سنن نسائي
صفة الوضوء
ابواب: وضو کا طریقہ
109. بَابُ : الْقَوْلِ بَعْدَ الْفَرَاغِ مِنَ الْوُضُوءِ
باب: وضو سے فراغت کے بعد کی دعا کا بیان۔
حدیث نمبر: 148
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ حَرْبٍ الْمَرْوَزِيُّ، قال: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ، قال: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ، وَأَبِي عُثْمَانَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قال: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ قَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، فُتِّحَتْ لَهُ ثَمَانِيَةُ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ يَدْخُلُ مِنْ أَيِّهَا شَاءَ".
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے وضو کیا، اور اچھی طرح وضو کیا، پھر «أشهد أن لا إله إلا اللہ وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے بندے اور رسول ہیں“ کہا تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے جس سے چاہے وہ جنت میں داخل ہو“۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الطہارة 6 (234)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 60 (470)، (تحفة الأشراف: 10609)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الطہارة 41 (55)، بزیادة ’’اللھم اجعلنی من التوابین واجعلنی من المتطھرین‘‘، وأعادہ المؤلف فی عمل الیوم واللیلة 34 (84)، سنن ابی داود/فیہ 65 (169)، م (4/146، 151، 153) من مسند عقبة بن عامر، سنن الدارمی/الطہارة 43 (743) مطولاً (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم
سنن نسائی کی حدیث نمبر 148 کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 148
148۔ اردو حاشیہ:
➊ بعض احادیث میں کلمۂ شہادت کے بعد یہ کلمات پڑھنے کا ذکر بھی ملتا ہے: «اللھم اجعلني من التوابین واجعلني من المتطھرین» [جامع الترمذي، الطھارۃ، حدیث: 55]
”یا اللہ! مجھے بہت زیادہ توبہ کرنے والوں اور پاک رہنے والوں میں سے بنا دے۔“ لہٰذا کلمۂ شہادت کے ساتھ ان الفاظ کو بھی پڑھنا جائز ہے، لیکن وضو کے بعد دعا پڑھتے ہوئے آسمان کی طرف منہ کرنا اور انگلی سے اشارہ کرنا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں، لہٰذا اس عمل سے اجتناب کرنا چاہیے۔
➋ ”جس دروازے سے چاہے داخل ہو۔“ یہ اور اس قسم کے دوسرے وعدے مشروط ہیں، یعنی بشرطیکہ اس سے کوئی ایسا کام صادر نہ ہوا ہو تو عدم مغفرت یا دخول جہنم کا لازمی سبب ہو۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 148
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث470
´وضو کے بعد کی دعاؤں کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان بھی اچھی طرح سے وضو کرے پھر «أشهد أن لا إله إلا الله وأشهد أن محمدا عبده ورسوله» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے، اور رسول ہیں“ تو اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دئیے جائیں گے جس دروازے سے چاہے وہ داخل ہو جائے۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 470]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحیح مسلم کی ایک روایت میں یہ دعا ان الفاظ میں بھی مروی ہے (أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ)
(صحيح مسلم، الطهارة، باب الذكر المستحب عقب الوضوء، حديث: 234)
(2)
جنت کے دروازے کھول دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لیے نیکی کے دروازے کھل گئےہیں۔
جو نیکیاں وہ شخص وضو کے بغیر ادا نہیں کرسکتا تھا اب کرسکتا ہے، لہٰذا اب جو نیکی چاہے انجام دے لے۔
اور یہ مطلب بھی ہے کہ وفات کے بعد اس کے لیے جنت کے سب دروازے کھل جائیں گے۔
اسے جنت میں داخل ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی۔
(3)
داخل ہونے کے لیے تو ایک دروازہ بھی کافی ہوتا ہے لیکن زیادہ دروازوں کو کھولنا اس کی عزت افزائی کے لیے ہے تاکہ اس کا مقام ومرتبہ واضح ہو اور اسے بہت زیادہ خوشی حاصل ہو۔
واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 470