سنن ابن ماجه
كتاب الفتن
کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
30. بَابُ : جَيْشِ الْبَيْدَاءِ
باب: بیداء کے لشکر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4063
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ , عَنْ أُمَيَّةَ بْنِ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ , سَمِعَ جَدَّهُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ صَفْوَانَ , يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي حَفْصَةُ , أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" لَيَؤُمَّنَّ هَذَا الْبَيْتَ جَيْشٌ يَغْزُونَهُ , حَتَّى إِذَا كَانُوا بِبَيْدَاءَ مِنَ الْأَرْضِ , خُسِفَ بِأَوْسَطِهِمْ , وَيَتَنَادَى أَوَّلُهُمْ آخِرَهُمْ فَيُخْسَفُ بِهِمْ , فَلَا يَبْقَى مِنْهُمْ إِلَّا الشَّرِيدُ الَّذِي يُخْبِرُ عَنْهُمْ" , فَلَمَّا جَاءَ جَيْشُ الْحَجَّاجِ , ظَنَنَّا أَنَّهُمْ هُمْ , فَقَالَ رَجُلٌ: أَشْهَدُ عَلَيْكَ أَنَّكَ لَمْ تَكْذِبْ عَلَى حَفْصَةَ , وَأَنَّ حَفْصَةَ لَمْ تَكْذِبْ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مجھے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”ایک لشکر اس بیت اللہ کا قصد کرے گا تاکہ اہل مکہ سے لڑائی کرے، لیکن جب وہ لشکر مقام بیداء میں پہنچے گا تو اس کے درمیانی حصہ کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا، اور دھنستے وقت جو لوگ آگے ہوں گے وہ پیچھے والوں کو آواز دیں گے لیکن آواز دیتے دیتے سب دھنس جائیں گے، ایک قاصد کے علاوہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہے گا جو لوگوں کو جا کر خبر دے گا“۔ (عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں) جب حجاج (حجاج بن یوسف ثقفی) کا لشکر آیا (اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے لڑنے کے لیے مکہ کی طرف بڑھا) تو ہم سمجھے شاید وہ یہی لشکر ہو گا، ایک شخص نے (یہ سن کر) کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ نے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا پر جھوٹ نہیں باندھا، اور ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہما نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں باندھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/المناسک 112 (2882)، (تحفة الأشراف: 15799)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الفتن 2 (2883)، مسند احمد (6/286) (صحیح)»
وضاحت: ۱ ؎: یعنی حجاج بن یوسف کا لشکر اگرچہ وہ لشکر نہیں ہے کہ جس کا حدیث میں ذکر ہوا مگر وہ قیامت سے پہلے پہلے مکہ پر حملہ آور ضرور ہو گا، پھر ان کا ایک حصہ زمین میں دھنسایا بھی ضرور جائے گا اور وہ دجال کا لشکر ہو گا۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4063 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4063
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
حضرت عبداللہ بن صفوان رضی اللہ عنہ صغار صحابہ میں سے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے حامی تھے۔
حجاج بن یوسف کے حملے وقت کعبہ شریف کے غلاف کو پکڑے ہوئے شہید ہوئے۔
ان کے والد حضرت صفوان بن امیہ رضی اللہ عنہ بھی صحابی تھے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے قریب زمانہ میں فوت ہوئے۔ (تقریب التھذیب)
(2)
بیداء اس ہموار زمین کو کہتے ہیں جس میں کوئی چیز نہ اگتی ہو۔
مکہ شریف اور مدینہ شریف کے درمیان ایک مقام کا نام بھی بیداء ہے۔
حدیث میں غالباً دوسرے معنی مراد ہیں۔
(3)
یہ واقعہ قیامت کے قریب پیش آئے گا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4063
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2882
´حرم کی حرمت و تقدس کا بیان۔`
ام المؤمنین حفصہ بنت عمر رضی الله عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس حرم کی طرف ایک لشکر بھیجا جائے گا تو جب وہ سر زمین بیداء میں ہو گا تو ان کے شروع سے لے کر آخر تک سبھی لوگ دھنسا دئیے جائیں گے، درمیان کا بھی کوئی نہ بچے گا“، میں نے کہا: بتائیے اگر ان میں مسلمان بھی ہوں تو بھی؟ آپ نے فرمایا: ”ان کے لیے قبریں ہوں گی“ (اور اعمال صالحہ کی بنا پر اہل ایمان کو ان قبروں میں عذاب نہیں ہو گا)۔ [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2882]
اردو حاشہ:
(1) ”درمیان والے بھی نہیں بچ سکیں گے۔“ یعنی اول وآخر سے مراد سب کے سب ہیں، نہ کہ دو کنارے۔
(2) ”قبرستان بن جائے گا۔“ یعنی ہلاک تو مومن بھی ہو جائیں گے مگر انھیں عذاب نہیں ہوگا اور قیامت کے دن وہ ظاہراً بھی کافروں سے الگ کر لیے جائیں گے۔
(3) یہ روایت شواہد کی بنا پر صحیح ہے جیسا کہ محقق کتاب نے بھی سنداً ضعیف قرار دیتے ہوئے مزید لکھا ہے کہ آئندہ آنے والی روایت اس سے کفایت کرتی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2882
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2883
´حرم کی حرمت و تقدس کا بیان۔`
عبداللہ بن صفوان کہتے ہیں کہ مجھ سے ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”ایک لشکر اس گھر پر حملہ کرنا چاہے گا، اس کا قصد کرے گا یہاں تک کہ جب وہ سر زمین بیداء میں پہنچے گا، تو اس کا درمیانی حصہ دھنسا دیا جائے گا (ان کو دھنستا دیکھ کر) لشکر کا ابتدائی و آخری حصہ چیخ و پکار کرنے لگے گا، تو وہ بھی سب کے سب دھنسا دیے جائیں گے، اور کوئی نہیں بچے گا، سوائے ایک بھاگے ہوئے شخص کے جو ان کے متعلق خبر دے گا“، ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2883]
اردو حاشہ:
گویا حرم کی حرمت اللہ تعالیٰ قائم رکھے گا اور خدانخواستہ جب بیت اللہ کی حرمت قائم نہ رہے گی تو دنیا کا بھی خاتمہ کر دیا جائے گا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2883
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:288
فائدہ:
بیت اللہ کی حفاظت کی ذمہ داری اللہ تعالیٰ نے خود لی ہے، قیامت کے قریب بیت اللہ ویران ہو گا، اور آخر کار گرا دیا جائے گا، اور یہ قیامت کی علامات کبریٰ میں سے ہوگا۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 288