بخاری ؒ نے حدیث رقم (266)
میں نقل فرمایا ہے۔
اور محمد بن فضیل نے بھی یہ الفاظ اعمش سے بیان کیے ہیں، جیسا کہ صحیح ابوالاعوانہ الاسفرائنی میں ہے۔
(فتح الباري: 503/1)
امام بخاری ؒ نے یہاں صرف دو متابعات کا حوالہ دیا ہے جن میں پردہ کرنے کا ذکر ہے، البتہ ایک تیسری متابعت بھی ہے، جسے امام اعمش سے ابوحمزہ نے بیان کیا ہے، اس میں بھی پردہ کرنے کی صراحت ہے۔
اسے بھی امام بخاری ؒ نے ہی بیان کیا ہے۔
(صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 276)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 281   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، رد حدیث اشکال، صحیح بخاری 281  
«سالم بن ابي الجعد، عن كريب، عن ابن عباس، عن ميمونة ...» [صحيح بخاري 281]
سفیان ثوری رحمہ اللہ صحیح بخاری کی یہ حدیث «عن» سے روایت کر رہے ہیں۔
بعض لوگ عن والی روایت پر اعتراض کرتے ہیں کہتے ہیں، سماع کی تصریح یا متابعت ثابت کریں۔
(6) صحیح بخاری باب التستر فی الغسل عن الناس ج 1 ص 42 (ح 281) عبدالواحد نے سفیان کی متابعت کر رکھی ہے۔ بخاری کتاب الغسل باب الغسل مرۃ واحدۃ (ح 257)
حوالہ: فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) جلد 2، ص 315
   فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 315   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، رد حدیث اشکال، صحیح بخاری 249  
«حدثنا محمد بن يوسف، قال: حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن سالم بن ابي الجعد، عن كريب، عن ابن عباس، عن ميمونة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت:» [صحيح بخاري 249]
سفیان ثوری رحمہ اللہ صحیح بخاری کی یہ حدیث «عن» سے روایت کر رہے ہیں۔
بعض لوگ عن والی روایت پر اعتراض کرتے ہیں کہتے ہیں، سماع کی تصریح یا متابعت ثابت کریں۔
(5) صحیح بخاری باب الوضوء قبل الغسل ج1 ص39 (ح 249) عبدالواحد نے سفیان کی متابعت کر رکھی ہے۔ بخاری کتاب الغسل باب الغسل مرۃ واحدۃ (ح 257)
حوالہ: فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) جلد 2، ص 315
   فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 315