Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح البخاري
كِتَاب الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے مسائل کا بیان
68. بَابُ هَلْ يَبِيعُ حَاضِرٌ لِبَادٍ بِغَيْرِ أَجْرٍ وَهَلْ يُعِينُهُ أَوْ يَنْصَحُهُ:
باب: کیا کوئی شہری کسی دیہاتی کا سامان کسی اجرت کے بغیر بیچ سکتا ہے؟ اور کیا اس کی مدد یا اس کی خیر خواہی کر سکتا ہے؟
حدیث نمبر: 2157
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ، عَنْ قَيْسٍ، سَمِعْتُ جَرِيرًا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالسَّمْعِ، وَالطَّاعَةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، ان سے سفیان نے، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے، انہوں نے جریر رضی اللہ عنہ سے یہ سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کی شہادت پر کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے اور (اپنے مقررہ امیر کی بات) سننے اور اس کی اطاعت کرنے پر اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی بیعت کی تھی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»

صحیح بخاری کی حدیث نمبر 2157 کے فوائد و مسائل
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2157  
حدیث حاشیہ:
یہ حدیث کتاب الایمان میں بھی گزر چکی ہے۔
یہاں امام بخاری ؒ نے اس سے یہ نکالا کہ جب ہر مسلمان کی خیر خواہی کا اس میں حکم ہے تو اگر بستی والا باہر والے کا مال بلا اجرت بیچ دے اور اس کی خیرخواہی کرے تو ثواب ہوگا نہ کہ گناہ۔
اب اس حدیث کی تاویل یہ ہوگی جس میں اس کی ممانعت آئی ہے کہ ممانعت اس صورت میں ہے جب اجرت لے کر ایسا کرے۔
اور بستی والوں کو نقصان پہنچانے اور اپنا فائدہ کرنے کی نیت ہو، یہ ظاہر ہے کہ ناجائز ہے، إِنمَا الأعمالُ بِالنیاتِ، اور اگر محض خیر خواہی کے لیے ایسا کر رہا ہے تو جائز ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2157   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2157  
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے امام بخاری ؒ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ایک مسلمان کےلیے ضروری ہے کہ دوسرے مسلمان کی خیر خواہی کرے۔
اس خیر خواہی کا تقاضا ہے کہ وہ اجرت کے بغیر اس کی خریدوفروخت کرے۔
اس میں اخلاص اور اس کی مدد ہوگی جس کا رسول اللہ ﷺ نے حکم دیا ہے۔
(2)
ایک دیہاتی حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ کے پاس دودھ لے کر آیا تاکہ اسے فروخت کردے۔
انھوں نے فرمایا:
تم بازار جاؤ اور اپنے خریدار کو تلاش کرو۔
اس کے بعد میرے پاس آنا تاکہ تجھے اس سلسلے میں مفید مشورہ دوں۔
(سنن أبي داود، البیوع، حدیث: 3441)
اس روایت سے بھی خیر خواہی کے طور پر کسی دوسرے کے مال کو فروخت کرنے کا پتہ چلتا ہے۔
(فتح الباري: 468/4)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2157   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 57  
´الله کے لیے خیر خواہی`
«. . .قَالَ:" بَايَعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى إِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ . . .»
. . . انہوں نے کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ ادا کرنے اور ہر مسلمان کی خیر خواہی کرنے پر بیعت کی . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 57]
لغوی توضیح:
«النَّصَيْحَة» کا لغوی معنی ہے خالص ہونا۔ قرآن میں «تَوْبَةً نَّصُوْحًا» کا بھی یہی معنی ہے خالص توبہ۔‏‏‏‏ نھایہ میں ہے کہ نصیحت ایسا جامع لفظ ہے کہ اس میں جملہ امور خیر شامل ہیں۔ دین کو بھی نصیحت اسی لیے کہا گیا ہے کہ تمام دینی اعمال کا دارومدار خلوص اور کھوٹ سے پاک ہونے پر ہی ہے۔

فہم الحدیث:
ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: دین خیرخواہی کا نام ہے۔ صحابہ نے عرض کیا، یہ خیرخواہی کس کے لیے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الله کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، مسلمانوں کے آئمہ کے لیے اور عام مسلمانوں کے لیے۔ [مسلم: كتاب الايمان: باب بيان ان الدين النصيحة: 55، ابوداود: 4944، حميدى: 837]
الله کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ توحید کا راستہ اپنایا جائے اور شرک سے بچا جائے۔ اس کی کتاب کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اس کے اوامر پر عمل اور نواہی سے بچا جائے۔ اس کے رسول کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لایا جائے، اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے اور انہیں زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچایا جائے۔ حکمرانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ تمام امور خیر میں ان کی اطاعت کی جائے اور بلاعذر شرعی ان کے خلاف خروج نہ کیا جائے۔ اور عام مسلمانوں کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے، ان کی اصلاح و فلاح کی اور ان سے ہر قسم کا ضرر و نقصان دور کرنے کی کوشش کی جائے۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 35   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 58  
´اللہ اور رسول کی خیرخواہی`
«. . . فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا"، وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ . . .»
. . . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی (پس) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 58]
تشریح:
اللہ اور رسول کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی تعظیم کرے۔ زندگی بھر ان کی فرمانبرداری سے منہ نہ موڑے، اللہ کی کتاب کی اشاعت کرے، حدیث نبوی کو پھیلائے، ان کی اشاعت کرے اور اللہ و رسول کے خلاف کسی پیر و مرشد مجتہد امام مولوی کی بات ہرگز نہ مانے۔
ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار . . . مت دیکھ کسی کا قول و کردار
جب اصل ہے تو نقل کیا ہے . . . یاں وہم و خطا کا دخل کیا ہے

حضرت مغیرہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔ انہوں نے انتقال کے وقت حضرت جریر بن عبداللہ کو اپنا نائب بنا دیا تھا، اس لیے حضرت جریر نے ان کی وفات پر یہ خطبہ دیا اور لوگوں کو نصیحت کی کہ دوسرا حاکم آنے تک کوئی شر و فساد نہ کرو بلکہ صبر سے ان کا انتظار کرو۔ شر و فساد کوفہ والوں کی فطرت میں تھا، اس لیے آپ نے ان کو تنبیہ فرمائی۔ کہتے ہیں کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت مغیرہ کے بعد زیاد کو کوفہ کا حاکم مقرر کیا جو پہلے بصرہ کے گورنر تھے۔

حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب الایمان کو اس حدیث پر ختم کیا جس میں اشارہ ہے کہ حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی طرح میں نے جو کچھ یہاں لکھا ہے محض مسلمانوں کی خیرخواہی اور بھلائی مقصود ہے ہرگز کسی سے عناد اور تعصب نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے چلے آتے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔ ساتھ ہی حضرت امام قدس سرہ نے یہاں یہ بھی اشارہ کیا کہ میں نے ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے معافی کو پسند کیا ہے پس آنے والے مسلمان بھی قیامت تک میری مغفرت کے لیے دعا کرتے رہا کریں۔ «غفرالله له آمين»

صاحب ایضاح البخاری نے کیا خوب فرمایا ہے کہ امام ہمیں یہ بتلا رہے ہیں کہ ہم نے ابواب سابقہ میں مرجیہ، خارجیہ اور کہیں بعض اہل سنت پر تعریضات کی ہیں لیکن ہماری نیت میں اخلاص ہے۔ خواہ مخواہ کی چھیڑ چھاڑ ہمارا مقصد نہیں اور نہ ہمیں شہرت کی ہوس ہے بلکہ یہ ایک خیرخواہی کے جذبہ سے ہم نے کیا اور جہاں کوئی فرقہ بھٹک گیا یا کسی انسان کی رائے ہمیں درست نظر نہ آئی وہاں ہم نے بہ نیت ثواب صحیح بات وضاحت سے بیان کر دی۔ [ایضاح البخاری، ص: 428]

امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«والنصيحة من نصحة العسل اذا صفيته اومن النصح وهو الخياطة بالنصيحة»
یعنی لفظ «نصيحت» «نصحه العسل» سے ماخوذ ہے جب شہد موم سے الگ کر لیا گیا ہو یا «نصيحت» سوئی سے سینے کے معنی میں ہے جس سے کپڑے کے مختلف ٹکڑے جوڑ جوڑ کر ایک کر دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح نصیحت بمعنی خیرخواہی سے مسلمانوں کا باہمی اتحاد مطلوب ہے۔ (الحمد للہ کہ کتاب الایمان آج اواخر ذی الحجہ 1386ھ کو بروز یک شنبہ ختم ہوئی۔ راز)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 58   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2715  
2715. حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے بروقت نماز پڑھنے باقاعدہ زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2715]
حدیث حاشیہ:
ہردو احادیث میں بیعت کے شرائط نماز قائم کرنے وغیرہ کے متعلق ذکر ہے، اسی لیے ان کو یہاں لایاگیا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2715   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1401  
1401. حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:میں نے نماز پڑھنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان سے خیرخواہی کرنے پر نبی ﷺ سے بیعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1401]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ دینی بھائی بننے کے لیے قبولیت ایمان واسلام کے ساتھ ساتھ نماز قائم کرنا اور صاحب نصاب ہونے پر زکوٰۃ ادا کرنا بھی ضروری ہے
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1401   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 58  
58. زیاد بن علاقہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت جریر بن عبداللہ البجلی ؓ سے سنا، جس دن حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کی وفات ہوئی تو وہ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ کی حمدوثنا کی اور کہا: تمہیں صرف ایک اللہ سے ڈرنا چاہئے جس کا کوئی شریک نہیں، نیز تمہیں دوسرے امیر کے آنے تک تحمل و اطمینان سے رہنا چاہئے، بس وہ عنقریب ہی آ جائیں گے۔ پھر فرمایا: اپنے امیر کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ خود بھی معاف کرنے کو پسند کرتا تھا۔ پھر کہا: تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے اسلام پر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ تو آپ نے مجھ سے ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا عہد لیا، پھر اسی شرط پر میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ مجھے اس مسجد کے رب کی قسم! میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ پھر آپ نے استغفار کیا اور منبر سے نیچے اتر آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:58]
حدیث حاشیہ:
اللہ اور رسول کی خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی تعظیم کرے۔
زندگی بھر ان کی فرمانبرداری سے منہ نہ موڑے، اللہ کی کتاب کی اشاعت کرے، حدیث نبوی کو پھیلائے، ان کی اشاعت کرے اور اللہ و رسول کے خلاف کسی پیرومرشد مجتہد امام مولوی کی بات ہرگز نہ مانے۔
ہوتے ہوئے مصطفی کی گفتار مت دیکھ کسی کا قول و کردار جب اصل ہے تو نقل کیا ہے یاں وہم و خطا کا دخل کیا ہے حضرت مغیرہ امیرمعاویہ ؓ کی طرف سے کوفہ کے حاکم تھے۔
انھوں نے انتقال کے وقت حضرت جریر بن عبداللہ کو اپنا نائب بنادیا تھا، اس لیے حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے ان کی وفات پر یہ خطبہ دیا اور لوگوں کو نصیحت کی کہ دوسرا حاکم آنے تک کوئی شروفساد نہ کرو بلکہ صبر سے ان کا انتظار کرو۔
شروفساد کوفہ والوں کی فطرت میں تھا، اس لیے آپ نے ان کو تنبیہ فرمائی۔
کہتے ہیں کہ امیرمعاویہ ؓ نے حضرت مغیرہؓ کے بعد زیاد کوکوفہ کا حاکم مقرر کیا جو پہلے بصرہ کے گورنر تھے۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے کتاب الایمان کو اس حدیث پر ختم کیا جس میں اشارہ ہے کہ حضرت جریر ؓکی طرح میں نے جو کچھ یہاں لکھا ہے محض مسلمانوں کی خیرخواہی اور بھلائی مقصود ہے ہرگز کسی سے عناد اور تعصب نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ خیال کرتے چلے آتے ہیں اور آج بھی موجود ہیں۔
ساتھ ہی حضرت امام قدس سرہ نے یہاں یہ بھی اشارہ کیا کہ میں نے ہمیشہ صبروتحمل سے کام لیتے ہوئے معافی کو پسند کیا ہے پس آنے والے مسلمان بھی قیامت تک میری مغفرت کے لیے دعا کرتے رہا کریں۔
غفرالله له آمین۔
صاحب ایضاح البخاری نے کیا خوب فرمایا ہے کہ امام ہمیں یہ بتلارہے ہیں کہ ہم نے ابواب سابقہ میں مرجیہ، خارجیہ اور کہیں بعض اہل سنت پر تعریضات کی ہیں لیکن ہماری نیت میں اخلاص ہے۔
خواہ مخواہ کی چھیڑ چھاڑ ہمارا مقصد نہیں اور نہ ہمیں شہرت کی ہوس ہے بلکہ یہ ایک خیرخواہی کے جذبہ سے ہم نے کیا اور جہاں کوئی فرقہ بھٹک گیا یا کسی انسان کی رائے ہمیں درست نظر نہ آئی وہاں ہم نے بہ نیت ثواب صحیح بات وضاحت سے بیان کردی۔
(ایضاح البخاری، ص: 428)
امام قسطلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"والنصيحة من نصحت العسل إذا صفّيته من الشمع أو من النصح وهو الخياطة بالمنصحة." یعنی لفظ نصیحت نصحہ العسل سے ماخوذ ہے جب شہد موم سے الگ کر لیا گیا ہو یا نصیحت سوئی سے سینے کے معنی میں ہے جس سے کپڑے کے مختلف ٹکڑے جوڑ جوڑ کر ایک کردیئے جاتے ہیں۔
اسی طرح نصیحت بمعنی خیرخواہی سے مسلمانوں کا باہمی اتحاد مطلوب ہے۔
(الحمد للہ کہ کتاب الایمان آج اواخر ذی الحجہ1386ھ کو بروز یک شنبہ ختم ہوئی۔
راز)

   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 58   

  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 58  
´دین سچے دل سے اللہ کی فرمانبرداری`
«. . . فَإِنِّي أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: أُبَايِعُكَ عَلَى الْإِسْلَامِ، فَشَرَطَ عَلَيَّ وَالنُّصْحِ لِكُلِّ مُسْلِمٍ، فَبَايَعْتُهُ عَلَى هَذَا"، وَرَبِّ هَذَا الْمَسْجِدِ إِنِّي لَنَاصِحٌ لَكُمْ، ثُمَّ اسْتَغْفَرَ وَنَزَلَ . . .»
. . . میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ہر مسلمان کی خیر خواہی کے لیے شرط کی، پس میں نے اس شرط پر آپ سے بیعت کر لی (پس) اس مسجد کے رب کی قسم کہ میں تمہارا خیرخواہ ہوں پھر استغفار کیا اور منبر سے اتر آئے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 58]
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت یہ ہے کہ سیدنا جریر رضی اللہ عنہ نے مسلمانوں کو نصیحت فرمائی اور ان کے لیے خیر خواہی اور بخشش کی دعا فرمائی، یہیں سے باب اور ترجمہ کی مناسبت معلوم ہوتی ہے۔
دوسری مناسبت کا ذکر ابن بطال رحمہ اللہ کچھ اس طرح سے فرماتے ہیں:
«ان مقصود البخاري الرد علي من زعم ان الاسلام التوحيد، ولا يدخل فيه الاعمال وهم القدرية» [المتواري ص59]
امام بخاری رحمہ اللہ کا مقصود یہاں یہ ہے کہ ان لوگوں کا رد کیا جائے جن کا کہنا ہے کہ اسلام صرف توحید کا نام ہے یعنی اس کا تعلق اعمال کے ساتھ نہیں ہے اور (اس قسم کے عقائد باطلہ کے حامی) قدریہ ہیں۔
حدیث مذکورہ میں اسلام پر بیعت کرنا اور اس میں ہر مسلم کے ساتھ خیر خواہی کرنے کی نصیحت کی گئی ہے، اور یقیناً اس حدیث کا تعلق ہر عام و خاص کے ساتھ ہے۔
امام کرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
«هذا حديث عظيم الشأن و عليه مدار الاسلام» [شرح كرماني، ج1، ص217]
یہ حدیث عظیم الشان ہے اور اس پر اسلام کا دارومدار ہے۔‏‏‏‏
اس سے بھی باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے۔

فائدہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان عالیشان ہے کہ:
«الا ان من قبلكم من اهل الكتاب افترقوا علي ثنتين و سبعين ملة وان هذه الملة ستفترق على ثلاث و سعبين ثنتان و سبعون فى النار و واحدة فى الجنة وهى الجماعة» [سنن ابي داؤد كتاب السنه رقم الحديث4097]
خبردار تم سے قبل جو اہل کتاب (یہود و نصریٰ) تھے وہ بہتر 72 فرقوں میں تقسیم ہو گئے تھے اور یہ امت عنقریب تہتر 73 فرقوں میں بٹ جائے گی بہتر 72 جہنمی ہونگیں اور ایک جنتی اور وہی جماعت ہو گی (قرآن و حدیث پر چلنے والی)۔‏‏‏‏
↰ مندرجہ بالا حدیث سے واضح ہوا کہ امت میں کئی فرقے ہوں گے اور ان میں ان گنت اختلافات پیدا ہوں گے۔ لیکن یہ یاد رکھا جائے کہ یہ تمام فرقے قرآن و صحیح حدیث کی تعلیمات کی پاداش میں وجود میں نہیں آئیں گے بلکہ قرآن و حدیث کی تعلیمات سے انحراف ہونے کی وجہ سے پیدا ہوں گے۔

غلط فہمی کا ازالہ:
ایک واضح غلط فہمی جو کہ غیر مسلموں اور مسلموں میں یکساں اور مشترکہ ہے کہ یہ جتنے بھی فرقے شروع ہیں اسلام میں ہیں ان کی اصل وجہ حدیث ہی ہے کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی فرمایا تھا کہ تہتر 73 فرقے بنیں گے۔
یہ بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ فرقے اور اختلافات احادیث کی وجہ سے پیدا ہوئے، لیکن اگر حدیث کے الفاظ پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ فرقے بناؤ بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف پیشں گوئی کی تھی کہ بنیں گے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنانے کا حکم نہیں دیا۔۔۔
اس کو ایک مثال کے ذریعے سمجھیں کہ ایک کلاس روم میں استاد اپنے شاگردوں کو برابر طور پر تعلیم دینے میں مصروف ہے مگر اس کلاس میں ایک بچہ زید ہے جس کو استاد نے یہ تنبیہ کی کہ تم امتحانات میں فیل ہو جاؤ گے اور جب امتحانات ہوئے تو وہ واقعتاً فیل ہو گیا تو بتایئے کہ کیا اسے استاد نے فیل کیا ہے؟ جواب نفی میں ہے استاد نے صرف اسے متنبہ کیا تھا نہ کہ اسے فیل کیا، بالکل اسی طرح سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو متنبہ فرمایا نہ کہ فرقوں میں تقسیم کروایا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 98   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4161  
´ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی پر بیعت کا بیان۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4161]
اردو حاشہ:
(1) ترجمہ الباب کے ساتھ حدیث مبارکہ کی مناسبت بالکل واضح ہے کہ خیر خواہی کے جذبے کے ساتھ ہر شرعی امیر کی بیعت مشروع ہے اور شرعی امیر پر اعتماد کا اظہار بھی لہٰذا مقدور بھر اس عہد کی وفا انسان پر واجب ہے۔ ہاں! البتہ استطاعت سے زیادہ ایفائے عہد کا کوئی شخص مکلف نہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلا وُسْعَهَا﴾ (البقرة: 286/2)
(2) لفظ مسلم کے عموم کی وجہ سے ہر چھوٹے بڑے امیر غریب عالم جاہل‘ مرد عورت‘ کالے گورے ‘آقا وملازم استاد وشاگرد‘عربی عجمی اور عزیز واقارب‘ نیز رشتہ دار کی خیر خواہی کرنا اور اسے نصحیت کرنا فرض ہے۔
(3) معلوم ہوا کسی بھی مسلمان کے لیے دھوکا دینا‘ ملاوٹ کرنا‘ بددیانتی اور خیانت کرنا‘ دوسرے مسلمان سے کینہ وبغض اور حسد وعناد رکھنا‘ کسی کی غیبت کرنا اور چغلی کھانا‘ نیز اس کی بابت کسی بھی قسم کے نقصان کا سوچنا قطعاََ ناجائز اور حرام بلکہ تقاضائے ایمان کے بھی منافی ہے۔ ایک اور فرمان رسول ہے۔: [لا يؤْمِنُ أحَدُكم حتى يُحِبَّ لأخيه ما يُحِبُّ لنفْسِه ] تم میں سے کوئی شخص(اس وقت تک) مومن نہیں ہوسکتا جب تک اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ نہ چاہے جو اپنے لیے چاہتا ہے۔(صحيح البخاري، الإيمان، حديث:13 وصحيح مسلم، الإيمان، حديث:45)
(4) دنیا وآخرت کو کار آمداور قیمتی بنانے ‘نیز ابدی اور لازوال زندگی کو پر سکون اور آرام دہ گزارنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان تمام انسانوں کو خیر خواہ رہے اس اس نصیحت و خیر خواہی کا دامن کسی بھی وقت نہ چھوڑے بلکہ تاحیات اس کو حرز جاں بنائے رکھے۔ وفقنا الله جميعا
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4161   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4162  
´ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی پر بیعت کا بیان۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کی سمع و طاعت (بات سننے اور اس پر عمل کرنے) پر اور اس بات پر کہ میں ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کروں گا۔ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4162]
اردو حاشہ:
خیر خواہی کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے مسلماں سے بھلا کروں گا اور اسے فائدہ پہنچاؤں گا‘ خواہ اپنا نقصان ہوجائے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4162   

  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث4179  
´(امیر کے) ہر پسندیدہ اور ناپسندیدہ حکم کو بجا لانے پر بیعت کرنا۔`
جریر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر عرض کیا: میں آپ سے ہر اس چیز میں جو مجھے پسند ہو اور اس میں جو ناپسند ہو سمع و طاعت (سننے اور حکم بجا لانے) پر بیعت کرتا ہوں، آپ نے فرمایا: جریر! کیا تم اس کی استطاعت رکھتے ہو، یا طاقت رکھتے ہو؟ آپ نے فرمایا: کہو ان چیزوں میں جن کو میں کر سکتا ہوں، چنانچہ آپ نے مجھ سے بیعت لی، نیز ہر مسلمان کی خیر خواہی پر بیعت لی۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/كتاب البيعة/حدیث: 4179]
اردو حاشہ:
اپنی طاقت کے مطابق قربان جائیں آپ کی شفقت ورحمت پر کہ خود آسانی کی راہ دکھائی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 4179   

  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1925  
´خیر خواہی اور بھلائی کرنے کا بیان۔`
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز قائم کرنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1925]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مالی اور بدنی عبادتوں میں صلاۃ اور زکاۃ سب سے اصل ہیں،
نیز (لاإلہ إلا اللہ محمد رسول اللہ) کی شہادت واعتراف کے بعد ارکان اسلام میں یہ دونوں (زکاۃ وصلاۃ) سب سے اہم ہیں اسی لیے ان کا تذکرہ خصوصیت کے ساتھ کیاگیا ہے،
اس حدیث سے معلوم ہواکہ خیر خواہی عام وخاص سب کے لیے ہے،
طبرانی میں ہے کہ جریر رضی اللہ عنہ نے اپنے غلام کو تین سو درہم کا ایک گھوڑا خریدنے کا حکم دیا،
غلام گھوڑے کے ساتھ گھوڑے کے مالک کو بھی لے آیا،
جریر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہارا گھوڑا تین سودرہم سے زیادہ قیمت کا ہے،
کیا اسے چارسو میں بیچوگے؟ وہ راضی ہوگیا،
پھر آپ نے کہا کہ اس سے بھی زیادہ قیمت کا ہے کیا پانچ سودرہم میں فروخت کروگے،
چنانچہ وہ راضی ہوگیا،
پھر اسی طرح اس کی قیمت بڑھاتے رہے یہاں تک کہ اسے آٹھ سو درہم میں خریدا،
اس سلسلہ میں ان سے عرض کیا گیا تو انہوں نے فرمایا:
میں نے رسول اللہ ﷺ پر ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کی بیعت کی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1925   

  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 201  
حضرت جریر ؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم ﷺ سے بات سننے اور ماننے پر بیعت کی تو آپؐ نے مجھے تلقین کی کہ جہاں تک تیرے بس میں ہو۔ اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کی بیعت کی۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:201]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
دین اسلام انسان کو اس کی وسعت اور مقدرت کے مطابق اعمال کا مکلف ٹھہراتا ہے،
فرمان باری تعالیٰ ہے:
﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّـهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی وسعت سے زائد مکلف نہیں ٹھہراتا،
اس لیے جب جریرؓ نے عمومی سمع اور اطاعت کی بات کی تو آپ نے کمال شفقت سے کام لیتے ہوئے لقمہ دیا کہ یوں کہا اور کہہ کہ جہاں تک مجھ سے ہوسکے گا سنوں گا اور عمل کروں گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 201   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:57  
57. حضرت جریر بن عبداللہ البجلی ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان سے خیرخواہی کرنے (کے اقرار) پر بیعت کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:57]
حدیث حاشیہ:

عربی زبان میں پھٹے ہوئے کپڑے کو سوئی سے پیوند لگانے کو نصیحت کہتے ہیں، نیز جب شہد سے موم کو الگ کیا جائے تو اس وقت بھی نصیحت کا لفظ بولا جاتا ہے۔
شرعی طور پر کسی انسان کو اس کے عیوب پر اخلاص کے ساتھ مطلع کرنے کو نصیحت کہتے ہیں، لیکن شرط یہ ہے کہ ان کی پردہ دری نہ کی جائے۔
اگر خیر خواہی میں اخلاص نہ ہو تو دھوکا دہی سے تعبیرکیا جا سکتا ہے۔
قرآن کریم میں توبہ نصوح کا ذکر ہے۔
اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ گناہوں کی وجہ سے انسان کا دین پارہ پارہ ہو جاتا ہے، توبہ سے اس کی پیوندی کاری کر کے صحیح کیا جا سکتا ہے۔

بعض روایات میں بیعت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے موقع پر ادائے شہادتین اور سمع و اطاعت کا بھی ذکر ہے۔
(صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2157)
بعض روایات میں ہے کہ بیعت لیتے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ تلقین کیے کہ میں ان باتوں پر حتی المقدور عمل کروں گا۔
(صحیح البخاري، الأحکام، حدیث: 7204)
دین کے دیگر احکام سمع واطاعت میں آجاتے ہیں۔
(فتح الباري: 183/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 57   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:58  
58. زیاد بن علاقہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: میں نے حضرت جریر بن عبداللہ البجلی ؓ سے سنا، جس دن حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کی وفات ہوئی تو وہ خطبے کے لیے کھڑے ہوئے، اللہ کی حمدوثنا کی اور کہا: تمہیں صرف ایک اللہ سے ڈرنا چاہئے جس کا کوئی شریک نہیں، نیز تمہیں دوسرے امیر کے آنے تک تحمل و اطمینان سے رہنا چاہئے، بس وہ عنقریب ہی آ جائیں گے۔ پھر فرمایا: اپنے امیر کے لیے دعائے مغفرت کرو کیونکہ وہ خود بھی معاف کرنے کو پسند کرتا تھا۔ پھر کہا: تمہیں معلوم ہونا چاہئے کہ میں ایک دفعہ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں آپ سے اسلام پر بیعت کرنا چاہتا ہوں۔ تو آپ نے مجھ سے ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کا عہد لیا، پھر اسی شرط پر میں نے آپ سے بیعت کر لی۔ مجھے اس مسجد کے رب کی قسم! میں تمہارا خیرخواہ ہوں۔ پھر آپ نے استغفار کیا اور منبر سے نیچے اتر آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:58]
حدیث حاشیہ:

حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف سے کوفے کے گورنر تھے۔
جب مغیرہ کی وفات ہونے لگی تو انھوں نے حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور حالات پر کنٹرول کرنے کی وصیت فرمائی کیونکہ عام طور پر عوام الناس حکمران کی وفات پر خلفشار کا شکار ہو جاتے ہیں خاص طور پر کوفے کی سرزمین جو فتنوں کی آماجگاہ تھی۔
(فتح الباري: 184/1)

خیر خواہی کے لیے مسلمان کی پابندی اغلبیت کے لحاظ سے ہے، ویسے کافروں کے ساتھ بھی خیر خواہی کرنی چاہیے انھیں اسلام کی دعوت دی جائے اور جب وہ مشورہ لیں تو ان کی صحیح رہنمائی کی جائے، البتہ بیعت کا سلسلہ صرف اہل اسلام کے لیے ہے۔
(فتح الباري: 184/1)

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو کتاب الایمان کے آخر میں لاکر اشارہ کیا ہے کہ میں نے اس کتاب کی جمع و تدوین میں لوگوں کی خیر خواہی کی ہے۔
صرف ان احادیث کو جمع کیا ہے جو معیار محدثین پر پوری اترتی ہیں تاکہ عمل کرنے میں سہولت رہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 58   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:524  
524. حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے نماز پڑھنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کی خیرخواہی کرنے پر بیعت کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:524]
حدیث حاشیہ:
(1)
ان ابواب میں نماز اور اوقات نماز کی اہمیت کو بیان کیا جارہا ہے۔
نماز کا معاملہ اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ اسلام پر بیعت لینے کے بعد نماز کی بروقت ادائیگی کےلیے بیعت لی جاتی۔
اسلام لانے کے بعد بندہ مسلم کے لیے پہلی ذمے داری نماز کی ادائیگی ہے، کیونکہ یہ بدنی عبادات کی اصل ہے، پھر دیانت داری کے ساتھ زکاۃ ادا کرنا ہے، کیونکہ یہ مالی عبادات میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے، اس لیے خصوصیت کے ساتھ انھیں ادا کرنے کے متعلق بیعت لی جاتی۔
رسول اللہ ﷺ مخاطب کے حالات پربھی نظر رکھتے تھے، جس چیز کی اسے ضرورت ہوتی اس کا حکم دیتے۔
(2)
حضرت جریر بن عبداللہ ؓ اپنی قوم کے سردار تھے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے انھیں ہر مسلمان کے ساتھ خیرخواہی کرنے کی تعلیم دی۔
اسی طرح وفد عبدالقیس کا تعلق مجاہدین سے تھا اور کفار مضر سے ان کے معرکے ہوتے رہتے تھے، اس لیے آپ نے انھیں مال غنیمت سے خمس ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 524   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1401  
1401. حضرت جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا:میں نے نماز پڑھنے، زکاۃ دینے اور ہر مسلمان سے خیرخواہی کرنے پر نبی ﷺ سے بیعت کی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1401]
حدیث حاشیہ:
(1)
یہ عنوان پہلے عنوان سے کچھ خاص اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ پہلے عنوان میں صرف فرضیت زکاۃ کا بیان تھا، اس میں بیان کیا گیا ہے کہ زکاۃ کی ادائیگی پر التزام کرنے ہی سے بیعت اسلام مکمل ہوتی ہے اور جو اس کو ادا نہیں کرتا وہ گویا اپنی بیعت کو باطل کرتا ہے۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ جس امر پر بیعت کی جائے وہ واجب سے بھی بڑھ کر ہوتا ہے۔
ہر واجب پر بیعت کرنا ضروری نہیں، لیکن ہر بیعت شدہ امر کا واجب ہونا ضروری ہے۔
(2)
آیت کریمہ سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ جو شخص کفر سے توبہ کرے، نماز پڑھے اور زکاۃ ادا کرنے کا عہد کرے وہی اہل ایمان کی اخوت کا حقدار ہے، اور جو اس عہد کا پاس نہیں کرے گا اسے قطعی طور پر اس بھائی چارے سے محروم کر دیا جائے گا۔
والله أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1401   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2715  
2715. حضرت جریر بن عبد اللہ ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ﷺ سے بروقت نماز پڑھنے باقاعدہ زکاۃ دینے اور ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہی کرنے پر بیعت کی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2715]
حدیث حاشیہ:
ان دونوں احادیث میں بیعت کرتے وقت ہر مسلمان کی خیرخواہی کا ذکر ہے۔
ایک حدیث میں مکمل دین اسلام کو خیرخواہی سے تعبیر کیا گیا ہے۔
لوگوں نے پوچھا:
اللہ کے رسول! کس کے لیے خیرخواہی کی جائے؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے رسول کے لیے، حکمرانوں کے لیے اور عام انسانوں کے لیے خیرخواہی کے جذبات رکھیں جائیں۔
(صحیح مسلم، الإیمان، حدیث: 196(55)
اللہ تعالیٰ کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان و یقین رکھا جائے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کیا جائے، اس کے احکام مانے جائیں اور اس کی نافرمانی سے بچا جائے۔
اللہ تعالیٰ کی کتاب کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ دل و جان سے اس کی تعظیم کی جائے اور اس میں بیان کیے گئے احکام پر عمل کیا جائے۔
اللہ کے رسول ﷺ کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ اس کی لائی ہوئی شریعت کو اللہ کی طرف سے نازل کی ہوئی تسلیم کیا جائے اور آپ کی تعظیم و توقیر میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی جائے۔
حکمرانوں کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ شرعی معاملات میں ان کا تعاون کیا جائے اور ان کے خلاف بغاوت نہ کی جائے۔
عوام الناس کے لیے خیرخواہی یہ ہے کہ ان کی رہنمائی کی جائے اور انہیں تکلیف دینے سے بچا جائے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2715   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7204  
7204. سیدنا جریر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے نبی ﷺ سے سننے اور بات ماننے کی بیعت کی تو آپ نے مجھے تلقین کی: جتنی مجھ میں ہمت ہوگی نیز ہر مسلمان کے ساتھ خیر خواہ ہی کروں گا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:7204]
حدیث حاشیہ:
پہلے میں نے اللہ تعالیٰ کے اوامرو نواہی سننے اور ان پر عمل کرنے کی بیعت کی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ پر شفقت کرتے ہوئے اس بیعت کے ساتھ یہ الفاظ کہنے کی تلقین فرمائی کہ ہم امراء کے احکام و اوامر پر اپنی طاقت کے مطابق عمل کریں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ بھی کسی انسان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمال شفقت اور امت سے ہمدردی کے پیش نظر ایسا فرمایا۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7204