سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
25. بَابُ : الثَّنَاءِ الْحَسَنِ
باب: لوگوں کی عمدہ تعریف و توصیف کا بیان۔
حدیث نمبر: 4222
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ جَامِعِ بْنِ شَدَّادٍ , عَنْ كُلْثُومٍ الْخُزَاعِيِّ , قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , كَيْفَ لِي أَنْ أَعْلَمَ إِذَا أَحْسَنْتُ أَنِّي قَدْ أَحْسَنْتُ , وَإِذَا أَسَأْتُ أَنِّي قَدْ أَسَأْتُ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا قَالَ جِيرَانُكَ قَدْ أَحْسَنْتَ فَقَدْ أَحْسَنْتَ , وَإِذَا قَالُوا إِنَّكَ قَدْ أَسَأْتَ فَقَدْ أَسَأْتَ".
کلثوم خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص نے آ کر عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں اچھا کام کروں تو مجھے کیسے پتا چلے گا کہ میں نے اچھا کام کیا، اور جب برا کروں تو کیسے سمجھوں کہ میں نے برا کام کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”جب تمہارے پڑوسی کہیں کہ تم نے اچھا کام کیا ہے تو سمجھ لو کہ تم نے اچھا کیا ہے، اور جب وہ کہیں کہ تم نے برا کام کیا ہے تو سمجھ لو کہ تم نے برا کیا ہے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11166، ومصباح الزجاجة: 1509) (صحیح)» (سند میں کلثوم بن علقمہ الخزاعی ثقہ ہیں، اور ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کو شرف صحبت رسول حاصل ہے، آنے والی ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث جس کی تصحیح حاکم ابن حبان نے کی ہے، اور نسائی کے یہاں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے تقویت پاکر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: الصحیحة: 1327)
قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4222 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4222
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
عام نیکیاں اور برائیاں ایسی ہیں کہ عام مسلمان انھیں اس حیثیت سے پہچانتے ہیں خواہ عملی طور پر وہ نیکیوں میں سست اور برائیوں کے عادی ہوں۔
(2)
اخلاقی خوبیاں اور خامیاں سب سے زیادہ ہمسائیوں کو معلوم ہوتی ہیں۔
جب کسی شخص کو معلوم ہو کہ ہمسائے اسے اچھا نہیں سمجھتے تو اسے چاہیے کہ اپنی اسلاح کی کوشش کرے۔ 3۔
آجکل علم کی کمی کی وجہ سے اور غلط رسم ورواج زیادہ ہوجانے کی وجہ سے بعض اچھے کام چھوٹ گئے ہیں جب اس پر عمل کیا جائے تو عوام تنقید کرتے ہیں اور بعض غلط کام ایسے مشہور ہوگئے ہیں کہ لوگ انھیں شرعی حکم سمجھ کر عمل کرتے ہیں۔
جب ایسی بدعت سے اجتناب کیا جائے تو لوگ سمجھتے ہیں کہ سنت کا انکار کیا جارہا ہے۔
ایسے مسائل میں عوام کی رائے کو اہمیت حاصل نہیں بلکہ ایسے علامء سے دریافت کرنا چاہیے جو صحیح اور ضعیف احادیث میں امتیاز کرسکتے ہیں اور قرآن وحدیث کے نصوص سے مسائل سمجھ سکتے ہیں۔
محض چٹ پٹی تقریریں کرنے والے واعظوں پر اعتماد نہیں کرنا چاہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4222