سنن ابن ماجه
كتاب الطب
کتاب: طب کے متعلق احکام و مسائل
24. بَابُ : مَنِ اكْتَوَى
باب: جو داغ لگوائے اس کے حکم کا بیان۔
حدیث نمبر: 3492
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , وَمُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ غُنْدَرٌ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الدَّارِمِيُّ , حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ الْأَنْصَارِيُّ , قال: سَمِعَتُ عَمِّي يَحْيَى , وَمَا أَدْرَكْتُ رَجُلًا مِنَّا بِهِ شَبِيهًا يُحَدِّثُ النَّاسَ , أَنَّ سَعْدَ بْنَ زُرَارَةَ وَهُوَ جَدُّ مُحَمَّدٍ مِنْ قِبَلِ أُمِّهِ , أَنَّهُ أَخَذَهُ وَجَعٌ فِي حَلْقِهِ يُقَالُ لَهُ: الذُّبْحَةُ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَأُبْلِغَنَّ أَوْ لَأُبْلِيَنَّ فِي أَبِي أُمَامَةَ عُذْرًا" , فَكَوَاهُ بِيَدِهِ فَمَاتَ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مِيتَةَ سَوْءٍ لِلْيَهُودِ , يَقُولُونَ: أَفَلَا دَفَعَ عَنْ صَاحِبِهِ , وَمَا أَمْلِكُ لَهُ وَلَا لِنَفْسِي شَيْئًا".
محمد بن عبدالرحمٰن بن اسعد بن زرارہ انصاری سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنے چچا یحییٰ بن اسعد بن زرارہ سے سنا، اور ان کا کہنا ہے کہ اپنوں میں ان جیسا ”متقی و پرہیزگار“ مجھے کوئی نہیں ملا لوگوں سے بیان کرتے تھے کہ سعد بن زرارہ ۱؎ (جو محمد بن عبدالرحمٰن کے نانا تھے) کو ایک بار حلق کا درد ہوا، اس درد کو «ذُبحہ» کہا جاتا ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ابوامامہ (یعنی! اسعد رضی اللہ عنہ) کے علاج میں اخیر تک کوشش کرتا رہوں گا تاکہ کوئی عذر نہ رہے“، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ سے داغ دیا، پھر ان کا انتقال ہو گیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہود بری موت مریں، اب ان کو یہ کہنے کا موقع ملے گا کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے ساتھی کو موت سے کیوں نہ بچا لیا، حالانکہ نہ میں اس کی جان کا مالک تھا، اور نہ اپنی جان کا ذرا بھی مالک ہوں“ ۲؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11821، ومصباح الزجاجة: 1217)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/العین 5 (13) (حسن) دون قولہ: '' لأبلغن ''»
وضاحت: ۱؎: اسعد بن زرارہ یا سعد بن زرارہ اس کے لئے دیکھئے: تحفۃ الاشراف والاصابہ۔
۲؎: اسعد بن زرارہ انصار کے سردار تھے، بڑے مومن کامل تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں تک ہو سکا ان کا علاج کیا، لیکن موت میں کسی کا زرونہیں چلتا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی یہ اختیار نہ تھا کہ کسی کی موت آئے اور وہ روک دیں، لیکن یہودیوں کو جو شروع سے بے ایمان تھے، یہ کہنے کا موقع ملا کہ اگر یہ سچے رسول ہوتے تو اپنے ساتھی سے موت کو دور کر دیتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا رد کیا، اور فرمایا: رسول کو اس سے کیا علاقہ؟ مجھ کو خود اپنی جان پر اختیار نہیں ہے، تو بھلا دوسرے کی جان پر کیا ہو گا، اور افسوس ہے کہ یہودی اتنا نہ سمجھے کہ اگلے تمام انبیاء و رسل جب ان کی موت آئی فوت ہو گئے بلکہ ہارون علیہ السلام جو موسیٰ کے بھائی تھے، موسیٰ کی زندگی میں فوت ہوئے اور موسیٰ علیہ السلام ان کو نہ بچا سکے،بھلا امر الٰہی کو کوئی روک سکتا ہے، ولی ہوں یا نبی، اللہ تعالی کے سامنے سب عاجز بندے اور غلام ہیں۔
قال الشيخ الألباني: حسن دون ميتة سوء
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3492 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3492
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ذبح ذال کی پیش اور با کی زیر یا سکون سے ہے۔
یہ گلے میں ہونے والا ایک درد یا زخم ہے۔
جس کے مریض کے بچنے کی امید بہت کم ہوتی ہے۔
(2)
مریض کے علاج کی پوری کوش کرنی چاہیے۔
تاکہ دل میں یہ خیال نہ کیاجائے کہ اگر علاج کیاجاتا تو شاید مریض اس بیماری سے نہ مرتا۔
(3)
موت وحیات صرف اللہ کے اختیار میں ہے۔
نبی کریمﷺ کے اختیار میں بھی کسی کی موت اور زندگی نہیں۔
(4)
شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی مذکورہ روایت کو اس جملے (میتة سوء۔
۔
۔)
”یہودیوں کوبری موت نصیب ہو“ کے سوا باقی روایت کو حسن قرار دیا ہے۔
دیکھئے۔ (ضعیف سنن ابن ماجہ رقم: 764)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3492