سنن ابن ماجه
كتاب الفتن
کتاب: فتنوں سے متعلق احکام و مسائل
23. بَابُ : الصَّبْرِ عَلَى الْبَلاَءِ
باب: آفات و مصائب پر صبر کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4030
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ , حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ بَشِيرٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ مُجَاهِدٍ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَنَّهُ لَيْلَةَ أُسْرِيَ بِهِ وَجَدَ رِيحًا طَيِّبَةً , فَقَالَ:" يَا جِبْرِيلُ , مَا هَذِهِ الرِّيحُ الطَّيِّبَةُ" , قَالَ: هَذِهِ رِيحُ قَبْرِ الْمَاشِطَةِ وَابْنَيْهَا وَزَوْجِهَا , قَالَ: وَكَانَ بَدْءُ ذَلِكَ , أَنَّ الْخَضِرَ كَانَ مِنْ أَشْرَافِ بَنِي إِسْرَائِيلَ , وَكَانَ مَمَرُّهُ بِرَاهِبٍ فِي صَوْمَعَتِهِ فَيَطَّلِعُ عَلَيْهِ الرَّاهِبُ فَيُعَلِّمُهُ الْإِسْلَامَ , فَلَمَّا بَلَغَ الْخَضِرُ زَوَّجَهُ أَبُوهُ امْرَأَةً , فَعَلَّمَهَا الْخَضِرُ وَأَخَذَ عَلَيْهَا أَنْ لَا تُعْلِمَهُ أَحَدًا , وَكَانَ لَا يَقْرَبُ النِّسَاءَ فَطَلَّقَهَا ثُمَّ زَوَّجَهُ أَبُوهُ أُخْرَى , فَعَلَّمَهَا وَأَخَذَ عَلَيْهَا أَنْ لَا تُعْلِمَهُ أَحَدًا , فَكَتَمَتْ إِحْدَاهُمَا , وَأَفْشَتْ عَلَيْهِ الْأُخْرَى , فَانْطَلَقَ هَارِبًا حَتَّى أَتَى جَزِيرَةً فِي الْبَحْرِ , فَأَقْبَلَ رَجُلَانِ يَحْتَطِبَانِ فَرَأَيَاهُ , فَكَتَمَ أَحَدُهُمَا وَأَفْشَى الْآخَرُ , وَقَالَ: قَدْ رَأَيْتُ الْخَضِرَ , فَقِيلَ: وَمَنْ رَآهُ مَعَكَ؟ قَالَ: فُلَانٌ: فَسُئِلَ فَكَتَمَ , وَكَانَ فِي دِينِهِمْ أَنَّ مَنْ كَذَبَ قُتِلَ , قَالَ: فَتَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ الْكَاتِمَةَ , فَبَيْنَمَا هِيَ تَمْشُطُ ابْنَةَ فِرْعَوْنَ إِذْ سَقَطَ الْمُشْطُ , فَقَالَتْ: تَعِسَ فِرْعَوْنُ , فَأَخْبَرَتْ أَبَاهَا , وَكَانَ لِلْمَرْأَةِ ابْنَانِ وَزَوْجٌ , فَأَرْسَلَ إِلَيْهِمْ فَرَاوَدَ الْمَرْأَةَ وَزَوْجَهَا أَنْ يَرْجِعَا عَنْ دِينِهِمَا فَأَبَيَا , فَقَالَ: إِنِّي قَاتِلُكُمَا , فَقَالَا: إِحْسَانًا مِنْكَ إِلَيْنَا إِنْ قَتَلْتَنَا أَنْ تَجْعَلَنَا فِي بَيْتٍ , فَفَعَلَ , فَلَمَّا أُسْرِيَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ رِيحًا طَيِّبَةً فَسَأَلَ جِبْرِيلَ فَأَخْبَرَهُ.
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معراج کی رات ایک خوشبو محسوس کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جبرائیل! یہ کیسی خوشبو ہے“؟، انہوں نے کہا: یہ اس عورت کی قبر کی خوشبو ہے جو فرعون کی بیٹی کو کنگھی کرتی تھی، اور اس کے دونوں بیٹوں اور شوہر کے قبر کی خوشبو ہے، (جنہیں ایمان لانے کی وجہ سے فرعون نے قتل کر دیا تھا) اور ان کے قصے کی ابتداء اس طرح ہے کہ خضر بنی اسرائیل کے شریف لوگوں میں تھے، ان کا گزر ایک (راہب) درویش کے عبادت خانے سے ہوتا تو وہ عابد راہب اوپر سے ان کو جھانکتا، اور ان کو اسلام کی تعلیم دیتا، آخر کار جب خضر جوان ہوئے تو ان کے والد نے ایک عورت سے ان کا نکاح کر دیا، خضر نے اس عورت کو اسلام کی تعلیم دی، اور اس سے عہد لے لیا کہ اس بات سے کسی کو باخبر مت کرنا، خضر عورتوں کے قریب نہیں جاتے تھے، آخر انہوں نے اس عورت کو طلاق دے دی، اس کے بعد ان کے والد نے ان کا نکاح دوسری عورت سے کر دیا، خضر نے اس سے بھی نہ بتانے کا عہد لے کر اسے دین کی تعلیم دی، لیکن ان میں سے ایک عورت نے اس راز کو چھپا لیا، اور دوسری نے ظاہر کر دیا (کہ یہ دین کی تعلیم اسے خضر نے سکھائی ہے، فرعون نے ان کی گرفتاری کا حکم دیا یہ سنتے ہی) وہ فرار ہو کر سمندر کے ایک جزیرہ میں چھپ گئے، وہاں دو شخص لکڑیاں چننے کے لیے آئے، اور ان دونوں نے خضر کو دیکھا، ان میں سے بھی ایک نے تو ان کا حال پوشیدہ رکھا، اور دوسرے نے ظاہر کر دیا اور کہا: میں نے خضر کو فلاں جزیرے میں دیکھا ہے، لوگوں نے اس سے پوچھا کہ کیا تمہارے ساتھ اور کسی شخص نے دیکھا ہے؟ اس نے کہا: فلاں شخص نے بھی دیکھا ہے، جب اس شخص سے سوال کیا گیا تو اس نے چھپایا، اور ان کا طریقہ یہ تھا کہ جو جھوٹ بولے، اسے قتل کر دیا جائے، الغرض اس شخص نے اس عورت سے نکاح کر لیا، جس نے اپنا دین چھپایا تھا، (اور خضر کا نام نہیں بتایا تھا)، اسی دوران کہ یہ عورت فرعون کی بیٹی کے سر میں کنگھی کر رہی تھی، اتنے میں اس کے ہاتھ سے کنگھی گر پڑی اور اس کی زبان سے بے اختیار نکل گیا کہ فرعون تباہ و برباد ہو (اپنی بے دینی کی وجہ سے) بیٹی نے یہ کلمہ اس کی زبان سے سن کر اسے اپنے باپ کو بتا دیا، اور اس عورت کے دو بیٹے تھے، اور ایک شوہر تھا، فرعون نے ان سبھوں کو بلا بھیجا، اور عورت اور اس کے شوہر کو دین اسلام چھوڑ کر اپنے دین میں آنے کے لیے پھسلایا، ان دونوں نے انکار کیا، تو اس نے کہا: میں تم دونوں کو قتل کر دوں گا، ان دونوں نے جواب دیا: اگر تم ہمیں قتل کرنا چاہتے ہو تو ہم پر اتنا احسان کرنا کہ ہمیں ایک ہی قبر میں دفن کر دینا، چنانچہ فرعون نے ایسا ہی کیا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسراء کی رات میں خوشبو محسوس کی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائیل سے پوچھا تو انہوں نے آپ کو بتلایا کہ یہ انہیں لوگوں کی قبر ہے (جس سے یہ خوشبو آ رہی ہے)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 50، ومصباح الزجاجة: 1420) (ضعیف)» (یہ سند ضعیف ہے، اس لئے کہ اس میں سعید بن بشیر ضعیف راوی ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
سعيد بن بشير: ضعيف
وقتادة عنعن
ولبعض الحديث شاهد عند أحمد (309/1،310) وسنده حسن
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 520
هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ قَالَ:
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4030 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4030
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
یہ روایت سنداً ضعیف ہے لیکن اس کا ایک شاہد ہے جس سے اس روایت کو کچھ تقویت مل جاتی ہے اس لیے اس میں ماشطہ اس کے خاوند اور بیٹی کی حد تک بات صحیح ہے باقی تفصیلات غیر صحیح ہیں نیز ہمارے فاضل محقق اس کی بابت لکھتے ہیں کہ مذکورہ روایت سنداً ضعیف ہے تاہم اس کا ایک شاہد مسند احمد میں حسن درجے کا ہے جو کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے لیکن دونوں احادیث کے الفاظ میں خاصا اختلاف ہے البتہ مسند احمد کی روایت میں (كان بدء ذلك ان الخضر۔
۔
۔
۔)
والا جملہ منکرہے۔
مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: (الإسراء والمعراج للألباني)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4030