Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه
ابواب: جن چیزوں سے غسل واجب ہو جاتا ہے اور جن سے نہیں ہوتا
138. بَابُ : الْفَرْقِ بَيْنَ دَمِ الْحَيْضِ وَالاِسْتِحَاضَةِ
باب: حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق کا بیان۔
حدیث نمبر: 218
أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبِ بْنِ عَرَبِيٍّ، قال: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ وَهُوَ ابْنُ زَيْدٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قالت: اسْتُحِيضَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ، فَسَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ وَلَيْسَتْ بِالْحَيْضَةِ، فَإِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ أَثَرَ الدَّمِ وَتَوَضَّئِي، فَإِنَّمَا ذَلِكَ عِرْقٌ وَلَيْسَتْ بِالْحَيْضَةِ"، قِيلَ لَهُ: فَالْغُسْلُ؟ قَالَ:" ذَلِكَ لَا يَشُكُّ فِيهِ أَحَدٌ". قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: لَا أَعْلَمُ أَحَدًا ذَكَرَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ وَتَوَضَّئِي غَيْرَ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ، وَقَدْ رَوَى غَيْرُ وَاحِدٍ، عَنْ هِشَامٍ، وَلَمْ يَذْكُرْ فِيهِ وَتَوَضَّئِي.
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابوحبیش رضی اللہ عنہا کو استحاضہ کا خون آیا، تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے، پاک نہیں رہ پاتی ہوں، کیا نماز چھوڑ دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے، حیض نہیں ہے، جب حیض کا خون آئے تو نماز چھوڑ دو، اور جب ختم ہو جائے تو خون کا دھبہ دھو لو، اور وضو کر لو، کیونکہ یہ ایک رگ (کا خون) ہے حیض کا خون نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا: غسل؟ (یعنی کیا غسل نہ کرے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں کسی کو شک نہیں ہے (یعنی حیض سے پاک ہونے کے بعد تو غسل کرنا ضروری ہے ہی)۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الحیض 14 (333)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 115 (621)، (تحفة الأشراف: 16858)، ویأتی عند المؤلف برقم: 364 (صحیح الإسناد)»

قال الشيخ الألباني: صحيح الأسناد

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 218 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 218  
218۔ اردو حاشیہ:
اس دعویٰ میں امام نسائی کے ساتھ امام مسلم اور امام بیہقی بھی شامل ہیں، مگر حافظ ابن حجر نے اس بات کی تردید فرمائی ہے اور حماد بن زید کے متابعین ذکر کیے ہیں۔ تفصیل کے لیے دیکھیے،: [فتح الباري: 531/1، حديث: 306]
لہٰذا امام نسائی رحمہ اللہ کا یہ دعویٰ درست نہیں، ویسے بھی حماد بن زید ثقہ راوی ہیں اور ثقہ راوی کچھ زائد الفاظ بیان کرے تو وہ قابل تسلیم ہوتے ہیں۔ «والله أعلم»
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 218   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 120  
´مستحاضہ اپنے مقرر ایام ماہواری پورے کرے`
«. . . ان ام حبيبة بنت جحش شكت إلى رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم الدم فقال: ‏‏‏‏امكثي قدر ما كانت تحبسك حيضتك ثم اغتسلي . . .»
. . . سیدہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دم استحاضہ کا شکوہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے ماہواری کے ایام جس قدر پہلے سے متعین ہیں اتنے ایام میں (نماز ‘ روزہ) چھوڑ دے۔ اس کے بعد نہا دھو کر نماز ادا کرو . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 120]
لغوی تشریح:
«تَحْبِسُكِ» تیری ادائیگی نماز میں مانع ہو۔ رکاوٹ کا باعث بنے۔ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے ہر نماز کے لیے غسل سے یہ لازم نہیں آتا کہ ایسا کرنے کا نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حکم دیا تھا۔

فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث اور اس باب میں بیان شدہ احادیث کا ماحصل یہ ہے کہ مستحاضہ، استحاضے اور حیض کے خون میں تین میں سے کسی ایک بنیاد پر فرق کر سکتی ہے۔ پہلی صورت دونوں خونوں میں تمیز (پہچان) کی ہے۔ وہ اس طرح ہے کہ ایام ماہواری کا خون سیاہ رنگت کا اور گاڑھا ہوتا ہے، اس کی بو بھی بڑی کریہہ ہوتی ہے۔ اور استحاضے کے خون کی رنگت سرخ ہوتی ہے اور وہ زردی مائل اور رقیق، یعنی پتلا ہوتا ہے۔ یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ خون استحاضہ کے جاری ہونے سے پہلے اس عورت کی معمول بہ عادت کی طرف رجوع کیا جائے گا کہ کتنے روز تک ایام ماہواری جاری رہتے تھے۔ یا پھر تیسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کی ہم عمر اور ہم مزاج خواتین پر اس کو قیاس کیا جائے گا کہ ایسے مزاج اور اتنی عمر کی خواتین کو کتنے دن ایام ماہواری آ سکتے ہیں یا آیا کرتے ہیں۔
➋ اور اگر مستحاضہ میں ایک سے زائد علامات جمع ہو جائیں تو پھر زیادہ قوی طریقے اور واضح دلیل سے اس کا تعین ہو سکے گا۔
➌ دو یا تین علامات اگر باہم متعارض ہوں تو پھر بغیر تردد و شک کے حیض کے خون کے سیاہ رنگ کو مقدم رکھا جائے گا اور عقل بھی اس کو مقدم رکھنے کا تقاضا کرتی ہے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر عادت کا لحاظ رکھا جائے گا، پھر ہم عمر اور ہم مزاج عورتوں کا خیال رکھا جائے گا۔
➍ مندرجہ بالا مذکورہ علامتوں میں امتیاز و فرق کرنا نہایت آسان اور سہل ہے۔ عقلمند بلکہ کند ذہن عورت بھی اس فرق کو بآسانی اخذ کر سکتی ہے۔
➎ جس کی طرف فقہاء کی جماعت بالخصوص احناف گئے ہیں، وہ بحث بڑی دقیق، گنجلک اور مغلق ہے۔ وہ عورتوں کے فہم وعقل سے بعید بلکہ بہت ہی دور ہے، نیز یہ احادیث بھی اس مفہوم کا انکار کرتی ہیں۔ شریعت بیضاء جو آسان فہم ہے، وہ بھی اس کی طرف توجہ نہیں کرتی۔
➏ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ہر نماز کے لیے غسل فرمایا کرتی تھیں۔ اس غسل کی نوعیت جمہور کے نزدیک تطوع (نفل) کی ہے ورنہ شریعت نے مستحاضہ پر ہر نماز کے لیے غسل کرنا فرض قرار نہیں دیا۔ فتح الباری میں علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے بھی اسی رائے کی تائید کی ہے۔
➐ امام شوکانی رحمہ اللہ نے بھی یہ دعویٰ کیا ہے کہ کسی صحیح حدیث سے مستحاضہ کے لیے ہر نماز کے وقت نیا غسل کرنا ثابت نہیں۔ مستحاضہ اپنے مقرر ایام ماہواری پورے ہونے کے بعد غسل کرے، اس کے بعد ہر نماز کے لیے استنجاء کر کے وضو کرے اور نماز ادا کرے۔
➑ مذکورہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ مستحاضہ کو کسی نہ کسی شناخت کرانے والی علامت کی جانب توجہ کرنی چاہیے۔ پھر جس علامت سے اس کو حیض کی پہچان ہو جائے، اسی پر کاربند ہو جائے۔

راویٔ حدیث: (سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا) بعض کا خیال ہے کہ اس سے سیدہ حمنہ بنت جحش رضی اللہ عنہا ہی مراد ہیں، حالانکہ ایسا نہیں بلکہ صحیح اور درست یہ ہے کہ یہ ان کی بہن تھیں۔ یہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔ صحیح مسلم کی روایت کی رو سے انہیں مسلسل سات سال تک استحاضے کا مرض لاحق رہا۔ انہوں نے 44 ہجری میں وفات پائی۔ بعض نے کہا: ہے کہ جحش کی تین بیٹیاں تھیں۔ تینوں عارضہ استحاضہ کا شکار تھیں: ایک ام المؤمنین زینب، دوسری حمنہ اور تیسری ام حبیبہ رضی اللہ عنہن۔ مگر صحیح یہ ہے کہ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا اس عارضے سے محفوظ تھیں۔ کہتے ہیں کہ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں دس خواتین ایسی تھیں جو استحاضے کے عارضے میں مبتلا رہتی تھیں۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 120   

  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 63  
´استحاضہ کا خون`
«. . . جاءت فاطمة بنت أبي حبيش إلى النبي صلى الله عليه وآله وسلم فقالت: يا رسول الله! إني امرأة أستحاض فلا أطهر،‏‏‏‏ أفأدع الصلاة؟ قال: ‏‏‏‏لا،‏‏‏‏ إنما ذلك عرق وليس بحيض،‏‏‏‏ فإذا أقبلت حيضتك فدعي الصلاة،‏‏‏‏ وإذا أدبرت فاغسلي عنك الدم ثم صلي» .‏‏‏‏ متفق عليه. وللبخاري: «‏‏‏‏ثم توضأي لكل صلاة . . .»
. . . فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں ایسی عورت ہوں جو ہمیشہ استخاضہ کے خون میں مبتلا رہتی ہوں، پاک ہوتی ہی نہیں۔ کیا ایسی حالت میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ تو ایک رگ ہے (جو پھٹ جاتی ہے اور خون بہتا رہتا ہے) حیض کا خون نہیں ہے۔ ہاں جب ایام حیض شروع ہوں تو نماز کو چھوڑ دو اور جب یہ ایام پورے ہو جائیں تو خون دھو کر نماز پڑھو . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 63]
لغوی تشریح:
«أُسْتَحَاضُ» یہ «استحاضه» سے ماخوذ واحد متکلم کا صیغہ مجہول ہے۔ استحاضہ ایام ماہواری کے مقرر اوقات کے علاوہ عورت کی اندام نہانی سے نکلنے والے خون کو کہتے ہیں۔
«أَفَأَدَعُ» اس میں ہمزہ استفہام کا ہے اور فا تعقيب کے لیے ہے۔ اور «ادعُ | وَدَعَ» سے واحد متکلم کا صیغۂ مضارع ہے۔ معنی یہ ہیں کہ کیا میں نماز چھوڑ دوں؟
«إِنَّمَا ذَلِكَ» اس میں کاف کے نیچے کسرہ ہے، اس لیے کہ مخاطب عورت ہے اور اس کا مشار الیہ خون کا بہنا ہے۔
«عِرْقٌ» عین کے کسرہ اور را کے سکون کے ساتھ ہے۔ معنی یہ ہوئے کہ رگ سے خون بہنے کی وجہ سے۔ اس رگ کا نام «عاذل» یا «عاذر» ہے۔
«وَلَيْسَ بِحَيْضٍ» یہ حیض کا خون نہیں کیونکہ وہ خون رگ کے پھٹنے سے جاری نہیں ہوتا بلکہ عورت کے رحم کے اندر سے خارج ہوتا ہے۔
«فَإِذَا أَقْبَلَتْ حَيْضَتُكِ» حا کے فتحہ کے ساتھ، اور کسرہ بھی جائز ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب حیض کا خون شروع ہو۔
«فَدَعِي» چھوڑ دو۔
«وَإِذَا أَدْبَرَتْ» یہ مؤنث کا صیغہ ہے۔ اس میں فاعل ضمیر «حيضة» کی جانب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ جب حیض کا خون بند ہو جائے۔
«ثُمَّ تَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ» پھر ہر نماز کے لیے نیا وضو کرو۔ یہ اس بات پر دلالت ہے کہ استحاضہ ایسی ناپاکی ہے جو ناقض وضو ہے۔ اس باب میں اس حدیث کے لانے کی غرض یہی بتانا ہے کہ استخاضے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔

فوائد و مسائل:
➊ عورت کو تین طرح کے خون سے واسطہ پڑتا ہے: ایک حیض کا خون، یہ خون ہر ماہ چند مخصوص ایام میں عورت کے بالغ ہونے سے لے کر بڑھاپے تک ایام حمل کے علاوہ برابر آتا رہتا ہے۔ اس کا رنگ سیاہی مائل ہوتا ہے۔ دوسرا نفاس کا خون ہے۔ یہ وہ خون ہوتا ہے جو بچے کی پیدائش کے بعد تقریباً چالیس دن تک، یا اس سے کم و بیش زچگی میں آتا رہتا ہے۔ تیسرا خون استحاضہ کا ہے۔ یہ خون مذکورہ دونوں خونوں سے الگ نوعیت کا ہوتا ہے۔
➋ یہ خون، عاذل یا عاذر نامی رگ کے پھٹنے سے جاری ہوتا ہے اور بغیر کسی وقت کے مسلسل جاری رہتا ہے اور بیماری کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ اس کا رنگ سرخ ہوتا ہے، اس کے جاری ہونے کا مقرر و متعین وقت نہیں ہے۔ عرصہ دراز تک بھی جاری رہ سکتا ہے۔

راوی حدیث:
SR سیدہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنھا ER حبیش، حبش کی تصغیر ہے۔ مشہور صحابیہ ہیں۔ قبیلہ قریش کی شاخ اسد سے تھیں۔ ان کے باپ کا نام قیس بن مطلب بن اسد بن عبد العزی بن قصی ہے۔ یہ سیدنا عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کی زوجیت میں تھیں۔ بڑے رتبے والی تھیں۔ انہوں نے ہجرت بھی کی تھی۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 63   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 228  
´حیض کا خون دھونا ضروری ہے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا، إِنَّمَا ذَلِكِ عِرْقٌ وَلَيْسَ بِحَيْضٍ، فَإِذَا أَقْبَلَتْ حَيْضَتُكِ فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ ثُمَّ صَلِّي "، قَالَ: وَقَالَ أَبِي: ثُمَّ تَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ حَتَّى يَجِيءَ ذَلِكَ الْوَقْتُ . . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ` ابوحبیش کی بیٹی فاطمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جسے استحاضہ کی بیماری ہے۔ اس لیے میں پاک نہیں رہتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، یہ ایک رگ (کا خون) ہے حیض نہیں ہے۔ تو جب تجھے حیض آئے تو نماز چھوڑ دے اور جب یہ دن گزر جائیں تو اپنے (بدن اور کپڑے) سے خون کو دھو ڈال پھر نماز پڑھ۔ ہشام کہتے ہیں کہ میرے باپ عروہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (بھی) فرمایا کہ پھر ہر نماز کے لیے وضو کر یہاں تک کہ وہی (حیض کا) وقت پھر آ جائے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الدَّمِ:: 228]
تشریح:
استحاضہ ایک بیماری ہے جس میں عورت کا خون بند نہیں ہوتا۔ اس کے لیے حکم ہے کہ ہر نماز کے لیے مستقل وضو کرے اور حیض کے جتنے دن اس کی عادت کے مطابق ہوتے ہوں ان دنوں کی نماز نہ پڑھے۔ اس کے لیے ان ایام کی نماز معاف ہے۔ اس سے یہ بھی نکلا کہ جو لوگ ہوا خارج ہونے یا پیشاب کے قطرے وغیرہ کی بیماری میں مبتلا ہوں، وہ نماز ترک نہ کریں بلکہ ہر نماز کے لیے تازہ وضو کر لیا کریں۔ پھر بھی حدث وغیرہ ہو جائے تو پھر اس کی پر وا نہ کریں۔ جس طرح استحاضہ والی عورت خون آنے کی پرواہ نہ کرے، اسی طرح وہ بھی نماز پڑھتے رہیں۔ شریعت حقہ نے ان ہدایات سے عورتوں کی پاکیزگی اور طبی ضروریات کے پیش نظر ان کی بہترین رہنمائی کی ہے اور اس بارے میں معلومات کو ضروری قرار دیا۔ ان لوگوں پر بے حد تعجب ہے جو انکار حدیث کے لیے ایسی ہدایات پر ہنستے ہیں۔ اور آج کے دور کے اس جنسی لٹریچر کو سراہتے ہیں جو سراسر عریانیت سے بھرپور ہے۔ «قاتلهم اللّٰه اني يوفكون»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 228   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 306  
´استحاضہ کے بیان میں`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّهَا قَالَتْ: قَالَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَا أَطْهُرُ أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا ذَلِكِ عِرْقٌ وَلَيْسَ بِالْحَيْضَةِ، فَإِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَاتْرُكِي الصَّلَاةَ فَإِذَا ذَهَبَ قَدْرُهَا فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ وَصَلِّي " . . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ ابی حبیش کی بیٹی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ یا رسول اللہ! میں تو پاک ہی نہیں ہوتی، تو کیا میں نماز بالکل چھوڑ دوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رگ کا خون ہے حیض نہیں اس لیے جب حیض کے دن (جن میں کبھی پہلے تمہیں عادتاً آیا کرتا تھا) آئیں تو نماز چھوڑ دے اور جب اندازہ کے مطابق وہ دن گزر جائیں، تو خون دھو ڈال اور نماز پڑھ۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ الاِسْتِحَاضَةِ:: 306]
تشریح:
یعنی غسل کر کے ایک روایت میں اتنا اور زیادہ ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہو۔ مالکیہ اس عورت کے لیے جس کا خون جاری ہی رہے یا بواسیر والوں کے لیے مجبوری کی بنا پر وضو نہ ٹوٹنے کے قائل ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 306   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 325  
´اگر کسی عورت کو ایک ہی مہینہ میں تین بار حیض آئے؟`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ سَأَلَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: إِنِّي أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ فَقَالَ: " لَا، إِنَّ ذَلِكِ عِرْقٌ، وَلَكِنْ دَعِي الصَّلَاةَ قَدْرَ الْأَيَّامِ الَّتِي كُنْتِ تَحِيضِينَ فِيهَا، ثُمَّ اغْتَسِلِي وَصَلِّي " . . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ یہ تو ایک رگ کا خون ہے، ہاں اتنے دنوں میں نماز ضرور چھوڑ دیا کر جن میں اس بیماری سے پہلے تمہیں حیض آیا کرتا تھا۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ إِذَا حَاضَتْ فِي شَهْرٍ ثَلاَثَ حِيَضٍ وَمَا يُصَدَّقُ النِّسَاءُ فِي الْحَيْضِ وَالْحَمْلِ فِيمَا يُمْكِنُ مِنَ الْحَيْضِ:: 325]
تشریح:
آیت کریمہ «وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّـهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ» [2-البقرة:228] کی تفسیر میں زہری اور مجاہد نے کہا کہ عورتوں کو اپنا حیض یا حمل چھپانا درست نہیں، ان کو چاہئیے کہ حقیقت حال کو صحیح صحیح بیان کر دیں۔ اب اگر ان کا بیان ماننے کے لائق نہ ہو تو بیان سے کیا فائدہ۔ اس طرح حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اس آیت سے باب کا مطلب نکالا ہے۔ ہوا یہ تھا کہ قاضی شریح کے سامنے ایک مقدمہ آیا۔ جس میں طلاق پر ایک ماہ کی مدت گزر چکی تھی۔ خاوند رجوع کرنا چاہتا تھا۔ لیکن عورت کہتی تھی کہ میری عدت گزر گئی اور ایک ہی ماہ میں تین حیض آ گئے ہیں۔ تب قاضی شریح نے یہ فیصلہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سامنے سنایا، اس کو دارمی نے سند صحیح کے ساتھ موصولاً روایت کیا ہے۔ قاضی شریح کے فیصلہ کو سن کر سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔

اس واقعہ کو اسی حوالہ سے امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی کتاب جلد1، ص: 295 پر ذکر فرمایا ہے۔ قاضی شریح بن حرث کوفی ہیں۔ جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ پایا مگر آپ سے ان کو ملاقات نصیب نہ ہو سکی۔ قضاۃ میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔

حیض کی مدت کم سے کم ایک دن زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہے۔ حنفیہ کے نزدیک حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہیں۔ مگر اس بارے میں ان کے دلائق قوی نہیں ہیں۔ صحیح مذہب اہل حدیث کا ہے کہ حیض کی کوئی مدت معین نہیں۔ ہر عورت کی عادت پر اس کا انحصارہے اگر معین بھی کریں تو چھ یا سات روز اکثر مدت معین ہو گی جیسا کہ صحیح حدیث میں مذکور ہے۔

ایک مہینہ میں عورت کو تین بارحیض نہیں آیا کرتا، تندرست عورت کو ہر ماہ صرف چند ایام کے لیے ایک ہی بار حیض آتا ہے، لیکن اگر کبھی شاذ و نادر ایسا ہو جائے اور عورت خود اقرار کرے کہ اس کو تین بار ایک ہی مہینہ میں حیض آیا ہے تو اس کا بیان تسلیم کیا جائے گا۔ جس طرح استحاضہ کے متعلق عورت ہی کے بیان پر فتویٰ دیا جائے گا کہ کتنے دن وہ حالت حیض میں رہتی ہے اور کتنے دن اس کو استحاضہ کی حالت رہتی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش ہی کے بیان پر ان کو مسائل متعلقہ تعلیم فرمائے۔

علامہ قسطلانی فرماتے ہیں:
«ومناسبة الحديث للترجمة فى قوله قدرالايام التى كنت تحيضين فيها فيوكل ذلك الي امانتها وردها الي عادتها»
یعنی حدیث اور باب میں مناسبت حدیث کے اس جملہ میں ہے کہ نماز چھوڑ دو ان دنوں کے اندازہ پر جن میں تم کو حیض آتا رہا ہے۔ پس اس معاملہ کو اس کی امانت داری پر چھوڑ دیا جائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 325   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 327  
´استحاضہ کی رگ کے بارے میں`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ اسْتُحِيضَتْ سَبْعَ سِنِينَ، فَسَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، " فَأَمَرَهَا أَنْ تَغْتَسِلَ، فَقَالَ: هَذَا عِرْقٌ " فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ لِكُلِّ صَلَاةٍ . . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا سات سال تک مستحاضہ رہیں۔ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں غسل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا کہ یہ رگ (کی وجہ سے بیماری) ہے۔ پس ام حبیبہ رضی اللہ عنہا ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ عِرْقِ الاِسْتِحَاضَةِ:: 327]
تشریح:
استحاضہ والی عورت کے لیے ہر نماز کے وقت غسل کرنا واجب نہیں ہے۔ یہاں حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے غسل کا ذکر ہے جو وہ ہر نماز کے لیے کیا کرتی تھیں۔ سو یہ ان کی خود اپنی مرضی سے تھا۔
◈ حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«ولااشك ان شاءالله ان غسلها كان تطوعاغيرما امرت به وذلك واسع لها وكذا قال سفيان واللهث بن سعد وغيرهما وذهب اليه الجمهورمن عدم وجوب الاغتسال الالادبار الحيضة هوالحق لفقد الدليل الصحيح الذى تقوم به الحجة .» [نيل الاوطار باب طهر المستحاضة]
ان شاءاللہ مجھ کو قطعاً شک نہیں ہے کہ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا یہ ہر نماز کے لیے غسل کرنا محض ان کی اپنی خوشی سے بطور نفل کے تھا جمہور کا مذہب حق یہی ہے کہ صرف حیض کے خاتمہ پر ایک ہی غسل واجب ہے۔ اس کے خلاف جو روایات ہیں جن سے ہر نماز کے لیے وجوب غسل ثابت ہوتا ہے وہ قابل حجت نہیں ہیں۔

◈ حضرت علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
«وجميع الاحاديث التى فيها ايجاب الغسل لكل صلوة قدذكر المصنف بعضها فى هذاالباب و اكثرها ياتي فى ابواب الحيض وكل واحد منهالايخلو عن مقال .» [نيل الاوطار]
یعنی وہ جملہ احادیث جن سے ہر نماز کے لیے غسل واجب معلوم ہوتا ہے ان سب کی سند اعتراضات سے خالی نہیں ہیں۔ پھر «الدين يسر» کہ دین آسان ہے کے تحت بھی ہر نماز کے لیے نیا غسل کرنا کس قدر باعث تکلیف ہے۔ خاص کر عورت ذات کے لیے بے حد مشکل ہے۔ اس لیے «لايكلف الله نفسا الا وسعها وقدجمع بعضهم بين الاحاديث بحمل احاديث الغسل لكل صلوة على الاستحباب» [نيل الاوطار]
یعنی بعض حضرات نے جملہ احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہر نماز کے لیے غسل کرنے کی احادیث میں استحباباً کہا گیا ہے۔ یعنی یہ غسل مستحب ہو گا، واجب نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 327   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 331  
´جب مستحاضہ اپنے جسم میں پاکی دیکھے تو کیا کرے؟`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَقْبَلَتِ الْحَيْضَةُ فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ وَصَلِّي " . . . .»
. . . عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب حیض کا زمانہ آئے تو نماز چھوڑ دے اور جب یہ زمانہ گزر جائے تو خون کو دھو اور نماز پڑھ۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْحَيْضِ/بَابُ إِذَا رَأَتِ الْمُسْتَحَاضَةُ الطُّهْرَ:: 331]
تشریح:
یعنی جب مستحاضہ کے لیے غسل کر کے نماز پڑھنا درست ہوا تو خاوند کو اس سے صحبت کرنا تو بطریق اولیٰ درست ہو گا۔ اس حدیث سے امام بخاری رحمہ اللہ نے یہی ثابت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 331   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 325  
325. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش‬ ؓ ن‬ے نبی ﷺ سے پوچھا: مجھے استحاضے کا خون آتا ہے اور میں مدتوں پاک نہیں ہو سکتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، یہ تو ایک رگ کا خون ہے۔ ہاں، اتنے دن نماز چھوڑ دیا کرو جن میں اس (بیماری) سے قبل تمہیں حیض آیا کرتا تھا۔ اس کے بعد غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:325]
حدیث حاشیہ:
آیت کریمہ:
﴿ وَلَا يَحِلُّ لَهُنَّ أَنْ يَكْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللَّهُ فِي أَرْحَامِهِنَّ﴾ (البقرة: 228)
کی تفسیر میں زہری ؒ اور مجاہد ؒ نے کہا کہ عورتوں کواپنا حیض یاحمل چھپانا درست نہیں، ان کو چاہیے کہ حقیقت حال کو صحیح صحیح بیان کردیں۔
اب اگران کا بیان ماننے کے لائق نہ ہو تو بیان سے کیا فائدہ۔
اس طرح حضرت امام بخاری ؒ نے اس آیت سے باب کا مطلب نکالا ہے۔
ہوا یہ تھا کہ قاضی شریح ؒ کے سامنے ایک مقدمہ آیا۔
جس میں طلاق پر ایک ماہ کی مدت گزر چکی تھی۔
خاوند رجوع کرنا چاہتا تھا۔
لیکن عورت کہتی تھی کہ میری عدت گزر گئی اور ایک ہی ماہ میں تین حیض آگئے ہیں۔
تب قاضی شریح نے یہ فیصلہ حضرت علی ؓ کے سامنے سنایا، اس کو دارمی نے سند صحیح کے ساتھ موصولاً روایت کیا ہے۔
قاضی شریح کے فیصلہ کو سن کر حضرت علی ؓ نے فرمایاکہ تم نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔
اس واقعہ کو اسی حوالہ سے امام قسطلانی ؒ نے بھی اپنی کتاب جلد1،ص: 295 پر ذکر فرمایا ہے۔
قاضی شریح بن حرث کوفی ہیں۔
جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کا زمانہ پایا، مگر آپ سے ان کو ملاقات نصیب نہ ہوسکی۔
قضاۃ میں ان کا مقام بہت بلند ہے۔
حیض کی مدت کم سے کم ایک دن زیادہ سے زیادہ پندرہ دن تک ہے۔
حنفیہ کے نزدیک حیض کی مدت کم سے کم تین دن اور زیادہ سے زیادہ دس دن ہیں۔
مگر اس بارے میں ان کے دلائل قوی نہیں ہیں۔
صحیح مذہب اہل حدیث کا ہے کہ حیض کی کوئی مدت معین نہیں۔
ہر عورت کی عادت پر اس کا انحصارہے، اگرمعین بھی کریں توچھ یا سات روز اکثر مدت معین ہوگی، جیسا کہ صحیح حدیث میں مذکور ہے۔
ایک مہینہ میں عورت کو تین بارحیض نہیں آیا کرتا، تندرست عورت کو ہر ماہ صرف چندایام کے لیے ایک ہی بار حیض آتا ہے، لیکن اگر کبھی شاذ و نادر ایسا ہوجائے اور عورت خود اقرار کرے کہ اس کو تین بار ایک ہی مہینہ میں حیض آیا ہے تواس کا بیان تسلیم کیا جائے گا۔
جس طرح استحاضہ کے متعلق عورت ہی کے بیان پر فتویٰ دیا جائے گا کہ کتنے دن وہ حالت حیض میں رہتی ہے اور کتنے دن اس کو استحاضہ کی حالت رہتی ہے۔
آنحضرت ﷺ نے بھی حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ ہی کے بیان پر ان کو مسائل متعلقہ تعلیم فرمائے۔
علامہ قسطلانی فرماتے ہیں:
''ومناسبة الحديث للترجمة في قوله:
قدر الأيام التي كنت تحيضين فيها فيوكل ذلك إلى أمانتهاوردّها إلى عادتها'' (شرح القسطلاني: 362/1)
یعنی حدیث اور باب میں مناسبت حدیث کے اس جملہ میں ہے کہ نماز چھوڑدو ان دنوں کے اندازہ پر جن میں تم کو حیض آتا رہا ہے۔
پس اس معاملہ کو اس کی امانت داری پر چھوڑدیا جائے گا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 325   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 331  
331. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے (فاطمہ بنت ابی حبیش سے) فرمایا: جب حیض کے ایام آئیں تو نماز چھوڑ دو اور جب حیض کے ایام گزر جائیں تو خون کو دھو ڈالو اور نماز ادا کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:331]
حدیث حاشیہ:
یعنی جب مستحاضہ کے لیے غسل کرکے نماز پڑھنا درست ہوا تو خاوند کو اس سے صحبت کرنا توبطریق اولیٰ درست ہوگا۔
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہی ثابت کیا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 331   

  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 49  
´حیض اور استحاضہ کا بیان`
«. . . 451- وبه: أنها قالت: قالت فاطمة ابنة أبى حبيش لرسول الله صلى الله عليه وسلم: إني لا أطهر، أفأدع الصلاة؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إنما ذلك عرق وليس بالحيضة، فإذا أقبلت الحيضة فاتركي الصلاة، فإذا ذهب قدرها فاغسلي الدم عنك وصلي. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے) روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں پاک ہی نہیں ہوتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ رگ (کا خون) ہے حیض نہیں ہے۔ جب حیض (کا وقت) آئے تو نماز چھوڑ دو، پھر جب اس کے حساب سے دن گزر جائیں تو اپنے سے خون دھو کر نماز پڑھو۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 49]
تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 306، من حديث مالك به * وفي رواية يحييٰ بن يحييٰ: لَيْسَتْ]

تفقه:
➊ حیض اور استحاضہ میں فرق کرنا ضروری ہے۔ حیض عورت کو حالتِ صحت میں مہینے میں مخصوص دنوں کے لئے آتا ہے جبکہ استحاضہ بیماری کا خون ہے جو حیض کے ایامِ مخصوصہ کے علاوہ آتا ہے اور بعض دفعہ یہ مسلسل جاری رہتا ہے۔ چونکہ حیض کا خون شروع کے ایام میں سیاہی مائل اور آخری ایام میں زردی مائل ہوجاتا ہے اور استحاضہ کا خون ایک ہی حالت میں یعنی سرخ رہتا ہے لہٰذا عورتیں ان دونوں میں تمیز کرکے حیض کے دنوں میں نمازیں چھوڑ دیں گی جبکہ استحاضہ کی صورت میں نمازیں پڑھتی رہیں گی۔
➋ مستحاضہ اسی حالت میں غسل اور وضو کرکے نماز پڑھے گی چاہے اس کے استحاضے کا خون نماز میں بھی جاری ہو لیکن یاد رہے کہ استحاضہ کے خون کے علاوہ ہر اس چیز سے مستحاضہ کا وضو بھی ٹوٹ جاتا ہے جس سے عام لوگوں کا وضو ٹوٹ جاتا ہے مثلاً ہوا کا خارج ہونا وغیرہ۔
➌ زینب بنت ابی سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیوی زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کو دیکھا، انھیں استحاضہ کا خون جاری تھا (اور) وہ غسل کر کے نماز پڑھتی تھیں۔ [الموطأ 1/62 ح134، وسنده صحيح]
● سعید بن المسیب رحمہ الله نے فرمایا: ہر طُہر سے دوسرے طُہر تک غسل کرے گی اور ہر نماز کے لئے وضو کرے گی پھر اگر خون زیادہ ہو جائے تو کپڑا باندھ لے گی۔ [المؤطا 63/1 ح 135 وسنده صحيح]
● عروہ بن الزبیر رحمہ اللہ نے فرمایا: مستحاضہ پر (ہر مہینے میں) صرف ایک غسل ہے پھر اس کے بعد ہر نماز کے لئے وضو کرے گی۔ [الموطأ 1/63 ح136، وسنده صحيح]
➍ امام مالک رحمہ الله کی تحقیق کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر مستحاضہ استحاضے کے دنوں میں نماز پڑھے جو حیض کے ایامِ مخصوصہ کے علاوہ ہیں تو ان دنوں میں اس کے شوہر کے لئے اپنی مستحاضہ بیوی سے جماع کرنا جائز ہے۔ [المؤطا 63/1 ملخصاً مفهوماً]
➎ اگر کسی کو کوئی مسئلہ پیش آجائے تو حق بات پوچھنے سے شرمانا نہیں چاہئے۔
➏ نماز دین اسلام کا اہم رکن ہے جو حالت استحاضہ (بیماری) میں بھی معاف نہیں ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 451   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 228  
´استحاضہ کا خون حیض کے خون سے الگ ہے`
«. . . عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ فَاطِمَةُ بِنْتُ أَبِي حُبَيْشٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي امْرَأَةٌ أُسْتَحَاضُ فَلَا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلَاةَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا، إِنَّمَا ذَلِكِ عِرْقٌ وَلَيْسَ بِحَيْضٍ، فَإِذَا أَقْبَلَتْ حَيْضَتُكِ فَدَعِي الصَّلَاةَ، وَإِذَا أَدْبَرَتْ فَاغْسِلِي عَنْكِ الدَّمَ ثُمَّ صَلِّي "، قَالَ: وَقَالَ أَبِي: ثُمَّ تَوَضَّئِي لِكُلِّ صَلَاةٍ حَتَّى يَجِيءَ ذَلِكَ الْوَقْتُ . . . .»
. . . وہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں، وہ فرماتی ہیں کہ` ابوحبیش کی بیٹی فاطمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اس نے کہا کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جسے استحاضہ کی بیماری ہے۔ اس لیے میں پاک نہیں رہتی تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں، یہ ایک رگ (کا خون) ہے حیض نہیں ہے۔ تو جب تجھے حیض آئے تو نماز چھوڑ دے اور جب یہ دن گزر جائیں تو اپنے (بدن اور کپڑے) سے خون کو دھو ڈال پھر نماز پڑھ۔ ہشام کہتے ہیں کہ میرے باپ عروہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ (بھی) فرمایا کہ پھر ہر نماز کے لیے وضو کر یہاں تک کہ وہی (حیض کا) وقت پھر آ جائے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ غَسْلِ الدَّمِ: 228]
تخريج الحديث:
[190۔ البخاري فى: كتاب الوضوء: 63 باب غسل الدم 228، مسلم 333، ترمذي 125، ابن ماجه 621]
لغوی توضیح:
«أُسْتُحَاضُ» استحاضہ سے مشتق ہے اور استحاضہ اس خون کو کہتے ہیں جو ایام ماہواری کے علاوہ کسی رگ کے پھٹ جانے کی وجہ سے عورت کی شرمگاہ سے خارج ہوتا ہے۔
فھم الحدیث: معلوم ہوا ہے کہ استحاضہ کا خون حیض کے خون سے الگ ہے، اس سے عبادات میں رکاوٹ نہیں پڑتی بلکہ یہ محض ناقص وضو ہے۔ لہٰذا جس عورت کو یہ خون آتا ہو وہ نماز نہیں چھوڑے گی بلکہ ہر نماز کے لیے الگ وضو کرے گی۔ تاہم آئندہ حدیث میں مستحاضہ کے لیے ہر نماز کے وقت غسل کا بھی ذکر ہے لیکن یاد رہے کہ یہ غسل مستحب ہے واجب نہیں، استحاضہ والی عورت بلا اختلاف صرف وضوء کے ساتھ بھی نماز ادا کر سکتی ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 190   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 284  
´جب مستحاضہ کو حیض آ جائے تو وہ نماز چھوڑ دے۔`
بہیہ کہتی ہیں کہ میں نے ایک عورت کو ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے ایک عورت کے بارے میں جس کا حیض بگڑ گیا تھا اور خون برابر آ رہا تھا (مسئلہ) پوچھتے ہوئے سنا (ام المؤمنین عائشہ کہتی ہیں): تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اسے بتاؤں کہ وہ دیکھ لے کہ جب اس کا حیض صحیح تھا تو اسے ہر مہینے کتنے دن حیض آتا تھا؟ پھر اسی کے بقدر ایام شمار کر کے ان میں یا انہیں کے بقدر ایام میں نماز چھوڑ دے، غسل کرے، کپڑے کا لنگوٹ باندھے پھر نماز پڑھے۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 284]
284۔ اردو حاشیہ:
یہ روایت سنداًً ضعیف ہے، لیکن مسئلہ صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 284   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 288  
´مستحاضہ ہر نماز کے لیے غسل کرے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالی اور عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو سات سال تک استحاضہ کی شکایت رہی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں مسئلہ دریافت کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حیض نہیں ہے، بلکہ یہ رگ (کا خون) ہے، لہٰذا غسل کرو اور نماز پڑھو۔‏‏‏‏ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: تو وہ اپنی بہن زینب بنت حجش رضی اللہ عنہا کے حجرے میں ایک بڑے لگن میں غسل کرتی تھیں، یہاں تک کہ خون کی سرخی پانی پر غالب آ جاتی تھی۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 288]
288۔ اردو حاشیہ:
غسل کرو اور نماز پڑھو کا مطلب ہے، ایام حیض کے ختم ہونے کے بعد غسل کرو اور نماز پڑھنا شروع کر دو۔ اس سے مقصود ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا حکم دینا تھا، نہ اس سے اس کا اثبات ہی ہوتا ہے۔ اس سے اگر کسی نے ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا حکم سمجھا ہے، تو یہ اس کا اپنا فہم ہے، علاوہ ازیں کسی بھی صحیح حدیث میں ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا حکم نہیں ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 288   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 294  
´مستحاضہ عورت ایک غسل سے دو نمازیں پڑھے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک عورت کو استحاضہ ہوا تو اسے حکم دیا گیا کہ عصر جلدی پڑھے اور ظہر میں دیر کرے، اور دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور مغرب کو مؤخر کرے، اور عشاء میں جلدی کرے اور دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور فجر کے لیے ایک غسل کرے۔ شعبہ کہتے ہیں: تو میں نے عبدالرحمٰن بن قاسم سے پوچھا: کیا یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے؟ اس پر انہوں نے کہا: میں جو کچھ تم سے بیان کرتا ہوں وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے مروی ہوتا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 294]
294۔ اردو حاشیہ:
یہ عورت سہلہ بنت سہیل رضی اللہ عنہا تھیں جیسے کہ آئندہ حدیث میں آ رہا ہے اور یہ غسل مستحب ہے، ورنہ ایک ہی غسل کافی ہے جیسے کہ اگلے باب کی احادیث [295] میں آ رہا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صاحب عذر اور مریض، نمازوں کو جمع بھی کر سکتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 294   

  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 299  
´مستحاضہ حیض سے پاک ہونے کے بعد غسل کرے پھر جب دوسرے حیض سے پاک ہو تو غسل کرے (یعنی استحاضہ کے خون میں وضو ہے غسل نہیں ہے)۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا مستحاضہ کے بارے میں کہتی ہیں کہ وہ غسل کرے گی، یعنی ایک مرتبہ (غسل کرے گی) پھر اپنے حیض آنے تک وضو کرتی رہے گی۔ [سنن ابي داود/كتاب الطهارة /حدیث: 299]
299۔ اردو حاشیہ:
سنن ابی داود روایت [297، 298] سنداًً ضعیف ہیں، تاہم ان میں بیان کردہ بات صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ غالباً اسی وجہ سے شیخ البانی رحمہ اللہ نے ان دونوں روایات کی تصحیح کی ہے۔ البتہ سنن ابی داود حدیث [300] کی انہوں نے تضعیف کی ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 299   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 363  
´حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا کو استحاضہ کا خون آتا تھا تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حیض کا خون سیاہ ہوتا ہے پہچان لیا جاتا ہے، تو جب یہ ہو تو نماز سے رک جاؤ، اور جب دوسرا ہو تو وضو کر کے نماز پڑھو۔‏‏‏‏ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اس حدیث کو کئی لوگوں نے روایت کیا ہے، ان میں سے کسی نے بھی اس چیز کا ذکر نہیں کیا ہے جس کا ابن ابی عدی نے ذکر کیا ہے «واللہ تعالیٰ اعلم» ۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 363]
363۔ اردو حاشیہ: استحاضے والی عورت کے لیے ضروری ہے کہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرے۔ ہر نماز کے لیے غسل ضروری نہیں، البتہ مستحب ضرور ہے۔ مزید تفصیل کے لیے اسی کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 363   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 364  
´حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا مستحاضہ ہوئیں، تو انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: اللہ کے رسول! مجھے استحاضہ کا خون آتا رہتا ہے، اور میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں، کیا نماز ترک کر دوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ تو ایک رگ (کا خون) ہے، حیض نہیں ہے، تو جب حیض کا خون آئے تو نماز ترک کر دو، اور جب ختم ہو جائے تو اپنے (جسم) سے خون دھو لو اور وضو کرو اور نماز پڑھو، یہ تو بس رگ (کا خون) ہے حیض نہیں ہے، (راوی سے) پوچھا گیا غسل کرے؟ تو اس نے کہا: اس میں کسی کو شک نہیں ۱؎۔ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں: اس حدیث کو ہشام بن عروہ سے کئی لوگوں نے روایت کیا ہے، اور اس میں «وتوضئي» کا ذکر حماد کے علاوہ کسی نے نہیں کیا ہے، «والله تعالىٰ اعلم» ۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 364]
364۔ اردو حاشیہ: یعنی حماد «تَوَضَّئِي» وضو کر کے الفاظ کے بیان میں منفرد ہے جبکہ باقی تمام راوی صرف غسل اور نماز کے حکم کے ساتھ روایت بیان کرتے ہیں۔ لیکن راجح بات یہ ہے کہ «تَوَضَّئِي» الفاظ کے بیان میں حماد منفرد نہیں بلکہ ان الفاظ کے بیان میں ابومعاویہ بھی ان کی موافقت کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو: [صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 228]
معلوم ہوا کہ یہاں امام نسائی رحمہ اللہ کا موقف مرجوح ہے۔ واللہ أعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 364   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 204  
´حیض سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ عبدالرحمٰن بن عوف کی بیوی ام حبیبہ رضی اللہ عنہا - بنت جحش جو ام المؤمنین زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کی بہن ہیں - کو استحاضہ کا خون آیا، تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: یہ حیض نہیں ہے بلکہ یہ ایک رگ (کا خون) ہے، تو جب حیض بند ہو جائے تو غسل کرو، اور نماز پڑھو، اور جب وہ آ جائے تو اس کی وجہ سے نماز ترک کر دو، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: تو وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتیں ۱؎ اور نماز پڑھتی تھیں، اور کبھی کبھی اپنی بہن زینب رضی اللہ عنہا کے کمرے میں ایک ٹب میں غسل کرتیں، اور ام المؤمنین زینب رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہوتیں، یہاں تک کہ خون کی سرخی پانی کے اوپر آ جاتی، پھر وہ نکلتیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھتیں، اور یہ (خون) انہیں نماز سے نہیں روکتا۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 204]
204۔ اردو حاشیہ:
➊ مستحاضہ کا ہر نماز کے لیے غسل کرنا ضروری نہیں، البتہ افضل اور مستحب ہے۔ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا ہر نماز کے لیے غسل کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان سے یہ بات سمجھی ہے، تبھی وہ استحباباً اور افضلیت کو پانے کی خاطر ہر نماز کے وقت غسل کر لیا کرتی تھیں، نیز اس بات کی تائید دیگر احادیث سے ہوتی ہے، جبکہ بعض کا یہ کہنا کہ انہیں حدیث کے معنی و مراد سمجھنے میں غلطی لگی ہو گی، درست نہیں کیونکہ یہ موقف بےدلیل ہے۔ «والله أعلم»
➋ استحاضہ والی عورت کو لنگوٹ وغیرہ باندھ کر مسجد میں جانا جائز ہے تاکہ خون نہ نیچے گرے، نہ کپڑے خراب ہوں۔
➌ حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا ٹب میں غسل کرنا خون کی رنگت دیکھ کر یہ معلوم کرنے کے لیے تھا کہ حیض بند ہوا یا نہیں ورنہ ٹب میں بیٹھ کر غسل کرنا طہارت کے خلاف ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 204   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 207  
´حیض سے غسل کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (استحاضہ کے) خون کے متعلق پوچھا؟ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے ان کا ٹب خون سے بھرا دیکھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: تمہارے حیض کا خون جتنے دن تمہیں (پہلے صوم صلاۃ سے) روکے رکھتا تھا، اسی قدر رکی رہو، پھر غسل کرو۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 207]
207۔ اردو حاشیہ:
خون سے بھرا ہوا۔ اس سے مراد پانی ہے جس میں خون شامل ہونے کی وجہ سے رنگت خون جیسی تھی ورنہ وہ پانی ہی ہوتا تھا، مقصد یہ ہے کہ انہیں بہت خون (استحاضہ) آتا تھا۔
تمہیں حیض آیا کرتا تھا۔ گویا پہلے انہیں صرف حیض آتا تھا، بعد میں بیماری شروع ہوئی۔ مطلب ہے، پہلے جتنے دن حیض آیا کرتا، اتنے دن حیض کے شمار کرو، اس کے بعد غسل کر کے نماز وغیرہ پڑھا کرو۔
➌ مستحاضہ کے لیے غسل کرنا مستحب اور افضل ہے ضروری نہیں جیسا کہ اس کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 207   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 210  
´قرء کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا کو جو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں استحاضہ ہو گیا (جس سے) وہ پاک ہی نہیں رہ پاتی تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاملہ ذکر کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حیض کا خون نہیں ہے، بلکہ وہ رحم میں (شیطان کی طرف سے) ایک ایڑ ہے ۱؎ تو وہ اپنے حیض کی مقدار کو جس میں اسے حیض آتا تھا یاد رکھے، پھر اسی کے بقدر نماز چھوڑ دے، پھر اس کے بعد جو دیکھے تو ہر نماز کے وقت غسل کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 210]
210۔ اردو حاشیہ:
مستحاضہ کے لیے ہر نماز کے وقت غسل کی حدیث کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے قوی قرار دیا ہے اور اسے قابل حجت قرار دیتے ہوئے، اس حدیث کو ضعیف قرار دینے والوں کا تعاقب کیا ہے اور آخر میں حدیث عکرمہ اور اس کے درمیان تطبیق دیتے ہوئے اس امر کو استحباب پر محمول کیا ہے، یعنی استحاضہ میں مبتلا عورت کے لیے ہر نماز کے لیے غسل کرنا افضل تو ہے واجب نہیں تاکہ دیگر روایات سے اختلاف پیدا نہ ہو۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [فتح الباري: 427/1، و صحيح سنن أبى داود مفصل للألباني: 83/2، حديث: 303]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 210   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 213  
´قرء کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا کہ میں ایک ایسی عورت ہوں جسے استحاضہ کا خون آتا رہتا ہے، تو میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں، کیا نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ تو رگ (کا خون) ہے حیض کا خون نہیں، تو جب حیض کا خون آئے تو نماز چھوڑ دو، اور جب بند ہو جائے تو اپنے (جسم اور کپڑے سے) خون دھو لو، اور (غسل کر کے) نماز پڑھو۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 213]
213۔ اردو حاشیہ:
اس سے پہلی تین روایات میں «قرء» حیض کے معنی میں آیا ہے۔ اور یہی امام نسائی رحمہ اللہ کا مقصود ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے «قرء» سے طہر مراد لیا ہے۔ لغت کے لحاظ سے یہ لفظ دونوں معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ موقع محل کی مناسبت سے دونوں میں سے کوئی معنیٰ مراد لیا جا سکتا ہے، محققین کا یہی موقف ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 213   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 214  
´مستحاضہ کے غسل کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک مستحاضہ عورت سے کہا گیا کہ یہ ایک رگ (کا خون) ہے جو رکتا نہیں، چنانچہ اسے حکم دیا گیا کہ وہ ظہر دیر سے پڑھے اور عصر جلدی پڑھ لے، اور دونوں نمازوں کے لیے ایک غسل کرے، اور مغرب دیر سے پڑھے اور عشاء جلدی پڑھے، اور دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور فجر کے لیے ایک غسل کرے۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 214]
214۔ اردو حاشیہ:
اسے کہا گیا۔ ظاہر ہے کہنے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے کیونکہ آپ کے دور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے مسئلہ پوچھا کرتے تھے۔ «والله أعلم»
سرکش رگ۔ چونکہ استحاضہ شروع ہو جائے تو رکنے کا نام ہی نہیں لیتا، اس لیے رگ کو سرکش کہا گیا ہے۔ بعض نے اس کے معنی نہ رکنے والی کیے ہیں، یہ معنی بھی درست ہیں۔
➌ اس حدیث میں مستحاضہ عورت کو ایک دن میں تین غسل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے مگر یہ مستحب اور اختیاری چیز ہے، واجب نہیں کیونکہ بعض روایات میں یہ لفظ بھی ہیں: اگر تو طاقت رکھے۔ دیکھیے: [سنن أبى داود، الطهارة، حديث: 287] ورنہ واجب تو صرف وضو ہے۔
➍ ایک نماز کو مؤخر کرنا اور دوسری کو جلدی پڑھنا، یہ جمع صوری ہے، یعنی پہلی نماز اپنے آخری وقت میں اور دوسری نماز اپنے اول وقت میں۔ اس طرح دونوں نمازیں اپنے اپنے اصل وقت ہی میں پڑھی جائیں گی۔ صرف ظاہراً جمع کی گئی ہیں۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 214   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 217  
´حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابوحبیش رضی اللہ عنہا کو استحاضہ آتا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: حیض کا خون سیاہ ہوتا ہے اور پہچان لیا جاتا ہے، تو جب یہ خون ہو تو نماز سے رک جاؤ، اور جب دوسرا ہو تو وضو کر کے نماز پڑھو۔‏‏‏‏ ابوعبدالرحمٰن نسائی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو کئی راویوں نے روایت کیا ہے، لیکن جو چیز ابن ابوعدی نے ذکر کی ہے اس کو کسی نے ذکر نہیں کیا، واللہ تعالیٰ اعلم، (یعنی «دم الحیض دم أسود» کا ذکر کسی اور نے اس سند سے نہیں کیا ہے)۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 217]
217۔ اردو حاشیہ:
➊ ان دو روایات سنن نسائی [216، 217] کی سند میں اختلاف ہے۔ روایت [216] میں حضرت عروہ براہ راست حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے بیان کر رہے ہیں، جبکہ روایت [217] میں دونوں کے درمیان حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا واسطہ موجود ہے۔ پہلی روایت کتاب سے بیان کی گئی اور دوسری حفظ سے۔ دونوں طرح ہی درست ہے کیونکہ حضرت عروہ کی ملاقات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی ہے اور حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا سے بھی۔ عین ممکن ہے کہ دونوں سے روایت سنی ہو۔ چونکہ ابن ابی عدی ثقہ راوی ہیں، لہٰذا یہ امکان قابل ترجیح ہے۔ اگرچہ ابن القطان نے پہلی روایت کو منقطع قرار دیا ہے جبکہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیے: [إرواء الغليل، رقم: 204]
➋ ممکن ہے، امام نسائی رحمہ اللہ کا اشارہ «دَمَ الْحَيْضِ دَمٌ أَسْوَدُ يُعْرَفُ» والے الفاظ کی طرف ہو۔
➌ حیض، نفاس اور استحاضے سے متعلق تفصیلی احکام و مسائل کے لیے «كتاب الحيض ولإستحاضة» کا ابتدائیہ دیکھیے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 217   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 352  
´استحاضہ اور خون شروع ہونے اور بند ہونے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا، کہنے لگیں: اللہ کے رسول! مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ایک رگ ہے، تو تم غسل کر لو پھر نماز پڑھو، چنانچہ وہ ہر نماز کے وقت غسل کرتی تھیں۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 352]
352۔ اردو حاشیہ: فوائد و مسائل کے لیے دیکھیے اسی کتاب کا ابتدائیہ۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 352   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 356  
´قرء کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا جو عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے عقد میں تھیں کو استحاضہ کا خون آتا تھا، وہ پاک نہیں رہ پاتی تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ان کا معاملہ ذکر کیا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حیض نہیں ہے، بلکہ یہ رحم میں شیطان کی ایک ایڑ ہے، تو اسے چاہیئے کہ اپنے حیض کو دیکھ لے جس میں وہ حائضہ ہوتی تھی (اور اسی کے بقدر) نماز چھوڑ دے، پھر اس کے بعد جو دیکھے تو ہر نماز کے وقت غسل کرے۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 356]
356۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 210 اور اس کے فوائد و مسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 356   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 360  
´مستحاضہ کے ایک غسل سے دو نمازوں کو جمع کرنے کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک مستحاضہ عورت سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں کہا گیا کہ یہ ایک نہ بند ہونے والی رگ ہے، اور اسے حکم دیا گیا کہ وہ ظہر کو مؤخر کرے اور عصر کو جلدی پڑھ لے، اور ان دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور مغرب کو مؤخر کرے، عشاء کو جلدی پڑھ لے، اور ان دونوں کے لیے ایک غسل کرے، اور صبح کی نماز کے لیے ایک غسل کرے۔ [سنن نسائي/كتاب الحيض والاستحاضة/حدیث: 360]
360۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 214 اور اس کے فوائد و مسائل
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 360   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث621  
´مستحاضہ جس کے حیض کی مدت استحاضہ والے خون سے پہلے متعین ہو اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے مسلسل خون آتا رہتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ رگ کا خون ہے، حیض نہیں ہے جب حیض آئے تو نماز ترک کر دو، اور جب وہ ختم ہو جائے تو خون دھو کر (یعنی غسل کر کے) نماز پڑھو۔‏‏‏‏ یہ وکیع کی حدیث ہے۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 621]
اردو حاشہ:
(1)
حیض اور استحاضہ میں یہ فرق ہے کہ حیض صحت کی حالت میں مہینے میں چند دن کے لیے آتا ہے جب کہ استحاضہ بیماری کا خون ہے جو حیض کے ایام کے علاوہ آتا ہے۔
اس کے علاوہ حیض کا خون شروع کے ایام میں سیاہی مائل ہوتا ہے۔
اور آخری ایام میں زردی مائل ہو جاتا ہے جبکہ استحاضہ کا رنگ سرخ ہی رہتا ہے تبدیل نہیں ہوتا۔
رنگ کے فرق کی وجہ سے عورتیں ان میں تمیز کرلیتی ہیں۔

(2)
رگ سے مراد یہ ہے کہ یہ ایک بیماری ہے۔
حسب معمول آنے والاخون نہیں، اس لیے اس پر وہ احکام لاگو نہیں ہوتے جو عادت کے ایام پر ہوتے ہیں۔

(3)
استحاضہ کی مریض عورت کو بھی صحت مند عورت کی طرح حیض ختم ہونے پرغسل کرنا چاہیے، اس کے بعد صحت مند عورت کی طرح نماز، روزہ ادا کرنا چاہیے۔
اسے مسجد میں جانا، قرآن پاک کی تلاوت کرنا، اور خاوند کا اس سے مباشرت کرنا بھی جائز ہے کیونکہ اس پر حیض کے احکام لاگو نہیں ہوتے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 621   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث624  
´مستحاضہ جس کے حیض کی مدت استحاضہ والے خون سے پہلے متعین ہو اس کے حکم کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! مجھے استحاضہ کا خون آتا رہتا ہے جس سے میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں، تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، یہ رگ کا خون ہے حیض نہیں ہے، اپنے حیض کے دنوں میں نماز نہ پڑھو، پھر غسل کرو اور ہر نماز کے لیے الگ وضو کرو، (اور نماز پڑھو) خواہ خون چٹائی ہی پر کیوں نہ ٹپکے۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 624]
اردو حاشہ:
استحاضہ کی مریضہ عورت غسل کرکے دو نمازوں کو ملا کر پڑھے تو افضل ہے۔
اگر وہ الگ الگ نماز کے لیے صرف وضو پر اکتفاء کرے تو بھی درست ہے۔
یہ روایت بھی معناً صحیح ہے تاہم بعض کے نزدیک اس میں آخری الفاظ اگرچہ چٹائی پر خون ٹپکتا رہے صحیح نہیں ہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 624   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث626  
´حیض اور استحاضہ کے خون میں فرق نہ کر سکنے والی اور اپنے حیض کے دن کا علم نہ رکھنے والی مستحاضہ کا بیان۔`
عروہ بن زبیر اور عمرہ بنت عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کی بیوی ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہا تھی، جو سات برس تک استحاضہ میں مبتلا رہیں، انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی شکایت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ حیض نہیں ہے، بلکہ ایک رگ کا خون ہے، جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو، اور جب ختم ہو جائے تو غسل کرو، اور نماز پڑھو۔‏‏‏‏ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ ہر نماز کے لیے غسل ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 626]
اردو حاشہ:
(1)
  جب حیض آئے یعنی جب وہ دن آئیں جن میں اسے بیماری سےپہلے حیض آیا کرتا تھا تو اب بھی انہی دنوں کے کو حیض کے ایام میں شمار کرلے یا رنگ کی تبدیلی اور خون کی کثرت وغیرہ سے اندازہ ہو کہ حیض شروع ہو گیا ہے تو نماز روزہ چھوڑدے۔
جب محسوس ہوکہ اب صرف بیماری کا خون جاری ہے تو ایام حیض سے فراغت پر غسل کرکے نماز پڑھنا شروع کردے۔

(2)
حضرت ام حبیبہ بنت حجش رضی اللہ عنہ کا ہر نماز کے لیے وضو کرنا ان کا اجتہاد تھا۔
رسول اللہﷺ کے ارشاد سے صرف ایک بار غسل کرنا معلوم ہوتا ہے جو حیض ختم ہونے  پر عورت پر فرض ہوتا ہے۔
دوسری احادیث میں روزانہ تین بار یا ایک بار غسل کرنے کا جو حکم ہے، وہ افضلیت کے لیے ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 626   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث646  
´حیض سے پاک ہونے کے بعد حائضہ زرد اور خاکی رطوبت دیکھے تو کیا کرے؟`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے بارے میں جو پاکی کے بعد ایسی چیز دیکھے جو اسے شبہ میں مبتلا کرے، فرمایا: وہ تو رگوں سے خارج ہونے والا مادہ ہے (نہ کہ حیض)۔ محمد بن یحییٰ کہتے ہیں: پاکی کے بعد سے مراد غسل کے بعد ہے۔ [سنن ابن ماجه/أبواب التيمم/حدیث: 646]
اردو حاشہ:
(1)
یہ روایت سنداً ضعیف ہے البتہ دیگر شواہد کی بناء پر معناً صحیح ہے غالباً اسی وجہ سے دیگر محقیقین نے اسے صحیح قرار دیا ہے۔

(2)
پاک ہونے کا مطلب ہےکہ حیض ختم ہوجانے کے بعد جب غسل کرلے پھر زرد یا مٹیالے رنگ کا پانی نظر آئے تو اسے حیض نہ سمجھے بلکہ وہ ایک بیماری کی سی کیفیت ہے البتہ عادت کے ایام کے اندر اس وقت تک انتظار کرنا چاہیے جب تک رنگ بالکل سفید نہ ہوجائے یا خون بالکل بند نہ ہوجائے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 646   

  الشيخ ڈاكٹر عبد الرحمٰن فريوائي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ترمذي، تحت الحديث 125  
´مستحاضہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی الله عنہا نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: اللہ کے رسول! میں ایسی عورت ہوں کہ مجھے استحاضہ کا خون ۱؎ آتا ہے تو میں پاک ہی نہیں رہ پاتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، یہ تو ایک رگ ہے حیض نہیں ہے، جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو۔ اور جب وہ چلا جائے (یعنی حیض کے دن پورے ہو جائیں) تو خون دھو کر (غسل کر کے) نماز پڑھو، ابومعاویہ کی روایت میں ہے ؛ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نماز کے لیے وضو کرو یہاں تک کہ وہ وقت (حیض کا وقت) آ جائے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 125]
اردو حاشہ:
1؎:
عورت کی شرم گاہ سے تین طرح کا خون خارج ہوتا ہے:
ایک حیض کا خون جوعورت کے بالغ ہونے سے بڑھاپے تک ایام حمل کے علاوہ ہر ماہ اس کے رحم سے چند مخصوص ایام میں خارج ہوتا ہے اور اس کا رنگ کالا ہوتا ہے،
دوسرا نفاس کا خون ہے جو بچہ کی پیدائش کے بعد چالیس دن یا اس سے کم و بیش زچگی میں آتا ہے،
تیسرا استحاضہ کا خون ہے،
یہ ایک عاذل نامی رگ کے پھٹنے سے جاری ہوتا ہے اور بیماری کی صورت اختیار کر لیتا ہے،
اس کے جاری ہونے کا کوئی مقرر وقت نہیں ہے کسی بھی وقت جاری ہوسکتا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 125   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 129  
´مستحاضہ عورت ہر نماز کے وقت غسل کرے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ام حبیبہ بنت حجش نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے مسئلہ پوچھا اور کہا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں رہ پاتی ہوں۔ تو کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، یہ تو محض ایک رگ ہے، لہٰذا تم غسل کرو پھر نماز پڑھو، تو وہ ہر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔ ابن شہاب زہری نے اس کا ذکر نہیں کیا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ام حبیبہ رضی الله عنہا کو ہر نماز کے وقت غسل کرنے کا حکم دیا، بلکہ یہ ایسا عمل تھا جسے وہ اپنے طور پر کیا کرتی تھیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 129]
اردو حاشہ:
1؎:
کسی بھی صحیح روایت میں نہیں آتا کہ اللہ کے رسول اللہ ﷺ نے ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو ہر نماز کے لیے غسل کا حکم دیا تھا،
جو روایتیں اس بارے میں ہیں سب ضعیف ہیں،
صحیح بات یہی ہے کہ وہ بطور خود (استحبابی طور سے) ہر نماز کے لیے غسل کیا کرتی تھیں۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 129   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:160  
فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مستحاضہ کا جب حیض ختم ہوگا تو وہ غسل کرے گی، پھر نماز وغیرہ شروع کر دے گی، اور یہ عورت خاوند کے لیے بھی حلال ہے، کیونکہ استحاضہ ایک رگ ہے، جس کے پھٹ جانے کی وجہ سے خون جاری ہوتا ہے۔ اگر کوئی عورت استحاضہ کی حالت میں ہر نماز سے پہلے غسل کر سکتی ہو تو ایسا ہی کرے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن شریعت نے اس کی پابندی نہیں لگائی۔ یاد رہے کہ استحاضہ اور ودی کا ایک ہی حکم ہے، یعنی ہر نماز کے لیے الگ وضو کیا جائے گا، اگر کوئی اپنی مرضی سے ہر نماز کے لیے غسل کرنا چاہتا ہے تو وہ کرے لیکن شریعت نے اسے اس کا مکلف نہیں بنایا۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 160   

  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:193  
فائدہ:
حالت حیض میں نماز پڑھنا منع ہے لیکن حالت استحاضہ میں نماز پڑھی جائے گی، اور حالت حیض میں دیگر ممنوعہ امور بھی حالت استحاضہ میں کیے جائیں گے۔ یاد رہے کہ استحاضہ میں ایک رگ سے خون جاری ہوتا ہے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 193   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 760  
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ بنت حجش رضی اللہ تعالی عنہا (جو عبد الرحمٰن بن عوف کی منکوحہ تھی) نے رسول اللہ ﷺ سے خون (استحاضہ) کی شکایت کی تو آپﷺ نے فرمایا: تم جس قدر حیض کے دنوں رکتی تھی، اتنے دن ٹھرو، پھر نہا لو تو وہ ہر نماز کے لیے نہایا کرتی تھی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:760]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
مستحاضہ عورت کا خون چونکہ اوقات مخصوصہ کا پابند نہیں ہوتا اس لیے اس کا حکم حیض سے الگ ہے اور مستحاضہ کی مختلف اقسام ہیں (1)
۔
وہ مستحاضۃ جسے پہلے صرف حیض آتا تھا کچھ عرصہ کے بعد استحاضہ شروع ہو گیا اس لیے اس کو اپنے حیض کے ایام کا پتہ ہے کہ مجھے اتنے دن حیض آتا تھا اس کو متعادہ کہتے ہیں اس کا حکم یہ ہےکہ اسے پہلے جتنے دن حیض آتا تھا اتنے دن حیض کے شمار ہوں گے اور بعد والے دن استحاضہ کے ہوں گے۔
(2)
۔
مبتدلۃ:
۔
جس کو شروع ہی سے استحاضہ آنا شروع ہو گیا،
اگر یہ حیض اور استحاضہ کے خون میں امتیاز کر سکتی ہے کیونکہ حیض کا خون سیاہ اور انتہائی بد بو دار ہوتا ہے استحاضہ کی یہ صورت نہیں تو پھر اس کو ممتیزہ قرار دیا جائے گا،
جتنے دن وہ حیض سمجھے وہ حیض ہو گا اور باقی استحاضہ بشرطیکہ وہ کم ازکم مدت حیض سے کم نہ ہو جو شوافع کے نزدیک ایک دن رات ہے اور احناف کے ہاں تین دن رات اور حیض کی اکثر مدت سے زائد نہ ہوں جو آئمہ ثلاثہ کے نزدیک پندرہ دن ہے اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دس دن۔
(3)
۔
اگر مستحاضہ کی عادت بھی نہ ہو اور وہ ممتیزہ بھی نہ ہو تو پھر اس کو کم ازکم مدت حیض کی پابندی کرنی ہو گی۔
اگر ایک عورت معتادہ ہی ہے اور ممتیزہ بھی تو اس کے بارے میں آئمہ کا اختلاف ہے۔
احناف کے نزدیک عادت کا اعتبار ہے اور مالکیہ کے نزدیک تمیز کا۔
شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک دونوں کو ملحوظ رکھنا ہو گا اگر دونوں میں تعارض ہو تو شافعی کے نزدیک تمیز کا اعتبار ہو گا اور امام احمد نزدیک عادت کا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 760   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:228  
228. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: فاطمہ بنت ابی حبیش‬ ؓ ن‬بی ﷺ کے پاس حاضر ہوئی اور کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں ایسی عورت ہوں کہ اکثر مستحاضہ رہتی ہوں اور اس کی وجہ سے پاک نہیں ہو سکتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نہیں، نماز مت چھوڑ۔ یہ ایک رگ کا خون ہے، حیض نہیں۔ پھر جب تیرے حیض کا وقت آ جائے تو نماز چھوڑ دے اور جب وقت گزر جائے تو (اپنے بدن اور کپڑوں سے) خون دھو کر نماز ادا کر۔ ہشام نے کہا: میرے والد (عروہ بن زبیر) نے کہا: (آپ نے فرمایا:) پھر ہر نماز کے لیے وضو کر حتی کہ وہی (حیض کا) وقت پھرآ جائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:228]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مقام پر حیض کے مسائل بیان کرنے کے لیے نہیں صرف خون کو دھونے کے اثبات کے لیے یہ حدیث لائے ہیں کیونکہ مسائل حیض آئندہ کتاب الحیض میں بیان ہوں گے۔
عورتوں کو تین طرح کے خون آتے ہیں۔
خون حیض خون استحاضہ اور خون نفاس ان تینوں کے احکام الگ الگ ہیں جو آئندہ بیان ہوں گے۔
اس مقام پر چند گزارشات پیش خدمت ہیں۔
استحاضہ کا خون رگ پھٹنے سے آتا ہے، جیسا کہ اس حدیث سے واضح ہو تا ہے جب رگوں میں خون زیادہ بھرجاتا ہے تو وہ پھٹ جاتی ہیں جس سے خون جاری ہوجاتا ہے۔
ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے اس کی تین وجوہات بیان فرمائی ہیں آپ نے فرمایا:
یہ خون رکضہ شیطان یا انقطاع رگ یا کسی بیماری کے لاحق ہونے سے آتا ہے۔
(مسند أحمد: 464/6)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ استحاضہ کی صورت انقطاع عرق اور بیماری کی وجہ سے ہوتی ہے، یعنی غیر طبعی خون کبھی فساد و مزاج کے سبب اور کبھی امتلائے عروق کی وجہ سے خارج ہوتا ہے اور کبھی خون استحاضہ کی وجہ رکضہ شیطان بنتی ہے۔
علماء نے اس کا یہ مفہوم بیان کیا ہے کہ شیطان کو موقع ملتا ہے کہ عورت کو التباس میں ڈال دے تاکہ یہ ایک دینی معاملے میں مغالطے کا شکار ہو جائے کہ وہ خود کو نماز کے قابل خیال نہ کرے یا نماز کا اہل تصور کرے۔
لیکن بعض علماء نے مذکورہ تاویل اور مفہوم سے اتفاق نہیں کیا اور کضۃ شیطان کو اس کے ظاہری معنی ہی پر محمول کیا ہے یعنی شیطان کے کچوکہ مارنے سے بھی بعض دفعہ استحاضے کا خون جاری ہو جاتا ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جسے بار بار ہوا یا پیشاب آنے کی بیماری ہو وہ بھی ہر نماز کے لیے تازہ وضو کر کے اسے ادا کرتا رہے، کیونکہ مستحاضہ کے لیے ہر نماز کے وقت تازہ وضو کی صراحت حدیث میں موجود ہے، اگرچہ امام مسلم نے اس لفظ کے متعلق اپنے تردد کا اظہار کیا ہے اور فرمایا کہ حدیث حماد بن زید میں ایک لفظ کے اضافے کے پیش نظر ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 754۔
(333)
امام مسلم کا اشارہ اسی لفظ ''توضئي" کی طرف ہے جو کسی قسم کے تردد یا تفرد کے بغیر صحیح ثابت ہے۔
جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ہشام رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے روایت کے آخر میں اسے بیان کیا ہے اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بھی لفظ مذکور کی صحت کا اقرارکیا ہے۔
(فتح الباري: 433/1)
اس لفظ کا تقاضا ہے کہ مستقل عذر والے مرد یا عورت کو ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنا ہوگا اور اس نماز سے متعلقہ سنن ونوافل بھی اس وضو سے پڑھے جا سکتے ہیں۔
نماز ادا کرنے کے بعد وضو خود بخود ختم ہو جائے گا جبکہ احناف اور حنابلہ کا موقف ہے کہ ہر وقت نماز کے لیے نیا وضو کرنا ہے اور اس وقت کے اندر جتنے چاہے فرائض ونوافل پڑھ لے، خواہ وہ اس نماز سے غیر متعلق ہی کیوں نہ ہوں، اس دوران میں فوت شدہ نماز بھی پڑھی جا سکتی ہے۔
مالکی حضرات کے نزدیک یہ وضو اس وقت تک برقرار رہے گا جب تک اسے کوئی ناقض وضو لا حق نہ ہو۔
یہ مستقل شرعی عذر اس کے لیے ناقض نہیں ہو گا۔
بہرحال حدیث کے الفاظ کے پیش نظر ہمارا موقف یہ ہے کہ اس طرح کے مستقل شرعی عذر والے کے لیے ہر نماز نئے وضو سے اداکرنی ہو گی۔
باقی تاویلات اس لفظ کے منافی ہیں۔
لیکن اس مقام پر تدبر کی آڑ میں حدیث میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی مذموم کوشش کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے۔
امام تدبر فرماتے ہیں:
لیکن فی الواقع اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ ہر نماز کے لیے وضو کرے جبکہ ازروئے شریعت وہ پاک ہے، ایک بیماری کی بنیاد پر یہ پابندی کیوں عائد کر دی جائے کہ وہ وضو کے بارے میں دین کی ایک رخصت سے فائدہ نہیں اٹھا سکتی؟ اس معاملہ میں صفائی کے نقطہ نظر سے بھی اس کی کوئی خاص اہمیت معلوم نہیں ہوتی۔
(تدبر حدیث: 320/1)
بعض حضرات نے ہر نماز کے لیے تازہ وضو کرنے کے حکم کو حضرت عروہ کا کلام قراردیا ہے، لیکن یہ صحیح نہیں، کیونکہ حضرت عروہ کا فتوی ہوتا تو(تَتَوَضَّأُ)
کہا جاتا کہ وہ عورت وضو کرے لیکن صیغہ خطاب کا استعمال اس امر کی دلیل ہے کہ یہ مرفوع حدیث ہے اور رسول اللہ ﷺ کا کلام ہے۔
(فتح الباري: 433/1)

حدیث میں حیض سے متعلق حکم کا دارومدار اس کے اقبال وادبار پر ہے۔
اس کی علامت کیا ہے اس کے متعلق دو موقف ہیں:
(1)
۔
شوافع کے نزدیک اس کی تمیز الوان سے ہوتی ہے، یعنی گہرا سرخ رنگ جو سیاہی مائل ہو وہ حیض کا خون ہے، کیونکہ حدیث میں رنگ کو حیض کی علامت قراردیا گیا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
حیض کا خون سیاہ رنگ سے پہچانا جاتا ہے۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 286)
اس لیے حیض کا خون اپنے رنگ کی وجہ سے استحاضہ کے خون سے ممتاز ہے اور اس کے آنے جانے سے پتہ چلتا رہے گا کہ حیض کا آغاز اور اختتام کب ہوا۔
(2)
۔
احناف کے نزدیک اقبال وادبار کا اعتبار عورت کی عادت سے ہو گا، یعنی عورت کو معلوم ہوتا ہے کہ اس کے ایام کب شروع ہوتے اور کب انتہا کو پہنچتے ہیں، یعنی اقبال و ادبار کو اس کی عادت سے پہچانا جائے گا، کیونکہ حدیث میں ہے کہ وہ ان ایام کے شمار پر نظر رکھے جو ہر مہینے اس کے حیض کے لیے مخصوص ہیں۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 274)
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلے میں ایک روایت بایں الفاظ نقل کی ہے کہ جتنے دن اسے حیض آتا ہے اس کی مقدار نماز چھوڑدے، یعنی ان دنوں میں نماز نہ پڑھے۔
(صحیح مسلم، الحیض، حدیث: 754 (333)
حاصل کلام یہ ہے کہ عورت اگر معتادہ ہے، یعنی اپنی عادت کو پہچانتی ہے تو اقبال وادبار کا حال حسب عادت ہوگا اور اگر غیر معتادہ یا (مُبدِئَة)
ہے تو رنگ وغیرہ سے اس کی پہچان ہوگی۔
نوٹ:
اس کے متعلق دیگر مباحث کتاب الحیض میں بیان ہوں گے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 228   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:306  
306. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: فاطمہ بنت ابی حبیش‬ ؓ ن‬ے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے پاکی حاصل نہیں ہوتی، کیا میں نماز چھوڑ دوں؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہ ایک رگ کا خون ہے، حیض نہیں، لہذا جب حیض آئے تو نماز چھوڑ دو اور جب حیض کے ایام گزر جائیں تو خود سے خون دھو ڈالو، یعنی غسل کرو اور نماز پڑھو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:306]
حدیث حاشیہ:

اس عنوان سے امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ حیض اور استحاضے کے احکام میں فرق ہے۔
استحاضہ ایک عذر ہے اور مستحاضہ کا حکم معذور جیسا ہے۔
عورت نماز بھی پڑھے گی، روزے بھی رکھے گی۔
واضح رہے کہ حدیث کی رُو سے اس کی تین وجہیں ہیں:
۔
یہ خون بیماری یا رگ پھٹنے سے آتا ہے۔
جب رگوں میں خون حد سے زیادہ بھر جاتا ہے تو وہ پھٹ جاتی ہیں اور ان سے خون بہنے لگتا ہے، یعنی انقطاع رگ۔
۔
الحاق مرض۔
۔
رکضہ شیطان۔
(مسند احمد: 464/6)
۔
رکضہ شیطان کا مطلب بعض علماء کے نزدیک یہ ہے کہ شیطان کو موقع ملتاہے کہ وہ عورت کو اس کے ذریعے سے التباس میں مبتلا کردے تاکہ وہ ایک دینی معاملے میں توہمات کا شکار ہوجائے کہ وہ ایسے حالات میں خود کو نماز کے قابل سمجھے یا نماز کے قابل خیال نہ کرے۔
لیکن یہ تاویل ہے۔
زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے ظاہر معنی ہی پر محمول کیا جائے، یعنی شیطان کے کچوکا مارنے سے بھی بعض دفعہ استحاضے کا خون جاری ہو جاتاہے۔

اس روایت میں ہے کہ خون دھوڈالو اور نمازپڑھو۔
یہاں غسل کرنے کی صراحت نہیں، جبکہ ایک دوسری روایت (325)
میں غسل کرنے کی ہدایت ہے، لیکن وہاں خون دھونے کی وضاحت نہیں۔
راوی نے دونوں جگہ سے اختصار سے کام لیا ہے، کیونکہ خون دھونا اور غسل کرنا دونوں ہی ضروری ہیں۔
ایک تیسری چیز کی بھی ضرورت ہے کہ اس قسم کی عورت ہرنماز کے لیے وضو بھی کرے، جیساکہ صحیح بخاری کی حدیث (228)
میں موجود ہے۔
اس لفظ کا تقاضا ہے کہ مستقل عذروالے مرد یا عورت کو ہرنمازکے لیے تازوہ وضو کرناہوگا اور اس نماز سے متعلقہ سنن ونوافل بھی اس وضو سے پڑھے جاسکتے ہیں، نماز ادا کرنے کے بعد وضو خود بخود ختم ہوجائےگا جبکہ کچھ حضرات کا موقف یہ ہے کہ ہر وقت نماز کے لیے نیاوضو کرنا ہوگا۔
اور اس وقت میں جس قدر چاہے نوافل وفرائض پڑھ لے، خواہ وہ اس نماز سے غیر متعلق ہی کیوں نہ ہوں، نیز اس دوران میں فوت شدہ نمازیں بھی ادا کی جاسکتی ہیں۔

حیض کے اقبال وادبار (شروع ہونے اور بند ہونے)
کی پہچان پر استحاضے کی شناخت کا دارو مدار ہے۔
اس لحاظ سے حیض کے اقبال وادبار کی شناخت حسب ذیل طریقوں سے ہوسکتی ہے:
۔
عادت:
۔
عورتوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ایام حیض کب شروع ہوتے ہیں اور وہ کب انتہا کو پہنچتے ہیں۔
اس طرح کی عورت کو مُعتَادَہ کہا جاتاہے۔
ایام حیض کے علاوہ دوسرے دن استحاضے کے شمار ہوں گے۔
۔
تمیز:
اگرعادت پختہ نہ ہوتو ایام حیض کی پہچان تمیز سے ہوسکتی ہے اور اس کی بنیاد تین چیزیں ہیں: 1۔
خون سیاہی مائل ہو۔

گاڑھا ہو۔

اس کی ہوا گندی ہو۔

اس قسم کی عورت کومتمیزہ کہاجاتا ہے۔
۔
تحریری:
اگرایام حیض یاد نہیں یا تمیز بھی نہیں ہوسکتی تو ایسی عورت کوتَحَری (سوچ بچار)
کرنی چاہیے۔
اگر کسی ایک جانب غالب گمان ہوجائے تو اس کے مطابق عمل کرے۔
ایسی عورت کو مُتَحَرِبَّہ کہتے ہیں۔
اگرتحری سے بھی کچھ فائدہ نہ ہو تو ایسی عورت متحیرہ ضالہ مضلہ ہے۔
ایسے عورت کو چاہیے کہ وہ اپنی عمر اور جسمانی صحت کے لحاظ سے ملتی جلتی عورتوں کی عادت کے مطابق عمل کرے۔
عام عورتیں چھ یا سات دن تک حیض میں مبتلارہتی ہیں۔
اس کے بعد غسل کرکے نماز شروع کردیتی ہیں۔

مناسب معلوم ہوتا ہے کہ استحاضے کے متعلق شیخ محمد بن صالح العثمین ؒ کے نتیجہ فکر کوتحریر کردیاجائے جو انھوں نے ایک کتابچے میں رقم فرمایا ہے۔
استحاضے کی دوصورتیں ہیں۔
۔
عورت کو ہمیشہ خون آتارہے اور وہ کسی دن بند نہ ہو، جیساکہ فاطمہ بنت ابی حبيش ؓ نے کہا تھا:
اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے استحاضہ آتا ہے کہ میں کبھی پاک نہیں ہوتی ہوں۔
(صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 306)
۔
عورت کو بکثرت خون آتا ہو، مہینے میں ایک یا دو دن کے لیے منقطع ہو، جیسا کہ حمنہ بنت جحش ؓ نے کہا تھا:
اے اللہ کے رسول ﷺ ! مجھے بکثرت بڑی شدت سے استحاضہ آتا ہے۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 287)
مستحاضہ کی تین حالتیں ممکن ہیں:
۔
اسے اپنے ایام حیض معلوم ہوں۔
اس صورت میں جتنے ایام حیض کے لیے مخصوص ہوں گے، ان پر احکام حیض اوربقیہ دنوں پر استحاضہ کے احکام جاری ہوں گے۔
حدیث میں ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبيش ﷺ نے کہا:
اےاللہ کے رسول ﷺ ! مجھے ہمیشہ ایسا استحاضہ آتا ہے کہ کبھی پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی، کیا میں نماز چھوڑدوں؟ آپ نے فرمایا:
نہیں۔
یہ خون ایک رگ سے آتا ہے، اپنے ایام حیض کی مقدار نماز ترک کردے، پھر غسل کرکے نماز پڑھ۔
(صحیح البخاري، الحیض، حدیث: 306)
اسی طرح آپ نے ام حبیبہ بنت جحش ؓ سے فرمایا تھا کہ جتنے دن تجھے حیض روکے رکھے،اتنے دن نماز ترک کردے پھرغسل کراور نمازپڑھ۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 279)
اس بنا پر مستحاضہ کو چاہیے کہ وہ اپنے مقرر ایام حیض میں نماز ترک کردے اوربقیہ ایام میں غسل کرکے نماز شروع کردے۔
اگربقیہ دنوں میں خون جاری رہتا ہے تو اس کی پروانہ کرے۔
۔
اسے ایام حیض معلوم نہیں۔
جب سے حیض آنا شرو ع ہوا خون جاری رہا، کبھی بند نہیں ہوا۔
تو ایسی عورت کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ خون حیض کی تمیزکرے، جس کی تین صورتیں ہیں: 1۔
خون سیاہی مائل ہو۔

گاڑھا ہو۔

اس کی گندی ہوا ہو۔
مثال کے طورپر ایک عورت کو جب حیض شروع ہوا تو اس نے ابتدائی دس دن اس کی رنگت سیاہ دیکھی یا وہ گاڑھا تھا یا اس کی ہوا گندی تھی تو ابتدائی دس دن حیض کے شمار کرکے، بقیہ ایام استحاضہ میں، غسل کرکے نماز پڑھے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ سے فرمایا کہ حیض کا خون سیاہ رنگ کا ہوتاہے۔
سیاہ خون آنے تک نماز نہ پڑھو، پھر وضو کرکے نماز شروع کردو، کیونکہ اس کے بعد آنے والا خون استحاضے کا ہے۔
(سنن اأبي داود، الطھارة، حدیث: 286)
۔
اس کے دن بھی مقرر نہ ہوں اور نہ وہ تمیز ہی کرسکتی ہو، مثلاً:
جب اسے حیض آنا شروع ہواتو وہ ایک ہی صفت پررہا یا کبھی سیاہ پھر سرخ پھر سیاہ آتارہا، جس سے حیض کی پہچان نہ ہوسکی تو وہ اپنی عمر اور جسمانی صحت کے لحاظ سے ملتی جلتی عام عورتوں کی عادت کے مطابق عمل کرے، یعنی وہ ہر مہینے چھ یا سات دن حیض کے شمار کرکے بقیہ ایام میں استحاضہ کے مطابق عمل کرے، جیسا کہ حضرت حمنہ بنت حجش ؓ نے کہا تھا:
اے اللہ کے رسول ﷺ! مجھے بکثرت شدت سے خون آتا ہے، کیا میں نماز، روزہ ترک کردوں؟آپ نے فرمایا:
تم روئی استعمال کرو، اس سے خون رک جائے گا۔
عرض کیا:
خون اس سے بھی زیادہ ہے، یعنی روئی وغیرہ کے استعمال سے بند نہیں ہوتا۔
آپ نے فرمایا:
یہ رکضہ شیطان ہے۔
تو اللہ کے علم کے مطابق چھ یا سات دن تک نماز ترک کردے، پھر غسل کرکے تیئیس یا چوبیس دن نماز پڑھ اور روزہ رکھ۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 287)
واضح رہے کہ چھ یا سات دن اکثرعورتوں کی عادت کے مطابق ہیں۔
وہ دیکھے کہ میری عمر اور جسمانی صحت کس سے ملتی ہے، اس کی عادت کے مطابق عمل کرے۔
بعض دفعہ کسی ہنگامی حالت (رحم کے اپریشن وغیرہ)
کے پیش نظر خون جاری ہوجاتا ہے۔
اس کی دوصورتیں ہیں:
۔
آپریشن کے وقت رحم کو نکال دیاجائے یااسے مسدود کردیاجائے۔
ایسے حالات میں یقینی طورپر حیض جاری نہیں ہوسکے گا۔
ایسی صورت حال کے پیش نظر جاری شدہ خون کا حکم اس زرد رنگ کے پانی یا رطوبت جیسا ہوگا جوحیض سے فراغت کے بعد فرج سے برآمد ہوتا ہے۔
ایسی عورت نماز روزے کی پابندی کرے گی اور اس سے جماع کی بھی کوئی ممانعت نہیں۔
اسے چاہیے کہ نماز کے وقت خون دھوکر شرمگاہ پر پٹی باندھ لے تاکہ مزید خون نکلنا بند ہوجائے۔
پھر اگر فرض نماز پڑھنی ہے تو دخول وقت کے بعد اور اگر نوافل وغیرہ ادا کرنے ہیں تو ان کی ادائیگی سے پہلے وضو کرلیا جائے۔
۔
اپریشن کےبعد اگرحیض کا امکان باقی رہے تو اس صورت میں جاری شدہ خون حیض نہیں ہوگا بلکہ اس کے متعلق استحاضہ کے احکام جاری ہوں گے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓ بنت ابی حبيش کو فرمایا تھا کہ یہ رگ کا خون ہے، ہاں جب تجھے حیض آئے تو نماز چھوڑدینا۔
اس فرمان نبوی ﷺ سے رہنمائی ملتی ہے کہ جس عورت کو حیض آسکتاہے اور اس کے آنے جانے کا بھی پتہ ہو توحیض کےعلاوہ دوسرا خون استحاضے کا شمارہوگا اور جس کے حیض کا امکان ہی نہیں۔
جیسا کہ پہلی صورت میں ہے، اس کا خون زرد رنگ کے پانی یا رطوبت کا حکم رکھتا ہے۔

مستحاضہ پاک عورت کے حکم میں ہے۔
صرف تین احکام اس کے ساتھ خاص ہیں:
۔
مستحاضہ کو ہر نماز کے لیے نیا وضو کرنا ہوگا، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ کو حکم دیا تھا کہ ہر ہو نماز کے لیے تازہ وضو کرے۔
(صحیح البخاري، الوضوء، حدیث: 228)
اس کا مطلب یہ ہےکہ بروقت ادا کی جانے والی نماز کے لیے دخول وقت کے بعد وضو کیا جائے۔
اور جن نوافل کا وقت مقرر نہیں ہے، انھیں ادا کرنے سے پہلے وضو کرنا ہوگا۔
۔
جب وضو کرنے کا ارادہ ہوتو پہلے خون کے نشانات کو دھویا جائے، پھر شرمگاہ پرروئی رکھ کر اس پر پٹی باندھ لی جائے تاکہ مزید خون بہنا بند ہوجائے۔
جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت حمنہ ؓ کو فرمایا تھا کہ شرمگاہ پر روئی رکھ لو۔
عرض کیا:
اس سے خون بند نہیں ہوگا۔
فرمایا:
کپڑا رکھ لو۔
عرض کیا:
ایسا کرنے سے بھی خون جاری رہتا ہے۔
فرمایا:
"لنگوٹ باندھ لو۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 287)
اگر اس کے بعد خون نہ رکے تو کوئی حرج نہیں۔
۔
مستحاضہ سے جماع کے متعلق علماء کا اختلاف ہے۔
راجح بات یہی ہے کہ جماع کیاجاسکتا ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں کم وبیش دس عورتیں ایسی تھیں جنھیں استحاضے کا عارضہ لاحق تھا، لیکن اللہ یا اس کے رسول ﷺ نے ان سے جماع کے متعلق کوئی امتناعی حکم جاری نہیں فرمایا، بلکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ جب عورتوں کو حیض آئے تو ان سے الگ رہو۔
اس کا بھی تقاضا ہے کہ حائضہ کے علاوہ دوسری عورتوں سے جماع کی پابندی نہیں۔
پھر جب نماز پڑھ سکتی ہےتو جماع بھی کیا جاسکتا ہے۔
حائضہ سے جماع پر اسے قیاس کرنا صحیح نہیں، کیونکہ ان دونوں کے احکام الگ الگ ہیں، اس لیے یہ قیاس، قیاس مع الفارق ہوگا، نیز اس کے جواز کے متعلق حدیث میں وضاحت بھی موجود ہے۔
(سنن أبي داود، الطھارة، حدیث: 309۔
310)

   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 306   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:320  
320. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش‬ ؓ ک‬و استحاضے کا عارضہ تھا۔ انھوں نے نبی ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: یہ حیض نہیں بلکہ رگ کا خون ہے، لہذا جب حیض کی آمد ہو تو نماز ترک کر دو اور جب حیض ختم ہو جائے تو غسل کر کے نماز ادا کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:320]
حدیث حاشیہ:

ابتدائی معلق روایت کو امام مالک ؒ نے اپنی موطا (حدیث (90)
میں موصولاً بیان کیا ہے۔
حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ امکان حیض کے وقت تیزی کے ساتھ خون کی آمد اقبال حیض کی علامت ہے۔
اس پر علماء کا اتفاق ہے۔
البتہ ادبار (ختم ہونے)
کے متعلق اختلاف ہے۔
بعض حضرات کا خیال ہے کہ داخل فرج میں رکھی ہوئی روئی اگر خشک نکل آئے تو یہ ادبار کی علامت ہے، لیکن بعض اوقات دوران حیض میں بھی وقفات کے وقت روئی خشک نکل آتی ہے، لہٰذا اسے ادبار کی علامت قرارنہیں دیا جا سکتا۔
جبکہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ اگرروئی پر چونے جیسی سفید رطوبت لگی ہوتو یہ ادبار کی نشانی ہے۔
امام بخاری ؒ کا رجحان اسی طرف معلوم ہوتا ہے اور اس کی تائید حضرت عائشہ ؓ کے ارشاد سے بھی ہوتی ہے، سفید رطوبت کے متعلق امام مالک فرماتے ہیں کہ میں نے اس کے متعلق اپنی عورتوں سے دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ ان کے ہاں یہ امر معروف ہے، وہ اس سے طہر کی پہچان کرتی ہیں۔
(فتح الباري: 544/1)

حضرت زید بن ثابت ؓ کی حسنہ، عمرہ اور اُم کلثوم نامی چند ایک لڑکیاں ہیں۔
احادیث کی روایت میں حضرت اُم کلثوم ؓ کا نام ملتا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اس روایت میں حضرت زید بن ثابت ؓ کی گمنام بیٹی یہی اُم کلثوم ہو۔
انھوں نے عورتوں کے کردار پر اس لیے اعتراض کیا کہ رات کے وقت خالص سفیدی کی تمیز نہیں ہو سکتی۔
عین ممکن ہے کہ وہ جسے طہر خیال کریں وہ طہر نہ ہو اور نماز ایام حیض میں طہر سے پہلے ادا کر لی جائے۔
(فتح الباري: 544/1)

عورتیں رات کے وقت چراغ طلب کرنے کا اہتمام اس لیے کرتی تھیں، تاکہ انھیں اختتام حیض کا پتہ چل جائے، مبادا عشاء کی نماز قضا ہو جائے جب ان کا یہ اہتمام ادائیگی نماز کے پیش نظر تھا تو حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی صاحبزادی کو یہ بات کیوں ناگوار معلوم ہوئی؟ بعض حضرات نے اس کا جواب دیا ہے کہ ان کے رات کے وقت چراغ جلانے کا اہتمام بلا وجہ تھا کیونکہ خون کی آمد تو ہاتھ کے چھونے سے معلوم ہو سکتی تھی لیکن یہ جواب درست نہیں کیونکہ ہاتھ کے چھونے سے حیض کے خون اور رطوبت فرج کے درمیان تمیز نہیں ہو سکتی۔
دراصل شریعت نے حیض کے متعلق زیادہ سختی نہیں کی ہے کہ اسے رات کے وقت چراغ جلا کر دیکھنے کا اہتمام کیا جائے، بلکہ سوتے وقت دیکھ لیا جائے، اگر منقطع ہو گیا تو غسل کر کے نماز عشاء ادا کر لی جائے اور اگر سوتے وقت منقطع ہوا تو روئی رکھ کر سو جانا چاہیے، صبح اٹھ کر اگر روئی کو خون لگا دیکھے تو حیض جاری ہے، اس کے ذمے کچھ نہیں۔
اگر خون کا نشان وغیرہ نہیں ہے تو پھر غسل کر کے نماز فجر ادا کر لے۔

احناف نے عورت کی عادت کو حیض کے اقبال و ادبار کا مدار ٹھہرایا ہے، جبکہ شوافع کے ہاں الوان (رنگوں)
کا اعتبار ہے۔
احناف کا کہنا ہے کہ الوان پر حیض کا مدار نہیں رکھا جا سکتا، کیونکہ صحت مند عورت جس کا مزاج معتدل ہواور غذا اور آب وہوا بھی معتدل ہو تو تجربے سے معلوم ہوا ہے کہ خون کی رنگت سرخ ہوتی ہے، اس کجے برعکس اگر مزاج کی خرابی ہے، آب و ہوا معتدل نہیں اور گرم غذائیں استعمال کرتی ہے تو اس سے خون میں احترافی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے خون سیاہ ہو جاتا ہے اس لیے رنگوں کا کوئی اعتبار نہیں ہے، ہاں اگر کسی عورت کو عادت کے طور پر معلوم ہو جائے کہ اس کے خون کی رنگت سیاہ یا سرخ ہوتی ہے تو الگ بات ہے بہر حال حدیث سے عادات اور الوان دونوں کا پتہ چلتا ہے۔
اس کے متعلق استحاضے کے باب میں بحث ہو چکی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 320   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:325  
325. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، حضرت فاطمہ بنت ابی حبیش‬ ؓ ن‬ے نبی ﷺ سے پوچھا: مجھے استحاضے کا خون آتا ہے اور میں مدتوں پاک نہیں ہو سکتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ نے فرمایا: نہیں، یہ تو ایک رگ کا خون ہے۔ ہاں، اتنے دن نماز چھوڑ دیا کرو جن میں اس (بیماری) سے قبل تمہیں حیض آیا کرتا تھا۔ اس کے بعد غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:325]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری ؓ کا مقصد یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگرعورت دعویٰ کرے کہ اسے ایک ماہ میں تین حیض آگئے ہیں تو کیا اس کی بات کو تسلیم کیا جائے گا یا نہیں؟ صورت مسئلہ یوں ہوسکتی ہے کہ کسی عورت کو اس کے خاوند نے طلاق دے دی، وہ ایک ماہ کے بعد رجوع کرنا چاہتا ہے، لیکن عورت کا یہ دعویٰ ہے کہ اسے ایک ماہ میں تین حیض آچکے ہیں، یعنی خاوند کا حق رجوع ختم ہوچکا ہے، کیونکہ اس کی عدت تین حیض آنے تک تھی، اب وہ ختم ہوچکی ہے۔
امام بخاری ؒ کا موقف صراحت کے ساتھ نہیں، البتہ اشاروں سے معلوم ہوتا ہے کہ حیض اور حمل کے معاملات میں عورت کی بات کا اعتبار کیا جائے گا، لیکن اس سے قسم لی جائے گی۔
امام بخاری نے ایک اورشرط بھی بیان کی ہے کہ اگرتین حیض کا دعویٰ ایسی مدت میں ہے کہ اس مدت میں تین حیض آسکتے ہیں تو صحیح ہے، اگرامکانی مدت سے کم میں دعویٰ کرتی ہے تو اس کا اعتبار نہیں ہوگا۔
امام بخاری نے دلیل کے طور پر آیت کریمہ کو پیش کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی اندرونی حالت کو نہ چھپائیں۔
اگرحیض یا حمل ہے تو اسے ظاہر کردیں، کیونکہ حیض یا حمل تک خاوند کو رجوع کرنے کا حق ہے۔
استدلال بایں طور ہے کہ عورت کو رحمی حالت کے اظہار کی تاکید کی جارہی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سلسلے میں عورت کا بیان ہی معتبر ہوگا۔
یہ بھی واضح رہے کہ بیان کے معتبر ہونے کے معنی بیان حلفی کے معتبر ہونے کے ہوا کرتے ہیں، لہذا ایک ماہ میں تین حیض آنے کے متعلق بھی اس کا بیان قسم لے کر معتبر مانا جائے گا، چنانچہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ شرح تراجم ابواب میں لکھتے ہیں:
اگرعورت یہ دعویٰ کرے کہ ایک ماہ میں اسے تین حیض آچکے ہیں تو اس کی تصدیق کی جائے گی، کیونکہ ایسا ممکن ہے۔
قرآنی آیت سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی بات معتبر ہوگی۔
اس باب میں بیان کردہ جملہ تعلیقات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ حیض کی مدت محدود مقرر نہیں ہے، اس لیے عورت ہی کی بات پر مدار ہے، بشرطیکہ حد امکان سے باہر نہ ہو۔

امام بخاری ؒ نےاگرچہ واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ ایک ماہ میں تین حیض آجانے کا دعویٰ کرنے والی عورت کی بات کو تسلیم کیا جائے گا اور وہ عدت سے خارج ہوجائےگی، لیکن ان کے پیش کردہ آثار سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ جواز وتصدیق کے قائل ہیں۔
آپ نے سب سے پہلے قاضی شریح تابعی کا ایک فیصلہ اپنی تائید میں پیش کیا ہے۔
اس کی تفصیل بایں طور ہے کہ ایک دن قاضی شریح کے سامنے ایک مقدمہ آیا جس میں عورت کو طلاق پر ایک ماہ گزرچکا تھا، خاوند رجوع کرنا چاہتا تھا، لیکن عورت کا دعویٰ تھا کہ مجھے ایک ہی ماہ میں تین حیض آچکے ہیں، لہذا میری عدت ختم ہوچکی ہے۔
حضرت شریح ؒ نے یہ فیصلہ کیا کہ اپنے گھر کے رازداں دیندار اقرباء میں سے ایسے گواہ لاؤ جو گواہی دیں کہ ہم نے اسے ایام حیض ترک صوم وصلاۃ کے بعد صوم وصلاۃ ادا کرتے دیکھا ہے توعدالت تیرے دعویٰ کی تصدیق کرتے ہوئے فیصلہ تیرے حق میں کردے گی۔
حضرت شریح نے یہ فیصلہ حضرت علی ؓ کی موجودگی میں کیا، انھوں نے اس فیصلے کی تحسین فرمائی۔
(سنن الدارمي:
حدیث: 855)

ویسے عورت کو ایک ماہ میں تین بار حیض نہیں آتا۔
تندرست عورت کو ہرماہ صرف چند ایام کے لیے ایک ہی بار حیض آتا ہے، لیکن اگرکبھی شازونادر ایسا ہوجائے اور عورت خود اقرارکرے کہ اسے ایک مہینے میں تین بار حیض آیا ہے تواس کا بیان قابل تسلیم ہے جس طرح استحاضے کے متعلق عورت ہی کے بیان پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔

حضرت عطاء بن ابی رباح ؒ نے فرمایا کہ اگر مطلقہ عورت ایک ماہ میں تین حیض گزرجانے کا دعویٰ کرتی ہے تو دیکھا جائے کہ طلاق سے قبل اس کی عادت کیا تھی۔
(المصنف لعبد الرزاق: 311/6)
اگر اسے ایک ماہ میں تین حیض آنے کی عادت تھی تو اس کا دعویٰ تسلیم کیا جائے گا۔
بصورت دیگر یہ سمجھا جائے گا کہ یہ اپنے شوہر سے پیچھا چھڑانے کا دعویٰ کررہی ہے اور اس کی تصدیق نہیں کی جائے گی کیونکہ یہ اس بہانے خاوند کا حق رجوع باطل کررہی ہے۔

امام بخاری ؒ کےنزدیک حیض وحمل کے متعلق عورتوں کا بیان قابل اعتبار ہے، اس لیے انھوں نے ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے۔
اس میں ہے کہ جن دنوں میں تجھے حیض آتا ہے اتنے دن نماز چھوڑدے، پھر غسل کرکے نماز شروع کرو۔
اس سے معلوم ہوا کہ اس معاملے میں عورت کی بات اوررائے کااعتبار ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے معاملہ حضرت فاطمہ بنت ابی جیش ؓ کے سپردکردیا کہ ان دنوں کے اندازے پر تم نماز چھوڑ دو جن میں تمھیں حیض آتا ہے۔
نیزرسول اللہ ﷺ نے ان کے بیان پر ہی مسائل متعلقہ تعلیم فرمائے۔
واللہ أعلم۔
نوٹ:
۔
عطا ؒ کا دوسرا اثر کہ مدت حیض ایک دن سے پندرہ دن تک ہے کہ امام دارمی نے سنن الدارمی (حدیث: 833)
میں اورابن سیرین ؒ کے اثر کو(حدیث 795)
میں موصولاً بیان کیا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 325   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:327  
327. حضرت عائشہ‬ ؓ ز‬وجہ نبی ﷺ سے روایت ہے کہ حضرت ام حبیبہ‬ ؓ س‬ات سال تک مستحاضہ رہیں۔ انھوں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا تو آپ نے انہیں غسل کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: یہ رگ (کا خون) ہے۔ چنانچہ حضرت ام حبیبہ‬ ؓ ہ‬ر نماز کے لیے غسل کرتی تھیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:327]
حدیث حاشیہ:

حجش کی تین صاحبزادیاں تھیں:
حضرت ام المومنین زینب ؒ ۔
حضرت ام حبیبہ ؓ زوجہ عبدالرحمان بن عوف اور حضرت حمنہ ؓ اور یہ تینوں استحاضے میں مبتلا تھیں۔
علماء نے ان عورتوں کی تعداد دس لکھی ہے جو رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مستحاضہ تھیں۔
سنن ابوداود میں حضرت ام حبیبہ ؓ کے متعلق الفاظ بھی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی ختنہ (سالی)
اور عبدالرحمان بن عوف کی بیوی تھی۔
ختن کا لفظ زوجہ کے اقارب کے لیے، احماء خاوند کے رشتہ داروں کے لیے اوراصہار دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ام حبیبہ ؓ سات سال تک مرض استحاضہ میں مبتلارہیں۔
اس سے ابن قاسم نے استدلال کیا ہے کہ اگرمستحاضہ، حیض کے دھوکے میں نماز ترک کردے تو اس کے ذمے قضا نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے اسے اتنی بڑی مدت کی نمازیں لوٹانے کا حکم نہیں دیا۔
حافظ ابن حجر ؒ نے اس کا جواب دیاہے کہ سات سال کی مدت کا ذکر توضرور ہوا ہے، مگراس بات کا کیا ثبوت ہے کہ مسئلہ پوچھنے کے وقت سے پہلے یہ مدت گزرچکی تھی۔
(فتح الباری: 553/1)
صحابیات کے دینی لگاؤ اور عبادات کے اہتمام کے پیش نظر یہ اغلب ہے کہ انھیں استحاضے کا عارضہ لاحق ہوتے ہی مسئلے کی ضرورت پڑی اور اسی وقت دریافت کرلیا ہوگا اس لیے ترک نماز اور اس کی قضا کو ادا کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی ہوگی۔

اس حدیث میں ہے کہ حضرت ام حبیبہ ؓ بنت جحش ہر نماز کے وقت غسل کیا کرتی تھیں، لیکن رسول اللہ ﷺ نے مطلق طور پر غسل کا حکم دیا تھا، اس میں بار بار ہرنماز کے لیے غسل کرنے کے متعلق کوئی دلالت نہیں ہے۔
ممکن ہے کہ انھوں نے کسی قرینے سے ہرنماز کے وقت غسل کا حکم سمجھ لیا ہو۔
امام شافعی ؒ نے فرمایا ککہ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ نے کوئی حکم نہیں دیا تھا مگرانھوں نے خود ہی ہرنماز کے لیے غسل کرنے کاالتزام کرلیا۔
جمہور کا مذہب بھی یہی ہے کہ متحیرہ کے علاوہ کسی مستحاضہ پر ہر نماز کے وقت غسل ضروری نہیں۔
البتہ وضو کرنا ہر نماز کے لیے ضروری ہے۔
ہاں سنن ابی داود میں سلمان بن کثیر اور یحییٰ بن ابی کثیر(292۔
293)

کی روایات میں ہر نماز کے لیے غسل کرنے کا حکم ہے، لیکن ان دونوں روایات کی صحت اور ضعف میں اختلاف ہے، تاہم بشرط صحت دونوں قسم کی روایات میں یہ تطبیق دی جاسکتی ہے کہ حکم غسل کو استحباب پر محمول کیاجائے۔
امام طحاوی ؒ نے حدیث ام حبیبہ ؓ کو حدیث فاطمہ بنت ابی حبیش سے منسوخ قراردیا ہے جس میں صرف وضوکا حکم ہے، غسل کا نہیں، تاہم ہمارے نزدیک دونوں طرح کی احادیث میں تطبیق پیداکرنا ہی بہتر ہے، یعنی ام حبیبہ ؓ کی حدیث میں غسل کے متعلق امر نبوی کو استحباب وارشاد پرمحمول کیاجائے۔
واللہ أعلم۔
(فتح الباري: 554/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 327   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:331  
331. حضرت عائشہ‬ ؓ س‬ے روایت ہے، انھوں نے کہا: نبی ﷺ نے (فاطمہ بنت ابی حبیش سے) فرمایا: جب حیض کے ایام آئیں تو نماز چھوڑ دو اور جب حیض کے ایام گزر جائیں تو خون کو دھو ڈالو اور نماز ادا کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:331]
حدیث حاشیہ:

علامہ سندھی ؒ نے عنوان کا مقصد بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ اس مقام پر طہر سے مرادخون حیض کا انقطاع ہے، مطلق خون کا بند ہونا مراد نہیں، کیونکہ کلام تو اس عورت سے متعلق ہے جو خون استحاضہ کی حالت سے دوچار ہو اور اس کا خون بند نہ ہورہاہو۔
(حاشیة السندی: 205/1)
حافظ ابن حجر ؒ کہتے ہیں:
جب حیض کے خون سے استحاضہ کو تمیز کرسکے، توگواستحاضے کا خون جاری ہے، اسے طہر کہا گیا ہے۔
اس بات کا بھی احتمال ہے کہ مطلق خون بند ہونے کو طہر سے تعبیر کیا گیا ہو، لیکن سیاق کے اعتبارسے پہلے معنی زیادہ صحیح ہیں۔
(فتح الباري: 555/1)
مقصد یہ ہے کہ عورت جس وقت دیکھے کہ طہر شروع ہوگیا ہے، گواستحاضے کا خون آتا رہے تو فوراً غسل کرکے نماز شروع کردے۔
لیکن علامہ عینی ؒ نے اس سے واقعی طور پر انقطاع دم مرادلیا ہے۔
دم استحاضہ کوطہر قرار دینا صرف مجازی طور پر ممکن ہے جس کی یہاں کوئی ضرورت نہیں، اس لیے یہاں طہر کی تفسیر مطلق خون بند ہونے سے کی جائے گی۔
امام بخاری ؒ کا مطلب یہ ہے کہ خون بند ہوگیا ہے تو فوراً غسل کرکے نماز پڑھے، مزید وقت گزرنے کا انتظار نہ کرے۔
(عمد ة القاري: 178/3)

حضرت ابن عباس ؓ کے اثر کو مصنف ابن ابی شیبہ (153/1)
اوردارمی (805)
میں موصولاً بیان کیا گیا ہے۔
جس کے الفاظ یہ ہیں کہ حضرت ابن سیرین ؒ نے حضرت ابن عباس ؒ سے مستحاضہ کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ جب بحرانی خون، یعنی حیض دیکھے تو نماز نہ پڑھے اور جب طہر دیکھے خواہ ایک لحظہ ہو، تو غسل کرکے نماز ادا کرے۔
خاوند کی مقاربت سے متعلق اثرابن عباس کو مصنف عبدالرزاق (310/1)
میں حضرت عکرمہ کی سند سے بیان کیا گیا ہے، آپ نے فرمایا:
اس سے مقاربت (ہم بستری)
کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
ابوداؤد میں ہے کہ ام حبیبہ ؓ کا خاوند استحاضے کی حالت میں اس سے مقاربت کرلیتا تھا۔
یہ حدیث صحیح ہے، بشرطیکہ حضرت عکرمہ کا حضرت ام حبیبہ سے سماع ثابت ہو۔
(فتح الباري: 556/1)

ابراہیم نخعی ؒ، حکم اورامام زہری ؒ وغیرہ کا خیال ہے کہ مستحاضہ عورت سے جماع جائز نہیں۔
امام بخاری ؒ ان کی تردید فرمارہے ہیں کہ جب نماز پڑھنا جائز ہے تو خاوند کو اس سے صحبت کرنابطریق اولی جائز ہوگا۔
غالباً یہی وجہ ہے کہ امام بخاری ؒ نے اس کے لیے حدیث فاطمہ بنت ابی حبیش ؓ کو مختصراً بیان کیا ہے جس میں صراحت ہے کہ مستحاضہ کو نماز پڑھنی چاہیے۔
حدیث مذکور پہلے گزر چکی ہے، تشریح کے لیے اس کی طرف مراجعت کی جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 331