سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
7. بَابُ : مُجَالَسَةِ الْفُقَرَاءِ
باب: فقیروں کے ساتھ بیٹھنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 4127
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ , حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُحَمَّدٍ الْعَنْقَزِيُّ , حَدَّثَنَا أَسْبَاطُ بْنُ نَصْرٍ , عَنْ السُّدِّيِّ , عَنْ أَبِي سَعْدٍ الْأَزْدِيِّ , وَكَانَ قَارِئَ الْأَزْدِ , عَنْ أَبِي الْكَنُودِ , عَنْ خَبَّابٍ , فِي قَوْلِهِ تَعَالَى:" وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ إِلَى قَوْلِهِ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ سورة الأنعام آية 52 , قَالَ: جَاءَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ التَّمِيمِيُّ , وَعُيَيْنَةُ بْنُ حِصْنٍ الْفَزَارِيُّ , فَوَجَدَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَ صُهَيْبٍ , وَبِلَالٍ , وَعَمَّارٍ , وَخَبَّابٍ , قَاعِدًا فِي نَاسٍ مِنَ الضُّعَفَاءِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ , فَلَمَّا رَأَوْهُمْ حَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَقَرُوهُمْ , فَأَتَوْهُ فَخَلَوْا بِهِ , وَقَالُوا: إِنَّا نُرِيدُ أَنْ تَجْعَلَ لَنَا مِنْكَ مَجْلِسًا تَعْرِفُ لَنَا بِهِ الْعَرَبُ فَضْلَنَا , فَإِنَّ وُفُودَ الْعَرَبِ تَأْتِيكَ , فَنَسْتَحْيِي أَنْ تَرَانَا الْعَرَبُ مَعَ هَذِهِ الْأَعْبُدِ , فَإِذَا نَحْنُ جِئْنَاكَ فَأَقِمْهُمْ عَنْكَ , فَإِذَا نَحْنُ فَرَغْنَا فَاقْعُدْ مَعَهُمْ إِنْ شِئْتَ , قَالَ:" نَعَمْ" , قَالُوا: فَاكْتُبْ لَنَا عَلَيْكَ كِتَابًا , قَالَ: فَدَعَا بِصَحِيفَةٍ وَدَعَا عَلِيًّا لِيَكْتُبَ وَنَحْنُ قُعُودٌ فِي نَاحِيَةٍ , فَنَزَلَ جِبْرَائِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام , فَقَالَ: وَلا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ مِنْ شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِمْ مِنْ شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ سورة الأنعام آية 52 ثُمَّ ذَكَرَ الْأَقْرَعَ بْنَ حَابِسٍ , وَعُيَيْنَةَ بْنَ حِصْنٍ , فَقَالَ: وَكَذَلِكَ فَتَنَّا بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لِيَقُولُوا أَهَؤُلاءِ مَنَّ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِنَا أَلَيْسَ اللَّهُ بِأَعْلَمَ بِالشَّاكِرِينَ سورة الأنعام آية 53 ثُمَّ قَالَ: وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلامٌ عَلَيْكُمْ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَى نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ سورة الأنعام آية 54 , قَالَ: فَدَنَوْنَا مِنْهُ حَتَّى وَضَعْنَا رُكَبَنَا عَلَى رُكْبَتِهِ , وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَجْلِسُ مَعَنَا , فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ قَامَ وَتَرَ كَنَا , فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَاصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ وَلا تَعْدُ عَيْنَاكَ عَنْهُمْ سورة الكهف آية 28 وَلَا تُجَالِسْ الْأَشْرَافَ تُرِيدُ زِينَةَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَلا تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَنْ ذِكْرِنَا يَعْنِي: عُيَيْنَةَ وَالْأَقْرَعَ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَكَانَ أَمْرُهُ فُرُطًا سورة الكهف آية 27 ـ 28 , قَالَ: هَلَاكًا , قَالَ: أَمْرُ عُيَيْنَةَ , وَالْأَقْرَعِ , ثُمَّ ضَرَبَ لَهُمْ مَثَلَ الرَّجُلَيْنِ , وَمَثَلَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا" , قَالَ خَبَّابٌ: فَكُنَّا نَقْعُدُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَإِذَا بَلَغْنَا السَّاعَةَ الَّتِي يَقُومُ فِيهَا قُمْنَا وَتَرَكْنَاهُ حَتَّى يَقُومَ".
خباب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ «ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي» سے «فتكون من الظالمين» ”اور ان لوگوں کو اپنے پاس سے مت نکال جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں ...“ (سورة الأنعام: 52) کی تفسیر میں کہتے ہیں کہ اقرع بن حابس تمیمی اور عیینہ بن حصن فزاری رضی اللہ عنہما آئے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صہیب، بلال، عمار، اور خباب رضی اللہ عنہم جیسے کمزور حال مسلمانوں کے ساتھ بیٹھا ہوا پایا، جب انہوں نے ان لوگوں کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف دیکھا تو ان کو حقیر جانا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر آپ سے تنہائی میں ملے، اور کہنے لگے: ہم چاہتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے ایک الگ مجلس مقرر کریں تاکہ عرب کو ہماری بزرگی اور بڑائی معلوم ہو، آپ کے پاس عرب کے وفود آتے رہتے ہیں، اگر وہ ہمیں ان غلاموں کے ساتھ بیٹھا دیکھ لیں گے تو یہ ہمارے لیے باعث شرم ہے، جب ہم آپ کے پاس آئیں تو آپ ان مسکینوں کو اپنے پاس سے اٹھا دیا کیجئیے، جب ہم چلے جائیں تو آپ چاہیں تو پھر ان کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ٹھیک ہے“ ان لوگوں نے کہا کہ آپ ہمیں اس سلسلے میں ایک تحریر لکھ دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کاغذ منگوایا اور علی رضی اللہ عنہ کو لکھنے کے لیے بلایا، ہم ایک طرف بیٹھے تھے کہ جبرائیل علیہ السلام یہ آیت لے کر نازل ہوئے: «ولا تطرد الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه ما عليك من حسابهم من شيء وما من حسابك عليهم من شيء فتطردهم فتكون من الظالمين» ”اور ان لوگوں کو اپنے سے دور مت کریں جو اپنے رب کو صبح و شام پکارتے ہیں، وہ اس کی رضا چاہتے ہیں، ان کے حساب کی کوئی ذمے داری تمہارے اوپر نہیں ہے اور نہ تمہارے حساب کی کوئی ذمے داری ان پر ہے (اگر تم ایسا کرو گے) تو تم ظالموں میں سے ہو جاؤ گے) پھر اللہ تعالیٰ نے اقرع بن حابس اور عیینہ بن حصن رضی اللہ عنہما کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: «وكذلك فتنا بعضهم ببعض ليقولوا أهؤلاء من الله عليهم من بيننا أليس الله بأعلم بالشاكرين» ”اور اسی طرح ہم نے بعض کو بعض کے ذریعے آزمایا تاکہ وہ کہیں: کیا اللہ تعالیٰ نے ہم میں سے انہیں پر احسان کیا ہے، کیا اللہ تعالیٰ شکر کرنے والوں کو نہیں جانتا، (سورۃ الأنعام: ۵۳) پھر فرمایا: «وإذا جاءك الذين يؤمنون بآياتنا فقل سلام عليكم كتب ربكم على نفسه الرحمة» ”جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان رکھتے ہیں تو کہو: تم پر سلامتی ہو، تمہارے رب نے اپنے اوپر رحم کو واجب کر لیا ہے“ (سورة الأنعام: 54)۔ خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (اس آیت کے نزول کے بعد) ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب ہو گئے یہاں تک کہ ہم نے اپنا گھٹنا، آپ کے گھٹنے پر رکھ دیا اور آپ ہمارے ساتھ بیٹھتے تھے، اور جب اٹھنے کا ارادہ کرتے تو کھڑے ہو جاتے، اور ہم کو چھوڑ دیتے (اس سلسلے میں) اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی: «واصبر نفسك مع الذين يدعون ربهم بالغداة والعشي يريدون وجهه ولا تعد عيناك عنهم» ”روکے رکھو اپنے آپ کو ان لوگوں کے ساتھ جو اپنے رب کو یاد کرتے ہیں صبح اور شام، اور اسی کی رضا مندی چاہتے ہیں، اور اپنی نگاہیں ان کی طرف سے مت پھیرو“ (سورة الكهف: 28) -یعنی مالداروں کے ساتھ مت بیٹھو، تم دنیا کی زندگی کی زینت چاہتے ہو، مت کہا مانو ان لوگوں کا جن کے دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دئیے) اس سے مراد اقرع و عیینہ ہیں «واتبع هواه وكان أمره فرطا» ”انہوں نے اپنی خواہش کی پیروی کی اور ان کا معاملہ تباہ ہو گیا“ (سورة الكهف: 28)، یہاں «فرطا» کا معنی بیان کرتے ہوئے خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: «هلاكا» اقرع اور عیینہ میں سے ہر ایک کا معاملہ تباہ ہو گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان دو آدمیوں کی مثال اور دنیوی زندگی کی مثال بیان فرمائی، خباب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اس کے بعد ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھتے تو جب آپ کے کھڑے ہونے کا وقت آتا تو پہلے ہم اٹھتے تب آپ اٹھتے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3522، ومصباح الزجاجة: 1462) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
أبو سعيد الأزدي: مقبول (تقريب: 8117) أي مجهول الحال والآية مكية وأسلم الأقرع و عينة بعد الھجرة بدهر
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 526
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4127 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4127
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
رسول اللہ ﷺ کو لوگوں کی ہدایت کا اتنا خیال تھا کہ اس کےلیے بعض ایسی شرائط بھی تسلیم کرنے کا سوچا جو حقیقت میں آپ کو انتہائی ناگوار تھیں۔
(2)
اللہ تعالی مخلص مومنوں کی خواہشات پوری فرمادیتا ہے۔
(3)
اگر چہ زبانی معاہدہ بھی واجب العمل ہوتا ہے تاہم لکھ لینا بہتر ہے۔
(4)
اس واقعہ سے قدیم الاسلام صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا مقام اوران کی عظمت واضح ہے۔
(5)
پہلے اسلام لانے والے صحابہ بعد میں اسلام لانے والے صحابہ سے افضل ہیں تاہم بعد والے بھی واجب الاحترام ہیں اور تابعین سے افضل ہیں۔
(6)
مربی اور معلم کو چاہیے کہ مخلص ساتھیوں کے جذبات کا خیال رکھے۔
(7)
رسول اللہ ﷺ قرآن مجید کے ہر حکم پر پوری طرح عمل فرماتے تھے اگرچہ وہ عام لوگوں کی نظر میں معمولی حکم ہوتا ہے۔
(8)
رسول اللہ ﷺ کا پہلا معمول بھی درست تھا کہ جب ضرورت محسوس فرماتے مجلس سے اٹھ جاتے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بیٹھے رہتے تاکہ نبیﷺ سے سیکھے ہوئے مسائل یاد کریں اور ایک دوسرے سے وہ احادیث سنیں جو براہ راست رسول اللہ ﷺ سے نہیں سنی ہوئی تھیں۔
(9)
بعد میں رسول اکرم ﷺ کو حکم دیا گیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کو زیادہ سے زیادہ استفادے کا موقع عنایت فرمائیں اس لیے رسول اللہ ﷺ زیادہ دیر تک تشریف رکھتے تھے۔
(10)
صحابہ کرام نے محسوس کیا کہ نبی ﷺکو اس طرز عمل سے مشقت اٹھانی پڑتی ہےاس لیے وہ خود ہی مناسب وقت پر مجلس برخاست کردیتے تھےتاکہ آپ کو آرام واستراحت اور دوسرے ذاتی امور کے لیے کافی وقت مل سکے۔
استاد کو چاہیےکہ طلبہ كو زیادہ سے زیادہ استفادے کا موقع دے لیکن طلبہ کو بھی چاہیے کہ وہ استاد پر زیادہ بوجھ نہ ڈالیں۔
(11)
مذکورہ روایت کو ہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف قرار دیا ہے جبکہ دیگر محققین نے اسے شواہد اور متابعات کی بنا پرحسن اور صحیح قراردیا ہے۔
ان شواہد اور متابعات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کوئی نہ کوئی اصل ضرور ہے نیز آئندہ آنے والی روایت میں بھی مختصراً اسی واقعے کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔
واللہ اعلم۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (صحیح السیرۃ النبوية للألباني: 222، 224 الموسوعه الحديثية مسند الإمام أحمد: 7/ 93، 92)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4127