سنن نسائي
ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه
ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا
144. بَابُ : ذِكْرِ الْقَدْرِ الَّذِي يَكْتَفِي بِهِ الرَّجُلُ مِنَ الْمَاءِ لِلْغُسْلِ
باب: کتنا پانی آدمی کے غسل کے لیے کافی ہو گا؟
حدیث نمبر: 227
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ، قال: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُوسَى الْجُهَنِيِّ، قال: أُتِيَ مُجَاهِدٌ بِقَدَحٍ حَزَرْتُهُ ثَمَانِيَةَ أَرْطَالٍ، فَقَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ" يَغْتَسِلُ بِمِثْلِ هَذَا".
موسیٰ جہنی کہتے ہیں کہ مجاہد کے پاس ایک برتن لایا گیا، میں نے اس میں آٹھ رطل پانی کی سمائی کا اندازہ کیا، تو مجاہد نے کہا: مجھ سے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی قدر پانی سے غسل فرماتے تھے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف: 17581)، مسند احمد 6/51 (صحیح الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن نسائی کی حدیث نمبر 227 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 227
227۔ اردو حاشیہ:
➊ آٹھ رطل ”عراقی صاع“ کے برابر ہیں۔ ”حجازی صاع“ کے لحاظ سے یہ تقریباً ڈیڑھ صاع کے برابر ہیں۔ ”حجازی صاع“ وزن کے لحاظ سے تقریباً ڈھائی کلو ہوتا ہے، گویا پانی کی مقدار تقریباً چار کلو تھی۔
➋ اس حدیث میں غسل کے لیے پانی کی مقدار آٹھ رطل تقریباً ڈیڑھ صاع بیان ہوئی ہے جبکہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے: ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک صاع (تقریباً اڑھائی کلو) پانی سے غسل اور ایک مد سے وضو کر لیا کرتے تھے۔“ دیکھیے: [صحيح البخاري، الوضوء، حديث: 201، و صحيح مسلم، الحيض، حديث: 335]
اور سنن ابوداود میں وضو کے لیے پانی کی مقدار ایک مد کے دو تہائی جتنا بیان ہوئی ہے۔ [سنن أبى داود، الطهارة، حديث: 94]
ان تمام روایات کا مقصد غسل اور وضو کے لیے پانی کی مقدار کی حد بندی نہیں اور نہ ان روایات میں باہمی تعارض ہے بلکہ مختلف حالات میں ضرورت کے مطابق پانی کم اور زیادہ استعمال ہو سکتا ہے۔ ان روایات میں ترغیب دی گئی ہے کہ پانی کم از کم استعمال کرنا چاہیے، بےجا استعمال نہ ہو کہ وہ اسراف اور ضیاع کی حد کو پہنچ جائے اور اتنا کم بھی نہ ہو کہ اس سے غسل یا وضو کے بجائے مسح ہی سمجھا جائے۔ «والله أعلم»
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 227
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 251
´ایک صاع یا اسی طرح کسی چیز کے وزن بھر پانی سے غسل کرنا`
«. . . قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ، يَقُولُ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَخُو عَائِشَةَ عَلَى عَائِشَةَ، فَسَأَلَهَا أَخُوهَا عَنْ غُسْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ " فَدَعَتْ بِإِنَاءٍ نَحْوًا مِنْ صَاعٍ، فَاغْتَسَلَتْ وَأَفَاضَتْ عَلَى رَأْسِهَا وَبَيْنَنَا وَبَيْنَهَا حِجَابٌ "، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: قَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، وَبَهْزٌ، وَالْجُدِّيُّ، عَنْ شُعْبَةَ: قَدْرِ صَاعٍ . . . .»
”. . . میں نے ابوسلمہ سے یہ حدیث سنی کہ میں (ابوسلمہ) اور عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں گئے۔ ان کے بھائی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل کے بارے میں سوال کیا۔ تو آپ نے صاع جیسا ایک برتن منگوایا۔ پھر غسل کیا اور اپنے اوپر پانی بہایا۔ اس وقت ہمارے درمیان اور ان کے درمیان پردہ حائل تھا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) کہتے ہیں کہ یزید بن ہارون، بہز اور جدی نے شعبہ سے قدر صاع کے الفاظ روایت کئے ہیں۔ (نوٹ: صاع کے اندر 2.488 کلو گرام ہوتا ہے۔) . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ الْغُسْلِ بِالصَّاعِ وَنَحْوِهِ:: 251]
� تشریح:
یہ ابوسلمہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھانجے تھے اور آپ کے محرم تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پردہ سے خود غسل فرما کر ان کو طریقہ غسل کی تعلیم فرمائی۔ مسنون غسل یہی ہے کہ ایک صاع پانی استعمال کیا جائے۔ صاع حجازی کچھ کم پونے تین سیر کے قریب ہوتا ہے۔ جس کی تفصیل کچھ پہلے گزر چکی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 251
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 258
´جس نے حلاب سے یا خوشبو لگا کر غسل کیا تو اس کا بھی غسل ہو گیا`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: " كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ دَعَا بِشَيْءٍ نَحْوَ الْحِلَابِ، فَأَخَذَ بِكَفِّهِ فَبَدَأَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ الْأَيْسَرِ، فَقَالَ: بِهِمَا عَلَى وَسَطِ رَأْسِهِ " . . . .»
”. . . وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرنا چاہتے تو حلاب کی طرح ایک چیز منگاتے۔ پھر (پانی کا چلو) اپنے ہاتھ میں لیتے اور سر کے داہنے حصے سے غسل کی ابتداء کرتے۔ پھر بائیں حصہ کا غسل کرتے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے بیچ میں لگاتے تھے۔ . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنْ بَدَأَ بِالْحِلاَبِ أَوِ الطِّيبِ عِنْدَ الْغُسْلِ:: 258]
� تشریح:
حلاب کے متعلق مجمع البحار میں ہے:
«الحلاب بكسر مهملة وخفة لام اناءيسع قدرحلب ناقة اي كان يبتدي بطلب ظرف و بطلب طيب اواراد به اناءالطيب يعني بدا تارة بطلب ظرف و تارة بطلب نفس الطيب وروي بشدة لام وجيم وهو خطاء .» [مجمع البحار]
یعنی حلاب ایک برتن ہوتا تھا جس میں ایک اونٹنی کا دودھ سما سکے۔ آپ وہ برتن پانی سے پر کر کے منگاتے اور اس سے غسل فرماتے یا اس سے خوشبو رکھنے کا برتن مراد لیا ہے۔ یعنی کبھی محض آپ برتن منگاتے کبھی محض خوشبو۔ ترجمہ باب کا مطلب یہ ہے کہ خواہ غسل پہلے پانی سے شروع کرے جو حلاب جیسے برتن میں بھرا ہوا ہو، پھر غسل کے بعد خوشبو لگائے یا پہلے خوشبو لگا کر بعد میں نہائے۔ یہاں باب کی حدیث سے پہلا مطلب ثابت کیا اور دوسرے مطلب کے لیے وہ حدیث ہے جو آگے آ رہی ہے۔ جس میں ذکر ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خوشبو لگانے کے بعد اپنی بیویوں سے صحبت کی اور صحبت کے بعد غسل ہوتا ہے، تو غسل سے قبل خوشبو لگانا ثابت ہوا۔ شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ حلاب سے مراد بیجوں کا ایک شیرہ ہے جو عرب لوگ غسل سے پہلے لگایا کرتے تھے۔ جیسے آج کل صابون یا بٹنہ یا تیل اور بیسن ملا کر لگاتے ہیں پھر نہایا کرتے ہیں۔ بعضوں نے اس لفظ کو جیم کے ساتھ جلاب پڑھا ہے اور اسے گلاب کا معرب قراردیا ہے۔ «والله اعلم بالصواب»
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 258
حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 258
´سر کے داہنے حصے سے غسل کی ابتداء`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اغْتَسَلَ مِنَ الْجَنَابَةِ دَعَا بِشَيْءٍ نَحْوَ الْحِلَابِ، فَأَخَذَ بِكَفِّهِ فَبَدَأَ بِشِقِّ رَأْسِهِ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ الْأَيْسَرِ، فَقَالَ: بِهِمَا عَلَى وَسَطِ رَأْسِهِ . . .»
”. . . وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے، آپ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب غسل جنابت کرنا چاہتے تو حلاب کی طرح ایک چیز منگاتے۔ پھر (پانی کا چلو) اپنے ہاتھ میں لیتے اور سر کے داہنے حصے سے غسل کی ابتداء کرتے۔ پھر بائیں حصہ کا غسل کرتے۔ پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو سر کے بیچ میں لگاتے تھے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْغُسْل/بَابُ مَنْ بَدَأَ بِالْحِلاَبِ أَوِ الطِّيبِ عِنْدَ الْغُسْلِ: 258]
تخريج الحديث:
[183۔ البخاري فى: 5 كتاب الغسل: 6 باب من بدا بالحلاب اوالطيب عندالغسل 258، مسلم 318، دارمي 749]
لغوی توضیح:
«الحلاب» وہ برتن جس میں جانور کا دودھ دوہا جاتا ہے یا اتنا برتن جس میں ایک مرتبہ کا اونٹنی کا دودھ سما جائے۔
فھم الحدیث
ان احادیث میں غسل جنابت کا طریقہ بیان ہوا ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے اچھی طرح شرمگاہ کو دھویا جائے، پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کیا جائے، پھر تین چلّو سر پر پانی ڈالا جائے اور پھر سارے بدن پر پانی بہا دیا جائے (پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف)۔ اس غسل کے بعد نماز ادا کی جا سکتی ہے، دوبارہ وضو کی ضرورت نہیں۔ [صحيح: صحيح أبوداود 225، أبوداود 250، ترمذي 107، ابن ماجة 579]
غسل کے بعد اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تولیہ استعمال نہیں کیا، لیکن اس کے استعمال سے منع بھی نہیں کیا، لہٰذا اس کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔ علاوہ ازیں میمونہ رضی اللہ عنہا کا تولیہ پیش کرنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تولیہ استعمال کیا کرتے تھے لیکن آپ نے اس وقت اس سے گریز کیا۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ نے بھی اس کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔ [فتاويٰ إسلامية 222/1]
جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 183
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 348
´وضو اور غسل میں انسان کے لیے کتنا کتنا پانی کافی ہے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک مد سے وضو، اور ایک صاع سے غسل کرتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب المياه/حدیث: 348]
348۔ اردو حاشیہ: صاع چار مد کا ہوتا ہے۔ غسل کے لیے کہیں صاع، کہیں تقریباً صاع، کہیں پانچ رطل اور کہیں آٹھ رطل کا ذکر ہے۔ مفہوم اتنا مختلف نہیں۔ ”تقریباً صاع“ کے لفظ بھی اس کی تائید کرتے ہیں۔ صاع تقریباً ڈھائی کلو کا ہوتا ہے، گویا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ڈھائی، تین کلو پانی سے بھی غسل فرما لیا کرتے تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 348
الشيخ ابوبکر قدوسی حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح البخاري251
سیدہ عائشہ کے غسل والی حدیث پر اعتراض کا جائزہ۔۔
اگلے روز ایک دوست نے ایک منکر حدیث کی پوسٹ پر منشن کیا، موصوف بھی ”کچے پکے علم“ اور کا پی پیسٹنگ والے منکر ہیں، کل دن بھر حدیث غسل عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر ان کے لایعنی اعتراضات پر بحث چلتی رہی، موصوف نے ایک دلچسپ دعویٰ کیا کہ نواب وحید الزماں نے حدیث میں موجود لفظ حجاب کا ترجمہ ”باریک پردہ“ کیا ہے، دو دن سے ان سے سکرین شارٹ مانگ رہا لیکن موصوف آگے آگے بھاگ رہے ہیں،
اور سب سے دلچسپ یہ ہے کہ اس حدیث میں غسل جنابت کا پوچھا: ہی نہیں گیا۔۔۔ مصیبت یہ ہوتی ہے کہ ہمارے احباب آدھی بات پکڑ لیتے ہیں۔۔
اور سیاق و سباق کو جانتے نہیں ہوتے اور جلدی سے نتیجہ نکال لیتے ہیں۔۔
حضور بنیا دی طور پر کچھ افراد میں بحث ہوئی کہ کم از کم پانی سے بندہ کتنے میں غسل کر لیتا ہے۔۔۔۔ اس پر بطور فیصلہ سیدہ کے پاس ان کے بھائی اور بھانجے کو بھیجا گیا۔۔۔۔۔ اور اتفاق سے وہ غسل کرنے جا رہی تھیں یا انہوں نے اس سوال کے جواب میں اتنے پانی سے غسل کر دیا اور انہوں نے بطور مثال اور دلیل اتنا ہی پانی لیا جو کم از کم تھا۔۔۔۔۔۔
آپ نوٹ کیجیے کہ حدیث میں غسل کے طریقے کا دور دور تک ذکر نہیں، جبکہ پانی کی مقدار کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے۔۔
لیکن منکرین حدیث کی بدقسمتی کہ جلدی سے انکار کرنا ان کا مزاج بن چکا ہوتا ہے اور آدھی ادھوری بات سمجھتے ہیں اور آدھی پکڑتے ہیں اور فتوے بازی شروع کر دیتے ہیں۔۔۔
اندازہ کیجیے ان کے ذہن میں کتنا تعفن ہے کہ غسل خانے کی اوٹ کے لیے جان بوجھ کر جھوٹ بولتے ہوئے باریک پردے کا لفظ ترجمہ کرتے ہیں جںکہ عربی متن میں صرف لفظ پردہ ہے۔۔۔
بہر حال اس حوالے سے چونکہ میں دو سال پہلے لکھ چکا تھا تو وہی مضمون مکرر آپ بھی پڑھ لیجیے۔۔۔۔۔۔۔
انکار حدیث کرنے والے دوست دو قسم کے ہوتے ہیں ایک وہ جو بہت ”اخلاص ”سے انکار حدیث کرتے ہیں اور اس کو دین کی خدمت سمجھ کے کرتے ہیں دوسرا وہ گر وہ جو سب جانتے ہیں لیکن بد دیانت ہوتے ہیں حقائق کو چھپاتے ہیں -
یہ دونوں گروہ صحیح بخاری اور مسلم کی ایک حدیث پر بہت شد و مد سے اعتراض کرتے ہیں اور اس اعتراض میں بہت جذباتی جملے بازی بھی کرتے ہیں -
حدیث کا مفھوم اور خلاصه یہ ہے کہ:
(دو نوجوانوں میں سوال پیدا ہوا کہ کم پانی میں غسل کیونکر ممکن ہے، اور طریق کیا ہے)
اس سوال کے حل کے لیے وہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتے ہیں اور سوال کرتے ہیں۔۔ اس پر سیدہ جواب دیتی ہیں کہ آپ صاع بھر پانی سے غسل کر لیتے تھے۔۔ اور انہوں نے غسل کر کے دکھا دیا۔۔ اور ان کے درمیان پردہ تھا۔
اس حدیث کو لے کر منکرین حدیث بہت شور کرتے ہیں، حالانکہ بدباطن ایسے ہیں کہ خود ترجمے میں بد دیانتی سے کام لیتے ہیں - ہمارے لاہور میں منکرین حدیث کا ایک گر وہ تھا جس کا دفتر غالبا ریواز گار ڈن ہوتا تھا۔۔ انہوں نے ایسے ہی بعض احادیث پر اعتراضات کرتے ہوئے ایک کتابچہ شائع کیا تھا جس میں اس حدیث پر بھی اعتراض کیا تھا۔۔ اور ترجمے میں جھوٹ لکھتے ہوئے تاثر یہ دیا کہ جیسے کوئی اجنبی نوجوان آئے مسلہ پوچھا: تو ام المؤمنین اٹھیں اور اپنی بات ثابت کرنے کے لیے غسل کر دکھایا۔۔ اور ضمیر کی مکمل موت کا ثبوت دیتے ہوئے حدیث کے ان الفاظ ”بیننا و بینها حجاب ”کا ترجمہ کیا کہ
”ان کے درمیان باریک پردہ تھا۔“
اور اس کے بعد ”حسب معمول منکرین حدیث“ حدیثوں کو اور ائمہ کو خوب برا کہا: -
اب اگر کوئی عام آدمی بھی یہ ترجمہ پڑھے گا اور ساتھ ان منافقین کا تبصرہ تو اک بار تو اس کا دماغ خراب ہو ہی جائے گا۔۔۔
حدیث میں سوال کے واسطے آنے والے دونوں نوجوانوں کا آپ سے رشتہ ذکر نہیں، لیکن عقل، فہم کا تقاضا ہے کہ اگر شیطان آپ کے دل میں کوئی وسوسہ پیدا کرتا ہے تو اس کی تحقیق کرتے ہیں نہ کہ شیطان کے چیلے بن کے اس کی چاکری پر لگ جاتے ہیں۔۔۔ ہمارے منکرین حدیث مگر ایسا ہی کرتے ہیں -
جو دو نوجوان آپ کے پاس سوال کو آئے ایک ان میں ابوسلمہ تھے جو سیدنا عبد الرحمان کے بیٹے تھے اور اماں عائشہ کے بھتیجے تھے یعنی اماں صرف مومن ہونے کے حوالے سے کی ماں ہی نہ تھیں بلکہ سگی پھوپھی بھی تھیں - اور پھوپھو کیا ماں ہی نہیں ہوتی؟
دوسرے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی تھے۔۔۔ اور دودھ شریک بھائی مکمل محر م ہوتا ہے۔۔۔ اندازہ کیجئے منکرین حدیث کس طرح سادہ لوح افراد کو دھوکہ دیتے ہیں -
اب منکرین حدیث کے دماغ میں چونکہ پہلے سے تعفن ہوتا ہے سو اس سبب مثبت سوچنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔۔ ستر کا ترجمہ کیا ”باریک پردہ ”سوال یہ ہے باریک کی صفت کہاں سے آگئی۔۔۔۔ بھائی یہی وہ اندر کا گند ہوتا ہے جس سے ائمہ حدیث تو کیا امہات المؤمنین بھی محفوظ نہ رہیں - حدیث میں سیدھی بات ہے کہ ان کے درمیان پردہ تھا۔۔ اور سیدہ کا مقام تقاضا کرتا ہے کہ مثبت سوچا جائے کہ پردہ دیوار کا ہی تھا جیسے غسل خانوں کی ہوتی ہے۔۔ لیکن ضمیر مردہ تو پردہ باریک دکھائی دیتا ہے -
تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو کیا کہیے
جب دماغ میں موجود غلاظت سوچنے دے تو بندہ مثبت سوچے نا -
اب بندہ اس حدیث کو ڈیڑھ ہزار سال امت نے اس طرح سوچا:
اماں کے بھائی اور بھتیجے آئے، غسل کے پانی کی مقدار پوچھی۔۔۔۔
(مثبت سوچ) ممکن ہے کہ اتفاق سے اماں غسل کا ارادہ کر رہی تھیں، اور بچے آگئے اور یہ سوال پوچھا:۔
سو بچوں نے سوال پوچھا: تو اماں نے غسل کر کے دکھا دیا - انہوں نے سر پر تین بار پانی ڈالا -
(مثبت سوچ) چونکہ محرم تھے سو سر دکھائی دے رہا تھا جس میں کوئی حرج نہیں۔۔۔۔
ان کے بیچ پردہ تھا۔
(مثبت سوچ) پردہ دیوار کا ہی ہو گا۔
مقصود صرف یہ تھا کہ اتنے کم پانی میں غسل ممکن ہے - عربوں میں پانی کی کمی ایک عام سی بات تھی۔۔ صحراؤں کے سفر میں نکلتے تو ایسے مسائل پیش آنا معمول کی بات تھی۔ سو سوال بھی کیے جاتے۔۔ خانگی مسائل میں بہترین جواب امہات المؤمنین ہی دے سکتی تھیں کہ ان سے بڑھ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات کو نہ جانتا تھا۔۔۔ سو یہ ایک عام سا اور آسان ساسوال تھا۔۔ لیکن عرض کر چکا کہ:
تیرے دماغ میں بت خانہ ہو تو ک یا کہئے۔۔۔
مذید تشریحات، حدیث/صفحہ نمبر: 0
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:251
251. حضرت ابوسلمہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں: میں اور حضرت عائشہ ؓ کے بھائی حضرت عائشہ ؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کے بھائی نے نبی ﷺ کے غسل کے متعلق دریافت کیا تو انھوں نے صاع جیسا ایک برتن منگوایا۔ پھر غسل کیا اور اسے اپنے سر پر بہایا۔ اس وقت ہمارے اور آپ کے درمیان پردہ حائل تھا۔ ابوعبداللہ (امام بخاری ؓ) کہتے ہیں کہ یزید بن ہارون، بہز (بن اسعد) اور (عبدالملک بن ابراہیم) جدی نے حضرت شعبہ سے قدر صاع کے الفاظ بیان کیے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:251]
حدیث حاشیہ:
1۔
روایت میں ابو سلمہ سے عبداللہ بن عبد الرحمٰن بن عوف ؓ ہیں جنھیں اُم کلثوم بنت ابی بکر ؓ نے دودھ پلایا تھا، اس بنا پر وہ حضرت عائشہ ؓ کے رضاعی بھانجے ہیں۔
(عمدة القاري: 13/3)
اور دوسرے شخص جو حضرت عائشہ ؓ کے بھائی ہیں، ان کے متعلق محدث داودی کا خیال ہے کہ وہ عبد الرحمٰن بن ابی بکر ؓ ہیں جبکہ بعض نے کہا ہے کہ وہ طفیل بن عبد اللہ ؓ ہیں جو حضرت عائشہ ؓ کے مادری بھائی ہیں، لیکن یہ اس لیے صحیح نہیں کہ روایات میں اس بات کی وضاحت ہے کہ وہ حضرت عائشہ ؓ کا رضاعی بھائی تھا۔
امام نووی ؒ نے کہا ہے کہ وہ عبداللہ بن یزید ہے، جیسا کہ مسلم کی روایت میں اس کی وضاحت ہے۔
(صحیح مسلم، الجنائز، حدیث: 2198 (947)
ممکن ہے کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک ہویا کوئی دوسرا ہو۔
(فتح الباري: 474/1)
واللہ أعلم۔
2۔
اس حدیث سے عملی تعلیم کی قدرو قیمت کا پتہ چلتا ہے۔
کیونکہ عملی تعلیم جس قدر اطمینان بخش ہوتی ہے، قول اس درجے میں نہیں ہوتا۔
اسلاف میں تعلیم کا یہی طريقہ رائج تھا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین میں بھی یہ بات موجود تھی کہ جب کوئی شخص ان سے رسول اللہ ﷺ کے وضو کے متعلق دریافت کرتا تو زبانی بتانے کے بجائے وہ وضو کر کے دکھا دیتے تھے۔
چنانچہ حضرت عائشہ ؓ سے غسل کے طریقے اور مقدار ماء کے متعلق سوال ہوا تو انھوں نے عملاً کر کے دکھا دیا۔
(فتح الباري: 474/1)
3۔
اس حدیث کی آڑ میں منکرین حدیث اور رافضی بہت اعتراض کرتے ہیں کہ اس میں عریانیت ہے، کیونکہ لوگوں کے سامنے غسل کرنے کا بیان ہے، لہٰذا احادیث کی صداقت مجروح ہے، حالانکہ حدیث میں اس بات کی وضاحت ہے کہ ہمارے اور عائشہ کے درمیان حجاب تھا، یعنی یہ غسل پس پردہ کیا گیا تھا۔
پھر سوال کرنے والے بھی محرم تھے۔
ایک آپ کا رضاعی بھانجا اور دوسرا رضاعی بھائی تھا چونکہ غسل کر کے دکھانا تھا، اس لیے سر کا حصہ پردے سے باہر تھا اور یہ دونوں محرم دیکھ رہتے تھے کہ غسل کی ابتدا کہاں سے ہوئی، لیکن جسم کے دیگر اعضاء جن کا چھپانا محرم سے بھی ضروری ہے وہ پردے میں تھے۔
(فتح الباري: 474/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 251
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:258
258. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انهوں نے فرمایا: نبی ﷺ جب غسل جنابت کرنے کا ارادہ فرماتے تو حلاب جیسی کوئی چیز منگواتے اور اسے اپنے ہاتھ میں لے کر پہلے سر کے دائیں حصے سے ابتدا کرتے، پھر بائیں جانب لگاتے۔ اس کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں سے تالو پر مالش کرتے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:258]
حدیث حاشیہ:
شارحین نے باب میں وارد لفظ حلاب کے درج ذیل مفہوم بیان کیے ہیں۔
* شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں کہ حلاب بیجوں سے نکالے ہوئے دودھ یعنی روغن کو کہتے ہیں اہل عرب اپنی عادت کے مطابق سر اور دیگر اعضاء کی صفائی کے لیے اس محلب کو استعمال کرتے تھے۔
اس سے مراد برتن نہیں، لیکن اہل عرب آج اس لفظ حلاب کو اس معنی میں استعمال نہیں کرتے۔
شاید یہ لفظ ان معنوں میں پہلے مستعمل رہا ہو گا، جو اب متروک ہو چکا ہے۔
*حلاب اس برتن کو کہتے ہیں جس میں اونٹنی کا دودھ جمع کیا جاتا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی عنوان سے مطابقت کے متعلق محدثین کرام کو خاصی مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔
کچھ آئمہ کرام نے امام بخاری ؒ کی تغلیط کی ہے، بغرض افادہ اس کی تفصیل حسب ذیل ہے:
* ان میں سر فہرست محدث اسماعیلی کا نام ہے، انھوں نے فرمایا کہ امام بخاری کی سمجھ کے مطابق حلاب کسی خوشبو کا نام ہے، حالانکہ غسل سے پہلے خوشبو استعمال کرنا چہ معنی وارد؟ (فتح الباري: 479/1)
* علامہ خطابی نے کہا:
حلاب ایک ایسا برتن ہے جس میں اونٹنی کو ایک بار دوھنے کی مقدار آتی ہے، امام بخاری ؒ نے اس لفظ کا ذکر کیا ہے، لیکن اسے غسل میں خوشبو استعمال کرنے پر محمول کیا ہے۔
(فتح الباري: 480/1)
* محدث حمیدی نے لکھا کہ امام مسلم نے تو حلاب سے برتن ہی سمجھا، مگر امام بخاری کے خیال کے مطابق ایک خوشبو کا نام ہے جو غسل سے پہلے استعمال ہوتی ہے۔
(فتح الباري: 480/1)
* علامہ سندھی نے لکھا ہے کہ امام بخاری ؒ کے ظاہر طریقے سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ انھوں نے حلاب کو خوشبو کی کوئی قسم خیال کیا ہے۔
لیکن صحیح بات یہ ہے کہ حلاب سے مراد ایک برتن ہے۔
(حاشیة السندي: 57/1)
* مشہور لغوی ازہری نے کہا ہے کہ صحیح بخاری کے نسخے میں کتابت کی غلطی ہے، کیونکہ اصل لفظ جلاب ہے جو گلاب کا معرب ہے، اس کے معنی آب ورد ہیں، کسی کاتب کی غلطی سے حلاب بن گیا ہے۔
(فتح الباري: 480/1)
واضح رہے کہ یہ تمام احتمالات ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور امام بخاری ؒ کی دقت نظر اور علمی جامعیت سے انھیں دور کا واسطہ بھی نہیں۔
حافظ ابن حجر نے لکھا ہے کہ میں نے بعض حضرات کی جن کا نام اب مجھے یاد نہیں آ رہا یہ توجیہ دیکھی ہے کہ عنوان میں الطیب سے مقصود حدیث عائشہ ؓ کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ وہ احرام کے وقت رسول اللہ ﷺ کو خوشبو لگایا کرتی تھیں اور غسل چونکہ سنن احرام سے ہے، اس لیے گویا خوشبو وقت غسل ثابت ہوئی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان میں یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ہر غسل کے وقت آپ کی عادت خوشبو لگانے کی نہ تھی اور آپ نے خوشبو کے بغیر بھی غسل فرمایا ہے۔
وہ اس توجیہ کو احسن الاجوبۃ قراردیتے ہوئے مزید لکھتے ہیں کہ اس توجیہ کی تقویت اس امر سے ہوتی ہے کہ سات ابواب کے بعد امام بخاری ؒ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔
”جس نے خوشبو لگائی پھر غسل کیا اور خوشبو کے اثرات باقی رہے۔
“ پھر حدیث عائشہ ؓ ذکر کی ہے جس سے خوشبو لگانے کے بعد غسل کرنا ثابت ہوتا ہے، لہٰذا اس عنوان میں (باب من بدأ بالحلاب)
سے غسل کا برتن مراد ہے جسے آپ نے بغرض غسل طلب فرمایا اور من بدأ بالطیب کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے غسل کا ارادہ کرتے وقت خوشبو کا استعمال فرمایا۔
عنوان میں دونوں امر ملحوظ ہیں، لیکن پیش کردہ حدیث میں آپ کی مداومت بداءت غسل ثابت ہوتی ہے اور غسل کے بعد خوشبو لگانا تو آپ کی عام عادت تھی اور قبل از غسل خوشبو لگانا اس کی طرف اشارہ حدیث عائشہ ؓ سے کردیا۔
(فتح الباري: 481/1)
لیکن حدیث عائشہ ؓ میں جس خوشبو کا ذکر ہے وہ حصول نشاط کے لیے معلوم ہوتی ہے کہ خوشبو محرک ہونے کی وجہ سے جماع کے لیے مفید ہوتی ہے اور اس کا غسل سے کوئی تعلق نہیں۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 258