حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عُمَرَ , حَدَّثَنَا يُونُسُ , عَنْ الزُّهْرِيِّ , عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ فِضَّةٍ لَهُ فَصٌّ حَبَشِيٌّ وَنَقْشُهُ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ".
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 65
´مناولہ کا بیان`
«. . . قَالَ:" كَتَبَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابًا أَوْ أَرَادَ أَنْ يَكْتُبَ، فَقِيلَ لَهُ . . .»
”. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (کسی بادشاہ کے نام دعوت اسلام دینے کے لیے) ایک خط لکھا یا لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ وہ بغیر مہر کے خط نہیں پڑھتے . . .“ [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 65]
� تشریح:
مناولہ اصطلاح محدثین میں اسے کہتے ہیں اپنی اصل مرویات اور مسموعات کی کتاب جس میں اپنے استادوں سے سن کر حدیثیں لکھ رکھی ہوں اپنے کسی شاگرد کے حوالہ کر دی جائے اور اس کتاب میں درج شدہ احادیث کو روایت کرنے کی اس کو اجازت بھی دے دی جائے، تو یہ جائز ہے اور حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہی ہے۔ اگر اپنی کتاب حوالہ کرتے ہوئے روایت کرنے کی اجازت نہ دے تو اس صورت میں «حدثني» یا «اخبرني فلاں» کہنا جائز نہیں ہے۔ حدیث نمبر 64 میں کسریٰ کے لیے بددعا کا ذکر ہے کیوں کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک چاک کر ڈالا تھا، چنانچہ خود اس کے بیٹے نے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالا۔ سو جب وہ مرنے لگا تو اس نے دواؤں کا خزانہ کھولا اور زہر کے ڈبے پر لکھ دیا کہ یہ دوا قوت باہ کے لیے اکسیر ہے۔ وہ بیٹا جماع کا بہت شوق رکھتا تھا جب وہ مر گیا اور اس کے بیٹے نے دواخانے میں اس ڈبے پر یہ لکھا ہوا دیکھا تو اس کو وہ کھا گیا اور وہ بھی مر گیا۔ اسی دن سے اس سلطنت میں تنزل شروع ہوا، آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ان کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہا۔ ایران کے ہر بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوا کرتا تھا۔ اس زمانے کے کسریٰ کا نام پرویز بن ہرمزبن نوشیروان تھا، اسی کو خسرو پرویز بھی کہتے ہیں۔ اس کے قاتل بیٹے کا نام شیرویہ تھا، خلافت فاروقی میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ایران فتح ہوا۔
مناولہ کے ساتھ باب میں مکاتبت کا ذکر ہے جس سے مراد یہ کہ استاد اپنے ہاتھ سے خط لکھے یا کسی اور سے لکھوا کر شاگرد کے پاس بھیجے، شاگرد اس صورت میں بھی اس کو اپنے استاد سے روایت کر سکتا ہے۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی خداداد قوت اجتہاد کی بنا پر ہر دو مذکورہ احادیث سے ان اصطلاحات کو ثابت فرمایا ہے پھر تعجب ہے ان کم فہموں پر جو حضرت امام کو غیر فقیہ اور زود رنج اور محض ناقل حدیث سمجھ کر آپ کی تخفیف کے درپے ہیں۔ «نعوذ بالله من شرورانفسنا»
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 65
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5870
5870. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی چاندی کا تھا۔ یحیٰی بن ایوب نے کہا: مجھے حمید نے خبر دی انہوں نے حضرت انس ؓ سے سنا انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5870]
حدیث حاشیہ:
اس میں انگوٹھی اور اس کے نگینے کا ذکر ہے۔
حدیث اور باب میں یہی وجہ مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5870
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5872
5872. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے عجم کے کچھ لوگوں کو خظ لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ سے کہا گیا کہ وہ لوگ اس وقت تک کوئی خط قبول نہیں کرتے جب تک اس پر مہر لگی ہوئی نہ ہو چنانچہ نبی ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ تھا گویا میں اب بھی (چشم تصور سے) نبی ﷺ کی انگشت یا ہتھیلی میں اس کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5872]
حدیث حاشیہ:
باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی پر نقش تھا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5872
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5874
5874. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک انگوٹھی بنوائی اور فرمایا: ”ہم نے ایک انگوٹھی بنوائی ہے اور اس پر نقش کندہ کرایا ہے اس بنا پر کوئی شخص انگوٹھی پر یہ نقش کندہ نہ کرائے۔“ حضرت انس ؓ نے فرمایا: گویا میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کی چھنگلیا میں اس (انگوٹھی) کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5874]
حدیث حاشیہ:
یہ حکم حیات نبوی میں نافذ تھا کہ کوئی دوسرا شخص آپ کے نام مبارک سے کسی کو دھوکا نہ دے سکے۔
اب یہ خطرہ نہیں ہے اس لیے کلمہ لا إله إلا اللہ محمد رسول اللہ بھی نقش کرایا جا سکتا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5874
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5877
5877. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ کرایا اور فرمایا: ہم نے یہ انگوٹھی چاندی کی بنوائی ہے اور اس پر [محمد رسول اللہ] کندہ کرایا ہے لہذا کوئی شخص اپنی انگوٹھی پریہ نقش قطعاً کندہ نہ کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5877]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مرد چاندی کی انگوٹھی پہن سکتے ہیں اور سونے کی انگوٹھی عورتیں پہن سکتی ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5877
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5879
5879. حضرت انس ؓ سے مروی اس حدیث میں یہ اضافہ ہے نبی ﷺ کی انگوٹھی وفات تک آپ کے ہاتھ میں رہی۔ آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ میں رہی حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بعد وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہاتھ میں رہی۔ پھر جب حضرت عثمان بن عفان ؓ کا دور خلافت آیا تو آپ ایک روز اریس کے کنویں پر بیٹھے آپ نے انگوٹھی اتاری اور الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے تو وہ کنویں میں گر گئی۔ حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ ہم تین دن تک اسے دھونڈتے رہے، کنویں کا سارا پانی کھینچ ڈالا وہ انگوٹھی دستیاب نہ ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5879]
حدیث حاشیہ:
تین سطروں میں نقش مبارک اس طرح سے تھا محمد رسول اللہ حدیث اور باب میں یہی مطابقت ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5879
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2938
2938. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب نبی کریم ﷺ نے شاہ روم کو خط لکھنے کاارادہ کیا تو آپ سے کہا گیا کہ و مہر کے بغیر خط نہیں پڑھتے، چنانچہ آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی۔ گویا اب بھی میں آپ کے دست مبارک میں اس کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ اس انگوٹھی پر محمد رسول اللہ ﷺ کندہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2938]
حدیث حاشیہ:
مقصد یہ ہے کہ اسلام کی دعوت باضابطہ تحریری طور پر سربراہ کی مہر سے مزین ہونی چاہیے۔
یہ جب ہے کہ شاہان عالم کو دعوتی خطوط لکھے جائیں اس سے تحریری تبلیغ کا بھی مسنون ہونا ثابت ہوا۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2938
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3106
3106. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ جب خلیفہ مقرر ہوئے توا نھوں نے انھیں بحرین بھیجا اور ان کو یہ خط لکھ کردیا اور اس پر نبی کریم ﷺ کی مہر لگائی۔ مہر نبوت تین سطر میں تھی: محمد ایک سطر، رسول دوسری سطر اور لفظ اللہ تیسری سطر تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3106]
حدیث حاشیہ:
یہ مہرآنحضرت ﷺ کی تھی اس کا نقش اس طرح تھا محمد رسو ل اللہ۔
باب کا مطلب اس سے یوں نکلا کہ آنحضرت ﷺ کی مہر حضرت ابوبکرص استعمال کرتے رہے، ان کے بعد یہ مہر حضرت عمرص کے پاس رہی، ان کے بعد حضرت عثمان ؓکے پاس، پھر ان کے ہاتھ سے اریس نامی کنویں میں گرگئی ہر چندڈھونڈا مگر نہ ملی۔
سچ ہے ﴿کُل مَن عَليھَا فَان﴾ (رحمن: 26)
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3106
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 65
65. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک خط لکھا، یا لکھنے کا ارادہ فرمایا۔ تو آپ سے کہا گیا: وہ لوگ بغیر مہر لگا خط نہیں پڑھتے۔ تب آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر ”محمد رسول اللہ“ کے الفاظ کندہ تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ (اس کی خوب صورتی میری نظر میں کھب گئی) گویا میں اب بھی آپ کے ہاتھ میں اس کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں۔ (شعبہ کہتے ہیں) میں نے قتادہ سے پوچھا: اس پر ”محمد رسول اللہ“ کے الفاظ کندہ تھے، یہ الفاظ کس کے بیان کردہ ہیں؟ انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ کے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:65]
حدیث حاشیہ:
مناولہ اصطلاح محدثین میں اسے کہتے ہیں اپنی اصل مرویات اور مسموعات کی کتاب جس میں اپنے استادوں سے سن کر حدیثیں لکھ رکھی ہوں اپنے کسی شاگرد کے حوالہ کردی جائے اور اس کتاب میں درج شدہ احادیث کو روایت کرنے کی اس کو اجازت بھی دے دی جائے، تو یہ جائز ہے اور حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کی مراد یہی ہے۔
اگراپنی کتاب حوالہ کرتے ہوئے روایت کرنے کی اجازت نہ دے تو اس صورت میں حدثنی یا أخبرنی فلان کہنا جائز نہیں ہے۔
حدیث نمبر64 میں کسریٰ کے لیے بددعا کا ذکر ہے کیوں کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہ مبارک چاک کر ڈالا تھا، چنانچہ خود اس کے بیٹے نے اس کا پیٹ پھاڑ ڈالا۔
سوجب وہ مرنے لگا تواس نے دواؤں کا خزانہ کھولا اور زہر کے ڈبے پر لکھ دیا کہ یہ دوا قوت باہ کے لیے اکسیر ہے۔
وہ بیٹا جماع کا بہت شوق رکھتا تھا جب وہ مرگیا اور اس کے بیٹے نے دواخانے میں اس ڈبے پر یہ لکھا ہوا دیکھا تو اس کو وہ کھا گیا اور وہ بھی مرگیا۔
اسی دن سے اس سلطنت میں تنزل شروع ہوا، آخر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ان کا نام ونشان بھی باقی نہیں رہا۔
ایران کے ہر بادشاہ کا لقب کسریٰ ہوا کرتا تھا۔
اس زمانے کے کسریٰ کا نام پرویز بن ہرمزبن نوشیروان تھا، اسی کو خسرو پرویز بھی کہتے ہیں۔
اس کے قاتل بیٹے کا نام شیرویہ تھا، خلافت فاروقی میں سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں ایران فتح ہوا۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی خداداد قوت اجتہاد کی بنا پر ہردو مذکورہ احادیث سے ان اصطلاحات کو ثابت فرمایا ہے پھر تعجب ہے ان کم فہموں پر جو حضرت امام کو غیرفقیہ اور زودرنج اور محض ناقل حدیث سمجھ کر آپ کی تخفیف کے درپے ہیں۔
نعوذ باللہ من شرور أنفسنا
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 65
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 7162
7162. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو صحابہ کرام ؓ نے کہا: اہل روم صرف سر بمہر خط قبول کرتے ہیں،چنانچہ نبی ﷺ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی گویا میں اس کی چمک کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ اس پر ”محمد رسول اللہ“ کے الفاظ کنندہ تھے [صحيح بخاري، حديث نمبر:7162]
حدیث حاشیہ:
اسی حدیث سے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے نکالا کہ خط پر عمل ہوسکتا ہے بالخصوص جب وہ مختوم ہو تو شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 7162
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5199
´نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کے وصف کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی جس کا نگینہ حبشی تھا ۱؎ اور اس میں ـ «محمد رسول اللہ» نقش کیا گیا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5199]
اردو حاشہ:
(1) وہ سونے کی تھی یا چاندی کی یا کسی اور چیز کی، نیز اس کا نگینہ تھا یا نہیں تھا اور اگرتھا تو کس طرح کا تھا۔ وغیرہ۔ اور یہ تمام تر تفصیل مذکو رہ باب کے تحت مروی روایات میں مکمل طور پر بیان کی گئی ہیں۔
(2) اس حدیث مبارکہ سے یہ مسئلہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مرد اور عورت ہردو کے لیے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز اور مشروع ہے۔ بعض روایات میں سلطان اور حاکم کے علاوہ دوسرے لوگوں کو انگوٹھی پہننے سے منع کیا گیا ہے تو ان دونوں قسم کی روایات میں تطبیق اس طرح سے دی گئی ہے کہ نہی تنزیہ پر محمول ہے، یعنی حاکم وغیرہ کے علاوہ دیگر لوگوں کے لیے انگوٹھی نہ پہننا بہتر ہے۔ واللہ أعلم۔
(3) انگوٹھی یا اس کے نگینے پر کوئی نقش وغیرہ بنوانا جائز ہے، نیز اپنا نام یا کوئی کلمۂ حکمت وغیرہ بھی کندہ کرایا جاسکتا ہے۔ اہل علم کے صحیح قول کے مطابق اس پر اللہ تعالی کا اسم مبارک ”اللہ“ بھی کندہ کرایا اور لکھوایا جاسکتا ہے۔ بعض علماء نے اس سے منع کیا ہے لیکن ممانعت والا قول ضعیف اور مرجوح قراردیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ سونے کی انگوٹھی کی طرح سونے کا نگینہ بھی ناجائز ہوگا۔
(4) ”حبشی“ یعنی حبشی انداز کا بنا ہوا تھا۔ یا حبشہ کا بنا ہوا تھا۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ جس عقیق، ماربل یا قیمتی پتھر کا تھا وہ حبشہ سے لائے گئے تھے کیونکہ ایسے پتھروں وغیرہ کی کانیں ادھر، یمن اور حبشہ میں تھیں۔ بعض نے معنیٰ کیے ہیں کہ ا س کا نگینہ سیاہ تھا۔ اس وجہ سے اسے حبش کہا گیا ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ نگینہ بھی چاندی ہی کا تھا۔ اس کی بابت یہ بھی کہا گیا ہے کہ مختلف انگوٹھیاں تھیں، اس لیے کسی کا نگینہ چاندی کا تھا اور کسی کا حبشی تھا۔ بعض محققین نے یہ تطبیق دی ہے کہ حبشی نگینہ سونے کی انگوٹھی کا تھا اور چاندی کی انگوٹھی میں نگینہ چاندی ہی کا تھا۔ یہاں راوی کو غلطی لگی جو اس نے حبشی نگینہ چاندی کی انگوٹھی سے منسوب کردیا۔ یہ اما م بیہقی کا قول ہے۔ واللہ أعلم۔
(5) ”کندھ تھے“ رسو ل اللہ ﷺ کے جو خطوط سامنے آئے ہیں ان میں محمد رسول اللہ کے الفاظ کی ترتیب اس طرح سے ہے کہ یہ تینوں الفاظ ایک سطر میں نہیں لکھے گئے بلکہ تین سطروں میں ہیں۔ سب سے اوپر لفظ ”اللہ“ درمیان میں لفظ ”رسول“ اور نیچے لفظ ”محمد“ ﷺ ہے۔ اس ترتیب سے آپ کا حسن ادب واضح ہوتا ہے کہ آپ نے اپنا نام باوجود ترتیب میں مقدم ہونے کے نیچے رکھا اور لفظ ”اللہ“ اوپر۔ فداہ أبي وأمي ونفسي وروحي ﷺ.
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5199
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5200
´نبی اکرم صلی للہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کے وصف کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چاندی کی ایک انگوٹھی تھی، اسے آپ دائیں ہاتھ میں پہنتے تھے، اس کا نگینہ حبشی تھا۔ آپ نگینہ ہتھیلی کی طرف رکھتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5200]
اردو حاشہ:
(1) ”دائیں ہاتھ میں“ کیونکہ زینت کے لیے دایاں ہاتھ مناسب ہے۔ بایاں ہاتھ تو استنجا وغیرہ کےلیے استعمال ہوتا ہے۔ بعض روایات میں بائیں کا بھی ذکر ہے بائیں میں انگوٹھی پہننے کی روایات بھی صحیح ہیں، لہٰذا دونوں ہاتھوں میں انگوٹھی پہننا جائز ہے مگر ترجیح دائیں کو ہے کیونکہ یہ اکثر روایات میں ہے۔
(2) ”ہتھیلی کی جانب“ کیونکہ آپ نے اسے زینت کے لیے نہیں پہنا تھا بلکہ مہر لگانے کےلیے پہنا تھا۔ ویسے کوئی حرج نہیں اگر نگینہ ہاتھ کی پشت کی طرف بھی کر لیا جائے کیونکہ منع کی کوئی دلیل نہیں۔
(3) مذکورہ احادیث صحیحہ سے یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے کہ مردوں کے لیے چاندی کی انگوٹھی پہننا جائز ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے خود چاندی کی انگوٹھی بنوائی اور پہنی۔ آپ کے صحابہ نے بھی نبی ﷺ کے اس طریقے کو اپنایا اور ائمہ دین نے بھی اس پر عمل کیا۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5200
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5206
´انگوٹھی کس ہاتھ میں پہنی جائے؟ اس باب میں علی و عبداللہ بن جعفر (رضی الله عنہما) کی حدیث کا ذکر۔`
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی اپنے داہنے ہاتھ میں پہنتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5206]
اردو حاشہ:
تفصیل کےلیے دیکھئے، حدیث: 5200
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5206
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5210
´پیتل کی انگوٹھی پہننے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نکلے اور آپ نے چاندی ایک چھلا بنوایا تھا۔ آپ نے فرمایا: ”جو اس طرح کا چھلا بنوانا چاہے تو بنوا لے، البتہ جو کچھ اس پر نقش ہے اسے نقش نہ کرائے۔“ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5210]
اردو حاشہ:
(1) نبئ اکرم ﷺ کی انگوٹھی مبارک پر”محمد رسول اللہ“ نقش تھا جو دراصل آپ کی مہر تھی۔ اگر دوسرے لوگوں کو بھی اس نقش کی اجازت ہوتی تو اس مہر میں امتیاز نہ رہتا اور جعل سازی ہوجاتی۔ مہر بنوانے کا مقصد ہی فوت ہو جاتا۔
(2) اس حدیث مبارکہ اور اس کے بعد والی حدیث کی مناسبت مذکورہ باب کے ساتھ نہیں بنتی۔ بہتر اور افضل یہ تھا کہ ان احادیث پر اسی طرح باب باندھا جاتا جیسا کہ سنن الکبریٰ میں قائم کیا گیا ہے، یعنی اس بات کی ممانعت کہ کوئی شخص انگوٹھی پر یہ الفاظ نقش کرائے ”مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ“۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5210
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5282
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی اور اس کے نقش کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی چاندی کا تھا۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5282]
اردو حاشہ:
رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھی مبارک کے نگینے کی تفصیل حدیث: 5199 میں گزر چکی ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5282
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5283
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی اور اس کے نقش کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم نے انگوٹھی بنوائی ہے اور اس میں «محمد رسول اللہ» نقش کرایا ہے، لہٰذا اب کوئی ایسا نقش نہ کرائے۔“ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5283]
اردو حاشہ:
”ہم نے“ ممکن ہے یہ الفاظ کسی راوی کے ہوں یعنی اس نے احتراماً جمع کے الفاظ ذکر کر دیے ہیں۔ اگرچہ غالب امکان یہ ہے کہ آپ نے اسی طرح کے صیغے استعمال فرمائے ہوں گے۔ یہ بات کرنے کا شاہی اندازہ ہے اورانبیائے کرام خصوصاً خاتم النبین ﷺ سے بڑا ”شاہ“ کون ہو سکتا ہے؟ (باقی تفصیلات کے لیے دیکھیے، احادیث: 5210، 5210)
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5283
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5286
´انگوٹھی کس انگلی میں ہو؟`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: گویا میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کی سفیدی آپ کے بائیں ہاتھ کی انگلی میں (اب بھی) دیکھ رہا ہوں۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5286]
اردو حاشہ:
دائیں بائیں کی تفصیل پیچھے گزر چکی ہے۔ دیکھیے حدیث: 5200۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5286
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4214
´انگوٹھی بنانے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض شاہان عجم کو خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو آپ سے عرض کیا گیا کہ وہ ایسے خطوط کو جو بغیر مہر کے ہوں نہیں پڑھتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں «محمد رسول الله» کندہ کرایا۔ [سنن ابي داود/كتاب الخاتم /حدیث: 4214]
فوائد ومسائل:
رسول اللہﷺ کی انگوٹھی محض زینت کے لیئے نہیں تھی، بلکہ بطور مہر استعمال ہوتی تھی۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4214
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4216
´انگوٹھی بنانے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی، اس کا نگینہ حبشی تھا۔ [سنن ابي داود/كتاب الخاتم /حدیث: 4216]
فوائد ومسائل:
حبشی نگینے کا مفہوم یہ ہے کہ اس کی بناوٹ کا انداز حبشی تھا یا پتھر حبشے کا تھا۔
کالے رنگ کی وجہ سے اسے حبشی کہا گیا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4216
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4221
´انگوٹھی نہ پہننے کا بیان۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں چاندی کی ایک انگوٹھی دیکھی تو لوگوں نے بھی انگوٹھیاں بنوا لیں اور پہننے لگے، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی پھینک دی تو لوگوں نے بھی پھینک دی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے زیاد بن سعد، شعیب اور ابن مسافر نے زہری سے روایت کیا ہے، اور سبھوں نے «من ورق» کہا ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب الخاتم /حدیث: 4221]
فوائد ومسائل:
بعض شارحین (امام نووی وغیرہ) نے کہا ہے کہ نبیﷺ نے جو انگوٹھی پھینکی تھی وہ سو نے کی تھی، جیسا کہ دوسری روایت سے ثابت ہے، اس لیئے چاندی کی انگوٹھی کہنا امام زہری کا وہم ہے۔
واللہ اعلم (عون المعود)
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4221
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5478
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس میں محمد رسول اللہ کندہ کروایا اور لوگوں سے فرمایا: ”میں نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی ہے اور میں نے اس میں محمد رسول اللہ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5478]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ اپنے نام کا نقش انگوٹھی میں کندہ کروانا درست ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5478
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5482
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسریٰ، قیصر اور نجاشی کی طرف خط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو کہا گیا، وہ صرف مہر والا خط قبول کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاندی کی گول انگوٹھی بنوائی اور اس میں محمد رسول اللہ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5482]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ نے مختلف بادشاہوں کو صلح حدیبیہ کے بعد خطوط لکھوائے،
اس طرح انگوٹھی 6ھ کے آخر میں بنوائی گئی،
کیونکہ خطوط محرم 7ھ میں روانہ کیے گئے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5482
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5486
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ حبشی تھا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5486]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
نگینہ حبشی تھا کا مفہوم بعض علماء کے نزدیک یہ ہے کہ اس کا نگینہ حبشہ سے آنے والے پتھر کا تھا اور بقول بعض سیاہ رنگ تھا،
لیکن بعض احادیث میں آیا ہے،
اس کا نگینہ چاندی کا تھا،
اس لیے صحیح معنی یہ ہے کہ اس کا اسلوب و انداز حبشی طرز پر تھا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5486
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5489
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی اس میں تھی اور اپنے بائیں ہاتھ کی چھنگلی کی طرف اشارہ کیا۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:5489]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے انگوٹھی دائیں اور بائیں دونوں ہاتھوں میں پہننا ثابت ہے،
اس لیے دونوں ہاتھوں میں سے کسی میں بھی پہنی جا سکتی ہے اور بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ زیب و زینت کے لیے ہو تو دائیں میں پہننا بہتر ہے اور اگر ضرورت کے لیے تو بائیں میں پہننا افضل اور انگوٹھی چھنگلی میں اس لیے پہنی جاتی ہے کہ وہ ایک طرف اور کام کاج کرتے وقت مختلف چیزوں کے ساتھ ٹکرانے سے بچی رہتی ہے،
کیونکہ یہ کام کاج میں کم ہی استعمال ہوتی ہے،
اس لیے آپ درمیان انگلی اور انگشت شہادت میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا،
کیونکہ کام کاج کا وزن ان پر زیادہ ہوتا ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5489
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:65
65. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا: نبی ﷺ نے ایک خط لکھا، یا لکھنے کا ارادہ فرمایا۔ تو آپ سے کہا گیا: وہ لوگ بغیر مہر لگا خط نہیں پڑھتے۔ تب آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر ”محمد رسول اللہ“ کے الفاظ کندہ تھے۔ حضرت انس ؓ کا بیان ہے کہ (اس کی خوب صورتی میری نظر میں کھب گئی) گویا میں اب بھی آپ کے ہاتھ میں اس کی سفیدی کو دیکھ رہا ہوں۔ (شعبہ کہتے ہیں) میں نے قتادہ سے پوچھا: اس پر ”محمد رسول اللہ“ کے الفاظ کندہ تھے، یہ الفاظ کس کے بیان کردہ ہیں؟ انہوں نے کہا: حضرت انس ؓ کے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:65]
حدیث حاشیہ:
1۔
صحیح بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی ایک روایت میں ہے کہ آپ نے اہل عجم کو مکتوب لکھنے کا ارادہ فرمایا (حدیث: 5872)
، دوسری روایت کے مطابق اہل روم کو خط لکھنے کا پروگرام بنایا(حدیث: 5875)
۔
بہرحال جب آپ نے سلاطین عالم کے نام دعوتی خطوط بھیجنے کاارادہ فرمایا تو آپ کو بتایا گیا کہ جس خط پر مہر نہ ہو، یہ لوگ اسے ہاتھ نہیں لگاتے۔
چونکہ مقصد ان لوگوں تک دعوت اسلام پہنچانا تھا، اس لیے آپ نے چاندی کی انگوٹھی بنوائی۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کو بنیاد بنا کر یہ تنبیہ کی ہے کہ مکاتبہ وہ معتبر ہوگا جس پر مہرہو۔
یہ بھی اعتماد کے لیے ہے۔
اگرمکتوب الیہ تحریر پہچانتا ہو اور اسے اعتماد ہوتو غیر مختوم تحریر پر عمل بھی درست ہے۔
اگر مکتوب الیہ تحریر نہیں پہچانتا اور اسے اعتماد بھی نہیں تو صرف مہر کا اعتبار نہیں کیا جائےگا کیونکہ مہر بھی جعلی ہوسکتی ہے۔
اس حدیث سے اتنا تو معلوم ہوا کہ علم کے سلسلے میں مکاتبت کا اعتبار ہے لیکن شرط یہی ہے کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ تک انتقال میں کوئی کمزوری نہ آئے۔
یہ بھی معلوم ہوا کہ مکاتبت کی صورت بھی مشافہت(رُو دررُو)
کی طرح لائق استناد ہے۔
2۔
آپ نے چاندی کی انگوٹھی اس لیے بنوائی تھی تاکہ آپ کے خطوط کا اعتبار کیا جائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ انگوٹھی حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی۔
پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے اپنے پاس رکھا، بالآخر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس رہی حتیٰ کہ بئراریس میں گرگئی اور تلاش بسیار کے باوجود نہ مل سکی۔
انگوٹھی کے متعلق مفصل گفتگو کتاب اللباس میں کی جائےگی۔
3۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اقسام تحمل حدیث سے صرف چار کا ذکر کیا ہے۔
(1)
۔
سماع من الشیخ۔
(2)
۔
قراءۃ علی الشیخ۔
(3)
۔
مناولہ۔
(4)
۔
مکاتبہ۔
باقی اقسام:
وجادہ، اعلام، وصیہ، جن میں اجازت نہیں ہوتی، کا ذکر نہیں کیا۔
کیونکہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
(فتح الباري: 205/1)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 65
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2938
2938. حضرت انس ؓسے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ جب نبی کریم ﷺ نے شاہ روم کو خط لکھنے کاارادہ کیا تو آپ سے کہا گیا کہ و مہر کے بغیر خط نہیں پڑھتے، چنانچہ آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی۔ گویا اب بھی میں آپ کے دست مبارک میں اس کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ اس انگوٹھی پر محمد رسول اللہ ﷺ کندہ تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2938]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب شاہان عالم کو دعوتی خطوط لکھے جائیں تو وہ دعوت باضابطہ طور پر سربراہ کی مہرسے مزین ہونی چاہیے۔
عمومی دعوت ان کے شان کے شایان نہیں۔
دعوت دینے کے بعد اگر وہ اسے قبول نہ کریں تو پھر ان کے خلاف جہاد کیا جائے۔
اس کی تفصیل آئندہ حدیث کے فوائد میں ملاحظہ کریں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2938
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3106
3106. حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ حضرت ابو بکر ؓ جب خلیفہ مقرر ہوئے توا نھوں نے انھیں بحرین بھیجا اور ان کو یہ خط لکھ کردیا اور اس پر نبی کریم ﷺ کی مہر لگائی۔ مہر نبوت تین سطر میں تھی: محمد ایک سطر، رسول دوسری سطر اور لفظ اللہ تیسری سطر تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3106]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث میں رسول اللہ ﷺ کی انگوٹھی کا ذکر ہے جسے سرکاری مہر کے طور پر استعمال کیا جاتاتھا۔
رسول اللہ ﷺ نے جب اہل روم کو دعوتی خطوط لکھنے کا ارادہ فرمایا تو عرض کی گئی کہ وہ مہر کے بغیر خطوط نہیں پڑھتے توآپ نے اس وقت یہ انگوٹھی بنوائی۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5875)
اسے آپ ہاتھ میں پہنتے۔
آپ کے بعد اسے حضرت ابوبکر ؓنے استعمال کیا۔
ان کے بعد حضرت عمر ؓکے ہاتھ میں رہی۔
ان کے بعد حضرت عثمان ؓکے پاس آئی، چنانچہ حضرت عثمان ؓ ایک دن اریس نامی کنویں پر بیٹھے انگوٹھی سے کھیل رہے تھے کہ اچانک وہ کنویں میں گرگئی۔
ا س کاپانی نکال کر تین دن تک اسے تلاش کیا گیا لیکن وہ نہ مل سکی۔
(صحیح البخاري، اللباس، حدیث: 5879)
اللہ ہی بہتر جانتاہے کہ اس میں کیا حکمت تھی۔
بہرحال انگوٹھی آپ کا وہ ترہ تھا جسے آپ کے بعد خلفائے راشدین ؓنے استعمال کیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3106
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5870
5870. حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ کی انگوٹھی چاندی کی تھی اور اس کا نگینہ بھی چاندی کا تھا۔ یحیٰی بن ایوب نے کہا: مجھے حمید نے خبر دی انہوں نے حضرت انس ؓ سے سنا انہوں نے نبی ﷺ سے بیان کیا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5870]
حدیث حاشیہ:
(1)
انگوٹھی کی چمک اس کے نگینے کی وجہ سے تھی۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نگینہ چاندی کا تھا جبکہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ اس کا نگینہ حبشی تھا۔
(سنن أبي داود، حدیث: 4216)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اس کا ڈیزائن یا نقش حبشی تھا۔
اگر اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ نگینہ حبشہ کا سیاہ پتھر وہاں کا عقیق تھا تو ممکن ہے کہ دو انگوٹھیاں ہوں ایک چاندی کے نگینے والی اور دوسری حبشہ کے سیاہ پتھر کے نگینے والی۔
ایک حدیث میں ہے کہ وہ انگوٹھی لوہے کی تھی جس پر چاندی کا ملمع کیا گیا تھا اور حضرت معقیب رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظ تھے۔
(سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4224) (2)
اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ دو انگوٹھیاں تھیں۔
ایک خالص چاندی کی اور دوسری لوہے کی جس پر چاندی کا ملمع کیا گیا تھا۔
لوہے پر جس چیز کا ملمع کیا گیا ہو وہ اسی کے حکم میں ہو گا۔
(فتح الباري: 396/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5870
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5874
5874. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ نے ایک انگوٹھی بنوائی اور فرمایا: ”ہم نے ایک انگوٹھی بنوائی ہے اور اس پر نقش کندہ کرایا ہے اس بنا پر کوئی شخص انگوٹھی پر یہ نقش کندہ نہ کرائے۔“ حضرت انس ؓ نے فرمایا: گویا میں اب بھی رسول اللہ ﷺ کی چھنگلیا میں اس (انگوٹھی) کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5874]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شہادت والی اور درمیانی انگلی میں انگوٹھی پہننے سے منع فرمایا۔
(صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5490 (2078)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ درمیانی اور شہادت والی انگلی میں انگوٹھی نہیں پہننی چاہیے بلکہ چھنگلیا اور اس کے ساتھ والی انگلی میں انگوٹھی پہنی جائے۔
ان انگلیوں میں انگوٹھی پہننے میں حکمت یہ ہے کہ یہ ہاتھ کے ایک طرف ہوتی ہیں اور کوئی چیز پکڑتے وقت یہ انگلیاں بہت کم استعمال ہوتی ہیں، اس طرح انگوٹھی کی توہین نہیں ہوتی۔
(2)
مستحب یہ ہے کہ انگوٹھی دائیں ہاتھ میں پہنی جائے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں ہاتھ میں انگوٹھی پہنتے تھے (سنن أبي داود، الخاتم، حدیث: 4226)
اگرچہ بائیں ہاتھ میں بھی پہنی جا سکتی ہے جیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے۔
(صحیح مسلم، اللباس والزینة، حدیث: 5489 (2095)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5874
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5875
5875. حضرت انس ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جب نبی ﷺ نے شاہ روم کو خط لکھنے کا ارادہ کیا تو آپ نے عرض کی گئی وہ لوگ آپ کا خط ہرگز نہیں پڑھیں گے جب تک اس پر مہر ثبت نہ ہو، اس لیے آپ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ تھا گویا میں اب بھی آپ کے ہاتھ میں اس کی چمک دیکھ رہا ہوں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5875]
حدیث حاشیہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی صرف زینت کے لیے نہیں بلکہ وہ مہر کے طور پر بھی استعمال ہوتی تھی، اس لیے جن حضرات کو مہر کی ضرورت ہو وہ اپنی انگوٹھی پر اپنا یا اپنے ادارے کا نام کندہ کرا سکتے ہیں، اور جنہیں اس کی ضرورت نہ ہو وہ سادہ انگوٹھی استعمال کریں۔
احادیث میں متعدد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے انگوٹھی پہننا منقول ہے۔
واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5875
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5877
5877. حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی اور اس پر "محمد رسول اللہ'' کندہ کرایا اور فرمایا: ہم نے یہ انگوٹھی چاندی کی بنوائی ہے اور اس پر [محمد رسول اللہ] کندہ کرایا ہے لہذا کوئی شخص اپنی انگوٹھی پریہ نقش قطعاً کندہ نہ کرائے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5877]
حدیث حاشیہ:
(1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش "محمد رسول اللہ" کی حیثیت چونکہ سرکاری تھی، اس لیے اس جیسے نقش کی انگوٹھی بنوانے سے روک دیا گیا اور اس نقش کی سرکاری حیثیت کی وجہ ہی سے بعد میں اسے خلفائے ثلاثہ بھی استعمال کرتے رہے حتی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے جب وہ انگوٹھی گم ہو گئی تو انہوں نے اسی نقش والی انگوٹھی دوبارہ بنوائی، اس بنا پر ہمارا رجحان یہ ہے کہ حاکم وقت، قاضی، مفتی یا دوسرے صاحب اختیار افسران بالا کی مہر کی نقل تیار کرنا منع ہے کیونکہ اس سے جعل سازی اور فریب کاری کا دروازہ کھلتا ہے۔
(2)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نقش کی مثل نقش کندہ کرانے کی ممانعت آپ کی حیات طیبہ سے خاص تھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ نقش کندہ کرانا جائز ہے، چنانچہ تینوں خلفائے راشدین اسی انگوٹھی کو استعمال کرتے تھے، البتہ اپنا نام یا اللہ کا ذکر کندہ کرانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے متعدد روایات نقل کی ہیں جن میں اپنے نام یا اللہ کا ذکر کندہ کرانے کا ذکر ہے۔
(فتح الباري: 403/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5877
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5879
5879. حضرت انس ؓ سے مروی اس حدیث میں یہ اضافہ ہے نبی ﷺ کی انگوٹھی وفات تک آپ کے ہاتھ میں رہی۔ آپ کے بعد حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے ہاتھ میں رہی حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے بعد وہ حضرت عمر بن خطاب ؓ کے ہاتھ میں رہی۔ پھر جب حضرت عثمان بن عفان ؓ کا دور خلافت آیا تو آپ ایک روز اریس کے کنویں پر بیٹھے آپ نے انگوٹھی اتاری اور الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے تو وہ کنویں میں گر گئی۔ حضرت انس ؓ نے بیان کیا کہ ہم تین دن تک اسے دھونڈتے رہے، کنویں کا سارا پانی کھینچ ڈالا وہ انگوٹھی دستیاب نہ ہوئی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5879]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا نقش "محمد رسول اللہ" تین سطروں پر مشتمل تھا اور ان کی کتابت نیچے سے اوپر کو تھی۔
لفظ اللہ تینوں سطروں سے اوپر لفظ محمد سب سے نیچے اور رسول کا لفظ درمیان میں تھا۔
اس کی صورت یہ تھی:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جو خطوط مبارک ملے ہیں ان پر اسی انداز کی مہر لگی ہوئی ہے۔
(2)
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں چھ سال تک یہ انگوٹھی رہی، ساتوین سال یہ بئر اریس میں گر گئی۔
یہ کنواں مسجد قباء کے پاس تھا۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ امور سلطنت میں غوروفکر کرتے ہوئے ایسے کھو گئے کہ انگوٹھی کو بار بار اتارتے اور پہنتے، اسی دوران میں وہ کنویں میں گر گئی، پھر بہت تلاش کرنے کے باوجود دستیاب نہ ہو سکی۔
(3)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ نقش مبارک کی ترتیب نیچے سے اوپر کی صراحت مجھے نہیں مل سکی بلکہ اسماعیلی کی روایت اس کے خلاف ہے۔
اس میں ہے کہ محمد پہلی سطر، رسول دوسری سطر اور لفظ اللہ تیسری سطر تھی اور انہیں الٹا لکھا گیا تھا تاکہ مہر لگاتے وقت سیدھے الفاظ ظاہر ہوں۔
(فتح الباري: 405/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5879
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:7162
7162. سیدنا انس بن مالک ؓ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا: جب نبی ﷺ نے اہل روم کو خط لکھنا چاہا تو صحابہ کرام ؓ نے کہا: اہل روم صرف سر بمہر خط قبول کرتے ہیں،چنانچہ نبی ﷺ نے چاندی کی ایک مہر بنوائی گویا میں اس کی چمک کو اب بھی دیکھ رہا ہوں۔ اس پر ”محمد رسول اللہ“ کے الفاظ کنندہ تھے [صحيح بخاري، حديث نمبر:7162]
حدیث حاشیہ:
1۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خط پر عمل ہو سکتا ہے جب وہ سر بمہر ہو تو اس کے قابل اعتبار ہونے میں کوئی شک نہیں لیکن تاریخی طور پر یہ بات ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہر شدہ خط پر کسی نے گواہی طلب کی ہو کہ یہ واقعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کا خط ہے جعلی طور پر کسی دوسرے نے نہیں لکھا۔
2۔
بہر حال اس حدیث سے مہر شدہ خط اور ایک قاضی کے دوسرے قاضی کو خط لکھنے کے جواز پر استدلال موجود ہے۔
پھر مالی معاملات اور قصاص و حدود کی تفریق کرنا بھی خود ساختہ ہے۔
کتاب و سنت میں اس کی تخصیص کے متعلق کوئی دلیل نہیں ہے۔
واللہ اعلم۔w
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 7162