أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ آدَمَ، عَنْ ابْنِ أَبِي زَائِدَةَ، قال: حَدَّثَنِي أَبِي وَغَيْرُهُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ أَبِي حَيَّةَ الْوَادِعِيِّ، قال: رَأَيْتُ عَلِيًّا" تَوَضَّأَ فَغَسَلَ كَفَّيْهِ ثَلَاثًا وَتَمَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا، وَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا، وَذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ وَغَسَلَ رِجْلَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا"، ثُمَّ قَالَ: هَذَا وُضُوءُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 115
115۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ سنن ابوداود اور جامع ترمذی کی تحقیق میں اسے صحیح قرار دیا ہے، نیز حدیث میں مذکور مسئلے کی دیگر صحیح احادیث سے تائید بھی ہوتی ہے۔ بنابریں راجح اور درست بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ مذکورہ روایت معنا صحیح ہے۔ واللہ أعلم۔ نیز دیگر محققین نے بھی اسے صحیح قرار دیا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 115
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 31
´سر کا مسح ایک مرتبہ ہی فرض ہے`
«. . . قال ومسح براسه واحدة . . .»
”. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر کا مسح ایک مرتبہ کیا . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 31]
� فائدہ:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ سر کا مسح ایک مرتبہ ہی فرض ہے۔ اکثر علمائے امت کا یہی مسلک ہے۔ البتہ امام شافعی رحمہ اللہ مسح میں تکرار کے قائل ہیں اور دوسرے اعضاء کی طرح تین بار مسح کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا استدلال ابوداود کی ایک روایت سے ہے لیکن اکثر احادیث (جو صحیحین اور سنن میں مروی ہیں) کی بناء پر جمہور علماء کا مسلک ہی راجح اور اقرب الی الصواب ہے۔
راوی حدیث:
سیدنا علی رضی اللہ عنہ علی بن ابی طالب چوتھے خلیفہ راشد، سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے والد ماجد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے حقیقی چچازاد بھائی اور داماد تھے۔ جنگ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے کیونکہ اس جنگ میں ان کو مدینے میں بطور خلیفہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ 18 ذی الحجہ 35 ہجری کو منصبِ خلافت پر فائز ہوئے اور 17 رمضان المبارک 4۔ ہجری کو جمعہ کے دن بوقت صبح کوفہ میں ایک شقی القلب عبدالرحمٰن بن ملجم نے پے درپے تین وار کر کے شہید کر دیا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 31
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 48
´ایک ہی چلو پانی، منہ اور ناک دونوں کے لئے استعمال`
«. . . ثم تمضمض صلى الله عليه وآله وسلم واستنثر ثلاثا، يمضمض وينثر من الكف الذي ياخذ منه الماء . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کلی اور ناک میں پانی اسی ہاتھ سے داخل کرتے جس سے پانی لیتے تھے . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة/باب الوضوء: 48]
لغوی تشریح:
«يُمَضْمِضُ وَيَنْثُرُ مِنَ الْكَفِّ الَّذِي يَأْخُذُ مِنْهُ الْمَاءَ» یعنی چلو بھر پانی لیتے، اس میں سے کلی کرنے کے لیے کچھ پانی منہ میں داخل کرتے اور بقیہ پانی ناک میں چڑھاتے۔ یہ عمل آپ تین مرتبہ فرماتے۔ یہاں «يَنْثُرُ» «اِسْتِنْشَاق» کے معنی میں ہے، یعنی ناک میں پانی ڈالنا۔
فوائد و مسائل:
➊ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ ایک ہی چلو پانی، منہ اور ناک دونوں کے لئے استعمال کرنا چاہئیے۔
➋ یہ بھی ثابت ہوا کہ اس عمل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ کرتے تھے۔
➌ نسائی کی روایت میں صراحت ہے کہ آپ بائیں ہاتھ سے ناک جھاڑتے تھے جبکہ دائیں ہاتھ سے منہ اور ناک میں پانی داخل کرتے تھے۔
➍ اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ سر کا مسح ایک مرتبہ ہی فرض ہے۔ اکثر علمائے امت کا یہی مسلک ہے۔ البتہ امام شافعی رحمہ اللہ مسح میں تکرار کے قائل ہیں اور دوسرے اعضاء کی طرح تین بار مسح کو مستحب قرار دیتے ہیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا استدلال ابوداود کی ایک روایت سے ہے لیکن اکثر احادیث (جو صحیحین اور سنن میں مروی ہیں) کی بناء پر جمہور علماء کا مسلک ہی راجح اور اقرب الی الصواب ہے۔
راوی حدیث:
SR سیدنا علی رضی اللہ عنہ ER سیدنا علی رضی اللہ عنہ علی بن ابی طالب چوتھے خلیفہ راشد، سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کے والد ماجد اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی چچازاد بھائی اور داماد تھے۔ جنگ تبوک کے علاوہ تمام غزوات میں شریک ہوئے کیونکہ اس جنگ میں ان کو مدینے میں بطور خلیفہ چھوڑ دیا گیا تھا۔ 18 ذی الحجہ 35 ہجری کو منصب خلافت پر فائز ہوئے اور 17 رمضان المبارک 4 ہجری کو جمعہ کے دن بوقت صبح کوفہ میں ایک شقی القلب عبدالرحمٰن بن ملجم نے پے در پے تین وار کر کے شہید کر دیا۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 48
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 111
´ایک ہی چلو سے آدھا پانی کلی اور آدھا ناک میں چڑھانا`
«. . . ثُمَّ تَمَضْمَضَ وَاسْتَنْثَرَ ثَلَاثًا . . .»
”. . . آپ کلی کرتے پھر اسی چلو سے آدھا پانی ناک میں ڈال کر اسے جھاڑتے . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 111]
فوائد و مسائل:
اس روایت سے ثابت ہوا کہ ایک ہی چلو سے آدھا پانی کلی کے لیے کھینچ لیں اور آدھا ناک میں چڑھا لیں۔ پانی چڑھانے کے بعد ناک کو بائیں ہاتھ سے جھاڑنا چاہیے، جیسا کہ سنن نسائی اور سنن دارمی کی روایات میں صراحت سے وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ناک میں پانی داخل کرنا دائیں سے اور اس کا جھاڑنا بائیں ہاتھ سے تھا۔ [سنن نسائي حديث: 91، سنن دار مي حديث: 704]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 111
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 113
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بیان۔`
«. . . عَبْدَ خَيْرٍ، قَالَ: رَأَيْتُ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُتِيَ بِكُرْسِيٍّ فَقَعَدَ عَلَيْهِ، ثُمَّ أُتِيَ بِكُوزٍ مِنْ مَاءٍ فَغَسَلَ يَدَيْهِ ثَلَاثًا، ثُمَّ تَمَضْمَضَ مَعَ الِاسْتِنْشَاقِ بِمَاءٍ وَاحِدٍ . . .»
”. . . عبد خیر کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا (ان کے پاس) ایک کرسی لائی گئی، وہ اس پر بیٹھے پھر پانی کا ایک کوزہ (برتن) لایا گیا تو (اس سے) آپ نے تین بار اپنا ہاتھ دھویا پھر ایک ہی چلو سے کلی کی اور ناک میں پانی ڈالا . . .“ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب صِفَةِ وُضُوءِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم: 113]
فوائد و مسائل:
اس حدیث سے ایک ہی چلو سے کلی اور ناک میں پانی ڈالنا ثابت ہوتا ہے۔ مسنون اور مستحب عمل یہی ہے کہ ایک ہی چلو پانی لے کر کلی کی جائے اور اسی سے ناک میں پانی بھی دیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل یہی ہے، جیسا کہ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کی صراحت موجود ہے۔ «والله أعلم» [صحيح بخاري، الوضوء، حديث: 140]
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 113
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 91
´کس ہاتھ سے ناک سے پانی جھاڑے؟`
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے وضو کا پانی منگوایا، کلی کی اور ناک میں پانی ڈال کر اسے اپنے بائیں ہاتھ سے تین بار جھاڑا، پھر کہنے لگے: یہ اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو ہے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 91]
91۔ اردو حاشیہ: ناک جھاڑنا غلاظت کی صفائی ہے، لہٰذا یہ بائیں ہاتھ ہی سے مناسب ہے، بخلاف منہ کی صفائی کہ وہ دائیں ہاتھ سے ہونی چاہیے کیونکہ منہ کا مقام بہت بلند ہے، نیز وہ کھانے کی جگہ ہے، وہاں بایاں ہاتھ مناسب نہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 91
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 93
´چہرہ کتنی بار دھوئے؟`
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس ایک کرسی لائی گئی تو وہ اس پر بیٹھے، پھر آپ نے ایک برتن منگوایا جس میں پانی تھا، اپنے دونوں ہاتھ پر تین بار پانی انڈیلا، پھر ایک ہی ہتھیلی سے تین دفعہ کلی کی اور ناک جھاڑی، اور اپنا چہرہ تین بار دھویا، اور اپنے دونوں ہاتھ تین تین بار دھوئے، پھر پانی لے کر اپنے سرکا مسح کیا، (شعبہ - جو حدیث کے راوی ہیں - نے اپنی پیشانی سے اپنے سر کے آخر تک ایک بار مسح کر کے دکھایا، پھر کہا: میں نہیں جانتا کہ ان دونوں کو (گدی سے پیشانی تک) واپس لائے یا نہیں؟) اور اپنے دونوں پیروں کو تین تین بار دھویا، پھر علی رضی اللہ عنہ نے کہا: جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ وضو دیکھنے کی خواہش ہو تو یہی آپ کا وضو ہے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 93]
93۔ اردو حاشیہ:
➊ سند میں حضرت شعبہ نے اپنے استاد کا نام مالک بن عرفطہ ذکر کیا ہے، لیکن یہ ان کی غلطی ہے۔ محدثین کا اتفاق ہے کہ ان کا نام خالد بن علقمہ ہے۔ شعبہ اگرچہ اعلیٰ پائے کے محدث ہیں مگر غلطی ہر ایک سے ممکن ہے۔ سابقہ دو احادیث میں زائدہ اور ابوعوانہ نے صحیح نام بیان کیا ہے، لہٰذا امام صاحب نے وضاحت فرما دی۔
➋ «بِكَفٍّ وَاحِدٍ» اس کا ایک ترجمہ تو ”ایک ہتھیلی سے“ ہے، یعنی کلی اور استنشاق دونوں داہنے ہاتھ سے کیے۔ دوسرا ترجمہ ہے ایک ہی چلو سے، یعنی ایک دفعہ پانی لے کر کچھ حصہ منہ میں اور کچھ حصہ ناک میں ڈالا، اور یہی درست ہے۔ اسے وصل کہتے ہیں۔ امام ترمذی رحمہ اللہ اس کی بابت لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے الگ الگ پانی لینا بہتر قرار دیا ہے اور بعض نے ایک ہی چلو سے دونوں عمل کرنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اس کی بابت یوں فرماتے ہیں کہ اگر دونوں کام ایک ہی چلو سے کر لیے جائیں تو جائز ہے لیکن ہمیں الگ الگ پانی لینا زیادہ پسند ہے۔ دیکھیے: [جامع الترمذی، الطھارۃ، حدیث: 28]
تاہم حدیث کی رو سے زیادہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی چلو سے کلی کی جائے اور ناک میں پانی ڈالا جائے کیونکہ ایک ہی چلو سے کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے والی روایات سند کے لحاظ سے زیادہ قوی اور مستند ہیں۔ واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 93
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 96
´دونوں ہاتھ کو کتنی بار دھوئے؟`
ابوحیہ (ابن قیس) کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا اور اپنی ہتھیلیوں کو دھویا یہاں تک کہ انہیں (خوب) صاف کیا، پھر تین بار کلی کی، اور تین بار ناک میں پانی ڈالا پھر اپنا چہرہ تین بار دھویا، اپنے دونوں ہاتھ تین تین بار دھوئے، پھر اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر کھڑے ہوئے، اور اپنے وضو کا بچا ہوا پانی لیا اور کھڑے کھڑے پی لیا، پھر کہنے لگے کہ میں نے چاہا کہ میں تم لوگوں کو دکھلاؤں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو کیسا تھا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 96]
96۔ اردو حاشیہ:
➊ ”وضو کا پانی کھڑے ہو کر پیا“ بعض اہل علم وضو وغیرہ کا بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر پینا مسنون سمجھتے ہیں جب کہ بعض علماء سمجھتے ہیں کہ کھڑے ہو کر پینا صرف بیان جواز کے لیے تھا، اسے عادت نہ بنایا جائے۔ اور جن احادیث میں کھڑے ہو کر پانی پینے سے سختی سے روکا گیا ہے تو وہ اس نہی (ممانعت) کو تنزیہہ پر محمول کرتے ہیں، یعنی بہتر ہے کہ بیٹھ کر پیا جائے لیکن اگر کبھی کبھار کھڑے کھڑے بھی پانی پی لیا جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں، یہ بھی جائز ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث سے ثابت ہوتا ہے۔ بیان جواز سے ان کی یہی مراد ہے۔
➋ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس مسئلے میں وارد مختلف متعارض احادیث کا جائزہ لیتے ہوئے فرماتے ہیں: «بل الصواب أن النھي فیھا محمول علی التنزيه و شربه قائما لبیان الجواز» ”درست بات یہ ہے کہ ان احادیث میں موجود ممانعت تنزیہہ پر محمول ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کھڑے ہو کر پانی پینا بیان جواز کے لیے تھا۔“ دیکھیے: [فتح الباري: 104/10، تحت حدیث: 5617]
واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 96
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 130
´وضو ٹوٹے بغیر تازہ وضو کس طرح کرے؟`
عبدالملک بن میسرہ کہتے ہیں کہ میں نے نزال بن سبرہ سے سنا، انہوں نے کہا کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ آپ نے ظہر کی نماز پڑھی، پھر لوگوں کی ضرورتیں پوری کرنے یعنی ان کے مقدمات نپٹانے کے لیے بیٹھے، جب عصر کا وقت ہوا تو پانی کا ایک برتن لایا گیا، آپ نے اس سے ایک ہتھیلی میں پانی لیا، پھر اسے اپنے چہرہ، اپنے دونوں بازو، سر اور دونوں پیروں پر ملا ۱؎، پھر بچا ہوا پانی لیا اور کھڑے ہو کر پیا، اور کہنے لگے کہ کچھ لوگ اسے ناپسند کرتے ہیں حالانکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسا کرتے دیکھا ہے، اور یہ ان لوگوں کا وضو ہے جن کا وضو نہیں ٹوٹا ہے۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 130]
130۔ اردو حاشیہ:
➊ جس شخص کا وضو قائم ہے، اسے نیا وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ مسئلہ متفق علیہ ہے مگر ثواب یا صفائی کی خاطر کوئی وضو پر وضو کرنا چاہے تو کر سکتا ہے کیونکہ وضو بذاتہ گناہوں کے کفارے کا سبب بنتا ہے اور اس سے انسان کی بخشش ہوتی ہے اور یہی درست رائے ہے۔ اس بارے میں بہت زیادہ احادیث مروی ہیں۔
➋ جس شخص کا پہلا وضو قائم ہے، اسے مکمل وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہلکا سا وضو بھی کر لے تو کوئی حرج نہیں۔ دھونے اور پانی بہانے کی بجائے گیلا ہاتھ لگانا بھی کافی ہے اور ہر جگہ ہاتھ پہنچانا بھی ضروری نہیں۔
➌ اس حدیث سے کھڑے ہو کر پانی پینے کا جواز ثابت ہوتا ہے، اگرچہ افضل یہی ہے کہ بیٹھ کر پیا جائے۔ مزید تفصیل کے لیے حدیث: 96 کے فوائد دیکھیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 130
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 136
´وضو کے بچے ہوئے پانی کو کام میں لانے کا بیان۔`
ابوحیہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا (تو اپنے اعضاء) تین تین بار (دھوئے) پھر وہ کھڑے ہوئے، اور وضو کا بچا ہوا پانی پیا، اور کہنے لگے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بھی) اسی طرح کیا ہے جیسے میں نے کیا۔ [سنن نسائي/صفة الوضوء/حدیث: 136]
136۔ اردو حاشیہ:
➊ باب کا مقصد یہ ہے کہ جس پانی کو وضو کرتے ہوئے ہاتھ لگا ہو، وہ پلید نہیں ہوتا، اسے استعمال کیا جا سکتا ہے حتیٰ کہ پیا بھی جا سکتا ہے جیسا کہ حدیث کے الفاظ سے واضح ہے۔
➋ وضو کے بعد پانی پینا کوئی سنت نہیں کیونکہ عمومی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کی روایات میں اس کا ذکر نہیں، نہ یہ وضو کا حصہ ہے، البتہ اگر کسی کو پانی پینے کی ضرورت ہو تو وہ پی سکتا ہے، نیز اگر کوئی اتباع کے جذبے سے کبھی کبھار ایسے کر لیتا ہے تو یقیناًً یہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کمال درجے کی محبت کا اظہار ہے اور اس کی نیت اور عمل کی بنا پر اس کے لیے ثواب کی امید بھی ہے۔ إن شاء اللہ۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 136
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث456
´وضو میں دونوں پاؤں کے دھونے کا بیان۔`
ابوحیہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا، اور اپنے دونوں پیروں کو ٹخنوں سمیت دھویا، پھر کہنے لگے: میرا مقصد یہ تھا کہ تمہیں تمہارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو دکھلا دوں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 456]
اردو حاشہ:
وضو میں پاؤں کا دھونا بہت سے صحابہ سے مروی ہیں بلکہ جس جس صحابی نے بھی رسول اللہ ﷺ سے وضو کا طریقہ روایت کیا ہے ان سب نے پاؤں دھونے کا ذکر کیا ہے۔
چونکہ شیعہ حضرات اس کا انکار کرتے ہیں اس لیے مصنف ؒ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا پاؤں دھونا ثابت کیا ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 456
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 44
´اعضائے وضو تین تین بار دھونے کا بیان۔`
علی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اعضائے وضو تین تین بار دھوئے۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 44]
اردو حاشہ:
1؎:
اگر کسی کو شک ہو جائے کہ تین بار دھویا ہے یا دو ہی بار،
تب بھی اسی پر اکتفا کرے کیونکہ اگر تین بار نہیں دھویا ہوگا تو دو بار تو دھویا ہی ہے،
جوکافی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 44
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 48
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو کیسا تھا؟`
ابوحیہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی الله عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو کیا تو اپنے دونوں پہنچے دھوئے یہاں تک کہ انہیں خوب صاف کیا، پھر تین بار کلی کی، تین بار ناک میں پانی چڑھایا، تین بار اپنا چہرہ دھویا اور ایک بار اپنے سر کا مسح کیا، پھر اپنے دونوں پاؤں ٹخنوں تک دھوئے، پھر کھڑے ہوئے اور وضو سے بچے ہوئے پانی کو کھڑے کھڑے پی لیا ۱؎، پھر کہا: میں نے تمہیں دکھانا چاہا کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا وضو کیسے ہوتا تھا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 48]
اردو حاشہ:
1؎:
صحیح بخاری کی روایت میں یہ بھی ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے کہا:
لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو جائز نہیں سمجھتے،
حالانکہ نبی اکرم ﷺ نے ایسا ہی کیا جیسا کہ میں نے کیا ہے،
اس سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں: 1- کھڑے ہو کر کبھی کبھی پانی پینا جائز ہے، 2- وضو سے بچے ہوئے پانی میں برکت ہوتی ہے اس لیے آپ نے اسے پیا اور کھڑے ہو کر پیا تاکہ لوگ یہ عمل دیکھ لیں،
نہ یہ کہ وضو سے بچا ہوا پانی کھڑے ہو کر ہی پینا چاہئے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 48
الشيخ محمد فاروق رفیع حفظہ اللہ، فوائد و مسائل، صحیح ابن خزیمہ ح : 16
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اُنہوں نے ظہر کی نماز ادا کی پھر لوگوں کی ضروریات و مسائل کے (حل) کے لیے صحن میں بیٹھ گئے۔ پھر جب عصر کا وقت ہوا تو اُنہوں نے پانی کا برتن منگوایا اور اُس سے اپنے دونوں ہاتھوں، چہرے، سر اور دونوں پاؤں کا مسح کیا (یعنی خوب دھونے کی بجائے ہلکا پھلکا وضو کیا) پھر کھڑے ہو کر باقی ماندہ پانی پی لیا... [صحيح ابن خزيمه ح: 16]
فوائد:
➊ باوضو شخص ایک وضو سے کئی نمازیں پڑھ سکتا ہے، پھر باوضو شخص کے لیے دو صورتیں جائز ہیں:
1. وہ تجدید وضو اور مسح اعضائے وضو کے بغیر نماز پڑھ سکتا ہے۔
2. وہ تجدید وضو نہ کرے، بلکہ تمام اعضائے وضو کا مسح کر لے یہ صورت بھی جائز و مباح ہے اور حدیث کے یہ الفاظ کہ یہ باوضو شخص کا طریقہ وضو ہے اس کی مشروعیت پر دلالت کرتے ہیں۔
➋ بیٹھ کر پانی پینا افضل مستحب ہے، کبھی کبھار کسی کا کھڑے ہو کر پانی پی لینا جائز ہے۔
صحیح ابن خزیمہ شرح از محمد فاروق رفیع، حدیث/صفحہ نمبر: 16
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، ابوداود111
... پھر اپنا ہاتھ برتن میں ڈالا اور (پانی نکال کر) اپنے سر کا ایک بار مسح کیا ... [ابوداود 111]
8: پھر (پورے) سر کا مسح کریں۔ [البخاري: 159 ومسلم: 226]
اپنے دونوں ہاتھوں سے مسح کریں۔ سر کے شروع سے ابتدا کر کے گردن کے پچھلے حصے تک لے جائیں اور وہاں سے واپس شروع والے حصے تک لے آئیں۔ [البخاري: 185 ومسلم: 235]
سر کا مسح ایک بار کریں۔ [سنن ابي داود: 111 وسنده صحيح]
تنبیہ: بعض روایات میں تین دفعہ سر کے مسح کا بھی ذکر آیا ہے۔ دیکھئے: [سنن ابي داود: 107 وسنده حسن، 110 وسنده حسن]
لہٰذا دونوں طرح عمل جائز ہے۔
……………… اصل مضمون ………………
اصل مضمون کے لئے دیکھئے تحقیقی و علمی مقالات للشیخ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ (جلد 2 صفحہ 200 تا 204)
تحقیقی و علمی مقالات للشیخ زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 200