سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
2. بَابُ : الْهَمِّ بِالدُّنْيَا
باب: دنیا کے غم و فکر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4105
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ عُمَرَ بْنِ سُلَيْمَانَ , قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبَانَ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: خَرَجَ زَيْدُ بْنُ ثَابِتٍ مِنْ عِنْدِ مَرْوَانَ بِنِصْفِ النَّهَارِ , قُلْتُ: مَا بَعَثَ إِلَيْهِ هَذِهِ السَّاعَةَ إِلَّا لِشَيْءٍ سَأَلَ عَنْهُ , فَسَأَلْتُهُ , فَقَالَ: سَأَلَنَا عَنْ أَشْيَاءَ سَمِعْنَاهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" مَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ , فَرَّقَ اللَّهُ عَلَيْهِ أَمْرَهُ , وَجَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ , وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مَا كُتِبَ لَهُ , وَمَنْ كَانَتِ الْآخِرَةُ نِيَّتَهُ , جَمَعَ اللَّهُ لَهُ أَمْرَهُ , وَجَعَلَ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ , وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ".
ابان بن عثمان بن عفان کہتے ہیں کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مروان کے پاس سے ٹھیک دوپہر کے وقت نکلے، میں نے کہا: اس وقت مروان نے ان کو ضرور کچھ پوچھنے کے لیے بلایا ہو گا، میں نے ان سے پوچھا تو انہوں نے کہا: مروان نے ہم سے کچھ ایسی چیزوں کے متعلق پوچھا جو ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا تھا: ”جس کو دنیا کی فکر لگی ہو تو اللہ تعالیٰ اس پر اس کے معاملات کو پراگندہ کر دے گا، اور محتاجی کو اس کی نگاہوں کے سامنے کر دے گا، جب اس کو دنیا سے صرف وہی ملے گا جو اس کے حصے میں لکھ دیا گیا ہے، اور جس کا مقصود آخرت ہو تو اللہ تعالیٰ اس کے معاملات کو ٹھیک کر دے گا، اس کے دل کو بے نیازی عطا کرے گا، اور دنیا اس کے پاس ناک رگڑتی ہوئی آئے گی“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3695، ومصباح الزجاجة: 1454) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4105 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4105
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جو شخص دنیاوی مال و دولت اور جاہ وحشمت کا طالب اور حریص ہوتا ہے وہ دنیا کے لیے بہت محنت کرتا ہے۔
اسى جتنی بھی دولت ملے مزید کی حرص کی وجہ سے وہ مطمئن نہیں ہوتا اس لیے مفلس آدمی کی طرح پریشان رہتا ہے۔
(2)
حریص آدمی دنیا کمانے کے لیے کئی پروگرام شروع کرتا ہےاور چاہتا ہے کہ ہر ایک پر پوری توجہ دے اور اسے جلد سے جلد اس کی کوشش کے نتائج حاصل ہوں لیکن فطری طور پر انسان کئی امور کی طرف بیک وقت برابر توجہ نہیں دے سکتا لہٰذا اسے اس کی حرص کے مطابق نتائج حاصل نہیں ہوتے۔
اس طرح وہ دولت حاصل ہونے کے باوجود پریشان رہتا ہے۔
(3)
آخرت کی طرف توجہ کرنے سے دنیا کی اہمیت کم ہوجاتی ہے لہٰذا قناعت کی دولت حاصل ہوجاتی ہےاور بندہ مطمئن اور خوش کن زندگی گزارتا ہے۔
(4)
آخرت کو مقصود بنا لینے سے دنیا کے معاملات میں بھی نطم وضبط پیدا ہوجاتا ہے جس سے کاروبار میں بہتر نتائج حاصل ہوتے ہیں اور رزق میں برکت ہوتی ہے۔
(5)
اللہ کی رضا کو مد نظر رکھنے والے کے دنیاوی معاملات بھی سلجھ جاتے ہیں اور حرص ختم ہوکر استغناء بھی پیدا ہوجاتا ہے۔
(6)
اللہ تعالی نے انسان کے لیے جو رزق مقدر کر رکھا ہے وہ حلال ذرائع اختیار کرنے سے بھی مل جاتا ہے لہٰذا ناجائز طریقے اختیار کرنے سے سوائے پریشانیوں کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4105