Note: Copy Text and Paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الأدب
کتاب: اسلامی آداب و اخلاق
42. بَابُ : مَا كُرِهَ مِنَ الشِّعْرِ
باب: برے اور نا پسندیدہ اشعار کا بیان۔
حدیث نمبر: 3761
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ , عَنْ شَيْبَانَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ , عَنْ يُوسُفَ بْنِ مَاهَكَ , عَنْ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَعْظَمَ النَّاسِ فِرْيَةً لَرَجُلٌ هَاجَى رَجُلًا , فَهَجَا الْقَبِيلَةَ بِأَسْرِهَا , وَرَجُلٌ انْتَفَى مِنْ أَبِيهِ , وَزَنَّى أُمَّهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے بڑا بہتان لگانے والا وہ شخص ہے جو کسی ایک شخص کی ہجو و مذمت کرے، اور وہ اس کی ساری قوم کی ہجو و مذمت کرے، اور وہ شخص جو اپنے باپ کے علاوہ دوسرے کو باپ بنائے، اور اپنی ماں کو زنا کا مرتکب قرار دے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16329، ومصباح الزجاجة: 1315) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: جب باپ کو چھوڑ کر اپنے کو دوسرے کا بیٹا قرار دیا تو گویا اس نے اپنی ماں پر زنا کی تہمت لگائی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3761 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3761  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
جس آدمی سے تکلیف پہنچے، اسے تو برا بھلا کہا جا سکتا ہے لیکن اس سے تعلق رکھنے والے دوسرے لوگوں کو بھی برا قرار دینا جھوٹ ہے جو بہت بڑا گناہ ہے۔

(2)
ہمارے معاشرے میں یہ چیز پائی جاتی ہے کہ بعض قبائل یا پیشوں کے بارے میں ایک رائے مشہو ر ہو جاتی ہے۔
جس شخص میں وہ خرابی نہ ہو اس قبیلے یا پیشے سے تعلق رکھنے کی وجہ سے اس سے بھی بد گمانی کی جاتی ہے یا اس کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔
یہ بری عادت ہے۔

(3)
ہجو، یعنی شعروں میں کسی کی مذمت برا کام ہے، البتہ مسلمانوں سے بر سر پیکار کافروں کی ہجو کرنا جائز ہے بشر طیکہ اس کی زد میں مسلمان نہ آئیں۔

(4)
قبیلہ یا خاندان باہمی تعارف کا ایک ذریعہ ہے۔
عزت و ذلت کا تعلق عمل سے ہے خاندان سے نہیں۔

(5)
اپنے قبیلے کو ادنیٰ سمجھ کر خود کو کسی دوسرے معروف قبیلے کا فرد مشہور کرنا کبیرہ گناہ ہے۔

(6)
جب ایک شخص دوسرے قبیلے سے نسبت قائم کرتا ہے تو گویا وہ اس بات کا اعتراف کر رہا ہے کہ اس کی پیدائش اس شخص سے نہیں ہوئی جو اس کا حقیقی باپ سمجھا جاتا ہے بلکہ دوسرے قبیلے کے کسی فرد سےہوئی۔
اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کی ماں بدکار ثابت ہوتی ہے۔
اس سے اس حرکت کی برائی واضح ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3761