Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
صفة الوضوء
ابواب: وضو کا طریقہ
73. بَابُ : الأَمْرِ بِالاِسْتِنْثَارِ عِنْدَ الاِسْتِيقَاظِ مِنَ النَّوْمِ
باب: نیند سے اٹھنے پر ناک جھاڑنے کا حکم۔
حدیث نمبر: 90
أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زُنْبُورٍ الْمَكِّيُّ، قال: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ إِبْرَاهِيمَ حَدَّثَهُ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا اسْتَيْقَظَ أَحَدُكُمْ مِنْ مَنَامِهِ فَتَوَضَّأَ، فَلْيَسْتَنْثِرْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَبِيتُ عَلَى خَيْشُومِهِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی نیند سے جاگ کر وضو کرے تو (پانی لے کر) تین مرتبہ ناک جھاڑے، کیونکہ شیطان اس کے پانسے میں رات گزارتا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 11 (3295)، صحیح مسلم/الطہارة 8 (238)، (تحفة الأشراف: 14284)، مسند احمد 2/352 (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: اسے حقیقت پر محمول کرنا ہی راجح اور اولیٰ ہے، اس لیے کہ یہ جسم کے منافذ میں سے ایک ہے جس سے شیطان دل تک پہنچتا ہے، استنثار سے مقصود اس کے اثرات کا ازالہ ہے، کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ یہاں مجازی معنی مقصود ہے، وہ یہ کہ غبار اور رطوبت (جو ناک میں جمع ہو کر گندگی کا سبب بنتے ہیں) کو شیطان سے تعبیر کیا گیا ہے، کیونکہ پانسے گندگی جمع ہونے کی جگہ ہیں جو شیطان کے رات گزارنے کے لیے زیادہ مناسب ہیں، لہٰذا انسان کے لیے یہ مناسب ہے کہ اسے صاف کر لے تاکہ اس کے اثرات زائل ہو جائیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 90 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 90  
90۔ اردو حاشیہ:
➊ یہ روایت صحیح بخاری میں بھی اسی طرح ہے۔ علاوہ ازیں صحیح ابن خزیمہ، سنن بیہقی وغیرہ میں بھی یہ روایت «فتوضا» کے ساتھ ہے لیکن صحیح مسلم میں «فتوضا» کے بغیر ہے۔ جس سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ تین مرتبہ ناک جھاڑنے کا حکم نیند سے بیدار ہونے والے ہر ایک کے لیے ہے۔ اور اسی کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی ترجیح دی ہے۔ دیکھیے: [فتح الباري: 413/6، تحت حدیث: 3295]
صحیح بخاری اور سنن نسائی وغیرہ کے الفاظ سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو نیند سے اٹھ کر وضو کرے، تو وہ یہ عمل کرے۔ گویا یہ حکم تاکید کے طور پر ان کے لیے ہے جو رات کو اٹھ کر وضو کریں، ورنہ تین مرتبہ ناک میں پانی چڑھانے اور تین مرتبہ ناک جھاڑنے کا حکم ہر وضو کرنے والے کے لیے ہے۔ بعض ائمہ کے خیال میں دونوں احادیث کے پیش نظر…… یہ حکم دونوں کے لیے ہے، سو کر اٹھنے والے کے لیے بھی اور وضو کرنے والے کے لیے بھی۔ ایک تیسری رائے یہ بھی ہے کہ «فتوضا» کے بغیر یہ روایت صرف ایک ہی راوی کی ہے جب کہ دوسرے بیشتر راوی یہ «فتوضا» کے ساتھ بیان کرتے ہیں، اس لیے یہ روایت اس اضافے کے ساتھ ہی راجح معلوم ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس حدیث کا یہ حکم صرف ان لوگوں کے لیے ہو گا جو اٹھ کر نماز پڑھنا چاہیں اور اس کے لیے وہ وضو کریں۔ ہر بیدار ہونے والے کے لیے یہ حکم نہیں ہو گا کہ وہ اٹھ کر تین مرتبہ ناک جھاڑے۔
➋ شیطان کے رات گزارنے سے مراد یہی ہے کہ شیطان ساری رات ناک کی جڑ میں بسر کرتا ہے۔ محدثین نے بھی ان الفاظ کو حقیقت ظاہری پر محمول کیا ہے کیونکہ یہ اس کے لیے جسم میں داخل ہونے کا واحد راستہ ہے جس سے وہ دل تک پہنچتا ہے۔ اور ناک جھاڑنے سے مقصود اس کے اثرات ختم کرنا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 90   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 34  
´نیند سے بیدار ہونے پر تین مرتبہ اپنا ناک جھاڑنا`
«. . . قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إذا استيقظ احدكم من منامه فليستنثر ثلاثا،‏‏‏‏ فإن الشيطان يبيت على خيشومه . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے جب کوئی نیند سے بیدار ہو تو تین مرتبہ اپنا ناک جھاڑ کر صاف کرے اس لئے کہ شیطان ناک کے نتھنوں کی ہڈی پر رات بسر کرتا ہے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 34]
لغوی تشریح:
«يَبِيتُ» رات گزارتا ہے۔
«خَيْشُومِهِ» خا کے فتحہ کے ساتھ ہے اس کے معنی ہیں ناک کا بالائی حصہ یعنی ناک کا بانسا بعض کے نزدیک پوری ناک مرادہے۔

فوائد ومسائل:
➊ شیطان کا رات گزارنا حقیقت پر بھی محمول ہو سکتا ہے (اور یہی حدیث کے ظاہری معنی کے زیادہ قریب ہے) اور یہ بھی احتمال ہے کہ مجازاً ہو اور اس سے مراد ناک کا وہ فضلہ اور گندگی ہو جو ناک میں جمع ہو کر جم جاتی ہے اور پھر اس کی وجہ سے طبیعت سست اور بوجھل ہو جاتی ہے جو کہ شیطان کی طبیعت اور خوشی کے موافق اور مطابق ہے، اس لیے اس گندگی کو شیطان سے تعبیر کیا گیا ہے۔
➋ اس حدیث میں ناک جھاڑنے کا حکم مطلق ہے لیکن اسے یا تو وضو کے ساتھ مقید کیا جائے گا جیسا کہ بعض روایات اس کی تائید بھی کرتی ہیں، تو پھر یہ ناک جھاڑنا افعال وضو میں سے شمار ہو گا، یا پھر اسے مطلق ہی شمار کیا جائے گا اور یہ وضو سے پہلے کیا جائے گا اور اسے وضو سے پہلے بطور تیاری کیے جانے والے کاموں سے شمار کیا جائے گا، جیسے استنجاء وغیرہ۔ بہرحال جو بھی مراد ہو، مقید یا مطلق، دونوں صورتوں میں یہ حدیث اس باب میں پیش کرنا درست ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 34   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 3295  
´دوران وضو ناک جھاڑنے کا بیان `
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا اسْتَيْقَظَ أُرَاهُ أَحَدُكُمْ مِنْ مَنَامِهِ، فَتَوَضَّأَ فَلْيَسْتَنْثِرْ ثَلَاثًا، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَبِيتُ عَلَى خَيْشُومِهِ . . .»
. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص سو کر اٹھے اور پھر وضو کرے تو تین مرتبہ ناک جھاڑے، کیونکہ شیطان رات بھر اس کی ناک کے نتھنے پر بیٹھا رہتا ہے (جس سے آدمی پر سستی غالب آ جاتی ہے۔ پس ناک جھاڑنے سے وہ سستی دور ہو جائے گی) . . . [صحيح البخاري/كِتَاب بَدْءِ الْخَلْقِ/بَابُ صِفَةِ إِبْلِيسَ وَجُنُودِهِ: 3295]
تخريج الحديث:
[138۔ البخاري فى: 59 كتاب بدء الخلق: 11 باب صفة إبليس وجنوده 3295، مسلم 238، نسائي 90]
لغوی توضیح:
«مَنَام» نیند۔
«خَيْشُوْم» ناک کا نتھنہ۔
فھم الحدیث:
ان احادیث میں دوران وضو ناک جھاڑنے کا حکم ہے جو اس کے وجوب کا ثبوت ہے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 138   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 564  
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہو تو تین دفعہ ناک جھاڑے، کیونکہ شیطان اس کے بانسے پر رات گزارتا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:564]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
:
خَيَاشِيمِ:
خيشوم کی جمع ہے،
ناک کے اعلیٰ حصہ کو کہتے ہیں،
اور بقول بعض پورے ناک کو۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 564   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3295  
3295. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوتو وضو کرے اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرے کیونکہ شیطان اس کی ناک کے بانسے میں رات گزارتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3295]
حدیث حاشیہ:
ان جملہ احادیث سے حضرت امام بخاری ؒ نے شیاطین کا وجود ثابت فرمایا ہے اور وہ جن جن صورتوں سے بنی آدم کو گمراہ کرتے ہیں، ان میں سے اکثر صورتیں ان احادیث میں مذکورہوگئی ہیں۔
شیطان کے وجود کا انکار کرنے والے قرآن و حدیث کی روشنی میں مسلمان کہلانے کے حق دار نہیں ہیں۔
باب اور احادیث میں مطابقت ظاہر ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3295   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3295  
3295. حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنی نیند سے بیدار ہوتو وضو کرے اور تین مرتبہ ناک میں پانی ڈال کر اسے صاف کرے کیونکہ شیطان اس کی ناک کے بانسے میں رات گزارتا ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3295]
حدیث حاشیہ:

شیطان کا رات گزارنا حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ دل اور دماغ تک جانے کا یہی ایک راستہ ہے۔
بیداری کے وقت اگر ہدایت نبوی کے مطابق عمل کیاجائے تو اس کی شب باشی کے اثرات زائل ہوسکتے ہیں، نیز ہرسونے والے کی ناک پر رات بسر نہیں کرتا، البتہ جو شخص اللہ کاذکر کیے بغیر سوجائے تو اس کی ناک پر شیطان رات گزارتا ہے۔

ان جملہ احادیث سے امام بخاری ؒنے شیطان کا وجود ثابت کیا ہے اور جن جن صورتوں سے وہ بنی آدم کو گمراہ کرتا ہے ان میں سے اکثر کا بیان ان احادیث میں ہوا ہے۔
شیطان کے وجود کا انکار کرنے والے دراصل خود شیطان ہیں۔
اللہ تعالیٰ ان کے شر سے ہمیں محفوظ رکھے۔
آمین۔
ابلیس کے متعلق چند حقائق:
امام بخاری ؒنے ابلیس، اس کے کارندوں، اس کی کارستانیوں اور اس کے علاج سے متعلق اٹھائیس احادیث ذکر کی ہیں۔
اب اس کے متعلق کچھ ناقابل تردید حقائق پیش کیے جاتے ہیں تاکہ ہم اس سے چوکس رہیں:
۔
اللہ تعالیٰ نے اسے کھلا دشمن قراردیاہے اور اسے دشمن خیال کرنے کی تلقین کی ہے کیونکہ جب ہم اسے دشمن نہیں سمجھیں گے تو اس سے بچاؤ کی کوئی تدبیر بھی نہیں کرسکیں گے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّا ۚإِنَّمَا يَدْعُو حِزْبَهُ لِيَكُونُوا مِنْ أَصْحَابِ السَّعِيرِ﴾ (لوگو!)
شیطان یقیناً تمہارا دشمن ہے، لہذا اسے دشمن ہی سمجھو۔
وہ تو اپنے پیروکاروں کو صرف اس لیے بلاتا ہے کہ وہ دوزخی بن جائیں۔
(فاطر: 35/6)
۔
۔
یہ دھوکے بازسامنے آکر دلائل سے قائل نہیں کرتابلکہ سبز باغ دکھاکر وسوسہ ڈالتا ہے۔
موت تک یہ پیچھا نہیں چھوڑتا، کسی نہ کسی انداز سے گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی یہ رحمت ہے کہ اس نے ہمیں اس کے طریقہ واردات سے آگاہ کردیا ہے۔
جب کسی پیش آمدہ خطرے کا علم ہوتو اسکا سدباب آسان ہوتاہے۔
یہ شیطان کسی کا ہاتھ پکڑ کر راہ ہدایت سے دور نہیں کرتا بلکہ راہ ہدایت پر بیٹھ کر وسوسہ اندازی کرتا ہے۔
بس اسے یہی اختیار دیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اس کی چال کے متعلق ہمیں ان الفاظ میں آگاہ کیا ہے:
﴿مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (4)
الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ﴾
اس وسوسہ ڈالنے والے کی شر سے (پناہ چاہتا ہوں)
جو وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹ جانا ہے جو لوگوں کے دلوں میں وسوسہ ڈالتا رہتا ہے۔
(الناس 114/4۔
5)

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اس کے تعارف کے لیے دولفظ استعمال کیے ہیں:
(الْوَسْوَاسِ)
غیر محسوس طریقے سے دل میں بار بار بری بات ڈالنے والا۔
(الْخَنَّاسِ)
ظاہر ہوکر پھر چھپ جانے والا اوردل میں بری بات ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والا۔
۔
وہ اپنے مقاصد میں کسی حد تک کامیاب بھی ہوا ہے کیونکہ اس عالم رنگ وبو میں اللہ کے شکر گزار بندے بہت کم ہیں جبکہ اس سے دور رہنے والوں سے زمین بھری پڑی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿قَالَ فَبِمَا أَغْوَيْتَنِي لَأَقْعُدَنَّ لَهُمْ صِرَاطَكَ الْمُسْتَقِيمَ ثُمَّ لَآَتِيَنَّهُمْ مِنْ بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ وَعَنْ أَيْمَانِهِمْ وَعَنْ شَمَائِلِهِمْ وَلَا تَجِدُ أَكْثَرَهُمْ شَاكِرِينَ﴾ ابلیس نے کہا:
چونکہ تو نے مجھے گمراہ کیا ہے،لہذا میں ان(لوگوں کو گمراہ کرنے)
کے لیے تیرے سیدھے راستے پر ضرور بیٹھوں گا۔
پھر میں ان کے سامنے سے، پیچھے سے،دائیں سے اور بائیں سے انھیں گمراہ کروں گا اورآپ ان میں سے اکثر کو شکرگزار نہ پائیں گے۔
(الأعراف 16/7، 17)
چنانچہ اس نے اپنا دعویٰ سچا کر دکھایا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَلَقَدْ صَدَّقَ عَلَيْهِمْ إِبْلِيسُ ظَنَّهُ فَاتَّبَعُوهُ إِلَّا فَرِيقًا مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ﴾ ان لوگوں کے متعلق ابلیس نے اپنا گمان سچا کر دکھایا،چنانچہ اہل ایمان کے ایک گروہ کے سواسب نے اس کا کہا مان لیا۔
(سبا: 20/34)
۔
قیامت کے دن کھلے طور پر اعلان براءت کردے گا اور صحت جرم سے صاف انکار کردے گا۔
ارشادباری تعالیٰ ہے:
﴿وَقَالَ الشَّيْطَانُ لَمَّا قُضِيَ الْأَمْرُ إِنَّ اللَّـهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَوَعَدتُّكُمْ فَأَخْلَفْتُكُمْ ۖ وَمَا كَانَ لِيَ عَلَيْكُم مِّن سُلْطَانٍ إِلَّا أَن دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِي ۖ فَلَا تَلُومُونِي وَلُومُوا أَنفُسَكُم ۖ مَّا أَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَمَا أَنتُم بِمُصْرِخِيَّ ۖإِنِّي كَفَرْتُ بِمَا أَشْرَكْتُمُونِ مِن قَبْلُ ۗ إِنَّ الظَّالِمِينَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴾ جب اور کام کا فیصلہ کردیا جائے گا تو شیطان کہے گا کہ اللہ نے تو تمہیں سچا وعده دیا تھا اور میں نے تم سے جو وعدے کیے تھے ان کے خلاف کیا، میرا تم پر کوئی دباؤ تو تھا ہی نہیں، ہاں میں نے تمہیں پکارا اور تم نے میری مان لی، پس تم مجھے الزام نہ لگاؤ بلکہ خود اپنے آپ کو ملامت کرو، نہ میں تمہارا فریاد رس اور نہ تم میری فریاد کو پہنچنے والے، میں تو سرے سے مانتا ہی نہیں کہ تم مجھے اس سے پہلے اللہ کا شریک مانتے رہے، یقیناً ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے۔
(إبراهیم: 22/14)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3295