Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن نسائي
ذكر الفطرة
ابواب: فطری (پیدائشی) سنتوں کا تذکرہ
22. بَابُ : الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ فِي الْبُيُوتِ
باب: قضائے حاجت کے وقت گھروں میں قبلہ کی جانب منہ یا پیٹھ کرنے کی رخصت۔
حدیث نمبر: 23
أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ: لَقَدِ ارْتَقَيْتُ عَلَى ظَهْرِ بَيْتِنَا، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى لَبِنَتَيْنِ" مُسْتَقْبِلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لِحَاجَتِهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کچی اینٹوں پر قضائے حاجت کے لیے بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے بیٹھے دیکھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 12 (145)، 14 (148، 149)، الخمس 4 (3102)، صحیح مسلم/الطہارة 17 (266)، سنن ابی داود/فیہ 5 (12)، سنن الترمذی/فیہ 7 (11)، سنن ابن ماجہ/فیہ 18 (322)، (تحفة الأشراف: 8552)، موطا امام مالک/القبلة 2 (3)، مسند احمد 2/12، 13، 41، سنن الدارمی/طہارة 8 (694) (صحیح)»

وضاحت: ۱؎: مدینہ منورہ میں بیت المقدس کی طرف رخ کرنے والے کی پیٹھ مکہ مکرمہ کی طرف ہو گی، چونکہ بیت الخلاء گھر میں تھا اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا کیا، کھلے میدان میں یہ جائز نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

سنن نسائی کی حدیث نمبر 23 کے فوائد و مسائل
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 23  
23۔ اردو حاشیہ:
گھر سے مراد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ہمشیرہ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا حجرۂ مبارکہ ہے۔
➋ بیت المقدس مدینہ منورہ سے شمال کی جانب ہے، یعنی مکہ مکرمہ سے بالکل الٹ جانب، لہٰذا آپ کی پیٹھ قبلے کی جانب تھی۔
➌ اس روایت سے امام شافعی رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین نے استدلال کیا ہے کہ عمارت کے اندر قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا جائز ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نہ بیٹھتے اور یہ بہترین تطبیق ہے جس سے تمام روایات قابل عمل ٹھہرتی ہیں، بجائے اس کے کہ کسی روایت کو منسوخ کہا جائے یا آپ کا خاصہ قرار دیا جائے، نیز خود حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی مطلب منقول ہے۔ دیکھیے: [سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 11]
البتہ احتیاط، یعنی چاردیواری کے اندر بھی بچنا بہتر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 23   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 148  
´گھروں میں قضائے حاجت کرنا ثابت ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ،:" ارْتَقَيْتُ فَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِ حَفْصَةَ لِبَعْضِ حَاجَتِي، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي حَاجَتَهُ مُسْتَدْبِرَ الْقِبْلَةِ مُسْتَقْبِلَ الشَّأْمِ".»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن میں اپنی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ) حفصہ رضی اللہ عنہا کے مکان کی چھت پر اپنی کسی ضرورت سے چڑھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کرتے وقت قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 148]
فقہ الحدیث
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں:
اس حدیث کا مطلب ہے کہ آپ نے قبلہ کی طرف پشت کر کے قضائے حاجت کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان سے یہ امر نہایت مستبعد ہے کہ آپ قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف پشت کریں، خصوصا ایسی حالت میں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو قبلہ کی طرف پشت یا منہ کر کے قضائے حاجت کرنے سے منع کیا ہو، جیسا کہ اسی بخاری میں حدیث ہے یعنی جب تم قضائے حاجت کو آؤ، پس قبلہ کی طرف مت منہ کرو اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرو۔
{أقول:} اس کی وجہ خود اسی حدیث سے نہایت ظاہر طور پر ثابت ہے، جس کا معترض نے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۲ پر اقرار بھی کیا ہے کہ حدیث اول مکان کے واسطے ہے، کیونکہ مکان میں دیوار ہوتی ہے، جس سے پردہ اور آڑ ہو جاتا ہے، اور حدیث دوم میدان کے لیے ہے، کیونکہ وہاں کسی چیز کی آڑ نہیں ہوتی، آپ خواہ مخواہ اس کو غلط قرار دیتے ہیں، بحالیکہ امام بخاری رحمہ اللہ خود باب میں یہ استدلال کرتے ہیں: «إلا عند البناء جدار أو نحوه» یعنی جس حدیث میں ممانعت آئی ہے، اس سے مکان اور آڑ والی چیزیں مثلاً دیوار وغیرہ مستثنٰی ہیں، کیونکہ دوسری حدیث میں کوئی شئے «جدار» وغیرہ کی مخصص نہیں ہے، پس وہ میدان کے لیے ہو گی۔ ہاں آپ کا یہ قول عجیب ہے کہ میدان اور کعبہ کے بیچ میں بھی ہزاروں مکانات و پہاڑ وغیرہ حائل ہیں۔‏‏‏‏ یہ حائل ہونا کوئی مفید امر نہیں ہے، اس لیے کہ وہ ہزاروں مکانات اور پہاڑ اس شخص کے لئے آڑ نہیں ہو سکتے، بخلاف متصل دیوار کے کہ وہ آڑ اور سترہ ہے، لہٰذا مکان کے اندر جائز ہے اور یہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ و عروہ و ربیعہ و داود وغیرہ کا مذہب ہے اور مطلب بھی دونوں حدیثوں کا صاف اور اپنے محل میں بحال ہے۔
نیز اس حدیث پر مندرجہ ذیل ائمہ محدثین کی تبویبات سے بھی یہی قول راجح معلوم ہوتا ہے۔
➊ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «باب لا تستقبل القبلة بغائط أو بول إلا عند البناء جدار أو نحوه .»
➋ امام ابوداود، امام ترمذی اور امام نسائی رحمہ اللہ علیہم نے بھی گھروں میں رخصت کے ابواب قائم کیے ہیں۔
➌ امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «باب ذكر الخبر المفسر للخبرين اللذين ذكرتهما فى البابين المتقدمين والدليل على ذلك أن النبى صلى الله عليه وسلم إنما نهى عن استقبال القبلة واستدبارها عند الغائط والبول فى الصحارى والمواضع التى لا سترة فيها، وأن الرخصة فى ذلك فى الكنف والمواضع التى فيها بين المتغوط والبائل وبين القبلة حائط أو سترة.»
➍ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ذكر الخبر الدال على أن الزجر عن استقبال القبلة واستدبارها بالغائط والبول إنما زجر عن ذلك فى الصحارى دون الكنف والمواضع المستورة.»
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 125   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 145  
´کوئی شخص دو اینٹوں پر بیٹھ کر قضائے حاجت کرے (تو کیا حکم ہے؟)`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: إِنَّ نَاسًا، يَقُولُونَ: إِذَا قَعَدْتَ عَلَى حَاجَتِكَ فَلَا تَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ وَلَا بَيْتَ الْمَقْدِسِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: لَقَدِ ارْتَقَيْتُ يَوْمًا عَلَى ظَهْرِ بَيْتٍ لَنَا، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى لَبِنَتَيْنِ مُسْتَقْبِلًا بَيْتَ الْمَقْدِسِ لِحَاجَتِهِ، وَقَالَ: لَعَلَّكَ مِنَ الَّذِينَ يُصَلُّونَ عَلَى أَوْرَاكِهِمْ، فَقُلْتُ: لَا أَدْرِي وَاللَّهِ، قَالَ مَالِكٌ: يَعْنِي الَّذِي يُصَلِّي وَلَا يَرْتَفِعُ عَنِ الْأَرْضِ، يَسْجُدُ وَهُوَ لَاصِقٌ بِالْأَرْضِ . . .»
. . . وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے تھے کہ لوگ کہتے تھے کہ جب قضاء حاجت کے لیے بیٹھو تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو نہ بیت المقدس کی طرف (یہ سن کر) عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے دو اینٹوں پر قضاء حاجت کے لیے بیٹھے ہیں۔ پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے (واسع سے) کہا کہ شاید تم ان لوگوں میں سے ہو جو اپنے چوتڑوں کے بل نماز پڑھتے ہیں۔ تب میں نے کہا اللہ کی قسم! میں نہیں جانتا (کہ آپ کا مطلب کیا ہے) امام مالک رحمہ اللہ نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس سے وہ شخص مراد لیا جو نماز میں زمین سے اونچا نہ رہے، سجدہ میں زمین سے چمٹ جائے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَنْ تَبَرَّزَ عَلَى لَبِنَتَيْنِ:: 145]
تشریح:
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اپنی کسی ضرورت سے چھت پر چڑھے۔ اتفاقیہ ان کی نگاہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر پڑ گئی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس قول کا منشا کہ بعض لوگ اپنے چوتڑوں پر نماز پڑھتے ہیں۔ شاید یہ ہو کہ قبلہ کی طرف شرمگاہ کا رخ اس حال میں منع ہے کہ جب آدمی رفع حاجت وغیرہ کے لیے ننگا ہو۔ ورنہ لباس پہن کر پھر یہ تکلیف کرنا کسی قبلہ کی طرف سامنا یا پشت نہ ہو، یہ نرا تکلف ہے۔ جیسا کہ انہوں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ سجدہ اس طرح کرتے ہیں کہ اپنا پیٹ بالکل رانوں سے ملا لیتے ہیں اسی کو «يصلون علي» اور «اكهم» سے تعبیر کیا گیا مگر صحیح تفسیر وہی ہے جو مالک سے نقل ہوئی۔

صاحب انوار الباری کا عجیب اجہتاد:
احناف میں عورتوں کی نماز مردوں کی نماز سے کچھ مختلف قسم کی ہوتی ہے۔ صاحب انوارالباری نے لفظ مذکور «يصلون علي» اور «اكهم» سے عورتوں کی اس مروجہ نماز پر اجتہاد فرمایا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے: «يصلون علي» اور «اكهم» سے عورتوں والی نشست اور سجدہ کی حالت بتلائی گئی ہے کہ عورتیں نماز میں کولہے اور سرین پر بیٹھتی ہیں اور سجدہ بھی خوب سمٹ کر کرتی ہیں۔ کہ پیٹ رانوں کے اوپر کے حصوں سے مل جاتا ہے۔ تاکہ ستر زیادہ سے زیادہ چھپ سکے لیکن ایسا کرنا مردوں کے لیے خلاف سنت ہے۔ ان کو سجدہ اس طرح کرنا چاہئیے کہ پیٹ ران وغیرہ حصوں سے بالکل الگ رہے۔ اور سجدہ اچھی طرح کھل کر کیا جائے۔ غرض عورتوں کی نماز میں بیٹھنے اور سجدہ کرنے کی حالت مردوں سے بالکل مختلف ہوتی ہے۔ [انوارالباري، ج4،ص: 187]
صاحب انوارالباری کی اس وضاحت سے ظاہر ہے کہ مردوں کے لیے ایسا کرنا خلاف سنت ہے اور عورتوں کے لیے عین سنت کے مطابق ہے۔ شاید آپ کے اس بیان کے مطابق آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے ایسی ہی نماز ثابت ہو گی۔ کاش! آپ ان احادیث نبوی کو بھی نقل کر دیتے جن سے عورتوں اور مردوں کی نمازوں میں یہ تفریق ثابت ہوتی ہے یا ازواج مطہرات ہی کا عمل نقل فرما دیتے۔ ہم دعویٰ سے کہتے ہیں کہ عورتوں اور مردوں کی نمازوں میں یہ تفریق مجوزہ محض صاحب انوارالباری ہی کا اجتہاد ہے۔ ہمارے علم میں احادیث صحیحہ سے یہ تفریق ثابت نہیں ہے۔ مزید تفصیل اپنے مقام پر آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 145   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 148  
´گھروں میں قضائے حاجت کرنا`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ،: ارْتَقَيْتُ فَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِ حَفْصَةَ لِبَعْضِ حَاجَتِي، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي حَاجَتَهُ مُسْتَدْبِرَ الْقِبْلَةِ مُسْتَقْبِلَ الشَّأْمِ . . .»
. . . وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن میں اپنی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ) حفصہ رضی اللہ عنہا کے مکان کی چھت پر اپنی کسی ضرورت سے چڑھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کرتے وقت قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ:: 148]
تشریح:
آپ اس وقت فضا میں نہ تھے، بلکہ وہاں پاخانہ بنا ہوا تھا، اس میں آپ بیٹھے ہوئے تھے۔ [فتح الباري]
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 148   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 149  
´ گھروں میں پاخانہ بنانے کی اجازت ہے`
«. . . أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ، قَالَ: لَقَدْ ظَهَرْتُ ذَاتَ يَوْمٍ عَلَى ظَهْرِ بَيْتِنَا، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدًا عَلَى لَبِنَتَيْنِ مُسْتَقْبِلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ . . .»
. . . انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو اینٹوں پر (قضاء حاجت کے وقت) بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ:: 149]
تشریح:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کبھی اپنے گھر کی چھت اور کبھی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر کی چھت کا ذکر کیا ہے، اس کی حقیقت یہ ہے کہ گھر تو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ہی کا تھا۔ مگر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد ورثہ میں ان ہی کے پاس آ گیا تھا۔ اس باب کی احادیث کا منشاء یہ ہے کہ گھروں میں پاخانہ بنانے کی اجازت ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ مکانوں میں قضائے حاجت کے وقت کعبہ شریف کی طرف منہ یا پیٹھ کی جا سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 149   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3102  
3102. حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں حضرت حفصہ ؓ کے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ قبلے کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کیے ہوئے رفع حاجت کررہے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3102]
حدیث حاشیہ:
گھر کو حضرت حفصہ ؓ کی طرف منسوب کیا‘ اسی سے باب کا مطلب نکلا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3102   

  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 145  
´اس بارے میں کہ کوئی شخص دو اینٹوں پر بیٹھ کر قضائے حاجت کرے (تو کیا حکم ہے؟) `
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: إِنَّ نَاسًا، يَقُولُونَ: إِذَا قَعَدْتَ عَلَى حَاجَتِكَ فَلَا تَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے تھے کہ لوگ کہتے تھے کہ جب قضاء حاجت کے لیے بیٹھو تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو نہ بیت المقدس کی طرف . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَنْ تَبَرَّزَ عَلَى لَبِنَتَيْنِ: 145]
تخريج الحديث:
[150۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضو: 12 باب من تبرز على لبنتين 145، مسلم 266، ترمذي 11]
لغوی توضیح:
«ارْتَقَيْتُ» میں چڑھا۔
«لَبِنَتَيْن» کی واحد «لَبِنَة» ہے، معنی ہے اینٹ۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 150   

  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث322  
´صحراء و میدان کے علاوہ پاخانہ میں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے بیٹھو تو قبلہ رو ہو کر نہ بیٹھو، حالانکہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ دو کچی اینٹوں پر قضائے حاجت کے لیے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہیں۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: یہ یزید بن ہارون کی حدیث ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 322]
اردو حاشہ:
(1)
یہ گھر ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی رہائش گاہ تھا جو راوی حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی ہمشیرہ تھیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الوضوء، باب التبرز فی البیوت، حدیث: 148)
بہن کا گھر ہونے کی وجہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا گھر کہہ دیا۔

(2)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے رسول اللہ ﷺ کو دیکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے نبی ﷺ کو بے پردہ دیکھا۔
بات یہ ہے کہ بیت الخلاء کی دیوار چھوٹی ہونے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک نظر آیا جس سے معلوم ہوا کہ آپ کی پشت کعبہ شریف کی طرف اور چہرہ مبارک بیت المقدس کی طرف ہے۔
کچی اینٹوں کا آپ کو پہلے سے علم تھا کہ یہاں بیٹھنے کے لیے کچی اینٹیں رکھی ہوئی ہیں۔ دیکھیے: (فتح الباری: 325/1)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 322   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 11  
´قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب یا پاخانہ کرنے کی رخصت​۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک روز میں (اپنی بہن) حفصہ رضی الله عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پیٹھ کر کے قضائے حاجت فرما رہے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 11]
اردو حاشہ:
1؎:
احتمال یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا یہ فعل خاص آپ کے لیے کسی عذر کی بنا پر تھا اور اُمّت کے لیے خاص حکم کے ساتھ آپ ﷺ کا یہ فعل قطعاً معارض ہے،
اور پھر یہ کہ آپ اوٹ تھے۔
(تحفۃ الأحوذی: 22/1،
ونیل الأوطارللشوکانی)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 11   

  0  
´بیٹھ کر پیشاب کرنا`
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو اینٹوں پر (قضاء حاجت کے وقت) بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/ بَابُ التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ:/ ح: 149]
فوائد و مسائل
تبصرہ:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعدًا عليٰ لبنتين، مستقبل بيت المقدس» پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ دو اینٹوں پر (قضائے حاجت فرماتے ہوئے) بیت المقدس کی طرف رخ کئے ہوئے بیٹھے تھے۔
[صحيح بخاري ج ۱ص ۲۷ ح ۱۴۹، ارشاد القاري للقسطلاني ج ۱ص ۲۳۸]
تنبیہ (۱):
اگر کوئی یہ کہے کہقضائے حاجت میں صرف بڑا پیشاب ہی ہوتا ہے چھوٹا پیشاب نہیں ہوتا تو یہ قول بلا دلیل اور مردود ہے۔
تنبیہ (۲):
اہل حدیث کے نزدیک صحیح و حسن لذاتہ حدیث حجت اور معیارِ حق ہے، چاہے صحیح بخاری میں ہو یا صحیح مسلم میں یا حدیث کی کسی بھی معتبر و مستند کتاب میں۔ اہل حدیث کا قطعاً یہ دعویٰ نہیں ہے کہ صرف صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث ہی حجت ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کرتے تھے۔
[السنن الكبريٰ للبيهقي ۱/۱۰۲ و سنده حسن]
ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے اشارتاً منع فرمایا۔ ديكهئے:
[كشف الاستار ۱/۲۶۶ ح ۵۴۷ و سنده حسن]
معلوم ہوا کہ پیشاب بیٹھ کر ہی کرنا چاہئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنا منسوخ ہے یا حالتِ عذر میں جواز پر محمول ہے۔
   مذید تشریحات، حدیث/صفحہ نمبر: 0   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 612  
حضرت ابن عمر ؓسے روایت ہے: کہ میں اپنی بہن حفصہ کے گھر کی پشت پر چڑھا، تو میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا اپنی حاجت پوری کرنے کے لیے شام کی طرف رخ کر کے، قبلہ کو پشت کر کے بیٹھے ہوئے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:612]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنے کے بارے میں ائمہ کرام کے مختلف نظریات ہیں،
ہم صرف مشہور آراء ذکر کرتے ہیں:
(1)
قبلہ کی طرف رخ اورپشت کھلی جگہ یا صحرا میں ناجائز ہے،
بنیان عمارت یا بند جگہ میں جائز ہے،
امام مالک اور امام شافعی  کا نظریہ یہی ہے۔
امام اسحاق بن راہویہ اور ایک قول کے مطابق امام احمد  کا موقف بھی یہی ہے۔
(2)
استقبال واستدبار دونوں جگہ کھلی جگہ یا صحرا ہو یا بیت الخلاء او ربند جگہ ناجائز ہے،
ابراہیم نخعی اور سفیان ثوری کا موقف یہی ہے،
اور حضرت ابو ایوب انصاریؓ اس کے قائل تھے۔
ایک قول کے مطابق امام احمد  بھی اس کے قائل تھے۔
(3)
استقبال واستدبار ہر جگہ جائز ہے،
کوئی پابندی نہیں،
امام ربیعہؐ الرائے اور داؤد ظاہری اور عروہ بن زبیر کا یہی نظریہ ہے۔
(4)
استقبال کسی جگہ جائز نہیں اوراستدبار ہر جگہ جائز ہے۔
امام احمد  اور ایک قول کے مطابق امام ابو حنیفہ  کا نظریہ بھی یہی ہے۔
(شرح صحیح مسلم: 1/130)
احناف کا مشہور موقف یہی ہے،
کہ استقبال اور استدبار دونوں کہیں بھی جائز نہیں۔
صحیح بات یہی ہے کہ قبلہ کے ادب واحترام اور تہذیب وشائستگی کا تقاضا یہی ہے کہ حتی المقدور یہی کوشش کرنی چاہیے،
کہ قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ یا پشت نہ ہو،
اگرچہ انسان بیت الخلاء اور قریبی آڑ یا رکاوٹ کی صورت میں سمجھتا ہے،
کہ میرا منہ قبلہ کی طرف نہیں،
دیوار کی طرف ہے،
جیسا کہ انسان کسی کے سامنے قضائے حاجت میں شرم وحیاء محسوس کرتا ہے،
لیکن اگر درمیان میں پردہ حائل ہے،
تو کوئی حرج نہیں سمجھتا،
اس لیے کسی ضرورت یا مجبوری کی صورت میں ہی استقبال یا استدبار کرنا چاہیے،
کیونکہ جواز کی گنجائش موجود ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 612   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:145  
145. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں: کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے بیٹھو تو بیت اللہ اور بیت المقدس کی طرف منہ نہ کرو، حالانکہ میں ایک دن اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کے لیے دو کچی اینٹوں پر بیت المقدس کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہیں۔ حضرت ابن عمر ؓ نے واسع بن حبان سے کہا: شاید تم ان لوگوں میں سے ہو جو اپنی سرینوں پر نماز پڑھتے ہیں۔ (یعنی زمین سے چمٹ کر) واسع نے کہا: واللہ! میں نہیں جانتا (کہ آپ کا مطلب کیا ہے؟) مالک کہتے ہیں: (ابن عمر) اس سے وہ شخص مراد لیتے ہیں جو نماز پڑھے اور زمین سے اونچا نہ ہو، سجدہ اس طرح کرے کہ زمین سے لگا رہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:145]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی تراجم کے متعلق ایک اور عادت ہے کہ آپ کسی عنوان کے تحت متعدد احادیث لاتے ہیں، پھر ان احادیث میں سے کوئی ایک حدیث کسی فائدے پردلالت کرتی ہے تو امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس فائدے سے آگاہ کرنے کے لیے ایک دوسرا عنوان قائم کردیتے ہیں جو مستقل نہیں ہوتا بلکہ باب در باب کی حیثیت رکھتا ہے جیسا کہ مذکورہ حدیث بنیادی طور پر پہلے عنوان سے متعلق ہے لیکن اس میں ایک مزید فائدہ مذکور تھا، اس لیے آپ نے اس پر عنوان قائم کردیا۔
دراصل عربوں کی یہ عادت تھی کہ وہ قضائے حاجت کے لیے باہرمیدانی علاقے کا رخ کرتے تھے پھر وہاں بھی ایسے مقام کی تلاش کرتے جو گڑھے(الغائط)
کی شکل میں ہوتا تاکہ قضائے حاجت کرنے والا لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہے۔
اس بنا پر آبادی میں اینٹوں پربیٹھ کر قضائے حاجت کرنے کا مسئلہ دولحاظ سے قابل بحث تھا۔
(الف)
۔
ایسا کرنا عرب کی عام عادت کے خلاف ہے۔
(ب)
۔
اینٹوں کے اونچا ہونے کی وجہ سے پردہ پوشی کے برعکس ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے جواز کے لیے یہ حدیث پیش کی ہے اور اس پر ایک عنوان قائم کیا ہے۔

آخر میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے واسع بن حبان کو تنبیہ کے طور پر جو بات کہی ہے، اس کا مفہوم کئی طرح سے بیان کیا گیا ہے۔
صحیح مسلم کی روایت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت واسع بن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے مسجد میں نماز پڑھی جبکہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی وہیں تشریف فرما تھے۔
انھیں شک گزرا کہ واسع زمین کے ساتھ چمٹ کر سجدہ کرتے ہیں۔
اور شاید یہ ایسا اس وجہ سے کرتے ہیں کہ پورے طور پر سجدہ کرنے سے عضو مستور کا رخ قبلے کی طرف ہو جاتا ہے۔
جب واسع بن حبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز سےفارغ ہوکر ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس گئے تو انھوں نے پہلے مرفوع حدیث بیان کر کے ان لوگوں کی تردید کی جوعمارت میں بھی بیت اللہ کی طرف منہ کر کے قضائے حاجت کو ناجائز سمجھتے تھے۔
بعد ازاں ان سے پوچھا کہ شاید تم بھی انھی لوگوں میں سے ہو جن کا یہ موقف ہے اور شاید اسی وجہ سے تم سجدہ بھی اس انداز سے کرتے ہو؟ اس پر واسع بن حبان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں نے ایسا سجدہ کیا ہو۔
شاید لاشعوری طور پر ایسا ہوگیا ہو تاہم میرا یہ موقف نہیں۔
(شرح صحیح البخاري محمد بن صالح العثمین رحمة الله عليه: 294،295/1)

مذکورہ حدیث سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ گھر میں بنائے گئے بیت الخلاء میں قضائے حاجت درست ہے کیونکہ اس میں پردہ پوشی کے ساتھ ساتھ نجاست سے بُعد بھی ہے۔
زمین سے متصل بیٹھ کر پیشاب کریں تو اس کے چھینٹوں سے بدن اور کپڑوں کے آلودہ ہونے کا اندیشہ ہے جبکہ بیت الخلاء میں پردے کے ساتھ اس خطرے کا سدباب بھی ہے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 145   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:148  
148. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: میں ایک دن حضرت حفصہ‬ ؓ ک‬ے گھر کی چھت پر اپنی کسی حاجت کے پیش نظر چڑھا تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ قبلے کی طرف پشت اور شام (بیت المقدس) کی طرف منہ کیے ہوئے قضائے حاجت کر رہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:148]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے باب میں ثابت کیا تھا کہ بوقت ضرورت عورتوں کا گھر سے باہرنکلنا جائز ہے بالخصوص قضائے حاجت کے لیے رات کے وقت میدانی علاقے میں جانے میں چنداں حرج نہیں۔
اس باب میں بیان فرمایا ہے کہ قضائے حاجت کے لیے عورتوں کا باہر جانا ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر تھا جس کو بدل دیا گیا اور گھروں میں اس کے انتظامات کردیئے گئے۔
(فتح الباري: 329/1)
نیز شیاطین کو گندگی سے طبعی مناسبت ہوتی ہے، اس لیے جو مقام انسانی حاجت کے لیے ہوتے ہیں وہاں شیاطین کا ہجوم رہتا ہے تو گویا گھروں میں بیت الخلاء تعمیرکرنا، وہاں شیاطین کے جمع ہونے کا مرکز قائم کرنا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت احادیث لا کر اس کا جواز ثابت کیا ہے کہ مکان میں ایک جانب بیت الخلاء تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
شیطاطین تو اس گوشے میں جمع رہیں گے،البتہ ان کے بُرے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اس دعا کی تلقین فرمادی جس کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں ہے کہ قضائے حاجت کے لیے بہت دور جانا پسند کرتے تھے تاکہ آپ کو کوئی دیکھ نہ سکے۔
دور جانا بجائے خود کوئی مقصد نہیں بلکہ مقصد پردہ ہے۔
اگر قریب ہی میں پردے کا اہتمام ہوجائے تو دور جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
گھر میں قضائے حاجت کے لیے بنائے گئے بیت الخلاء سے یہ ضرورت بدرجہ اتم پوری ہوجاتی ہے۔

اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دو احادیث پیش فرمائی ہیں:
پہلی حدیث میں شام کی طرف منہ کرنے کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں بیت المقدس کے الفاظ ہیں۔
چونکہ یہ دونوں ایک ہی جہت میں واقع ہیں اس لیے ان میں کوئی تضاد نہیں ہے نیز پہلی روایت میں استقبال شام کے ساتھ استدبار کعبہ کی بھی تصریح ہے۔
(فتح الباري: 325/1)

مذکورہ دونوں روایات میں واقعہ تو ایک ہی بیان ہوا ہے۔
لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ا س گھر کو ایک روایت میں اپنی ہمیشرہ حضرت حفصہ (زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم)
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا گھر بتایا ہے اور دوسری روایت میں اسے اپنا گھر کہا ہے۔
اس کی توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ گھر تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تھا، لیکن ان کی وفات کے بعد ورثے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آ گیا تھا، اس لیے دونوں ہی باتیں درست ہیں۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گھروں کے اندر قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ کا رخ کرنا جائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 148   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:149  
149. حضرت ابن عمر ؓ ہی سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا میں ایک دن اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو دیکھا کہ رسول اللہ ﷺ دو اینٹوں پر بیٹھے بیت المقدس کی طرف منہ کیے قضائے حاجت کر رہے ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:149]
حدیث حاشیہ:

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے پہلے باب میں ثابت کیا تھا کہ بوقت ضرورت عورتوں کا گھر سے باہرنکلنا جائز ہے بالخصوص قضائے حاجت کے لیے رات کے وقت میدانی علاقے میں جانے میں چنداں حرج نہیں۔
اس باب میں بیان فرمایا ہے کہ قضائے حاجت کے لیے عورتوں کا باہر جانا ایک ہنگامی ضرورت کے پیش نظر تھا جس کو بدل دیا گیا اور گھروں میں اس کے انتظامات کردیئے گئے۔
(فتح الباري: 329/1)
نیز شیاطین کو گندگی سے طبعی مناسبت ہوتی ہے، اس لیے جو مقام انسانی حاجت کے لیے ہوتے ہیں وہاں شیاطین کا ہجوم رہتا ہے تو گویا گھروں میں بیت الخلاء تعمیرکرنا، وہاں شیاطین کے جمع ہونے کا مرکز قائم کرنا ہے۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کے تحت احادیث لا کر اس کا جواز ثابت کیا ہے کہ مکان میں ایک جانب بیت الخلاء تعمیر کرنے میں کوئی حرج نہیں۔
شیطاطین تو اس گوشے میں جمع رہیں گے،البتہ ان کے بُرے اثرات سے محفوظ رہنے کے لیے اس دعا کی تلقین فرمادی جس کا پہلے ذکر ہوچکا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق احادیث میں ہے کہ قضائے حاجت کے لیے بہت دور جانا پسند کرتے تھے تاکہ آپ کو کوئی دیکھ نہ سکے۔
دور جانا بجائے خود کوئی مقصد نہیں بلکہ مقصد پردہ ہے۔
اگر قریب ہی میں پردے کا اہتمام ہوجائے تو دور جانے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
گھر میں قضائے حاجت کے لیے بنائے گئے بیت الخلاء سے یہ ضرورت بدرجہ اتم پوری ہوجاتی ہے۔

اس عنوان کے تحت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے دو احادیث پیش فرمائی ہیں:
پہلی حدیث میں شام کی طرف منہ کرنے کا ذکر ہے اور دوسری روایت میں بیت المقدس کے الفاظ ہیں۔
چونکہ یہ دونوں ایک ہی جہت میں واقع ہیں اس لیے ان میں کوئی تضاد نہیں ہے نیز پہلی روایت میں استقبال شام کے ساتھ استدبار کعبہ کی بھی تصریح ہے۔
(فتح الباري: 325/1)

مذکورہ دونوں روایات میں واقعہ تو ایک ہی بیان ہوا ہے۔
لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ا س گھر کو ایک روایت میں اپنی ہمیشرہ حضرت حفصہ (زوجہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم)
رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا گھر بتایا ہے اور دوسری روایت میں اسے اپنا گھر کہا ہے۔
اس کی توجیہ یہ بیان کی گئی ہے کہ گھر تو حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا تھا، لیکن ان کی وفات کے بعد ورثے میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس آ گیا تھا، اس لیے دونوں ہی باتیں درست ہیں۔
ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ گھروں کے اندر قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ کا رخ کرنا جائز ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 149