سنن ابن ماجه
كتاب اللباس
کتاب: لباس کے متعلق احکام و مسائل
36. بَابُ : اتِّخَاذِ الْجُمَّةِ وَالذَّوَائِبِ
باب: کان کی لو سے بال نیچے رکھنے اور چوٹیاں رکھنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3634
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَنْبَأَنَا جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ أَنَسٍ , قَالَ:" كَانَ شَعَرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَعَرًا رَجِلًا , بَيْنَ أُذُنَيْهِ وَمَنْكِبَيْهِ".
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال دونوں کانوں اور مونڈھوں کے درمیان سیدھے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/اللباس 68 (6905، 60906)، صحیح مسلم/الفضائل 26 (2338)، سنن الترمذی/الشمائل 3 (26)، سنن النسائی/الزینة 6 (5056)، (تحفة الأشراف: 1144)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/203) (صحیح)»
وضاحت: ۱ ؎: اسی واسطے سر کے بال دونوں کانوں سے لے کر مونڈوں تک رکھ سکتا ہے اور مونڈوں سے زیادہ لٹکانا مرد کے لئے بعضوں نے مکروہ رکھا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3634 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3634
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:
(1)
سیدھے کا مطلب یہ ہے کہ بہت زیادہ گھنگریالے نہیں تھے بلکہ ہلکے سے خم دار تھے۔
(2)
جب بال کٹوا لیے جاتے تو کانوں کی لو تک ہوتے تھے جب بڑھ جاتے تو بعض اوقات کندھوں تک پہنچ جاتے تھے۔
(3)
حج اور عمرے کے موقع پر رسول اللہ ﷺسر کے سارے بال اتروا دیتے تھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3634
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5056
´مونچھ کاٹنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بال درمیانے قسم کے تھے، نہ بہت گھنگرالے تھے، نہ بہت سیدھے، کانوں اور مونڈھوں کے بیچ تک ہوتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5056]
اردو حاشہ:
(1) ”لہردار“ ممکن ہے پیدائشی طور پر لہر دار ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ لمبے ہونے کی وجہ سے ان میں بل پڑ گئے ہوں۔ لمبے بالوں میں عموماً ایسے ہوتا ہے۔
(2) کانوں اور کندھوں کے درمیان‘ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کانوں کے نچلے حصے کے برابر بال کاٹ لیتے ہوں گے۔ جب وہ بڑھتے بڑھتے کندھوں کو لگنے لگتے تو پھر کاٹ دیتے۔ یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ آپ سر جھکاتے تو آپ کے بال مبارک کانوں کے برابر محسوس ہوتے اور جب سرمبارک اٹھاتے تو کندھوں کولگتے تھے۔ عام حالات میں کانوں اور کندھوں کے درمیان رہتے۔ واللہ أعلم۔
(3) دونوں صورتوں میں بال کٹوانے پر دلالت ہوتی ہے۔
(4) اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ڈاڑھی اور سرکے بالوں کا حکم الگ الگ ہے۔ سر کے بال کٹوانا اورمنڈوانا دونوں جائز ہیں جبکہ ڈاڑھی کےبال کٹوانا اور منڈوانا دونوں ناجائز اور حرام کام ہیں۔5۔ رسول اللہ ﷺ حسن تخلیق کا شاہکار تھے، اس لیے نیم گھنگریالے بال ہی حسن و جمال کی علامت ہوں گے جیسا کہ نبی ﷺ کے بال تھے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5056
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5064
´بال رکھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کان کے آدھے حصہ تک ہوتے تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الزينة من السنن/حدیث: 5064]
اردو حاشہ:
نصف کانوں تک، یہ سابقہ روایات کے خلاف نہیں۔ کاٹتے وقت نصف کانوں کے برابرہوں، پھر بڑھ جاتے ہوں گے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5064
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5236
´سر پر بال رکھنے کا بیان۔`
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آدھے کانوں تک تھے۔ [سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5236]
اردو حاشہ:
نبی ﷺ کےبالوں کی بابت احادیث میں تین الفاظ آئے ہیں: الجمة، اللمة اور الوفرة. الجمة: کندھوں اور شانوں تک لٹکی ہوئی زلفیں اللمة: کان کی لو سے بڑھی ہوئی زلفیں الوفرة: کانوں تک پہنچنے والے، یعنی کانوں سے ملے ہوئے بال وفرہ کہلاتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کےبال مبارک، مختلف اوقات میں مختلف صورتوں میں ہوا کرتے تھے۔ مذکورہ حدیث میں ایک صورت کا ذکر ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5236
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6067
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جبکہ قتادہ رحمۃ اللہ علیہ نے ان سےپوچھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال کیسے تھے؟ آپ کے بال درمیانے تھے، نہ گھنگھریالے اورنہ بالکل کھلے اور کانوں اور آپﷺ کےکندھے کے درمیان پڑتے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6067]
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
جعد:
گھنگھریالے،
سبط،
کھلے۔
رجل:
کنگھی کئے ہوئے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6067
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6069
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال آپﷺ کے کانوں کے آدھے حصہ پر پڑتے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:6069]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
بقول ملا علی قاری،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ اور حج کے موقع پر سر منڈایا ہے،
اس کے بعد بال بڑھنے شروع ہوتے،
سر منڈوانے کے زمانہ کے قریب،
کانوں کے نصف تک پہنچتے،
پھر آہستہ آہستہ بڑھتے ہوئے کانوں کی لو تک پہنچ جاتے،
پھر کانوں اور کندھوں کے درمیان تک پہنچ جاتے،
پھر کندھوں پر پڑنے لگتے،
پھر بقول بعض بال ترشوا لیتے تو کانوں کے نصف تک ہوتے اور پھر آہستہ آہستہ بڑھتے رہتے،
اس طرح مختلف اوقات میں مختلف کیفیت ہوتی تھی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6069
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5905
5905. حضرت قتادہ سے روایت ہے انہوں نے کہا: میں نے حضرت انس بن مالک ؓ سے رسول اللہ ﷺ کے بالوں کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ ﷺ کے بال قدرے خمیدہ تھے، نہ الجھے ہوئے انتہائی پیچدا اور نہ تنے ہوئے سیدھے کھڑے تھے۔ اور وہ دونوں کانوں اور کندھوں کے درمیان تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5905]
حدیث حاشیہ:
(1)
بالوں کی تین قسمیں ہیں:
٭ وفرہ:
وہ بال جو کانوں کی لو تک ہوں۔
٭ جمہ:
وہ بال جو کندھوں اور کانوں کے درمیان ہوں۔
٭ لمہ:
وہ بال جو کندھوں تک پہنچ جائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں کی تینوں قسمیں احادیث میں مروی ہیں۔
یہ مختلف اوقات اور مختلف حالات کے اعتبار سے ہے۔
(2)
دراصل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال خمیدہ تھے۔
آپ جب کنگھی کرتے تو کندھوں تک یا ان کے قریب پہنچ جاتے اور کچھ وقت گزر جانے کے بعد آپ کے بال خم دار ہو جاتے اور کانوں کی لو تک پہنچ جاتے۔
جس نے کنگھی کیے ہوئے بال دیکھے اس نے بیان کیا کہ آپ کے موئے مبارک کندھوں تک تھے اور جس نے دوسری حالت کو دیکھا اس نے کانوں کی لو تک روایت کیا، یعنی ہر راوی نے وہی بتایا جس کا اس نے مشاہدہ کیا۔
واللہ أعلم (فتح الباري: 439/10)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5905