حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْمُزَابَنَةِ أَنْ يَبِيعَ ثَمَرَ حَائِطِهِ إِنْ كَانَ نَخْلًا بِتَمْرٍ كَيْلًا، وَإِنْ كَانَ كَرْمًا أَنْ يَبِيعَهُ بِزَبِيبٍ كَيْلًا، وَإِنْ كَانَ زَرْعًا أَنْ يَبِيعَهُ بِكَيْلِ طَعَامٍ"، وَنَهَى عَنْ ذَلِكَ كُلِّهِ.
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2205
حدیث حاشیہ:
حافظ فرماتے ہیں:
أجمع العلماء علی أنه لا یجوزبیع الزرع قبل أن یقطع بالطعام لأنه بیع مجهول بمعلوم و أما بیع رطب ذلك بیابسه بعد القطع و إمکان المماثلة فالجمهور لا یجزون بیع لشيئ من ذلك۔
یعنی اس پر علماءکا اجماع ہے کہ کھیتی کو اس کے کاٹنے سے پہلے غلہ کے ساتھ بیچنا درست نہیں۔
اس لیے کہ وہ ایک معلوم غلہ کے ساتھ مجہول چیز کی بیع ہے۔
اس میں ہر دو کے لیے نقصان کا احتمال ہے۔
ایسے ہی تر کاٹنے کے بعد خشک کے ساتھ بیچنا جمہور اس قسم کی تمام بیوع کو ناجائز کہتے ہیں۔
ان سب میں نفع و نقصان ہر دو احتمالات ہیں۔
اور شریعت محمدیہ ایسے جملہ ممکن نقصانات کی بیوع کو ناجائز قرار دیتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2205
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2205
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں تین قسم کی بیوع سے منع کیا گیا ہے:
پہلی یہ کہ کھجور پر لگی ہوئی کھجوروں کو ناپ کر خشک کھجور کے عوض فروخت کرنا۔
اسے مزابنہ کہتے ہیں۔
دوسری یہ کہ بیل پر لگے ہوئے انگوروں کو ناپ کے حساب سے منقی کے عوض فروخت کرنا۔
اسے بھی مزابنہ کہا جاتا ہے۔
تیسری یہ کہ کھڑی کھیتی کو غلے کے عوض ناپ کے حساب سے بیچنا۔
اسے محاقلہ کہتے ہیں۔
یہ بھی جائز نہیں۔
ان سب میں قدر مشترک یہ ہے کہ ایک معلوم چیز کے عوض مجہول کو فروخت کرنا ہے۔
(2)
حافظ ابن حجر ؒ نے ابن بطال کے حوالے سے علماء کا اجماع نقل کیا ہے کہ کھیتی کو کاٹنے سے پہلے غلے کے عوض فروخت کرنا درست نہیں کیونکہ اس میں ہر دو کے لیے نقصان کا احتمال ہے۔
ایسے ہی کھیتی کاٹنے کے بعد تازہ بالیوں کو خشک غلے کے عوض فروخت کرنا بھی درست نہیں، البتہ احناف کہتے ہیں کہ پھل توڑ کر ڈھیری لگادی جائے تو اس میں چونکہ اندازہ ہوجاتا ہے، لہٰذا اس صورت میں خریدوفروخت کرنا جائز ہے لیکن اس سے صریح نص کی مخالفت لازم آتی ہے۔
(فتح الباري: 510/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2205
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 494
´مزابنہ اور محاقلہ کا بیان`
«. . . 236- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن المزابنة، والمزابنة: بيع الثمر بالتمر كيلا، وبيع الكرم بالزبيب كيلا. . . .»
”. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع کیا ہے (اور مزابنہ یہ ہے کہ) درخت پر لگی ہوئی کھجوروں کو خشک کھجوروں کے بدلے تول کا سودا کیا جائے اور درخت پر لگے ہوئے انگوروں کو خشک انگوروں کے بدلے تول کا سودا کیا جائے . . .“ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 494]
تخریج الحدیث: [واخرجه البخاري 2171، و مسلم 1542/72، من حديث مالك به]
تفقہ:
➊ دیکھئے حدیث سابق: 158
➋ دین اسلام میں پوری انسانیت کے لئے فلاح ہی فلاح ہے۔
➌ سد ذرائع کے طور پر اس ذریعے کو بند کر دینا چاہئے جس سے فساد اور شر پھیلنے کا اندیشہ ہو۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 236
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث3963
´مزارعت (بٹائی) کے سلسلے میں وارد مختلف الفاظ اور عبارتوں کا ذکر۔`
نافع سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھیت بٹائی پر دیے جاتے تھے اس شرط پر کہ زمین کے مالک کے لیے وہ پیداوار ہو گی جو نالیوں اور نہروں کی کیاریوں پر ہو اور کچھ گھاس جس کی مقدار مجھے معلوم نہیں۔ [سنن نسائي/كتاب المزارعة/حدیث: 3963]
اردو حاشہ:
روایت مختصر ہے‘ یعنی آپ نے بٹائی کی اس صورت سے منع فرمایا کہ کیونکہ اس میں ناجائز شرط ہے کہ اچھی زمین کی فصل مالک لے جائے گا اور ردی زمین کی فصل مزارع کو ملے گی‘ نیز مالک تو معین مقدار میں توڑی لے جائے گا‘ مزارع کو اتنی بچے یا نہ بچے یا بالکل ہی نہ بچے۔ یہ مزارع پر ظلم ہے‘ لہٰذا آپ نے اس قسم کی خاص صورت سے منع فرما دیا ہے نہ کہ عام بٹائی سے۔ (اس حدیث کا دوسرا مفہوم حدیث: 3939 کے فائدے میں دیکھیے)۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 3963
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4537
´درخت کے پھل کو توڑے ہوئے پھلوں سے بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا، اور مزابنہ یہ ہے کہ درخت میں موجود پھل کو متعین توڑے ہوئے پھلوں سے بیچنا اس طور پر کہ زیادہ ہوا تو بھی میرا (یعنی کا) اور کم ہوا تو بھی میرے ذمہ۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4537]
اردو حاشہ:
”کہ اگر کھجور کا پھل“ یہ جملہ پھل کے خریدار کی زبانی ہے کیونکہ اس کا فائدہ نقصان اسی کو ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4537
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4538
´درخت پر لگے انگور کو سوکھے انگور (منقیٰ یا کشمش) سے بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا، مزانبہ درخت پر لگے کھجور کو توڑے ہوئے کھجور سے ناپ کر بیچنا، اور بیل پر لگے تازہ انگور کو توڑے ہوئے انگور (کشمش) سے ناپ کر بیچنا۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4538]
اردو حاشہ:
مزابنہ کے منع ہونے کی وجہ یہ کہ کسی ایک فریق کو نقصان کا احتمال ہے۔ ممکن ہے درخت سے کم کھجوریں اتریں، ویسے بھی کھجوریں خشک ہو کر کم ہو جاتی ہیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4538
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4553
´اناج کے بدلے کھڑی کھیتی (فصل) بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا ہے ”مزابنہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ میں لگے پھل کو بیچے، اگر وہ کھجور ہو تو نپی ہوئی کھجور سے بیچے، اور اگر انگور ہو تو اسے نپے ہوئے خشک انگور (منقیٰ یا کشمش) سے بیچے، اور اگر کھڑی کھیتی (فصل) ہو تو اسے نپے ہوئے اناج سے بیچے۔“ آپ نے ان تمام اقسام کی بیع سے منع فرمایا۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4553]
اردو حاشہ:
ان بیوع کو مزابنہ اور محاقلہ کہا جاتا ہے۔ حرمت کی وجہ حدیث نمبر: 4538 میں گزر چکی ہے۔ (مزید تفصیل کے لیے دیکھیے فوائد مسائل، حدیث: 3910)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4553
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3361
´مزابنہ کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے درخت پر لگی ہوئی کھجور کا اندازہ کر کے سوکھی کھجور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح انگور کا (جو بیلوں پر ہو) اندازہ کر کے اسے سوکھے انگور کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے اور غیر پکی ہوئی فصل کا اندازہ کر کے اسے گیہوں کے بدلے ناپ کر بیچنے سے منع فرمایا ہے (کیونکہ اس میں کمی و بیشی کا احتمال ہے)۔ [سنن ابي داود/كتاب البيوع /حدیث: 3361]
فوائد ومسائل:
1۔
درخت یا بیل پر لگے تازہ پھل کو جس کی مقدار متعین نہیں ہوسکتی۔
اس نوع کے خشک پھل سے بیچنا کہ خشک کی مقدار معلوم ومعین ہو یا گندم وغیرہ کے کھیت کو خشک گندم کے عوض بیچنا (مزابنہ) کہلاتا ہے۔
2۔
ایک جنس کا باہمی تبادلہ کرتے ہوئے تازہ اور خشک یا عمدہ اور روی کا فرق نہیں کیا جا سکتا۔
دونوں کا نقد اور برابر برابر تبادلہ کیا جائے۔
پھرعلیحدہ علیحدہ نقدی کے عوض بیچا جائے۔
البتہ عرایا جائز ہے۔
جیسے کہ ذکر آرہا ہے۔
3۔
اس میں ایک پہلو قدر کے غیر معلوم ہونے کا بھی ہے۔
کیونکہ درخت پر لگی کھجور کا حتمی وزن یا یا کیل ممکن نہیں۔
4۔
تازہ کھجور خشک ہونے کے باوجود کم ہو جاتی ہے۔
اور اس کی خشک کھجور کے عوض بیع کی ممانعت صراحت کے ساتھ آچکی ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3361
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2265
´بیع مزابنہ (یعنی درخت کے اوپر کچے پھل کو سوکھے پھل کے بدلے بیچنے) اور بیع محاقلہ (یعنی غلہ کے بدلے زمین دینے) کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا، مزابنہ یہ ہے کہ آدمی اپنے باغ کی کھجور کو جو درختوں پر ہو خشک کھجور کے بدلے ناپ کر بیچے، یا انگور کو جو بیل پر ہو کشمش کے بدلے ناپ کر بیچے، اور اگر کھیتی ہو تو کھیت میں کھڑی فصل سوکھے ہوئے اناج کے بدلے ناپ کر بیچے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب سے منع کیا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2265]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیع مزابنہ ممنوع ہے۔
(2)
بیع مزابنہ کی صورت یہ ہے کہ ایک آدمی کھجور کے باغ کا پھل خریدے اور اس کے عوض مقررہ مقدار میں کھجوریں ادا کرے۔
یا مثلاً یوں کہے:
اس کھیت میں جوفصل تیار ہورہی ہے وہ سب میں پچاس من گندم کے عوض خریدتا ہوں۔
یہ درست نہیں کیونکہ یہ معلوم نہیں کھیت سے جو گندم حاصل ہو گی وہ پچاس من سے کم ہو گی یا زیادہ۔
کھیت کی فصل کےبارے میں اس قسم کا معاہدہ محاقلہ کہلاتا ہے جبکہ باغ کے پھل کےبارے میں یہی معاملہ مزابنہ کہلاتا ہے۔
(3)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے مزابنہ میں اس صورت کو بھی شامل کیا ہے کہ کسی بغیر ماپی تولی چیز کےبارے میں کہا جائے کہ اس کی مقدار یہ ہے، مثلاً گندم کا یہ ڈھیر دس من کا ہے۔
یا اس برتن میں میرے اندازے کے مطابق پچاس لٹر تیل ہے۔
یا میں کہتا ہوں کہ مالٹوں کی اس ڈھیری میں دو سو مالٹے ہیں، اگر مقدار کم ہوئی تو اپنے پاس سے پوری کروں گا، اور اگر زیادہ ہوئی تو جتنی زیادہ ہوئی وہ میری ہو گی۔
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ صورت بیع نہیں بلکہ دھوکے اور قمار (جوئے)
پر مبنی ایک معاملہ ہے۔ (مؤطأ امام مالك، البیوع، باب ماجاء في المزابنة والمحاقلة: 2/ 161)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2265
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3896
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا اور مزابنہ، کھجور کا پھل چھوہاروں سے ناپ کر بیچنا، انگوروں کو منقہ کے عوض ناپ کر بیچنا اور ہر پھل کو اندازہ کر کے (اس کی جنس سے) بیچنا ہے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3896]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ تمام قسم کے پھلوں جو ابھی حاصل نہیں ہوئے،
اس کو خشک پھل کے ناپ سے بیچنا جائز نہیں ہے۔
اس بیع عرایا کی رخصت میں اختلاف ہے کہ کیا اس کا تعلق ہر قسم کے پھل سے ہے یا نہیں؟ امام احمد،
لیث اور اہل حجاز کے نزدیک رخصت کا تعلق صرف کھجوروں سے ہے،
الا یہ کہ وہ پھل ربوی (جس میں سود کا احتمال ہے)
نہ ہو۔
امام شافعی کے نزدیک کھجور اور انگور دونوں میں رخصت ہے،
امام مالک کے نزدیک ہر وہ پھل جو ذخیرہ ہو سکے،
امام اوزاعی کے نزدیک ہر قسم کے پھل میں رخصت ہے،
اور احناف کے نزدیک یہ ہبہ کی تبدیلی ہے اس لیے ہر پھل میں جائز ہونا چاہیے اور ظاہر یہ ہے کہ اس کا تعلق ہر اس پھل سے ہے جس میں تازہ اور خشک ہونے کی صورت میں فرق ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3896
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3897
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مزابنہ سے منع فرمایا ہے اور مزابنہ یہ ہے کہ کھجور کے درخت پر پھل کو متعین ناپ کے عوض بیچا جائے کہ اگر درخت کا پھل زیادہ ہوا تو میرا ہو گا، کم ہو گا تو میرا نقصان ہو گا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3897]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
کمی و بیشی میرے لیے ہے۔
یہ بات بائع اور مشتری دونوں کی طرف سے ہو سکتی ہے۔
بائع کے اعتبار سے اس کا تعلق خشک پھل سے ہوگا اور مشتری کے اعتبار سے تازہ یعنی درخت پر موجود پھل سے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3897
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2171
2171. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے "مزابنہ"سے منع فرمایا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کہ درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجور کو خشک کھجور کے عوض ماپ کرفروخت کیاجائے۔ اسی طرح (بیل پر لگے) انگوروں کو کشمش کے عوض ماپ کر فروخت کیاجائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2171]
حدیث حاشیہ:
یعنی وہ کھجور جو ابھی درخت سے نہ اتری ہو، اسی طرح وہ انگور جو ابھی بیل سے نہ توڑا گیا ہو اس کا اندازہ کرکے خشک کھجور یا منقیٰ کے بدل بیچنا درست نہیں کیوں کہ اس میں کمی بیشی کا احتمال ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2171
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2345
2345. حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں زمین بٹائی پر دی جاتی تھی۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو اندیشہ لاحق ہوا مبادا رسول اللہ ﷺ نے کوئی نیا حکم دیا ہو جس کی انھیں خبر نہ ہو، اس لیےانھوں نے زمین کرائے پر دینا ترک کردی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2345]
حدیث حاشیہ:
پیچھے تفصیل گزر چکا ہے کہ بیشتر مہاجرین انصار کی زمینوں پر بٹائی پر کاشت کیا کرتے تھے۔
پس بٹائی پر دینا بلاشبہ جائز ہے یوں احتیاط کا معاملہ الگ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2345
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2171
2171. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے "مزابنہ"سے منع فرمایا ہے۔ مزابنہ یہ ہے کہ درخت پر لگی ہوئی تازہ کھجور کو خشک کھجور کے عوض ماپ کرفروخت کیاجائے۔ اسی طرح (بیل پر لگے) انگوروں کو کشمش کے عوض ماپ کر فروخت کیاجائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2171]
حدیث حاشیہ:
(1)
بعض روایات میں کھیتی کے غلے سے خریدوفروخت کا ذکر ہے کہ ایسا کرنا منع ہے۔
(مسند أحمد: 5/2)
اس حدیث میں ثمرسے مراد خشک کھجور ہے،ہر پھل مراد نہیں کیونکہ دوسرے پھلوں کی کھجور سے خریدوفروخت جائز ہے۔
حدیث میں ماپ کر بیچنے کا ذکر نفس الامر کے اعتبار سے ہے کیونکہ اس وقت لوگ ماپ کر خریدوفروخت کرتے تھے لیکن ایسا تبادلہ مطلق طور پر ناجائز ہے،خواہ ماپ کر ہویا ماپ کے بغیر کیا جائے۔
ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ سے پوچھا گیا:
کیا تازہ کھجوریں خشک کھجوروں کے عوض فروخت کی جاسکتی ہیں؟ تو آپ نے فرمایا:
”وہ خشک ہوکر وزن میں کم رہ جاتی ہیں؟“ لوگوں نے کہا:
ہاں، تو آپ نے اس سے منع فرمایا۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3359)
(2)
حدیث میں اگرچہ طعام کا ذکر نہیں ہے،تاہم معنی کے اعتبار سے اس عنوان کو ثابت کیا گیا ہے۔
بعض روایات میں طعام کا ذکر بھی ہے،شاید امام بخاری ؒ نے ان کی طرف اشارہ کیا ہو۔
(فتح الباري: 475/4)
بہرحال وہ کھجور جو درختوں سے نہ اتاری گئی ہو اسی طرح وہ انگور جو بیلوں پر ہوں ان کا اندازہ کرکے خشک کھجوروں یامنقی کے عوض فروخت کرنا جائز نہیں کیونکہ اس سے ایک فریق کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، البتہ عرایا میں ایسا کیا جاسکتا ہے جس کی تفصیل آگے آرہی ہے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2171
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2345
2345. حضرت سالم سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر ؓ نے فرمایا: میں جانتا ہوں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں زمین بٹائی پر دی جاتی تھی۔ پھر حضرت عبداللہ بن عمر ؓ کو اندیشہ لاحق ہوا مبادا رسول اللہ ﷺ نے کوئی نیا حکم دیا ہو جس کی انھیں خبر نہ ہو، اس لیےانھوں نے زمین کرائے پر دینا ترک کردی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2345]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت رافع بن خدیج ؓ مطلق طور پر زمین بٹائی پر دینے سے منع کرتے تھے اور عبداللہ بن عمر ؓ اس موقف کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک مخصوص صورت سے منع فرمایا تھا کیونکہ مخصوص رقبے کی پیداوار کے عوض زمین دی جاتی تھی، اس میں نقصان اور دھوکا تھا کیونکہ ادھر پیداوار ہوتی اور دوسری طرف آفت کا شکار ہو جاتی اور کبھی اس کے برعکس ہوتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں میں جھگڑا ہوتا رہتا۔
کبھی تو زمین کا مالک پیداوار سے محروم رہتا۔
اور کبھی مزارع کو نقصان اٹھانا پڑتا، اس سے چوتھائی، تہائی یا نصف پیداوار کے عوض بٹائی پر دینے کی ممانعت نہیں۔
(2)
امام بخاری ؒ نے حضرت رافع بن خدیج ؓ کی حدیث کی وضاحت کے لیے حضرت سالم ؒ کی حدیث ذکر کی ہے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر ؓ پرہیزگار شخص تھے۔
ایک طویل مدت تک ان کا عمل جس بات پر رہا اس کے متعلق انہیں شبہ لاحق ہو گیا۔
آخرکار انہوں نے حضرت رافع بن خدیج ؓ کی معلومات پر عمل کیا اور احتیاط کے خیال سے زمین کرائے پر دینا ترک کر دی۔
بہرحال قانون الگ ہے اور ایثار و ہمدردی کا پہلو الگ حیثیت رکھتا ہے۔
(3)
حضرت رافع بن خدیج ؓ کی معلومات کو قانون کی حیثیت نہیں دی جا سکتی بلکہ ان سے احسان اور ایثار کا پہلو اجاگر ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی زمین بطور ہمدردی کاشت کے لیے اپنے کسی بھائی کو دے دے تو رسول اللہ ﷺ نے اس طرز عمل کی شاندار الفاظ سے حوصلہ افزائی فرمائی ہے۔
امام بخاری ؒ کا اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے یہی مقصد معلوم ہوتا ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2345