سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
15. بَابُ : الْحِكْمَةِ
باب: حکمت و دانائی کا بیان۔
حدیث نمبر: 4171
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ , حَدَّثَنَا الْفُضَيْلُ بْنُ سُلَيْمَانَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ , حَدَّثَنِي عُثْمَانُ بْنُ جُبَيْرٍ مَوْلَى أَبِي أَيُّوبَ , عَنْ أَبِي أَيُّوبَ , قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , عَلِّمْنِي وَأَوْجِزْ , قَالَ:" إِذَا قُمْتَ فِي صَلَاتِكَ , فَصَلِّ صَلَاةَ مُوَدِّعٍ , وَلَا تَكَلَّمْ بِكَلَامٍ تَعْتَذِرُ مِنْهُ , وَأَجْمِعِ الْيَأْسَ عَمَّا فِي أَيْدِي النَّاسِ".
ابوایوب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، آ کر کہا: اللہ کے رسول! مجھے کچھ بتائیے، اور مختصر نصیحت کیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو ایسی نماز پڑھو گویا کہ دنیا سے جا رہے ہو، اور کوئی ایسی بات منہ سے نہ نکالو جس کے لیے آئندہ عذر کرنا پڑے، اور جو کچھ لوگوں کے پاس ہے اس سے پوری طرح مایوس ہو جاؤ“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3476، ومصباح الزجاجة: 1479)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/412) (حسن)» (سند میں عثمان بن جبیر مقبول عند المتابعہ ہیں، لیکن شواہد سے تقویت پاکر یہ حسن ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 400)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
عثمان بن جبير مجھول الحال،و ثقه ابن حبان وحده
و للحديث شواھد ضعيفة عند الحاكم (326/4۔327) وغيره
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 527
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4171 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4171
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
وعظ و نصیحت میں حسب موقع اختصار یا تفصیل سے کام لینا چاہیے۔
(2)
نماز کا پورا فائدہ حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ نماز میں پوری توجہ اور انہماک ہو۔
دل اللہ کی طرف پوری طرح متوجہ ہو اور نماز میں جو کچھ پڑھا جائے پوری طرح سوچ سمجھ کر اللہ کے حضور عجز ونیاز کی کیفیت کے ساتھ پڑھا جائے۔
ادب واحترام کے ساتھ کھڑے ہوکر غیر ضروری حرکتوں سے اجتناب کیا جائے۔
(3)
جب کسی انسان کو معلوم ہوکہ وہ تھوڑی دیر بعد دنیا سے رخصت ہونے والا ہے تو وہ اللہ کے سامنے انتہائی تضرع کا اظہار کرتا ہے اور خلوص سے دعا کرتا ہے۔
ہر نماز کو اسی طرح ادا کرنا چاہیے۔
(4)
بات کرتے وقت اس کے نتائج پر غور کرلینا چاہیے کیونکہ ایک دفعہ جو بات زبان سے نکل گئی وہ واپس نہیں ہوسکتی۔
بعض اوقات ایک غلط بات کے نقصانات لامحدود بھی ہوسکتے ہیں۔
(5)
دنیا میں انسان ایک دوسرے کے کام آتا ہے لیکن انسانوں کے دل بھی اللہ کے ہاتھ میں ہیں اس لیے امید بندوں سے نہیں اللہ سے ہونی چاہیے۔
اسی سے درخواست کرنی چاہیے کہ وہ حاجت پوری کردے جیسے بھی اس کی رحمت کا تقاضہ ہو۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4171