Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه
ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا
144. بَابُ : ذِكْرِ الْقَدْرِ الَّذِي يَكْتَفِي بِهِ الرَّجُلُ مِنَ الْمَاءِ لِلْغُسْلِ
باب: کتنا پانی آدمی کے غسل کے لیے کافی ہو گا؟
حدیث نمبر: 229
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، قال: حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قالت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يَغْتَسِلُ فِي الْقَدَحِ، وَهُوَ الْفَرَقُ، وَكُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَهُوَ فِي إِنَاءٍ وَاحِدٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قدح (ٹب) سے غسل کرتے تھے، اور اس کا ۱؎ نام فرق ہے، اور میں اور آپ دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 72، (تحفة الأشراف: 16586) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: ایک پیمانہ ہے جس میں سولہ رطل پانی آتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

سنن نسائی کی حدیث نمبر 229 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 229  
229۔ اردو حاشیہ:
حدیث میں «فَرَق» کا لفظ ہے۔ یہ حجازی صاع کے لحاظ سے تین صاع کا ہوتا ہے جس کا وزن تقریباً ساڑھے سات کلو کے برابر بنتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 229   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 107  
´میاں بیوی دونوں اکٹھے ایک برتن سے غسل کر سکتے ہیں`
«. . . وعنها رضي الله عنها قالت: كنت اغتسل انا ورسول الله صلى الله عليه وآله وسلم من إناء واحد تختلف ايدينا فيه من الجنابة . . .»
. . . سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے یہ روایت بھی ہے کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے غسل جنابت کر لیا کرتے تھے۔ اس برتن میں ہمارے ہاتھ یکے بعد دیگرے داخل ہوتے تھے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 107]
لغوی تشریح:
«تَخْتَلِفُ أَيْدِينَا فِيهِ» کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے ہاتھ ایک دوسرے کے بعد برتن میں داخل ہوتے تھے، مثلاً: پہلے میرا ہاتھ داخل ہوتا تو بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا، یا پھر پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ داخل ہوتا تو بعد میں میرا۔
«مِنْ الْجَنَابَةِ» جنابت کی وجہ سے۔ اس میں غسل کرنے کی وجہ بیان ہوئی ہے کہ غسل کس وجہ سے کرتے تھے؟
«تَلْتَقِي» ایک دوسرے سے مل جاتے، چھو جاتے۔ جب ایک ہی برتن میں یکے بعد دیگرے ہاتھ داخل ہوں گے تو ان کا باہمی طور پر دوسرے کے ساتھ چھو جانا غسل کے لیے باعث نقصان نہیں، لہٰذا ثابت ہوا کہ میاں بیوی دونوں اکٹھے ایک برتن سے غسل کر سکتے ہیں۔ ایسا کرنے میں کوئی قباحت اور مضائقہ نہیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 107   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 77  
´میاں بیوی کا اکٹھے نہا لینے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں`
«. . .عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ وَنَحْنُ جُنُبَانِ . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے اور ہم دونوں جنبی ہوتے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 77]
فوائد و مسائل:
➊ میاں بیوی شرعی لحاظ سے ایک دوسرے کا لباس ہیں اس لیے دونوں کے اکٹھے نہا لینے میں شرعاً کوئی قباحت نہیں۔
➋ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے برتن سے پانی لیا تو وہ عورت کا مستعمل ہو گیا۔ بعد ازاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پانی لیتے تو وہ ان کا مستعمل ہو جاتا۔ معلوم ہوا کہ بقیہ پانی کا استعمال جائز ہے خواہ عورت کا ہو یا مرد کا۔ بالخصوص جبکہ وہ دانا اور سمجھدار ہوں اور نامعقول طور پر پانی میں چھینٹے نہ ڈالتے ہوں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 77   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 238  
´پانی کی اس مقدار کا بیان جو غسل کے لیے کافی ہوتا ہے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْتَسِلُ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ هُوَ الْفَرَقُ مِنَ الْجَنَابَةِ . . .»
. . . ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت ایک ایسے برتن سے کرتے تھے جس کا نام فرق ہے۔ . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب فِي مِقْدَارِ الْمَاءِ الَّذِي يُجْزِئُ فِي الْغُسْلِ: 238]
فوائد و مسائل:
«فرق» تانبے کا ایک برتن ہوتا تھا جس سے چیزیں بھر کر ناپی جاتی تھیں۔ رطل کے حساب سے اس کا وزن سولہ رطل بنتا تھا۔ صحیح مسلم میں سفیان بن عیینہ سے اس کی کمیت کو تین صاع بیان کیا گیا ہے۔ راقم مترجم نے اپنے ہاں موجود مد سے اس کا حساب لگایا تو ہمارے رائج الوقت پیمانے سے اس کی کمیت نو لیٹر اور چھ ملی لیٹر بنتی ہے۔ سنن ابی داود حدیث [95] کے فوائد میں اس کی وضاحت کی گئی ہے۔
➋ کچھ احادیث میں ہے کہ پانی کی یہ مقدار صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال فرمائی اور کچھ میں ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں نے۔ اور یہ بھی ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع یا سوا صاع سے غسل کر لیا کرتے تھے، تو ان میں تطبیق آسان ہے کہ یہ مختلف احوال اور مواقع کا بیان ہے۔ اس باب کی احادیث میں یہ بات خاص قابل ملاحظہ ہے کہ ایک برتن سے غسل فرمایا۔ اور ہم غسل کر لیا کرتے تھے۔ یعنی اس سے مزید پانی اور دوسرا برتن طلب نہیں کرتے تھے۔ بخلاف ہمارے عام معمولات کے جس میں اسراف ہوتا ہے۔ مذکورہ روایات میں بیان کی گئی مقدار اگرچہ حتمی نہیں ہے تاہم مستحب ضرور ہے کہ انسان اسی قدر پانی پر کفایت کرے اور اسراف سے احتراز کرے۔

ملحوظ:
امام احمد کا آخری مقولہ قابل حل ہے کہ صاع بھرنے کا پیمانہ ہے اور رطل وزن کرنے کا۔ ایک صاع میں پانچ رطل اور تہائی رطل غلہ یا کھجور وغیرہ آتی ہے، مگر سائل نے جب کہا کہ مدینے کی صیحانی کھجور بھاری ہوتی ہے۔ تو فرمایا کہ یقیناًً عمدہ کھجور ہے۔ پھر آپ نے کہا کہ میں نہیں جانتا۔ غالباً عبارت مختصر رہ گئی ہے اس لیے سمجھا گیا ہے کہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ اس کا بھاری ہونا پانی کی کاشت کی وجہ سے ہوتا ہے یا کسی اور وجہ سے ہے؟ میں نہیں جانتا۔ جملے کی دوسری توجیہ یہ بھی ہے جسے صاحب بذل المجھود نے ذکر کیا ہے کہ صیحانی کھجور سے صدقہ فطر ادا کریں تو وزن میں بھاری ہونے کے باعث (پانچ رطل اور تہائی رطل) صاع بھرنے سے کم رہ جاتی ہے، تو کیا اس وزن سے صدقہ درست ہو گا؟ آپ نے کہا: کھجور تو عمدہ ہے، مگر معلوم نہیں کہ صدقہ ادا ہوا یا نہیں۔ «والله اعلم»
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 238   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 250  
´مرد کا اپنی بیوی کے ساتھ غسل کرنا درست ہے`
«. . . عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ مِنْ قَدَحٍ، يُقَالُ لَهُ الْفَرَقُ " . . . .»
. . . انہوں نے عروہ سے، انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے بتلایا کہ` میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کیا کرتے تھے اس برتن کو فرق کہا جاتا تھا۔ (نوٹ: فرق کے اندر 6.298 کلو گرام ہوتا ہے۔) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ غُسْلِ الرَّجُلِ مَعَ امْرَأَتِهِ:: 250]
تشریح:
ہر دو میاں بیوی ایک ہی برتن میں پانی بھر کر غسل کر سکتے ہیں۔ یہاں «فرق» (برتن) کا ذکر ہر دو کے لیے مذکور ہے۔ جن احادیث میں صرف ایک صاع پانی کا ذکر ہے وہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تنہا اکیلے غسل کا ذکر ہے۔ دو فرق کا وزن سولہ رطل یعنی آٹھ سیر کے قریب ہوتا ہے جو تین صاع حجازی کے برابر ہے۔

صاحب عون المعبود فرماتے ہیں:
«وليس الغسل بالصاع والوضوءبالمد للتحديد والتقدير بل كان رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الله عليه وسلم ربما اقتصر بالصاع وربما زاد روي مسلم من حديث عائشة انها كانت تغتسل هي والنبي صلى الله عليه وسلم من اناء واحد هوالفرق قال ابن عيينة والشافعي وغيرهما هوثلاثة اصع» [عون المعبود، ج1، ص: 35]
یعنی غسل اور وضو کے لیے صاع کی تحدید نہیں ہے کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صاع پر کبھی زیادہ پر اکتفا فرمایا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 250   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 261  
´کیا جنبی اپنے ہاتھوں کو دھونے سے پہلے برتن میں ڈال سکتا ہے؟ جب کہ جنابت کے سوا ہاتھ میں کوئی گندگی نہیں لگی ہوئی ہو۔`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ تَخْتَلِفُ أَيْدِينَا فِيهِ " . . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، آپ نے فرمایا کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن میں اس طرح غسل کرتے تھے کہ ہمارے ہاتھ باری باری اس میں پڑتے تھے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ هَلْ يُدْخِلُ الْجُنُبُ يَدَهُ فِي الإِنَاءِ قَبْلَ أَنْ يَغْسِلَهَا إِذَا لَمْ يَكُنْ عَلَى يَدِهِ قَذَرٌ غَيْرُ الْجَنَابَةِ:: 261]
تشریح:
یعنی کبھی میرا ہاتھ اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ کبھی دونوں ہاتھ مل بھی جاتے تھے۔ جیسا کہ دوسری روایت میں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 261   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 301  
´حائضہ کے ساتھ مباشرت کرنا (یعنی جماع کے علاوہ اس کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا جائز ہے)`
«. . . وَكَانَ يُخْرِجُ رَأْسَهُ إِلَيَّ وَهُوَ مُعْتَكِفٌ فَأَغْسِلُهُ وَأَنَا حَائِضٌ . . .»
. . . ‏‏‏‏ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک میری طرف کر دیتے۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف میں بیٹھے ہوئے ہوتے اور میں حیض کی حالت میں ہونے کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سر مبارک دھو دیتی۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ مُبَاشَرَةِ الْحَائِضِ:: 301]
تشریح:
بعض منکرین حدیث نے اس حدیث پر بھی استہزاء کرتے ہوئے اسے قرآن کے خلاف بتلایا ہے۔ ان کے خیال ناپاک میں مباشرت کا لفظ جماع ہی پر بولا جاتا ہے۔ حالانکہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ مباشرت کے معنی بدن سے بدن لگانا اور بوس و کنار مراد ہے اور اسلام میں بالاتفاق حائضہ عورت کے ساتھ صرف جماع حرام ہے۔ اس کے ساتھ لیٹنا بیٹھنا، بوس و کنار بشرائط معلومہ منع نہیں ہے۔ منکرین حدیث اپنے خیالات فاسدہ کے لیے محض ہفوات باطلہ سے کام لیتے ہیں ہاں یہ ضروری ہے کہ جس کو اپنی شہوت پر قابو نہ ہو اسے مباشرت سے بھی بچنا چاہئیے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 301   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5956  
5956. سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اور نبی ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5956]
حدیث حاشیہ:
اللہ پاک نے میاں بیوی کے متعلق فرمایا هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ (البقرة: 187)
وہ تمہاری لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو جب عورت مرد کے اختلاط کی کیفیت یہ ہے تو میاں بیوی کے ایک برتن سے مل کر غسل کرلینا کون سی تعجب کی بات ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5956   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 261  
261. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں اور نبی ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے جس میں ہمارے ہاتھ ایک دوسرے سے آگے پیچھے پڑتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:261]
حدیث حاشیہ:
یعنی کبھی میرا ہاتھ اور کبھی آپ ﷺ کا ہاتھ کبھی دونوں ہاتھ مل بھی جاتے تھے۔
جیسا کہ دوسری روایت میں ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 261   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7339  
7339. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میرے لیے اور رسول اللہ ﷺ کے لیے یہ بڑا برتن رکھا جاتا تھا اور ہم دونوں اس میں سے اکٹھے غسل کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7339]
حدیث حاشیہ:
وہ لگن بھی تاریخی چیز بن گئی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7339   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 261  
´غسل کے برتن میں جنبی کا ہاتھ ڈالنا`
«. . . عن عائشة، قالت:" كنت اغتسل انا والنبي صلى الله عليه وسلم من إناء واحد تختلف ايدينا فيه . . .»
. . . وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن میں اس طرح غسل کرتے تھے کہ ہمارے ہاتھ باری باری اس میں پڑتے تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل: 261]
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ کے باب قائم کرنے میں مقصد یہ ہے کہ اگر جنبی کے ہاتھ پر کوئی اور غلاظت یا گندگی نہ ہو اور ہاتھ دھونے سے پہلے برتن میں ہاتھ ڈال دے تو پانی نجس نہ ہو گا کیوں کہ جنابت نجاست حکمی ہے نہ حقیقی کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: «ان المومن لا ينجس» مومن یقیناً نجس نہیں ہوتا۔

ذیل میں امام بخاری رحمہ اللہ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث نقل فرمائی کے سیدہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک برتن سے غسل فرمایا کرتے تھے اور ان دونوں کے ہاتھ باری باری برتن میں پڑتے تھے جو اس بات کی دلیل ہے کہ غسل کی ابتداء میں دونوں نے اپنے ہاتھوں کو غسل کے برتن میں ڈالا ہو گا، لہٰذا مناسبت یہ ہے کہ اگر ہاتھوں پر نجاست نہ ہو تو برتن میں بغیر ہاتھ دھوئے ہوئے ڈالنا کسی قباحت کا سبب نہیں ہے اور اگر ہاتھ میں کچھ لگا ہوا ہے تو برتن میں ہاتھ ڈالنے سے قبل ہاتھوں پر لگی نجاست دھو ڈالے جیسا کہ امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب جنابت کا غسل کرنے لگتے تو (پہلے) اپنا ہاتھ دھوتے۔ [صحيح البخاري كتاب الغسل رقم 263]

علامہ قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مذکورہ بالا ترجمة الباب اور حدیث میں مناسبت کچھ اس طرح سے ہے کہ اس میں جنبی کے لئے جواز ہے غسل کے برتن میں غسل سے قبل ہاتھ ڈالنے کو جب کہ اس میں اور کوئی گندگی نہ لگی ہو جیسا کہ (روایت میں ہے) ہمارے ہاتھ اس میں باری باری پڑتے تھے (غسل کے برتن میں، جو کہ اس بات پر دلالت ہے کہ غسل کا پانی (ہاتھ ڈالنے سے) مفسد نہیں ہوا اور نہ ہی نجس۔ [ارشاد الساري، ج1، ص456۔]

بدرالدین بن جماعۃ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمہ اللہ ترجمة الباب اور حدیث میں استنباط کچھ یوں ہے کہ غسل کے برتن میں ہاتھ ڈالنا جائز ہے، تمام بدن کے حدث کو رفع کرنے سے قبل۔ [مناسبات تراجم البخاري ص42]
«قال المهلب: اشار البخاري الى ان يد الجنب اذا كانت نظيفة جاز له ادخالها الاناء قبل ان يغسله لانه ليس بشئ من اعضاۂ نجسا بسبب كونه جنباً» [فتح الباري، ج1، ص373]

امام بخاری رحمہ اللہ نے اس طرف اشارہ فرمایا کہ جنبی کا ہاتھ اگر صاف ہو (یعنی کوئی نجاست نہ لگی ہو) تو غسل کے برتن میں اس کا ہاتھ ڈالنا جائز ہے، غسل سے قبل ایسا نہیں ہے کہ جنابت کی وجہ سے وہ برتن میں ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔
لہٰذا یہیں سے ترجمۃ الباب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 140   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 44  
´غسل جنابت کے پانی کی مقدار`
«. . . عن عائشة زوج النبى صلى الله عليه وسلم: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغتسل من إناء هو الفرق من الجنابة . . .»
. . . نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت ایک برتن سے کرتے تھے جسے «فَرَقُ» کہتے ہیں . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 44]
تخریج:
[وأخرجه مسلم 319، من حديث مالك به ورواه البخاري 250، من حديث ابن شهاب الزهري به]

تفقه:
➊ غسل جنابت میں ساڑھے سات کلو پانی کافی ہے اور ایک صاع (ڈھائی کلو) سے غسل بھی جائز ہے۔
➋ اس حدیث کی دوسری سندوں سے ثابت ہوتا ہے کہ (رات کے اندھیرے میں) شوہر اور بیوی کا (غسل خانے میں) اکٹھے نہانا جائز ہے۔
➌ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ جب غسل جنابت کرتے تو پہلے دائیں ہاتھ پر پانی بہا کر اسے دھوتے پھر اپنی شرمگاہ دھوتے پھر کلی کرتے اور ناک میں پانی ڈالتے پھر اپنا چہرہ دھوتے اور آنکھوں میں پانی ڈالتے، پھر دایاں ہاتھ دھوتے پھر بایاں ہاتھ دھوتے پھر سر دھوتے پھر غسل کرتے اور اپنے اوپر پانی بہاتے تھے۔ [موطأ امام مالك، رواية يحييٰ 1 / 45 ح98 وسنده صحيح]
➍ غسل سے پہلے استنجاء اور نماز والا وضو مسنون ہے۔ ديكهئے: [صحيح بخاري: 266، 248، 249]
➎ غسل سے فارغ ہونے کے بعد پاؤں دھونا مسنون ہے۔ ديكهئے: [صحيح بخاري: 265]
➏ غسل سے فارغ ہونے کے بعد جسم خشک کرنے کے لئے کپڑا استعمال نہ کرنا مسنون ہے۔ ديكهئے: [صحيح بخاري: 266] تاہم سردی وغیرہ کی وجہ سے اگر جسم خشک کرنے کے لئے تولیہ وغیرہ استعمال کر لیا جائے تو آثار صحابہ اور فہم سلف صالحین کی رُو سے جائز۔ ديكهئے: [الاوسط لابن المنذر 419/1، 416 و مسائل ابي داؤد ص 12]
➐ غسل جنابت کے وضو میں اگر سر کا مسح نہ کیا جائے تو بھی جائز ہے۔ ديكهئے: [سنن النسائي: 422 وسنده صحيح غريب]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 34   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، ردحدیث اشکال، صحیح بخاری 299  
«حدثنا قبيصة، قال: حدثنا سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت:" كنت اغتسل انا والنبي صلى الله عليه وسلم من إناء واحد كلانا جنب.»
ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے سفیان ثوری نے منصور بن معمر کے واسطے سے، وہ ابراہیم نخعی سے، وہ اسود سے، وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کرتے تھے، حالانکہ دونوں جنبی ہوتے۔ [صحيح بخاري 299]
سفیان ثوری رحمہ اللہ صحیح بخاری کی یہ حدیث «عن» سے روایت کر رہے ہیں۔
بعض لوگ عن والی روایت پر اعتراض کرتے ہیں کہتے ہیں، سماع کی تصریح یا متابعت ثابت کریں۔
(7) صحیح بخاری باب مباشرۃ الحائض ج1 ص44 (ح 299) اس میں سفیان ثوری نے سماع کی تصریح کر رکھی ہے۔ دیکھئے سنن ابی داود، الطہارۃ باب الوضوء بفضل المراۃ (ح 77)
«حدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن سفيان، حدثني منصور، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة، قالت:" كنت اغتسل انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم من إناء واحد ونحن جنبان".»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے اور ہم دونوں جنبی ہوتے۔
حوالہ: فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام) جلد 2، ص 315
   فتاویٰ علمیہ (توضیح الاحکام)، حدیث/صفحہ نمبر: 315   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 250  
´ غسل میں پانی کی مقدار`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَغْتَسِلُ أَنَا وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ إِنَاءٍ وَاحِدٍ مِنْ قَدَحٍ، يُقَالُ لَهُ الْفَرَقُ " . . . .»
. . . انہوں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ آپ نے بتلایا کہ میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کیا کرتے تھے اس برتن کو فرق کہا جاتا تھا۔ (نوٹ: فرق کے اندر 6.298 کلو گرام ہوتا ہے۔) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ غُسْلِ الرَّجُلِ مَعَ امْرَأَتِهِ: 250]
تخريج الحديث:
[184۔ البخاري فى: 5 كتاب الغسل: 2 باب غسل الرجل مع امرأته 250، مسلم 319، ابن ماجه 376]
لغوی توضیح:
«الْفَرَق» وہ برتن جس میں تین صاع سما جائیں۔ «صَاع» ایک پیمانہ ہے جو تقریباً اڑھائی کلو گرام کا ہوتا ہے اور اس میں چار مد ہوتے ہیں اور «مُـــدْ» ایک اور ایک تہائی رطل کا ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ ان احادیث میں پانی کی ایک عمومی مقدار کا تذکرہ ہے، یہ مقدار متعین نہیں کہ اس سے زیادہ یا کم پانی استعمال ہی نہیں کیا جا سکتا بلکہ حسب ضرورت اس سے زیادہ پانی بھی استعمال کیا جا سکتا ہے، تاہم اسراف سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 184   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 72  
´جنبی کے (غسل سے) بچے ہوئے پانی کا حکم۔`
عروہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے انہیں خبر دی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتی تھیں۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 72]
72۔ اردو حاشیہ: جنبی کے استعمال کے بعد بچا ہوا پانی قابل استعمال ہے، وہ پلید نہیں ہو گا، چاہے جنبی مرد ہو یا عورت، دونوں کے لیے حکم برابر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 72   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 410  
´جس پانی سے غسل کیا جائے اس کے عدم تحدید کی دلیل۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک برتن سے جس کا نام فرق تھا غسل کرتے تھے، اور میں اور آپ دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 410]
410۔ اردو حاشیہ:
➊ باب پر دلالت آخری ٹکڑے سے ہے۔ جب دو افراد اکٹھے ایک برتن سے غسل کر رہے ہوں تو ضروری نہیں کہ دونوں یکساں پانی استعمال کریں۔ لازماً کمی بیشی ہو گی۔ یہی باب کا عنوان ہے کہ غسل کے لیے پانی کی کوئی مقدار مقرر نہیں۔
فَرَقُ تین صاع کا ہوتا ہے۔ اور ایک صاع تقریباً اڑھائی کلو کا ہوتا ہے۔ بعض احادیث میں غسل کے لیے ایک صاع کا بھی ذکر ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاری، حدیث251]
اور بعض میں ڈیڑھ صاع کا ذکر ملتا ہے۔ دیکھیے: [سنن النسائی، الطہارة، حدیث227]
ان احادیث میں باہم کوئی تعارض نہیں بلکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ غسل میں کم سے کم پانی استعمال کیا کرتے تھے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے، حدیث232 اور اس کا فائدہ)
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 410   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 411  
´شوہر اور بیوی کے ایک برتن سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہم اس سے لپ (بھربھر کر) لیتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 411]
411۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں امام نسائی رحمہ اللہ کے دو استاد ہیں سوید بن نصر اور قتیبہ بن مالک۔ قتیبہ نے حدیث بیان کرتے وقت یوں کہا: «كَانَ يَغْتَسِلُ وَأَنَا» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں اکٹھے غسل کیا کرتے تھے۔ جبکہ سوید بن نصر نے یوں کہا: «كنت أغسل انا ورسول الله صلى الله عليه وسلم» میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکٹھے غسل کیا کرتے تھے۔ صرف لفظی تقدیم و تاخیر ہے، معنیٰ میں کوئی فرق نہیں۔ یہ محدثین کی دیانت اور حفظ کا کمال ہے کہ انہوں نے ا یسے معمولی لفظی فرق کو بھی نہ صرف یاد رکھا بلکہ اس کی وضاحت بھی فرما دی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 411   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 413  
´شوہر اور بیوی کے ایک برتن سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے برتن کے سلسلے میں کھینچا تانی کر رہی ہوں، میں اور آپ دونوں اسی سے غسل کر رہے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 413]
413۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے، حدیث235 اور اس کا فائدہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 413   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 414  
´شوہر اور بیوی کے ایک ساتھ غسل کرنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک برتن سے غسل کرتے تھے، میں چاہتی کہ آپ سے پہلے میں نہا لوں اور آپ چاہتے کہ مجھ سے پہلے آپ نہا لیں یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: تم میرے لیے چھوڑ دو، اور میں کہتی: آپ میرے لیے چھوڑ دیجئیے۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 414]
414۔ اردو حاشیہ: اس روایت میں بھی امام نسائی رحمہ اللہ کے دو استاد ہیں، محمد بن بشار اور سوید بن نصر۔ دونوں کے الفاظ میں تقدیم و تاخیر ہے۔ معنی میں کوئی فرق نہیں۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے اس لفظی فرق کی بھی وضاحت فرما دی۔ مزید دیکھیے: حدیث240کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 414   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 416  
´غسل کے وقت عورت کے سر کے بال نہ کھولنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے اپنے آپ کو دیکھا ہے کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں اس برتن سے غسل کرتے تھے، تو میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو وہاں ایک ڈول رکھا ہوا تھا جو ایک صاع کے برابر تھا، یا اس سے کچھ کم، (اور وہ اسی کی طرف اشارہ کر رہی تھیں) (وہ کہہ رہی تھیں کہ) ہم دونوں غسل ایک ساتھ شروع کرتے، تو میں اپنے سر پر اپنے ہاتھوں سے تین مرتبہ پانی بہاتی، اور میں اپنا بال نہیں کھولتی تھی۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 416]
416۔ اردو حاشیہ: وضاحت کے لیے دیکھیے، حدیث242اور اس کے فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 416   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 232  
´غسل کے لیے پانی کی تحدید نہ ہونے کا ذکر۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (دونوں) ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، اور وہ فرق کے بقدر ہوتا تھا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 232]
232۔ اردو حاشیہ:
استدلال لفظ تقریباً سے ہے، یعنی غسل کے لیے کوئی خاص مقدار معین نہیں، کمی بیشی ہو سکتی ہے۔ پیچھے گزر چکا ہے کہ ایک «فرق» تقریباً تین صاع کا ہوتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 232   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 233  
´شوہر اور بیوی کے ایک برتن سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور میں (دونوں) ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، ہم دونوں اس سے لپ سے ایک ساتھ پانی لیتے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 233]
233۔ اردو حاشیہ:
➊ میاں بیوی کے اکٹھے نہانے پر کوئی عقلی اعتراض ہے نہ شرعی، ہاں یہ بات ضرور ہے کہ غسل کرتے وقت پانی احتیاط سے استعمال کیا جائے اور اسے آلودہ ہونے سے بچایا جائے۔
➋ یہ بھی ثابت ہوا کہ جنبی کے ہاتھ ڈالنے سے پانی پلید نہیں ہو گا، نیز غسل جنابت سے بچے ہوئے پانی سے مزید غسل ہو سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 233   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 235  
´شوہر اور بیوی کے ایک برتن سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے خود کو دیکھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (پانی کے) برتن کے سلسلہ میں جھگڑ رہی ہوں (میں اپنی طرف برتن کھینچ رہی ہوں اور آپ اپنی طرف کھینچ رہے ہیں) میں اور آپ (ہم دونوں) اسی سے غسل کرتے تھے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 235]
235۔ اردو حاشیہ:
اپنی اپنی طرف کھینچتے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پانی آسانی سے اور قریب سے لیا جا سکے یا خوش طبعی کے طور پر۔ میاں بیوی میں ایسی کھینچا تانی ان کی باہمی بےتکلفی اور پیار محبت کی مظہر ہے، جو نہ شرعاً قبیح ہے، نہ عقلاً اور نہ عرفاً، بلکہ محمود اور پسندیدہ ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 235   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 240  
´جنبی کے بچے ہوئے پانی سے غسل کرنے کی رخصت کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دونوں ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، (کبھی) آپ مجھ سے سبقت کر جاتے، اور کبھی میں آپ سے سبقت کر جاتی، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے: میرے لیے چھوڑ دو، اور میں کہتی: میرے لیے چھوڑ دیجئیے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 240]
240۔ اردو حاشیہ:
➊ میاں بیوی اکٹھے غسل کر رہے ہوں تو اس صورت حال کا پیدا ہونا کوئی قابل تعجب یا قابل اعتراض بات نہیں۔ خصوصاً جب کہ میاں بیوی کے درمیان خوش طبعی شریعت میں بھی قابل تعریف ہے۔
➋ اس روایت سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ آپ دونوں یکے بعد دیگرے پانی لیتے تھے جس نے بعد میں پانی لیا، اس نے جنبی کے بچے ہوئے پانی سے غسل کیا۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 240   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث376  
´ایک ہی برتن سے مرد اور عورت کے غسل کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 376]
اردو حاشہ:
ایک برتن سے غسل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ایک بڑے برتن میں پانی رکھا ہوا ہو۔
اور میاں بیوی دونوں اسی میں س پانی لےلے کر نہا لیں یہ جائز ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 376   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 123  
´غسل کرنے کے بعد مرد عورت سے چمٹ کر گرمی حاصل کرے اس کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ بسا اوقات نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جنابت کا غسل فرماتے پھر آ کر مجھ سے گرمی حاصل کرتے تو میں آپ کو چمٹا لیتی، اور میں بغیر غسل کے ہوتی تھی۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 123]
اردو حاشہ:
1؎:
یعنی یہ حسن کے حکم میں ہے،
اس کے راوی حریث بن ابی المطر ضعیف ہیں (جیساکہ تخریج میں گزرا) اس لیے علامہ البانی نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے،
لیکن ابو داود اور ابن ماجہ نے ایک دوسرے طریق سے اس کے ہم معنی حدیث روایت کی ہے،
جو عبدالرحمن افریقی کے طریق سے ہے،
عبدالرحمن حافظہ کی کمزوری کی وجہ سے ضعیف ہیں،
لیکن دونوں طریقوں کا ضعف ایک دوسرے سے قدرے دور ہو جاتا ہے،
نیز صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے اس کے معنی کی تائید ہو جاتی ہے،
وہ یہ ہے:
ہم لوگ حائضہ ہوتی تھیں تو آپ ہمیں ازار باندھنے کا حکم دیتے،
پھر ہم سے چمٹتے تھے واللہ اعلم۔
نوٹ:

سند میں حریث ضعیف ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 123   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1755  
´کندھوں تک لٹکنے والے بالوں کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہی برتن سے غسل کرتی تھی، آپ کے بال «جمہ» سے چھوٹے اور «وفرہ» سے بڑے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1755]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جمہ:
ایسے بال جو کندھوں تک لٹکتے ہیں،
اور وفرہ کان کی لوتک لٹکنے والے بال کو کہتے ہیں،
بال تین طرح کے ہوتے ہیں:
جمہ،
وفرہ،
اور لمہ،
لمۃ:
ایسے بال کوکہتے ہیں جو کان کی لوسے نیچے اور کندھوں سے اوپر ہوتا ہے،
(یعنی وفرہ سے بڑے اور جمعہ سے جھوٹے) بعض احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ آپ کے بال جمہ یعنی کندھوں تک لٹکنے والے تھے،
ممکن ہے کبھی جمہ رکھتے تھے اور کبھی لمہ نیز کبھی وفرہ بھی رکھتے تھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1755   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:159  
فائدہ:
غسل کرنا ہو یا وضو یا کوئی اور کام تو پانی کو مکمل ذمہ داری سے استعمال کرنا چاہیے۔ اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ اس حدیث کا یہ مقصود ہرگز نہیں ہے کہ ماپ کر تین صاع پانی لیا جائے، اور اس سے غسل کیا جائے، بلکہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تھوڑے سے پانی سے غسل فرما لیا کرتے تھے، اور تین صاع تقریباً ساڑھے سات کلو وزن بنتا ہے، فرق سولہ رطل کا پیمانہ ہے چونکہ ایک صاع 1/3-5 رطل کا ہوتا ہے اس لیے فرق میں تین صاع پانی آتا تھا اور ایک صاع تقریباً اڑھائی کلو کا ہوتا ہے۔ اسی طرح ایک فرق ساڑھے سات کلو کا ہوا۔ اور یہ بھی ثابت ہوا کہ میاں بیوی اکٹھے غسل کر سکتے ہیں۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 159   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 726  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک فرق کے برتن سے غسل جنابت فرمایا کرتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:726]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
فرق:
تین صاع۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 726   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 730  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے بتایا کہ وہ (عائشہ) اور نبی اکرم ﷺ ایک برتن سے غسل کرتے، جس میں تین مد یا اس کے قریب پانی آتا تھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:730]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
ایک مد میں پانی دو رطل آتا ہے جو ایک صاع کا چوتھائی ہے،
اس طرح پانی ایک لیٹر سے کچھ زائد ہو گا اور تین مد میں ساڑھے تین لیٹر سے کم پانی ہو گا اس سے معلوم ہوا کہ آپﷺ نے بعض دفعہ تین صاع کی بجائے تین مد پانی پر گزارہ فرمایا ہے یا اس صورت میں اکھٹے غسل نہیں فرمایا ہو گا۔
بلکہ برتن کے چھوٹا ہونے کی وجہ سے یکے بعد دیگرے غسل کیا ہو گا،
اور بقول بعض مد یہاں صاع کے معنی میں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 730   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 747  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کو یہ بات پہنچی کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما، عورتوں کو یہ حکم دیتے ہیں کہ وہ غسل کرتے وقت سر کے بال کھولا کریں تو عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا، ابن عمرو کے اس حکم پر تعجب ہے۔ وہ عورتوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ جب غسل کریں تو سر کے بال کھولیں، انہیں حکم کیوں نہیں دیتے کہ وہ اپنے سر کے بال منڈوا لیں، میں اور رسول اللہ ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے، اور میں اس سے زائد کچھ نہیں کرتی... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:747]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خیال تھا کہ بال کھولے بغیر،
بال اچھی طرح نہیں دھلتے،
جبکہ بالوں کا تر ہوناضروری ہے۔
اور انہیں ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حدیث کا علم نہیں تھا یا یہ وہ حکم استحباب واحتیاط کے طور پر دیتے ہوں گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 747   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:250  
250. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں اور نبی ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے۔ وہ برتن ایک بڑا پیالہ تھا جسے فرق کہا جاتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:250]
حدیث حاشیہ:

شاہ ولی اللہ محدث دہلوی شرح تراجم بخاری میں لکھتے ہیں کہ بعض حضرات کے نزدیک خاوند بیوی کا اکٹھے غسل جائز نہیں۔
امام بخاری ؒ ان کی تردید کرتے ہوئے اس کا جواز ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
علامہ سندھی ؒ لکھتے ہیں:
مذکورہ روایت سے بیوی خاوند کا اکٹھے غسل کرنا ثابت نہیں ہوتا، کیونکہ اتحاد ظرف اتحاد زمان کو لازم نہیں کہ ایک ہی وقت میں دونوں کا غسل ہوتا ہو، نیز واؤ کا استعمال عطف اور انفصال کے لیے ہے، قران و اتحاد کے لیے ان کا استعمال نہیں ہوتا، وہاں دوسری روایات کے پیش نظر کہا جا سکتا ہے کہ اس برتن سے ایک وقت میں دونوں غسل کرتے تھے۔
(حاشیة السندي: 56/1)
امام بخاری نے کتاب الوضو میں مرد عورت کا ایک برتن میں وضو کرنا ثابت فرمایا۔
اسی طرح یہاں مرد وعورت کا ایک وقت میں ایک ہی برتن سے اکٹھا غسل کرنا ثابت کرنا چاہتے ہیں، جیسا کہ دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے، حضرت عائشہ ؓ فرماتی ہیں میں اورنبی ﷺ ایک برتن سے اکٹھے غسل کرتے تھے اور اس برتن میں ہمارے ہاتھ باری باری جاتے۔
(صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 261)
ایک روایت میں ہے کہ ہم اس سے اکٹھے چلو بھرتے تھے۔
(صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 273)
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ مجھ سے پہلے چلو بھرتے تو میں کہتی میرے لیے پانی بچانا۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 32 (321)
نسائی کی روایت میں ہے کہ جب میں پہلے چلو بھر لیتی تو رسول اللہ ﷺ (مزاح کے طور پر)
فرماتے:
میرے لیے پانی بچا رکھیو۔
(سنن النسائي، الغسل، حدیث: 414)
بعض شارحین کا خیال ہے کہ امام بخاری ؒ کا مقصود عورت کے بچے ہوئے پانی سے غسل کا جواز ثابت کرنا ہے، جیسا کہ قبل ازیں عورت کے بچے ہوئے پانی سے وضو کا جواز ثابت کر چکے ہیں، کیونکہ جب ایک ساتھ غسل کریں گے تو جس وقت ایک پانی لے گا تو بقیہ پانی دوسرے کے لیے"فضل" بن جائے گا۔
لیکن اس قدر تکلف کی کیا ضرورت ہے، کیونکہ احادیث میں صراحت ہے کہ بعض اوقات رسول اللہ ﷺ حضرت میمونہ ؓ سے بچے ہوئے پانی سے غسل فرما لیتے تھے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 743 (323)

علامہ داودی نے اس حدیث سے ایک دوسرے کا عضو مستور دیکھنے کا جواز ثابت کیا ہے، کیونکہ جب بیوی خاوند مل کر اکٹھے غسل کریں گے تو یقیناً ایک دوسرے کے عضو مستور پر نظر پڑے گی، اس کی تائید ابن حبان کی ایک روایت سے بھی ہوتی ہے کہ سلیمان بن موسیٰ سے خاوند بیوی کے ایک دوسرے کی شرمگاہ دیکھنے کے متعلق سوال کیا گیا تو انھوں نے اس کے متعلق حضرت عطاء سے سوال کیا وہ کہتے ہیں کہ جب میں نے اس کے متعلق حضرت عائشہ ؓ سے سوال کیا تو انھوں نے اس حدیث کا حوالہ دیا۔
(فتح الباری: 473/1)

اس حدیث میں ہے کہ حضرت عائشہ ؓ اور رسول اللہ ﷺ ایک برتن (قدح)
سے غسل کرتے تھے۔
اس برتن کو فرق کہا جاتا تھا۔
فرق سولہ رطل کا پیمانہ ہے۔
چونکہ ایک صاع 3۔

5 رطل کا ہوتا ہے، اس لیے فرق میں تین صاع پانی آتا تھا۔
اس کی تائید سفیان بن عیینہ کے قول سے بھی ہوتی ہے، جسے امام مسلم نے بیان کیا ہے کہ فرق تین صاع کا پیمانہ ہے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 727 (319)
جب رسول اللہ ﷺ اکیلے غسل فرماتے توایک صاع پانی کی مقدار استعمال کرتے، جیسا کہ احادیث میں بصراحت آیا ہے، لیکن تحدید نہیں، بلکہ حسب ضرورت اس میں کمی بیشی ہو سکتی ہے۔
علامہ عینی ؒ نے لکھا ہے کہ حدیث عائشہ ؓ میں جو فرق سے غسل کرنے کا ذکر ہے اس میں مقدار ماء کا کوئی ذکر نہیں ہے کہ وہ بھرا ہوا تھا یا کم تھا۔
(عمدة القاري: 13/1)
اگر وہ بھرا ہوا تھا تو ہر ایک کے حصے میں ڈیڑھ ڈیڑھ صاع آتا ہے۔
یہ ممکن ہے کہ اس وقت برتن میں دو صاع پانی ہو تو پھر مذکورہ بالا حدیث کے خلاف نہیں ہوگا اور یہ تحقیقی صورت ہوگی کہ رسول اللہ ﷺ ہمیشہ ایک ہی صاع سے غسل فرماتے تھے۔
کبھی وہ مقدار چھوٹے برتن میں ہوتی تھی اور کبھی بڑے برتن میں اسے ڈال لیا جاتا تھا۔
اگر پہلی صورت ہے تو غسل کے پانی کی مقدارتقریبی ہو گی۔
تحدید سے اس کا تعلق نہیں ہو گا، یعنی ایک ڈیڑھ صاع سے غسل فرمایا کرتے تھے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 250   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:261  
261. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں اور نبی ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کرتے تھے جس میں ہمارے ہاتھ ایک دوسرے سے آگے پیچھے پڑتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:261]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث کے بیان کرنے سے امام بخاری ؒ کی ایک غرض تو پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھونے کو ثابت کرنا ہے اور دوسری یہ کہ ضرورت کے وقت ہاتھ دھوئے بغیر بھی پانی میں ہاتھ ڈال سکتے ہیں اور چلو میں پانی نکال سکتے ہیں، اگرچہ شریعت کی نظر میں پسند یدہ یہی ہے کہ پہلے ہاتھ دھوئے جائیں پھر انھیں پانی میں ڈالا جائے۔

امام بخاری ؒ نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے چار احادیث نقل کی ہیں، پہلی حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ غسل کرتے وقت ہمارے ہاتھ اس برتن میں یکے بعد دیگرے پڑتے تھے اور ظاہر ہے کہ ایسا بحالت جنابت ہوتا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ نجاست حکمی (جنابت)
کا پانی پر کوئی اثر نہیں ہوتا، لیکن اس روایت میں غسل جنابت کی صراحت نہ تھی۔
ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہ ؓ کا یہ غسل نظافت یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے ہو، اس لیے دوسری روایت پیش فرمائی جس میں صراحت ہے کہ یہ غسل، غسل جنابت ہوتا تھا، لیکن اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دھو لیتے اور یہ اس وقت ہوتا تھا جب آپ کو ہاتھ پر نجاست کا شبہ ہوتا، اگر ایسا ہو تو دھو کر برتن میں ڈالنا چاہیے، اگر کوئی شبہ نہ ہو بلکہ یقین ہو کہ ہاتھوں پر کوئی دوسری نجاست نہیں تو بغیر دھوئے بھی انھیں برتن میں ڈالا جا سکتا ہے۔
ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ابتداء یہ عمل اس احتیاط پر مبنی ہو کہ دل میں کوئی وسوسہ پیدا نہ ہو۔
تیسری روایات میں برتن اور غسل جنابت دونوں کا یکجا ذکر ہے۔
ان تینوں روایات سے یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ یہ روایات حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ اس طرح بحالت جنابت پانی لینے میں حضرت عائشہ ؓ کی کسی خصوصیت کو دخل ہو۔
امام بخاری ؒ نے چوتھی روایت لا کر اس شبہے کا ازالہ کر دیا، کیونکہ اس میں حضرت عائشہ ؓ کا ذکر نہیں ہے۔
بہر حال امام بخاری کا منشا یہ ہے کہ یہ تمام احادیث مطلق ہیں اور ان کا تعلق جنابت سے ہے، پانی لینے کی کوئی بھی صورت ہو اگر ہاتھ پر کوئی ظاہری نجاست لگی ہوئی نہ ہو تو غسل سے قبل پانی یا برتن میں ہاتھ ڈالنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
ہاں اگر کوئی نجاست لگی ہو تو اسے غسل سے قبل ضرور دھو لینا چاہیے، اگر اسے دھوئے بغیر پانی یا برتن میں ہاتھ ڈال دیا تو اس سے پانی نجس ہو جائے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 261   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:263  
263. حضرت عائشہ‬ ؓ ہ‬ی سے روایت ہے، وہ فرماتی ہیں: میں اور نبی ﷺ ایک ہی برتن میں غسل جنابت کرتے تھے۔ عبدالرحمٰن بن قاسم اپنے والد (قاسم بن محمد بن ابی بکر) کے واسطے سے بھی حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے اسی طرح روایت کرتے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:263]
حدیث حاشیہ:

ان احادیث کے بیان کرنے سے امام بخاری ؒ کی ایک غرض تو پانی میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے ہاتھ دھونے کو ثابت کرنا ہے اور دوسری یہ کہ ضرورت کے وقت ہاتھ دھوئے بغیر بھی پانی میں ہاتھ ڈال سکتے ہیں اور چلو میں پانی نکال سکتے ہیں، اگرچہ شریعت کی نظر میں پسند یدہ یہی ہے کہ پہلے ہاتھ دھوئے جائیں پھر انھیں پانی میں ڈالا جائے۔

امام بخاری ؒ نے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے چار احادیث نقل کی ہیں، پہلی حدیث میں حضرت عائشہ ؓ کا بیان ہے کہ غسل کرتے وقت ہمارے ہاتھ اس برتن میں یکے بعد دیگرے پڑتے تھے اور ظاہر ہے کہ ایسا بحالت جنابت ہوتا تھا۔
اس سے معلوم ہوا کہ نجاست حکمی (جنابت)
کا پانی پر کوئی اثر نہیں ہوتا، لیکن اس روایت میں غسل جنابت کی صراحت نہ تھی۔
ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ اور حضرت عائشہ ؓ کا یہ غسل نظافت یا ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے ہو، اس لیے دوسری روایت پیش فرمائی جس میں صراحت ہے کہ یہ غسل، غسل جنابت ہوتا تھا، لیکن اس روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ غسل جنابت سے پہلے اپنے ہاتھوں کو دھو لیتے اور یہ اس وقت ہوتا تھا جب آپ کو ہاتھ پر نجاست کا شبہ ہوتا، اگر ایسا ہو تو دھو کر برتن میں ڈالنا چاہیے، اگر کوئی شبہ نہ ہو بلکہ یقین ہو کہ ہاتھوں پر کوئی دوسری نجاست نہیں تو بغیر دھوئے بھی انھیں برتن میں ڈالا جا سکتا ہے۔
ممکن ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ابتداءً یہ عمل اس احتیاط پر مبنی ہو کہ دل میں کوئی وسوسہ پیدا نہ ہو۔
تیسری روایت میں برتن اور غسل جنابت دونوں کا یکجا ذکر ہے۔
ان تینوں روایات سے یہ شبہ ہو سکتا تھا کہ یہ روایات حضرت عائشہ ؓ سے مروی ہیں، اس لیے ممکن ہے کہ اس طرح بحالت جنابت پانی لینے میں حضرت عائشہ ؓ کی کسی خصوصیت کو دخل ہو۔
امام بخاری ؒ نے چوتھی روایت لا کر اس شبہے کا ازالہ کر دیا، کیونکہ اس میں حضرت عائشہ ؓ کا ذکر نہیں ہے۔
بہرحال امام بخاری کا منشا یہ ہے کہ یہ تمام احادیث مطلق ہیں اور ان کا تعلق جنابت سے ہے، پانی لینے کی کوئی بھی صورت ہو اگر ہاتھ پر کوئی ظاہری نجاست لگی ہوئی نہ ہو تو غسل سے قبل پانی یا برتن میں ہاتھ ڈالنے سے کوئی نقصان نہیں ہوتا۔
ہاں اگر کوئی نجاست لگی ہو تو اسے غسل سے قبل ضرور دھو لینا چاہیے، اگر اسے دھوئے بغیر پانی یا برتن میں ہاتھ ڈال دیا تو اس سے پانی نجس ہو جائے گا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 263   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:301  
301. اور آپ ﷺ اپنا سر مبارک میری جانب نکال دیتے جب کہ آپ اعتکاف میں ہوتے اور میں بحالت حیض آپ کے سر مبارک کو دھو دیتی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:301]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؒ نے مباشرت حائض کے احکام بیان کرنے کے متعلق یہ عنوان قائم کیا ہے، اس سے مراد حائضہ کے ساتھ سونا یا اس سے بوس و کنار کرنا ہے، اس سے مراد جماع نہیں، کیونکہ وہ تو حائضہ سے کسی صورت میں جائز نہیں۔
اگرچہ ہمارے ہاں اور محاورے میں لفظ مباشرت جماع کے لیے بولا جاتا ہے، اس لیے اس کا لفظ اردو زبان میں مباشرت سے ترجمہ کرنا غلط ہے۔
بعض عاقبت نااندیش مستشرقین نے اس باب میں آنے والی احادیث کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کو خاکم بدہن عورتوں کا رسیا ثابت کیا ہے جو حالت حیض میں بھی ان سے پرہیز نہ کرتے تھے، ان احادیث سے قطعاً یہ ثابت نہیں ہوتا۔
رسول اللہ ﷺ انتہائی نفاست پسند تھے۔
ایک عام آدمی کو بھی بحالت حیض میں عورت کے پاس جانے سے گھن آتی ہے، چہ جائیکہ رسول اللہ ﷺ کی طرف اس قسم کا فعل منسوب کیا جائے۔
﴿ سُبْحَانَكَ هَٰذَا بُهْتَانٌ عَظِيمٌ ﴾ قارئین کرام کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ ضب (سانڈھے)
کو قسام ازل (اللہ تعالیٰ)
نے انتہائی شہوانی جذبات سے نوازا ہے، قابل اعتماد عینی گواہوں کا بیان ہے کہ اس کے دو ذکر ہوتے ہیں، لوگ اسے کھانے اور اس کی چربی کو طلا کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
احادیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حلال ہونے کے باوجود اسے ناپسند فرمایا۔
آپ کے دسترخوان پر دوسرے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اسے کھایا، لیکن آپ نے تناول نہیں فرمایا۔
غالباً اس کی یہی وجہ تھی کہ لوگ اس بات کا چرچا کریں گے کہ آپ کے عقد میں نو بیویاں ہیں، اس لیے ضب (سانڈھے)
کو استعمال کرتے ہیں۔
آپ نے اس سے کراہت کا اظہار کیا تاکہ کسی طرف سے بھی آپ کی شخصیت پر حرف نہ آئے۔
واللہ أعلم 2۔
امام ثوری ؒ امام احمد ؒ امام اسحاق ؒ اور دیگر کئی آئمہ کے نزدیک دوران حیض میں عورت سے صرف جماع حرام ہے اور فرج (حیض والی جگہ)
کے سوا پورے جسم سے تمتع کرنا جائز ہے۔
دلائل کے اعتبار سے یہی رائے راجح معلوم ہوتی ہے، اس کی تائید سنن ابو داود کی اس روایت سے بھی ہوتی ہے جس میں ہے کہ نبی ﷺ اگراپنی اہلیہ سے خواہش کرتے اور وہ حیض سے ہوتی تو اس کی شرمگاہ پر کپڑا ڈال دیتے۔
(سنن أبي داود، الطهارة، حدیث: 272)
ابتدائی دنوں اور بعد کے ایام کی تفریق والی وہ روایت جسے ابن حجر ؒ نے فتح الباری میں ابن ماجہ کے حوالے سے نقل کیا ہے، وہ معجم طبرانی میں ہے، لیکن ضعیف ہے۔
(السلسلة الضعیفة: 2839)
یادرہے کہ جواز اسی صورت میں ہے جب انسان اپنے آپ پر کنٹرول رکھتا ہو، ورنہ ایام حیض میں مرد عورت سے الگ رہے۔

رسول اللہ ﷺ اپنی خواہشات پر انتہائی قابو یافتہ تھے۔
اس کے دو معنی ہو سکتے ہیں:
رسول اللہ ﷺ اپنے جذبات پر پوری طرح قابو یافتہ تھے اور نا ممکن تھا کہ ازار کے بغیر بھی اگر وہ کسی بیوی کے ساتھ استراحت کرنا چاہیں تو ان سے کوئی خلاف شرع فعل صادر ہو سکے، مگر اس قدر کنٹرول کے باوجود آپ پہلے ازار پہنانے کا اہتمام کرتے، پھر اس کے ساتھ محو استراحت ہوتے۔
ازار کے بعد بھی وفور جذبات میں بہہ جانے کا اندیشہ باقی رہتا ہے، اس لیے ازار استعمال کرانے کے باوجود احتیاط کی ضرورت ہے، لہذا ایام حیض میں بیوی کے ساتھ لیٹنے والے کے بارے میں تفصیل ہے کہ اگر اسے اپنی ذات پر پورا اعتماد ہو اور کسی غلط روی کا اندیشہ نہ ہو تو اس کی اجازت دی جائے گی، بصورت دیگر اسے منع کر دیا جائے گا۔

حدیث عائشہ ؓ (رقم 302)
کو ابو اسحاق شیبانی سےبیان کرنے میں خالد بن عبد اللہ الواسطی اور جریر بن عبدالحمید نے علی بن مسہر کی متابعت کی ہے، خالد کی متابعت کو ابو القاسم التنوخی نے اپنے فوائد میں موصولاً بیان کیا ہے، جبکہ جریر کی متابعت کو ابو داؤد نے اپنی سنن اور امام حاکم نے اپنی مستدرک میں موصولاً بیان کیا ہے۔
منصور بن ابی الاسود نے بھی شیبانی سے اس روایت کو بیان کیا ہے جسے ابو عوانہ نے اپنی مسند میں موصولاًبیان کیا ہے۔
(فتح الباري: 5261)

دور حاضرکے منکرین حدیث کی کوشش ہے کہ قرآن و حدیث میں تضاد اورٹکراؤ پیدا کر کے انکار حدیث کا راستہ ہموار کیا جائے۔
اس طرح جب حدیث کا قرآن فہمی میں کوئی کردار نہیں ہوگا تو قرآن کریم کی من مانی تاویلات کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی، اس حدیث کے متعلق بھی انھوں نے کہا کہ اس میں بحالت حیض بیوی سے مباشرت کرنے کا ذکر ہے، جبکہ قرآن کریم میں اس کے متعلق حکم امتناعی ہے، لہٰذا یہ حدیث قرآن کے خلاف ہونے کی وجہ سے ناقابل تسلیم ہے۔
قارئین کرام کو خبردار کرنے کے لیے ہم نے ان کا ذکر کردیا ہے۔
حدیث اپنے مفہوم کے اعتبار سے واضح ہے کہ مباشرت سے مراد جماع نہیں، بلکہ اپنی بیوی کے ساتھ لیٹنا اور اس سے بوس وکنار کرنا ہے، اگر قرآن و حدیث میں بظاہر تعارض نظر آئے تو انکار کے بجائے اس کی توجیہ کرنی چاہیے۔
قرآن کریم کی متعدد آیات میں بظاہر تعارض نظر آتا ہے، لیکن مفسرین اس کی توجیہ کرتے ہیں، یہ نہیں ہوتا کہ جہاں معمولی سا تعارض نظر آیا اس کا سرے سے انکار کردیا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 301   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5956  
5956. سیدہ عائشہ فرماتی ہیں کہ میں اور نبی ﷺ ایک ہی برتن سے غسل کیا کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5956]
حدیث حاشیہ:
(1)
ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب تصویروں والا کپڑا کھینچ کر پھاڑا تو فرمایا:
قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب ان لوگوں کو ہو گا جو اس طرح کی تصویریں بناتے ہیں۔
(صحیح البخاري، الأدب، حدیث: 6109)
جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اسے پھاڑ کر دو تکیے بنا لیتے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر بیٹھا کرتے تھے جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔
(صحیح البخاري، المظالم، حدیث: 2479)
ایک روایت میں ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان دو تکیوں میں کھجور کی چھال بھری اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان پر آرام فرمایا کرتے تھے۔
(صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5532 (2107) (2)
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر تصاویر کی بے قدری اور توہین ہو تو انہیں رکھا جا سکتا ہے۔
اگر کسی جاندار کی تصویر اس انداز سے رکھی جائے کہ اسے اہمیت دینے کا اظہار ہو، مثلاً:
کمرے کی سجاوٹ کے لیے فریم شدہ تصاویر لگانا، تصویروں والا لباس پہننا یا کوئی مجسم تصویر ڈیکوریشن پیس کے طور پر رکھنا، کسی طرح بھی جائز نہیں۔
اسی طرح گھروں میں بزرگوں یا بچوں کی تصویریں فریم کر کے سجانا بھی گھر سے رحمت و برکت کے ختم ہو جانے کا باعث ہے، لہذا ایسی چیزوں سے بچنا لازم ہے۔
(3)
آخری حدیث کا اگرچہ عنوان سے کوئی تعلق نہیں، تاہم امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنے اساتذہ سے اسی طرح سنا تھا اور اسے اسی انداز سے بیان کر دیا۔
علامہ کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ شاید وہ پردہ غسل خانے پر ہو اس مناسبت سے اسے ذکر کر دیا گیا ہے۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 477/10)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5956   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7339  
7339. سیدہ عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے انہوں نے فرمایا: میرے لیے اور رسول اللہ ﷺ کے لیے یہ بڑا برتن رکھا جاتا تھا اور ہم دونوں اس میں سے اکٹھے غسل کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7339]
حدیث حاشیہ:

ایک روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں غسل کرتے تھے جسے"فرق" کہا جاتا تھا۔
(صحیح البخاري، الغسل، حدیث: 250)
وہ لگن بھی تاریخی حیثیت کا حامل تھا جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اکٹھے غسل کرتے تھے۔

ابن بطال کہتے ہیں:
اس سے پانی کی مقدار بیان کرنا مقصود ہے جو غسل کے وقت بیوی خاوند دونوں کو کافی ہو۔
(فتح الباري: 380/13)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7339