Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ
کتاب: وضو کے بیان میں
53. بَابُ الْوُضُوءِ مِنَ النَّوْمِ وَمَنْ لَمْ يَرَ مِنَ النَّعْسَةِ وَالنَّعْسَتَيْنِ أَوِ الْخَفْقَةِ وُضُوءًا:
باب: سونے کے بعد وضو کرنے کے بیان میں اور بعض علماء کے نزدیک ایک یا دو مرتبہ کی اونگھ سے یا (نیند کا) ایک جھونکا آ جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
حدیث نمبر: 213
حَدَّثَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ فِي الصَّلَاةِ فَلْيَنَمْ حَتَّى يَعْلَمَ مَا يَقْرَأُ".
ہم سے ابومعمر نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالوارث نے، کہا ہم سے ایوب نے ابوقلابہ کے واسطے سے نقل کیا، وہ انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم نماز میں اونگھنے لگو تو سو جانا چاہیے۔ پھر اس وقت نماز پڑھے جب جان لے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 213 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 213  
تشریح:
فرض نماز کے لیے بہرحال جاگنا ہی چاہئیے جیسا کہ بعض مواقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جگایا جاتا تھا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 213   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:213  
حدیث حاشیہ:

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اونگھ سے وضو نہیں ٹوٹتا کیونکہ ایسی حالت میں ادا شدہ نماز کو دہرانے کا حکم نہیں دیا گیا۔
اگر وضو ٹوٹ جاتا تو اس دوران میں ادا کی گئی نماز کو لوٹا نے کا ضرور حکم دیا جاتا۔
اس حدیث سے مندرجہ ذیل احکام معلوم ہوتے ہیں:
غلبہ نیند کے وقت نماز ختم کردینی چاہیے۔
اگر کوئی ایسی حالت میں نماز جاری رکھے گا تو اس کی نماز صحیح نہ ہوگی۔
اس سے ادنیٰ درجہ خشوع کا پتہ چلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اسے معلوم ہو کہ وہ خود یا اس کا امام کیا پڑھ رہا ہے۔
دوسرے مراتب خشوع مستحب کے درجے میں ہیں، غلبہ نوم سے کم درجہ اونگھ کا ہے جو نوم قلیل ہے اور اس سے وضو نہیں ٹوٹتا۔
عبادات میں خشوع اور حضور قلب کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے کہ اس کے بغیر نماز ادا کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔
(عمدة القاري: 587/2)

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے امام مہلب کے حوالے سے لکھا ہے کہ نماز چھوڑ کر سونے کا حکم قیام اللیل سے متعلق ہے کیونکہ کوئی بھی (فرض نماز)
اوقات نیند میں نہیں اور نہ ان میں اتنی طوالت ہی ہے کہ انسان کو نیند آنے لگے۔
اگرچہ اس حدیث کا ایک پس منظر ہے جو ہم پہلے بیان کر آئے ہیں تاہم مسائل واحکام میں الفاظ کے عموم کا اعتبار کیا جاتا ہے، اگر فرض نماز میں ایسی کیفیت پیدا ہو جائے تو اسے ترک کرکے سو جانا چاہیے، بشرطیکہ اتنا وقت باقی ہو کہ سو کر اٹھنے کے بعد نماز بروقت ادا کی جا سکتی ہو۔
(فتح الباري: 411/1)
اس وضاحت کے بعد اصلاحی صاحب نے اس حدیث پر جو تدبر فرمایا ہے وہ بھی ملاحظہ کریں اور اندازہ لگائیں کہ یہ حضرات کس کس انداز سے حدیث کا مذاق اڑاتے ہیں:
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ ہدایت تہجد کے وقت کے لیے کی ہوگی۔
آپ نے فرمایا کہ نیند کے غلبے میں بجائے نماز پڑھنے کے سو رہے، ایسا کون غبی ہو گا جس کو دوسرے اوقات میں ایسی نیند آئے کہ اپنے آپ کو گالیاں دینے لگے۔
ان روایات کو باب سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
(تدبر: 305/1۔
306)

اس تدبر پر ہم اپنی طرف سے کوئی تبصرہ کرنے کی بجائے اپنے قارئین کی صوابدید پر چھوڑ تے ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 213   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 444  
´نیند کی وجہ سے وضو کا حکم۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی نماز میں اونگھے تو وہ لوٹ جائے، اور (جا کر) سو جائے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 444]
444 ۔ اردو حاشیہ: اس مسئلے میں تھوڑی سی تفصیل ہے، وہ یہ کہ اگر نیند کا غلبہ ہے اور نماز پڑھنے والے کو کسی چیز کا شعور نہیں کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیا نہیں پڑھ رہا تو ایسی صورت میں نماز بالکل چھوڑ دے۔ جب نیند کا غلبہ ختم ہو اور اس کا شعور بحال ہو تو اس وقت وضو کرے اور نماز پڑھے کیونکہ ایسی نیند جو شعور کو ختم کر دے، وہ ناقض وضو ہوتی ہے، یعنی اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں منقول حدیث سے اسی مفہوم کی طرف اشارہ ملتا ہے۔ دیکھیے: [صحیح البخاری، الوضوء، حدیث: 212، 213]
لیکن اگر نیند کا غلبہ نہیں بلکہ شعور بحال ہے، بس ویسے ہی ہلکی پھلکی اونگھ کی کیفیت طاری ہے تو اس صورت میں نماز کو مختصر کر کے مکمل کر لے، نماز کو چھوڑے نہیں کیونکہ نمازی کے حواس بحال ہیں اور شعور بھی۔ ایسی صورت میں نماز میں اختصار کر لے۔ ان شاء اللہ نماز درست ہو گی۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق کی یہی صورت راجح معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 444