Note: Copy Text and Paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
82. بَابُ بَيْعِ الْمُزَابَنَةِ، وَهْيَ بَيْعُ الثَّمَرِ بِالتَّمْرِ وَبَيْعُ الزَّبِيبِ بِالْكَرْمِ وَبَيْعُ الْعَرَايَا:
باب: بیع مزابنہ کے بیان میں اور یہ خشک کھجور کی بیع درخت پر لگی ہوئی کھجور کے بدلے اور خشک انگور کی بیع تازہ انگور کے بدلے میں ہوتی ہے اور بیع عرایا کا بیان۔
حدیث نمبر: 2184
قَالَ سَالِمٌ: وَأَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَخَّصَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي بَيْعِ الْعَرِيَّةِ بِالرُّطَبِ أَوْ بِالتَّمْرِ، وَلَمْ يُرَخِّصْ فِي غَيْرِهِ.
سالم نے بیان کیا کہ مجھے عبداللہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی، اور انہیں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہ بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عریہ کی تر یا خشک کھجور کے بدلہ میں اجازت دے دی تھی لیکن اس کے سوا کسی صورت کی اجازت نہیں دی تھی۔
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2184 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2184  
حدیث حاشیہ:
اسی طرح تر کھجور خشک کھجور کے بدل برابر برابر بیچنا ناجائز ہے کیوں کہ تر کھجور سوکھے سے وزن میں کم ہو جاتی ہے، جمہور علماءکا یہی قول ہے۔
امام ابوحنیفہ ؒ نے اسے جائز رکھا ہے۔
عرایا عریہ کی جمع ہے۔
حنفیہ نے برخلاف جمہور علماءکے عرایا کو بھی جائز نہیں رکھا کیوں کہ وہ بھی مزابنہ میں داخل ہے اور ہم کہتے ہیں کہ جہاں مزابنہ کی ممانعت آئی ہے وہیں یہ مذکور ہے کہ آنحضرت ﷺ نے عرایا کی اجازت دے دی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2184