صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
79. بَابُ بَيْعِ الدِّينَارِ بِالدِّينَارِ نَسْأً:
باب: اشرفی اشرفی کے بدلے ادھار بیچنا۔
حدیث نمبر: 2179
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ دِينَارٍ، أَنَّ أَبَا صَالِحٍ الزَّيَّاتَ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: الدِّينَارُ بِالدِّينَارِ، وَالدِّرْهَمُ بِالدِّرْهَمِ، فَقُلْتُ لَهُ: فَإِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ لَا يَقُولُهُ، فَقَالَ أَبُو سَعِيدٍ: سَأَلْتُهُ، فَقُلْتُ: سَمِعْتَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَوْ وَجَدْتَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ، قَالَ: كُلَّ ذَلِكَ لَا أَقُولُ، وَأَنْتُمْ أَعْلَمُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنِّي، وَلَكِنْ أَخْبَرَنِي أُسَامَةُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا رِبًا إِلَّا فِي النَّسِيئَةِ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ضحاک بن مخلد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، کہا کہ مجھے عمرو بن دینار نے خبر دی، انہیں ابوصالح زیات نے خبر دی، اور انہوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا کہ دینار، دینار کے بدلے میں اور درہم، درہم کے بدلے میں (بیچا جا سکتا ہے) اس پر میں نے ان سے کہا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما تو اس کی اجازت نہیں دیتے۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ پھر میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس کے متعلق پوچھا کہ آپ نے یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا تھا یا کتاب اللہ میں آپ نے اسے پایا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ان میں سے کسی بات کا میں دعویدار نہیں ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی احادیث) کو آپ لوگ مجھ سے زیادہ جانتے ہیں۔ البتہ مجھے اسامہ رضی اللہ عنہ نے خبر دی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (مذکورہ صورتوں میں) سود صرف ادھار کی صورت میں ہوتا ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2179 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2179
حدیث حاشیہ:
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا مذہب یہ ہے کہ بیاج اس صورت میں ہوتا ہے جب ایک طرف ادھار ہو۔
اگر نقد ایک درہم دو درہم کے بدلے میں بیچے تو یہ درست ہے۔
ابن عباس ؓ کی دلیل یہ حدیث ہے:
لا رِبَا إلَّا في النَّسِيئَةِ. حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے اس فتوی پر جب اعتراضات ہوئے تو انہوں نے کہا میں یہ نہیں کہتا کہ اللہ کی کتاب میں میں نے یہ مسئلہ پایا ہے، نہ یہ کہتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ سے سنا ہے۔
کیو نکہ میں اس زمانہ میں بچہ تھا اور تم جوان تھے۔
رات دن آپ کی صحبت بابرکت میں رہا کرتے تھے۔
قسطلانی ؒ نے کہا کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کے فتوے کے خلاف اب اجماع ہو گیا ہے۔
بعض نے کہا کہ یہ محمول ہے اس پر جب جنس مختلف ہوں۔
جیسے ایک طرف چاندی دوسری طرف سونا، یا ایک طرف گیہوں اور دوسری طرف جوار ہو ایسی حالت میں کمی بیشی درست ہے۔
بعض نے کہ حدیث لا رِبَا إلَّا في النَّسِيئَةِ. منسوخ ہے مگر صرف احتمال سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔
صحیح مسلم میں ابن عباس ؓ سے مروی ہے کہ نہیں ہے بیاج اس بیع میں جو ہاتھوں ہاتھ ہو۔
بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اس قول سے رجوع کر لیا تھا۔
امام شوکانی فرماتے ہیں:
و قد روی الحازمي رجوع ابن عباس و استغفارہ عندما سمع عمر بن الخطاب و ابنه عبداللہ یحدثان عن رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم بما یدل علی تحریم ربواالفضل و قال حفظتما من رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ما لم أحفظ و روی عنه الحازمي أیضاً أنه قال کان ذلك برأي و هذا أبوسعید الخدري یحدثني عن رسول اللہ ﷺ فترکت رأيي إلی حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم الخ یعنی حازمی نے حضرت ابن عباس ؓ کا اس سے رجوع اور استغفار نقل کیا ہے جب انہوں نے حضرت عمر بن خطاب ؓ اور ان کے بیٹے سے اس بیع کی حرمت میں فرمان رسالت سنا تو افسوس کے طور پر کہا کہ آپ لوگوں نے فرمان رسالت یاد رکھا، لیکن افسوس کہ میں یاد نہ رکھ سکا۔
اور بروایت حازمی انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے جو کہا تھا وہ صرف میری رائے تھے، اور میں نے حضرت ابوسعید خدری ؓ سے حدیث نبوی سن کر اپنی رائے کو چھوڑ دیا۔
دیانتداری کا تقاضا بھی یہی ہے کہ جب قرآن وحدیث کے نصوص صریحہ سامنے آجائیں تو کسی بھی رائے اور قیاس کو حجت نہ گردانا جائے اور کتاب و سنت کو مقدم رکھا جائے حتی کہ جلیل القدر ائمہ دین کی آراءبھی نصوص صریحہ کے خلاف نظر آئیں تو نہایت ہی ادب و احترام کے ساتھ آراءکے مقابلہ میں کتاب و سنت کو جگہ دی جائے۔
ائمہ اسلام حضرت امام ابوحنیفہ و اما م شافعی و امام مالک وامام احمد بن حنبل ؒ سب کا یہی ارشاد ہے کہ ہمارے فتاوے کو کتاب و سنت پر پیش کرو، موافق ہوں توقبول کرو۔
اگر خلاف نظر آئیں تو کتاب و سنت کو مقدم رکھو۔
امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اپنی جلیل القدر کتاب حجۃ اللہ البالغہ میں ایسے ارشادات ائمہ کو کئی جگہ نقل فرمایا مگر صد افسوس کہ امت کا کثیر طبقہ وہ ہے جو اپنے اپنے حلقہ ارادت میں جمود کا سختی سے شکار ہے اور وہ اپنے اپنے مزعومہ مسلک کے خلاف قرآن مجید کی کسی آیت یا کسی بھی صاف صریح حدیث نبوی کو ماننے کے لیے تیار نہیں۔
حضرت حالی مرحوم نے ایسے ہی لوگوں کے حق میں فرمایا ہے:
سدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے حدیثوں پہ چلنے میں دیں کا خلل ہے فتاووں پہ بالکل مدار عمل ہے ہر اک رائے قرآں کا نعم البدل ہے نہ ایمان باقی نہ اسلام باقی فقط رہ گیا نام اسلام باقی
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2179
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2179
حدیث حاشیہ:
جب ایک جنس کا باہمی تبادلہ ہوتو برابر، برابر اور نقد بنقد ہونا چاہیے، لیکن حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کا موقف تھا کہ دست بدست ایک دینار کو دو دینار کے عوض فروخت کیا جاسکتا ہے۔
ان کے نزدیک سود صرف اس صورت میں تھا جب ایک طرف سے ادھا رہو۔
جب حضرت ابو سعید خدری ؓ کی ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے فرمایا:
ابن عباس! تمھیں اللہ سے ڈرنا چاہیے۔
کب تک لوگوں کو سود کھلاتے رہو گے؟پھر انھوں نے یہ حدیث بیان کی کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
” کھجور کے بدلے کھجور، گندم کے بدلے گندم، جوکے بدلے جو، سونے کے بدلے سونااور چاندی کے بدلے چاندی فروخت کرنا جائز ہے جب برابر برابر اور دست بدست ہو،جس نے زیادہ وصول کیا اس نے سود لیا“ اس حدیث نبوی کو سن کر حضرت ابن عباس ؓ نے کہا:
ابو سعید!اللہ تعالیٰ آپ کو جنت عطا فرمائے! آپ نے مجھے ایسا کام یاد دلادیا ہے جسے میں فراموش کرچکاتھا۔
میں اللہ سے معافی مانگتا ہوں اور اس کی طرف رجوع کرتا ہوں۔
اس کے بعد حضرت ابن عباس ؓ بہت سختی سے منع کرتے تھے۔
(المستدرك للحاکم: 43/2)
چونکہ حضرت ابن عباس ؓ کا موقف دیگر صحیح احادیث کے خلاف تھا، انھوں نے اپنے موقف سے رجوع کرلیا، البتہ حضرت ابن عباس ؓ سے مروی حدیث بھی صحیح ہے۔
اس کی حسب ذیل تاویلات کی گئی ہیں:
٭ اس سود سے زیادہ سنگین کوئی نہیں جو ادھار میں ہے۔
٭اس سے مختلف اجناس کا باہمی تبادلہ مراد ہے کہ وہاں سود صرف ادھار میں ہوتا ہے،اس میں کمی بیشی جائز ہوتی ہے۔
والله أعلم.
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2179
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4584
´چاندی سونے سے اور سونا چاندی سے بیچنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سود تو صرف ادھار میں ہے“ ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4584]
اردو حاشہ:
یاد رہے یہ تب ہے جب دونوں طرف جنس مختلف ہو، مثلاً: سونا چاندی کے بدلے یا چاندی سونے کے بدلے ورنہ اگر جنس ایک ہو تو کمی بیشی بھی سود ہے جیسا کہ روایات میں صراحتاً ثابت ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4584
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4585
´چاندی سونے سے اور سونا چاندی سے بیچنے کا بیان۔`
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ جو یہ باتیں کہتے ہیں، کیا آپ نے انہیں کتاب اللہ (قرآن) میں پایا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہ تو میں نے انہیں کتاب اللہ (قرآن) میں پایا ہے اور نہ ہی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، لیکن اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سود تو صرف ادھار میں ہے۔ [سنن نسائي/كتاب البيوع/حدیث: 4585]
اردو حاشہ:
(1) چاندی کو سونے کے عوض یا سونے کو چاندی کے عوض خریدا بیچا جا سکتا ہے بشرطیکہ فریقین (دونوں) کی طرف سے نقد ادائیگی ہو۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عالم دین کو، دینی مسئلے کی بابت دوسرے عالم دین سے دلیل کے ساتھ بات کرنی چاہیے اور ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ عالم دین سے معلوم کرے کہ آپ نے جو مسئلہ بیان فرمایا ہے یہ قرآن مجید میں ہے یا حدیث رسول سے ثابت ہے (کیونکہ احکام شریعت کا اصل ماخذ قرآن وسنت ہے)۔ مزید برآں مسئول عنہ (جس سے ایسا سوال کیا جائے) کو اس قسم کے سوال، یعنی دلیل طلب کرنے کو اپنی ”شان میں گستاخی“ نہیں سمجھنا چاہیے بلکہ بلا تاخیر جواب دے دینا چاہیے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پوچھنے پر سیدنا عبداللہ بن عباسؓ نے فوراً جواب دیا کہ مجھے اسامہ بن زیدؓ نے یہ خبر دی ہے۔
(3) یہ حدیث مبارکہ اس بات کی طرف رہنمائی کرتی ہے کہ عالم دین کا فرض ہے کہ وہ اجتماعیت سے ہٹے ہوئے شخص کو اجتماعیت کی طرف لائے اور یہ فریضہ کتاب وسنت کے دلائل کے ذریعے سے سرانجام دیا جانا چاہیے۔
(4) ”یہ جو آپ کہہ رہے ہیں“ دراصل حضرت ابن عباسؓ کو حضرت اسامہ بن زیدؓ کی روایت سے یہ غلط فہمی ہوگئی تھی کہ سونے کو سونے کے بدلے اور چاندی کو چاندی کے بدلے کم و بیش بھی خریدا بیچا جا سکتا ہے، بشرطیکہ ادھار نہ ہو، حالانکہ یہ حدیث ایک مخصوص صورت کے بارے میں ہے، یعنی جب طرفین کی جنس مختلف ہو، مثلاً: چاندی سونے کے بدلے ہو جیسا کہ اس کی طرف اوپر والی حدیث(4584) میں اشارہ ہو چکا ہے۔ کسی ایک روایت سے ایسے معنیٰ اخذ نہیں کیے جا سکتے جو دیگر صریح، مفصل اور کثیر روایات کے خلاف ہوں۔ بعض احادیث مختصر ہوتی ہیں۔ ان کے معنیٰ سمجھنے کے لیے دیگر تفصیلی روایات کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4585
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4089
امام صاحب اپنے چار اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، الفاظ عمرو کے ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ مجھے اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ نے خبر دی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سود صرف ادھار میں ہے۔“ [صحيح مسلم، حديث نمبر:4089]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قرآن مجید میں جس ربا (سود)
سے شدید وعید کے ساتھ روکا گیا ہے،
اس کا تعلق صرف ربا النسيئه سے ہے،
ربا الفضل سے نہیں ہے،
یا ظاہریہ کے موقف کے مطابق ربا الفضل کا تعلق صرف حدیث میں بیان کردہ چھ اشیاء سے ہے،
باقی اشیاء میں کمی و بیشی جائز ہے،
صرف ادھار ناجائز ہے،
لیکن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کو عام خیال کیا،
اس لیے ایک جنس کی صورت میں بھی تفاضل کو جائز قرار دیا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4089