صحيح البخاري
كِتَاب الْوُضُوءِ
کتاب: وضو کے بیان میں
49. بَابُ إِذَا أَدْخَلَ رِجْلَيْهِ وَهُمَا طَاهِرَتَانِ:
باب: وضو کر کے موزے پہننے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 206
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ فَأَهْوَيْتُ لِأَنْزِعَ خُفَّيْهِ، فَقَالَ:" دَعْهُمَا، فَإِنِّي أَدْخَلْتُهُمَا طَاهِرَتَيْنِ، فَمَسَحَ عَلَيْهِمَا".
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا ہم سے زکریا نے یحییٰ کے واسطے سے نقل کیا، وہ عامر سے وہ عروہ بن مغیرہ سے، وہ اپنے باپ (مغیرہ) سے روایت کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، تو میں نے چاہا (کہ وضو کرتے وقت) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتار ڈالوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انہیں رہنے دو۔ چونکہ جب میں نے انہیں پہنا تھا تو میرے پاؤں پاک تھے۔ (یعنی میں وضو سے تھا) پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر مسح کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
صحیح بخاری کی حدیث نمبر 206 کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 206
تشریح:
مقیم کے لیے ایک دن اور ایک رات اور مسافر کے لیے تین دن اور تین رات مسلسل موزوں پر مسح کرنے کی اجازت ہے، کم از کم چالیس اصحاب نبوی سے موزوں پر مسح کرنے کی روایت نقل ہوئی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 206
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:206
حدیث حاشیہ:
1۔
امام حمیدیؒ نے اپنی مسند میں بایں الفاظ اس حدیث کو روایت کیا ہے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ کہتے ہیں کہ میں نے کہا:
اے اللہ کے رسول اللہ ﷺ!کیا ہم موزوں پر مسح کرسکتے ہیں؟ آپ نے فرمایا:
” ہاں بشرطیکہ انھیں وضو کی حالت میں پہناجائے۔
“ (مسند الحمیدی: 235/2)
اسی طرح امام ابن خزیمہ ؒ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ حضرت صفوان بن عسال المرادی نے کہا:
ہمیں رسول اللہ ﷺ نے موزوں پر مسح کرنے کا حکم دیا جبکہ انھیں باوضو ہو کر پہنا گیا ہو۔
ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ مسح اس وقت جائز ہو گا جب ان موزوں کو وضو کے بعد پہنا جائے۔
(صحیح ابن خزیمة: 96/1)
2۔
مذکورہ حدیث کے مطابق موزوں پر مسح کے لیے ضروری ہے کہ وہ پاک پاؤں میں پہنے گئے ہوں، لیکن اس میں اختلاف ہے کہ اس پاکی اور طہارت کا معیار کیا ہے؟ ظاہریہ کے نزدیک پاؤں کا ظاہری نجاست سے پاک ہونا ضروری ہے۔
حکمی نجاست (حدث)
سے پاک ہونا ضروری نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر پاؤں پر کوئی نجاست وغیرہ لگی ہوئی نہیں اور ان پر موزوں کو چڑھا لیا جائے تو ان پر مسح کیا جا سکتا ہے، جبکہ جمہور کے نزدیک مسح کے لیے ضروری ہے کہ موزہ پہنتے وقت پاؤں ظاہری نجاست سے اور حدث سے پاک ہوں۔
پھر جمہور میں اختلاف ہے کہ موزے پہننے کے وقت طہارت کاملہ کی ضرورت ہے یا حدث کے وقت؟ شوافع کے نزدیک مسح کے لیے ضروری ہے کہ موزے پہنتے وقت طہارت کاملہ ہو، لیکن احناف حدث کے وقت طہارت کاملہ کا ہونا ضروری قراردیتے ہیں۔
اس کی وضاحت بایں طور ہے کہ اگر کوئی شخص صرف پاؤں دھوکر موزے پہن لیتا ہے اور پھر باقی وضو مکمل کرتا ہے تو ترتیب کے ساقط ہونے کی وجہ سے شوافع کے نزدیک اس شخص کا وضو صحیح نہیں اور نہ موزوں پر مسح ہی کیا جا سکتا ہے۔
لیکن احناف کے نزدیک وضو میں ترتیب ضروری نہیں۔
اس لیے ان کے نزدیک ایسے شخص کا وضو بھی مکمل ہے اور ان موزوں پر مسح کی بھی اجازت ہے۔
لیکن احادیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسح کے لیے ضروری ہے کہ مکمل وضو کرکے موزے پہنے جائیں۔
جیسا کہ مندرجہ ذیل حدیث میں اس کی وضاحت ہے۔
حضرت ابو بکرہ ؓ سے روایت ہے وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے مسافر کو تین دن تین رات اور مقیم کو ایک دن ایک رات موزوں پر مسح کرنے کی اجازت دی، بشرطیکہ وضو کرے۔
پھر انھیں پہنے۔
(صحیح ابن خزیمة: 1/69)
حافظ ابن حجر ؒ نے ” فائدہ “ کا عنوان دے کر موزوں پر مسح کرنے کی ایک جزئی کے متعلق لکھا ہے، اگر مسح کے بعداور مدت مسح پورا ہونے سے پہلے موزے اتاردیے جائیں تو اس کے متعلق تین موقف ہیں: 1۔
جو توقیت کے قائل ہیں ان میں سے امام احمد اور اسحاق وغیرہ کہتے ہیں کہ اس کا وضو ختم ہو چکا ہے، وہ دوبارہ وضو کرے۔
2۔
کوفہ کے اہل علم امام مزنی، ابو ثور، امام مالک اور لیث کہتے ہیں (بشرطیکہ زیادہ وقت نہ گزرا ہو)
صرف پاؤں دھولیے جائیں دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں۔
2۔
حسن بصری اور ابن لیلیٰ کی رائے ہے کہ اس پر پاؤں کا دھونا بھی ضروری نہیں۔
انھوں نے اس کو سرکے مسح پر قیاس کیا ہے کہ اگر کوئی شخص سر پر مسح کرنے کے بعد سر کے بال منڈوادے تو اس پر دوبارہ سر کا مسح کرنا ضروری نہیں۔
حافظ ابن حجر ؒ فرماتے ہیں کہ یہ قیاس محل نظر ہے۔
(فتح الباري: 505/1)
یہ قیاس مع الفارق اس لیے ہے کہ مسح کے لیے سر کو بنیادی حیثیت حاصل ہے، خواہ سر پر بال ہوں یا نہ ہوں، موزوں پر مسح کرنا پاؤں دھونے کا بدل ہے، اصل نہیں۔
اس لیے مذکورہ جزئی کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔
اس لیے جب موزے اتارے جائیں گے تو وضو باطل ہو جائے گا۔
صرف پاؤں دھونا اس کے لیے کافی نہیں ہو گا، کیونکہ ایسا کرنے سے موالاۃ یعنی یکے بعد دیگرے دھونے کی شرط فوت ہو جاتی ہے۔
واللہ أعلم۔
لیکن حافظ ابن حزم ؒ اور امام ابن تیمیہ ؒ وغیرہ کا یہ موقف ہے کہ اگر کسی شخص نے موزوں پر مسح کرنے کےبعد انھیں اتار دیا تو اس کا وضو صحیح رہے گا۔
اسے پاؤں دھونے کی ضرورت نہیں۔
(محلی ابن حزم: 105/2)
4۔
امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں کہ موزے اور پگڑی پرمسح کرنے والا اگر ان کو اتاردے یا مدت مسح ختم ہو جائے تو وضو نہیں ٹوٹے گا اور نہ اس پر دوبارہ سر کا مسح یا پاؤں کا دھونا ہی واجب ہے۔
(الاختیارات:
رقم 15)
ان حضرات نے اپنے موقف کی تائید میں حضرت علی ؓ کا ایک عمل پیش کیا ہے کہ انھوں نے ایک مرتبہ وضو کیا تو اپنے جوتوں پر مسح کیا پھر مسجد میں داخل ہوئے اور جوتوں کو اتارکر نماز ادا کی (السنن الکبری للبیهقي: 288/1)
راقم الحروف کے نزدیک احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ ایسے شخص کو دوبارہ وضو کر لینا چاہیے۔
واللہ أعلم۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 206
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 53
´موزوں پر مسح اسی صورت میں درست اور جائز ہے جبکہ وضو کر کے پہنے گئے ہوں`
«. . . عن المغيرة بن شعبة رضي الله عنه قال: كنت مع النبى صلى الله عليه وآله وسلم فتوضا فاهويت لانزع خفيه فقال: دعهما فإني ادخلتهما طاهرتين فمسح عليهما . . .»
”. . . سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرنا شروع کیا تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے موزے اتارنے کیلئے لپکا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”چھوڑ دو میں نے جب یہ موزے پہنے تھے تو میں وضو سے تھا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر مسح فرمایا . . .“ [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 53]
� لغوی تشریح:
«فَأَهْوَيْتُ» میں نے اپنے ہاتھوں کو بڑھایا، یا پھر یہ معنی ہیں کہ حالت قیام سے نیچے جھکا۔
«لِأَنْزِعَ» «أُخْرِجَ» کے معنی میں ہے کہ میں اتاروں۔
«خُفَّيْهِ» آپ کے موزے۔
«دَعْهُمَا» «اُتْرُكْ» کے معنی میں ہے، یعنی موزوں کو چھوڑ دو۔
«طَاهِرَتَيْنِ» حال واقع ہو رہا ہے۔ معنی یہ ہوئے کہ دونوں پاؤں پاک حالت میں داخل کیے تھے، اس لیے موزوں کو نہ اتارو۔ اور ابوداود کی ایک روایت میں ہے کہ میں نے موزوں میں پاؤں جب داخل کیے تھے اس وقت وہ پاک تھے۔ [سنن أبى داود، الطهارة، باب المسح على الخفين، حديث: 151]
فوائد ومسائل:
➊ اس حدیث سے یہ ثابت ہوا کہ موزوں پر مسح اسی صورت میں درست اور جائز ہے جبکہ وضو کر کے پہنے گئے ہوں۔
➋ ابوداود اور موطأ امام مالک میں یہ صراحت موجود ہے کہ یہ واقعہ غزوہ تبوک کے موقع پر نماز فجر کے وقت پیش آیا۔ [سنن أبى داود، الطهارة، باب المسح على الخفين، حديث: 149، الموطأ للإمام مالك، الطهارة، باب ماجاء فى المسح على الخفين، حديث: 41]
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 53
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 631
حضرت عروہ بن مغیرہ اپنے والدؓ سے بیان کرتے ہیں: ”کہ ایک رات، ایک سفر میں، میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ تھا، تو آپ نے پوچھا: ”کیا تیرے پاس پانی ہے؟“ میں نے کہا: جی ہاں! تو آپ ﷺ اپنی سواری سے اترے، پھر چل دیئے، یہاں تک کہ رات کی سیاہی میں مجھ سے چھپ گئے، پھر واپس آئے، تو میں نے برتن سے آپ پر پانی ڈالا۔ آپ نے اپنا چہرہ دھویا، اور آپ اون کا جبہ پہنے ہوئے تھے، آپ اس سے (تنگ ہونے کی وجہ سے) اپنے ہاتھ نہ... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:631]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
(1)
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ کی روایت سے ثابت ہوتا ہے،
بڑا آدمی چھوٹے سے خدمت لے سکتاہے،
اور وہ وضو کاپانی بھی اعضائے وضو پر ڈال سکتا ہے۔
(2)
موزے اس وقت پہننے چائیں،
جب وضو مکمل ہوچکا ہو،
اگر کسی نے دایاں پاؤں دھونے کے بعد موزہ پہن لیا،
پھر بایاں پاؤں دھویا اور موزہ پہن لیا،
تو یہ فعل درست نہیں ہے۔
امام مالک،
شافعی اوراحمد کا یہی موقف ہے،
امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ فعل صحیح ہے۔
اور اس صورت میں موزوں پر مسح کرنا درست ہوگا۔
(شرح النووي: 1/134)
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 631
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5799
5799. حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ میں ایک رات دوران سفر میں نبی ﷺ کے ہمراہ تھا آپ نے دریافت فرمایا: ”کیا تیرے پاس پانی ہے؟“ جی ہاں۔ آپ اپنی سواری سے اترے اور مسلسل چلتے رہے حتیٰ کہ آپ رات کی تاریکی میں چھپ گئے۔ پھر جب واپس تشریف لائے تو میں نے مشکیزے سے آپ پر پانی ڈالا۔ آپ نے اپنا چہرہ مبارک اور دونوں ہاتھ دھوئے۔ اس وقت آپ اونی جبہ پہنے ہوئے تھے۔ آپ اس کی آستینوں سے اپنے ہاتھ باہر نہ نکال سکے تو انہیں جبے کے نیچے سے نکالا پھر اپنے بازوں کو کہنیوں تک دھویا اور اپنے سر کا مسح کیا۔ پھر میں آپ کے موزے اتارنے کے لیے آگے بڑھا تو آپ نے فرمایا: ”انہں رہنے دو، میں نے وضو کے بعد انہیں پہنا تھا۔“ چنانچہ آپ نے ان پر مسح فرمایا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5799]
حدیث حاشیہ:
امام مالک نے اونی جبہ پہننے کو مکروہ خیال کیا ہے کیونکہ اس سے زہدوتقویٰ کی نمائش ہوتی ہے جس کی ممانعت ہے، انسان کو اپنے اچھے اعمال چھپ کر کرنے چاہئیں، نیز تواضع صرف اونی جبہ پہننے میں نہیں بلکہ کوئی بھی لباس جو معمولی قیمت کا ہو وہ بھی اس قسم میں سے ہے، لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے ثابت فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران سفر میں اونی جبہ پہنا تھا۔
اگر اپنے زہدوتقویٰ کا اظہار مقصود نہ ہو تو اسے پہننے میں کوئی حرج نہیں۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5799