سنن ابن ماجه
كتاب الأدب
کتاب: اسلامی آداب و اخلاق
56. بَابُ : فَضْلِ التَّسْبِيحِ
باب: تسبیح (سبحان اللہ) کہنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 3806
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ , وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ , عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ , عَنْ أَبِي زُرْعَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَلِمَتَانِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ , ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ , حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ , سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ , سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو کلمے زبان پر بہت ہلکے ہیں ۱؎، اور میزان میں بہت بھاری ہیں، اور رحمن کو بہت پسند ہیں (وہ دو کلمے یہ ہیں) «سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم» ”اللہ (ہر عیب و نقص سے) پاک ہے اور ہم اس کی تعریف بیان کرتے ہیں، عظیم (عظمت والا) اللہ (ہر عیب و نقص) سے پاک ہے)“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الدعوات 65 (6406)، التوحید 57 (7563)، صحیح مسلم/الذکر والدعاء 10 (2694)، سنن الترمذی/الدعوات 60 (3467)، (تحفة الأشراف: 14899)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/232) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ بہت مختصر کلمے ہیں اور ان کا پڑھنا بھی سہل ہے، آدمی کو چاہیے کہ ہر وقت ان کلموں کو پڑھے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3806 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3806
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
قیامت کے دن اعمال کا وزن ہوگا۔
(2)
اللہ کا ذکر بھی ایک نیک عمل ہے، اس کا بھی وزن ہوگا۔
(3)
اعمال کے وزن کا دارومدار خلوص نیت اور اتباع سنت پر ہے۔
سنت کے مطابق خلوص سے کیا ہوا تھوڑا سا عمل بھی زیادہ وزنی ہوگا لیکن خلوص کے بغیر یا سنت کے خلاف کیا ہوا زیادہ عمل بھی بے وزن ہوگا۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿وَقَدِمنا إِلىٰ ما عَمِلوا مِن عَمَلٍ فَجَعَلناهُ هَباءً مَنثورًا﴾ (الفرقان 25: 23)
”اور انہوں نے جو (بظاہر نیک)
اعمال کیے ہوں گے، ہم ان کی طرف متوجہ ہو کر انہیں پرا گندہ غبار کی طرح کر دیں گے۔“
(4)
مذکورہ بالا ذکر زیادہ سے زیادہ کرنا چا ہیے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3806
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 7563
´اللہ تعالیٰ کا (سورۃ انبیاء میں) فرمان ”اور قیامت کے دن ہم ٹھیک ترازوئیں رکھیں گے“`
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَلِمَتَانِ حَبِيبَتَانِ إِلَى الرَّحْمَنِ خَفِيفَتَانِ عَلَى اللِّسَانِ، ثَقِيلَتَانِ فِي الْمِيزَانِ، سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ، سُبْحَانَ اللَّهِ الْعَظِيمِ . . .»
”. . . ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو کلمے ایسے ہیں جو اللہ تبارک و تعالیٰ کو بہت ہی پسند ہیں جو زبان پر ہلکے ہیں اور قیامت کے دن اعمال کے ترازو میں بوجھل اور باوزن ہوں گے، وہ کلمات مبارکہ یہ ہیں «سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم» ۔“ [صحيح البخاري/كِتَاب التَّوْحِيدِ: 7563]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 7563 کا باب: «بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ}:»
باب اور حدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس کتاب «الجامع الصحيح» میں عجیب عجیب لطائف کے نظارے کروائے ہیں، عجیب عجیب طریقے سے استنباط اور اجتہاد کے دروازے کھولے ہیں، امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلی حدیث جو کتاب الوحی میں ذکر فرمائی ہے اس میں «إنما الأعمال بالنيات» کو درج فرمایا، تاکہ پڑھنے والا اپنی نیت کو درست کر لے اور یہ ثابت فرمایا کہ ہر عمل کی قبولیت نیت سے ہوا کرتی ہے اور اس کو ثواب بھی اس کی نیت کے موافق ملے گا، پہلی حدیث کی سند میں پہلے اس راوی کو چنا جو قریشی ہے اور امی خدیجہ رضی اللہ عنہا کی نسبت سے تعلق رکھتا ہے، اور سند میں سارے راوی شروع میں مکی ہیں اور مکی کے بعد مدنی ہیں۔ یہاں پر امام بخاری رحمہ اللہ کی غرض یہ ہے کہ دین اسلام مکہ سے شروع ہوا اور مدینہ پہنچا، اس کے بعد ساری دنیا میں، یہاں تک کہ عجم تک پہنچا، اسی لیے مندرجہ بالا آخری حدیث «كلماتان حبيبتان» میں بعض راوی عجمی ہیں، دوسرا تعلق یہ ہے کہ انسان کی راہنمائی کی ابتداء وحی کے ذریعہ ہے اسی لیے کتاب الوحی کا ذکر فرمایا ہے، اور تمام اعمال کرنے کے بعد موت کا معاملہ ہے، اور اعمال کی اصل شرط قبولیت عقیدہ توحید ہے، لہذا آخری میں کتاب التوحید کا ذکر فرمایا، اور آخری امتحان ترازو کا ہے اسی لیے آخری حدیث ترازو کے متعلق قائم فرمائی ہے۔
اس حوالے سے ایک اور نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے پہلی حدیث «إنما الأعمال بالنيات» ذکر فرمائی ہے اور آخری حدیث «كلمتان حبيبتان» ذکر فرمائی، سند کے اعتبار سے یہ دونوں احادیث «غريب» ہیں، گویا امام بخاری رحمہ اللہ اس حدیث کی طرف اشارہ فرمارہے ہیں کہ «بداء الإسلام غريبًا و سيعود غريبًا كما بدأ . . . . .» گویا یہاں پر یہ مقصود ہے کہ ان دونوں ابواب میں جتنی احادیث ہیں سب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہیں۔
چنانچہ سراج الدین البلقینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«مناسبة أبواب صحيح البخاري الذى نقلته عنه فى أواخر المقدمة مما كان أصل العصمة أولاً و آخرًا هو توحيد الله فختم بكتاب التوحيد.» [فتح الباري لابن حجر: 662/14]
”یعنی شیخ سراج الدین بلقینی رحمہ اللہ نے کہا کہ صحیح بخاری کے ابواب کی مناسبت جسے میں نے اپنے اواخر مقدمہ میں لکھا ہے کہ ان میں اول و آخر عصمت (پاکیزگی) کو ملحوظ رکھا گیا ہے جس کی اصل اللہ کی توحید ہے، اسی لیے آپ نے کتاب کو کتاب التوحید پر ختم کیا ہے اور آخر امر جس سے ناجی و غیر ناجی میں فرق ہو گا، وہ روز حشر میں میزان کا بھاری اور ہلکا ہونا ہے، اس کو اسی لیے کتاب کا آخری باب قرار دیا ہے، پس «إنما الأعمال بالنيات» سے کتاب کو شروع فرمایا اور نیتوں کا تعلق دنیا سے ہے اور اس پر ختم کیا کہ اعمال قیامت کے دن وزن کیے جائیں گے، اس میں ادھر اشارہ ہے کہ وہی اعمال خیر میزان حشر میں وزنی ہوں گے جو خالص نیت کے ساتھ رضائے الٰہی کے لیے کیے گئے ہوں گے، اور حدیث جو اس باب کے تحت مذکور ہوئی، اس میں ترغیب اور تخفیف بھی ہے۔“
لہذا ترجمۃ الباب سے حدیث کی مناسبت اس طرح ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے تحت الباب جس حدیث کو پیش فرمایا ہے اس میں میزان کا ذکر ہے، لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«أن البخاري قصد ختم كتابه ”الجامع الصحيح“ بما دلّ على الوزن، لأنه آخر أثار التكليف، فإنه ليس بعد الوزن إلا الاستقرار فى أحد الدارين، إلى أن يريد الله إخراج من قضىٰ بتعزيبه من الموحّدين، فيخرجون من النار بالشفاعة.» [فتح الباري لابن حجر: 460/14]
”یعنی امام بخاری رحمہ اللہ نے قصد فرمایا کہ اپنی صحیح بخاری کو اس مقام پر ختم کریں جہاں وزن کی دلالت ہو، کیوں کہ آخری تکلیف وزن ہی کی ہے، وزن کے قائم ہونے کے بعد صرف استقرار ہو گا دو جگہوں میں سے ایک جگہ پر۔ پس جسے اللہ تعالیٰ عذاب سے نکالنا چاہے گا موحدین کو تو انہیں آگ کے عذاب سے شفاعت کے ذریعے نکال دیا جائے گا۔“
عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 328
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1358
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” دو کلمے ہیں جو رحمن کو بڑے پیارے ہیں۔ زبان پر ہلکے ہیں۔ ترازو میں بھاری ہیں، (وہ یہ ہیں) «سبحان الله وبحمده، سبحان الله العظيم» اللہ پاک ہے، ساتھ اپنی تعریف کے، اللہ پاک ہے، عظمت والا۔“ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1358»
تخریج: «أخرجه البخاري، الدعوات، باب فضل التسبيح، حديث:6406، (7563 آخر البخاري)، ومسلم، الذكروالدعاء، باب فضل التهليل والتسبيح والدعاء، حديث:2694.»
تشریح:
1.مؤلف رحمہ اللہ نے اس کتاب کی ترتیب و تنسیق بہت خوبصورت اور حسین انداز میں کی ہے اور انھوں نے حمد اور تسبیح دونوں کو جمع کر دیا ہے اور وہ اس طرح کہ کتاب کا آغاز بسم اللّٰہ اور الحمدللّٰہ سے کیا اور اختتام تسبیح و تحمید اور تعظیم سے کیا۔
اور غالباً اسی وجہ سے مصنف نے احادیث کے حوالہ جات میں اپنی عام عادت کو چھوڑ کر نیا انداز اختیار کیا ہے۔
انھوں نے اس حدیث کے آخر میں
” متفق علیہ
“ کہنے کی بجائے شروع میں أَخْرَجَ الشَّیْخَان کہہ دیا تاکہ اس کتاب کے آخری الفاظ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہوں‘ یعنی
«سُبْحَانَ اللّٰہِ وَبِحَمْدِہٖ ‘ سُبْحَانَ اللّٰہِ الْعَظِیمِ» 2. اس حدیث میں دو کلموں کا ہلکا اور وزنی ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ زبان سے ان کا ادا کرنا سہل و آسان ہے۔
یہ کلمے بڑی آسانی سے ہر ایک کی زبان پر رواں ہو جاتے ہیں‘ کسی دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑتا کیونکہ ان میں حروف ثقیلہ کا استعمال نہیں ہوا۔
اور ان کے بھاری ہونے کے معنی یہ ہیں کہ جس طرح نیکی کے مشقت والے اعمال وزن میں بھاری ہوں گے اسی طرح یہ آسانی سے پڑھے جانے والے کلمات بھی میزان اعمال میں بھاری اور ثقیل ہوں گے۔
3.اس حدیث سے ثابت ہوا کہ قیامت کے روز اعمال کا جسم ہوگا اور انھیں تولا جائے گا۔
4.اس حدیث سے اللہ عزوجل کی وسعت رحمت کا بھی پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے نیک و مخلص بندوں کے تھوڑے اعمال کے بدلے میں بہت زیادہ اجر و ثواب عطا فرمائے گا۔
یہ محض اس کا فضل و کرم اور مہربانی ہے۔
اس کی رحمت ہر چیز پر حاوی ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1358
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6846
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" دو بول ہیں،زبان پر ہلکے ہوں گے۔ میزان اعمال میں بڑے بھاری اور رحمٰن کو بہت پیارے "سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم""میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں اس کی حمدو ستائش کے ساتھ میں اللہ کی پاکی بیان کرتا ہوں جو بڑی عظمت والا ہے۔ " [صحيح مسلم، حديث نمبر:6846]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
سبحان الله وبحمده کا معنی ہے کہ وہ ہر عیب و نقص سے منزہ اور پاک ہے اور ہر خوبی و کمال سے متصف ہے،
وہ ہر عیب سے پاک اور ہر کمال سے متصف ہونے کی بنا پر،
محبت کا حقدار ہے،
لیکن اس کے ساتھ ساتھ سبحان الله العظيم ہے،
عظمت و جلالت سے متصف ہے،
اس لیے اس کی نافرمانی اور عصیان سے بچنا چاہیے،
اس جامعیت کی بنا پر زبان سے آسانی اور سہولت کے ساتھ ادا ہونے کے باوجود یہ اللہ کو محبوب ہیں،
اس بنا پر یہ میزان اعمال میں بھاری ہیں اور اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے،
اعمال کا وزن ہو گا اور جس طرح مادی چیزیں ہلکی اور بھاری ہوتی ہیں اور ان کا وزن معلوم کرنے کے لیے آلات ہوتے ہیں،
اس طرح بہت سی غیر مادی چیزیں بھی ہلکی اور بھاری ہوتی ہیں،
جیسے حرارت و برودت،
یعنی گرمی اور ٹھنڈک،
اس طرح قیامت کے دن اعمال کا وزن ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6846
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6406
6406. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے پھلکے میزان میں بہت بھاری بھرکم اور رحمن کو بڑے ہی پیارے ہیں وہ سبحان اللہ العظیم اور سبحان اللہ وبحمدہ ہیں [صحيح بخاري، حديث نمبر:6406]
حدیث حاشیہ:
یہ تسبیح بھی بڑا وزن رکھتی ہے حضرت امام بخاری نے جامع الصحیح کو اس کلمہ پر ختم فرمایا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6406
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7563
7563. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو رحمان کو بہت پسند ہیں، زبان پر بڑے ہلکے پھلکے (لیکن قیامت کے دن) ترازو میں بہت بھاری ہوں گے۔ وہ یہ ہیں: (سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم) ”پاک ہے اللہ اپنی حمد کے ساتھ، پاک ہے اللہ جو بہت عظمت والا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7563]
حدیث حاشیہ:
كلماتان حبيبتان إلى الرحمن خفيفتان على اللسان ثقيلتان في الميزان سبحان الله وبحمده سبحان الله العظيم اس حدیث کو لاکر حضرت اما م بخاری نے ترازو کا اثبات کیا او رآخر میں اس حدیث کو ا س لیے بیان کیا کہ مومن کےمعاملات جودنیا سےمتعلق تھے وہ سب وزن اعمال پرختم ہوں گے اور ا س کے بعد یا دوزخ میں چند روز کے لیے جانا ہے یا بہشت میں ہمیشہ کےلیے رہنا۔
حضرت امام بخاری � کا کمال ہے کہ آ پ نے کتاب کو حدیث انماالأعمالُ بالنیاتِ سے شروع کیا اس لیے کہ ہرعمل کی مشروعیت نیت ہی سے ہوتی ہے اورنیت ہی پر ثواب ملتا ہے اور اس حدیث پر ختم کیا کیونکہ وزن اعمال کا انتہائی نتیجہ ہے۔
غرض حضرت امام بخاری نےاپنی کتا ب میں عجیب عجیب لطائف اورظرائف رکھے ہیں جو غورکے بعد آپ کی کمال عقل اور وفوفہم اور دقت نظر اور باریکی استنباط پر دلالت کرتے ہیں کوئی شک نہیں کہ حضرت امام بخاری کی یہ کتاب الجامع الصحیح بتلاتی ہے کہ وہ فن فقہ میں امام الفقہاء اور فن حدیث میں امیرالمؤمنین وسید المحدثین تھے۔
روایت اوردرایت ہر دو میں امام فن تھے۔
الجامع الصحیح کو کتاب التوحید پر ختم کرنا بھی حضرت امام کی دقت نظر ہے۔
پھر توحید کے ذیل میں اسماء وصفات الہی کا بیان کرنا اور معتزلہ وجہمیہ وقدریہ وغیرہ فرق باطلہ کا رد کرنا اس طرف اشارہ ہے کہ توحید کاعقیدہ اپنی وسعت کی لحاظ سےاز اول تا آخر مسلک سلف کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔
کتاب وسنت میں اللہ پاک کے لیے جو صفات مذکورہ ہوئی ہیں ان کو بغیر تاویل و تکییف بلاچوں وچرا تسلیم کرنا اقتضائے توحید ہے۔
مسئلہ استواء علی العرش نزو ل وصعود وکلام وسمع وبصرہ ویدوکف وساق وجہ ان سب کےلیے ایک ہی اصول مسلک سلف ہےکہ معناه معلوم وكيفيته مجهول والسوال عنه بدعة۔
الغرض کتاب التوحید پر الجامع الصحیح کوختم کرنا اورآخر میں الوزن يومئذن الحق کےتحت حدیث كلمتان حبيبتان الى الرحمن خفيفتان علي اللسان ثقيلتان فى الميزان الخ پر کتاب کاختم عقائد حقہ کی تکمیل پر لطیف اشارہ ہے۔
تعجب ہے دور حاضرہ کے ان محققین پرجن کی نگاہوں میں حضرت امام بخاری درایت حدیث سے محض کورے نظر آتے ہیں جو حضرت امام بخاری مجتہد مطلق تسلیم کرنےکے لیے تیار نہیں سچ ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7563
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6682
6682. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دو کلمے زبان پر ہلکے، ترازو میں وزنی اور اللہ کو بہت پیارے ہیں: ”وہ سبحانَ اللہ و بحمدِہ سبحانَ اللہ العظیمِ۔ ہیں۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6682]
حدیث حاشیہ:
ان کلمات کے منہ پر لانے سے قسم نہیں ٹوٹے گی۔
حضرت امام کا یہاں اس حدیث سے یہ مقصد ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6682
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6406
6406. حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں، آپ نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو زبان پر بہت ہلکے پھلکے میزان میں بہت بھاری بھرکم اور رحمن کو بڑے ہی پیارے ہیں وہ سبحان اللہ العظیم اور سبحان اللہ وبحمدہ ہیں [صحيح بخاري، حديث نمبر:6406]
حدیث حاشیہ:
(1)
زبان پر ہلکے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ آسانی سے ادا ہو جاتے ہیں۔
ان کا ترازو میں بھاری ہونا حقیقت پر مبنی ہے کیونکہ آخرت میں میزان میں اعمال کو تولنے کے لیے انہیں جسم دیا جائے گا، اس میزان کے دو بڑے پاٹ اور ایک ڈنڈی کا ذکر بھی احادیث میں ملتا ہے۔
(2)
سبحان اللہ کی تکرار سے اللہ تعالیٰ کی مطلق تنريه اور پاکی مطلوب ہے۔
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا کلام افضل ہے تو آپ نے فرمایا:
”جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں یا خاص بندوں کے لیے منتخب فرمایا، وہ سبحان الله و بحمده ہے۔
“ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 6925 (2731)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اس میں اشارہ فرشتوں کے درج ذیل قول کی طرف ہے:
”اے اللہ! ہم تیری حمد کے ساتھ تیری تسبیح بیان کرتے ہیں اور تیری پاکیزگی کا اظہار کرتے ہیں۔
“ (البقرة: 30، و فتح الباري: 248/11)
حضرت جویریہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر پڑھنے کے لیے ان کے پاس سے تشریف لے گئے جبکہ وہ اپنی جائے نماز پر بیٹھی ہوئی تھیں، پھر آپ چاشت کے وقت ان کے پاس تشریف لائے تو وہ اسی جگہ بیٹھی تھیں، آپ نے فرمایا:
”تم اسی حالت میں ہو جس حالت پر میں نے تمہیں چھوڑا تھا؟“ انہوں نے کہا:
جی ہاں! نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
”تمہارے ہاں سے جانے کے بعد میں نے چار کلمے تین بار کہے ہیں اگر ان کا وزن تمہارے کہے ہوئے کلمات سے کیا جائے تو وہ ان پر بھاری ہوں گے، وہ یہ ہیں:
(سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ عَدَدَ خَلْقِهِ، وَرِضَا نَفْسِهِ وَزِنَةَ عَرْشِهِ، وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ)
”پاک ہے اللہ تعالیٰ اپنی حمد کے ساتھ مخلوق کی تعداد، اپنے نفس کی رضا، اپنے عرش کے وزن اور اپنے کلمات کی سیاہی کے برابر۔
“ (صحیح مسلم، الذکر والدعاء، حدیث: 6913 (2726)
اس حدیث کی مزید تشریح صحیح بخاری کی آخری حدیث کے فوائد میں بیان ہو گی۔
بإذن اللہ تعالیٰ
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6406
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7563
7563. سیدنا ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: نبی ﷺ نے فرمایا: دو کلمے ایسے ہیں جو رحمان کو بہت پسند ہیں، زبان پر بڑے ہلکے پھلکے (لیکن قیامت کے دن) ترازو میں بہت بھاری ہوں گے۔ وہ یہ ہیں: (سبحان اللہ وبحمدہ سبحان اللہ العظیم) ”پاک ہے اللہ اپنی حمد کے ساتھ، پاک ہے اللہ جو بہت عظمت والا ہے۔“ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7563]
حدیث حاشیہ:
1۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس حدیث سے اصل مقصد یہ ہے کہ اولاد آدم علیہ السلام کے اعمال واقوال اللہ تعالیٰ کے پیدا کیے ہوئے ہیں اور انھی اقوال واعمال کو قیامت کے دن میزان عدل میں رکھا جائےگا، پھراس پر جزا وسزا مرتب ہوگی۔
اسی طرح قرآن کریم کی قراءت بھی انسان کا ذاتی عمل ہے۔
اگرچہ قرآن جو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے وہ غیر مخلوق ہے، تاہم انسانی نطق اور تلفظ غیر مخلوق نہیں بلکہ یہ بندے کا کسب اور اللہ تعالیٰ کا پیدا کیا ہوا ہے۔
اسی طرح تسبیح وتحمید اور دیگر اذکار واوراد بھی جب انسان کی زبان سے ادا ہوں گے تو انھیں ترازو میں تولا جائے گا تاکہ مقدار کے بجائے میعار کی اہمیت اجاگر کی جائے۔
چونکہ حدیث میں ہے کہ مجالس کو تسبیح سے ختم کیا جائے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی مجلس علم کو اللہ تعالیٰ کی تسبیح سے ختم کیا ہے۔
2۔
واضح رہے کہ دو گروہوں کے اعمال واقوال کا وزن نہیں کیا جائے گا:
ایک وہ کفار جن کی سرے سے کوئی نیکی نہ ہوگی۔
قرآن کریم میں ہے:
”یہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے رب کی آیات اور اس کی ملاقات کا انکار کیا، لہذا ان کے اعمال برباد ہوگئے، قیامت کے دن ہم ان کے لیے میزان ہی نہیں رکھیں گے۔
“ (الکهف: 105)
دوسرے وہ اہل ایمان جن کی برائیاں نہیں ہوں گی اور بے شمار نیکیاں لے کر اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوں گے، انھیں بھی حساب کتاب کے بغیر جنت میں داخل کردیا جائے گا۔
(صحیح البخاري، الرقاق، حدیث: 6541)
2۔
چونکہ انبیاء علیہم السلام کی دعوت کا محورتوحید باری تعالیٰ ہے، اس لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کبھی کتاب التوحید پر اپنی"الجامع الصحیح" کو ختم کیا ہے اور دنیا میں اخلاص نیت کے ساتھ اعمال کا اعتبار کیا جاتا ہے، اس لیے آپ نے حدیث (إنما الأعمالُ بالنياتِ)
سے اس کتاب کا آغاز فرمایا اور آخرت میں اعمال کا وزن کیا جائےگا اور اس پر کامیابی کا دارومدار ہوگا، اس لیے حدیث میزان کو آخر کتاب میں بیان فرمایا، نیز تنبیہ فرمائی کہ قیامت کے دن ایسے اعمال کا وزن ہوگا جو سنت کے مطابق اور اخلاص نیت پر مبنی ہوں گے اور ان کی بنیاد"حق" پر ہوگی۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا میں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے اور قیامت کے دن ہماری نیکیوں کا پلڑا بھاری کر دے۔
جس دن نہ مال کوئی فائدہ دے گا اور نہ اولاد کام آئے گی۔
الا یہ کہ قلب سلیم لے کر اللہ تعالیٰ کے ہاں حاضر ہو۔
سُبْحَانَكَ اللَّهُمَّ وبَحَمْدكَ أشْهدُ أنْ لا إلهَ إلا أنْتَ أَسْتَغْفِرُكَ وأتُوبُ إِلَيْكَ وصلی الله علی نبيه محمد صلی الله عليه وسلم وآله وأصحابه وأتباعه وإخوانه أجمعين
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7563
test
testing
۔۔۔، حدیث/صفحہ نمبر: 0