سنن ابن ماجه
كتاب الطب
کتاب: طب کے متعلق احکام و مسائل
22. بَابٌ في أَيِّ الأَيَّامِ يَحْتَجِمُ
باب: کن دنوں میں پچھنا لگوایا جائے؟
حدیث نمبر: 3488
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى الْحِمْصِيُّ , حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِصْمَةَ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ مَيْمُونٍ , عَنْ نَافِعٍ , قَالَ: قَالَ بْنُ عُمَرَ: يَا نَافِعُ , تَبَيَّغَ بِيَ الدَّمُ فَأْتِنِي بِحَجَّامٍ وَاجْعَلْهُ شَابًّا , وَلَا تَجْعَلْهُ شَيْخًا وَلَا صَبِيًّا , قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" الْحِجَامَةُ عَلَى الرِّيقِ أَمْثَلُ , وَهِيَ تَزِيدُ فِي الْعَقْلِ , وَتَزِيدُ فِي الْحِفْظِ , وَتَزِيدُ الْحَافِظَ حِفْظًا , فَمَنْ كَانَ مُحْتَجِمًا فَيَوْمَ الْخَمِيسِ عَلَى اسْمِ اللَّهِ , وَاجْتَنِبُوا الْحِجَامَةَ يَوْمَ الْجُمُعَةِ , وَيَوْمَ السَّبْتِ , وَيَوْمَ الْأَحَدِ , وَاحْتَجِمُوا يَوْمَ الِاثْنَيْنِ وَالثُّلَاثَاءِ , وَاجْتَنِبُوا الْحِجَامَةَ يَوْمَ الْأَرْبِعَاءِ , فَإِنَّهُ الْيَوْمُ الَّذِي أُصِيبَ فِيهِ أَيُّوبُ بِالْبَلَاءِ , وَمَا يَبْدُو جُذَامٌ وَلَا بَرَصٌ , إِلَّا فِي يَوْمِ الْأَرْبِعَاءِ أَوْ لَيْلَةِ الْأَرْبِعَاءِ".
نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: نافع! میرا خون جوش میں ہے، لہٰذا کوئی پچھنا لگانے والا لاؤ، جو جوان ہو، ناکہ بوڑھا یا بچہ، نافع کہتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”نہار منہ پچھنا لگانا بہتر ہے، اس سے عقل بڑھتی ہے، حافظہ تیز ہوتا ہے، اور یہ حافظ کے حافظے کو بڑھاتی ہے، لہٰذا جو شخص پچھنا لگائے تو اللہ کا نام لے کر جمعرات کے دن لگائے، جمعہ، ہفتہ (سنیچر) اور اتوار کو پچھنا لگانے سے بچو، پیر (دوشنبہ) اور منگل کو لگاؤ پھر چہار شنبہ (بدھ) سے بھی بچو، اس لیے کہ یہی وہ دن ہے جس میں ایوب علیہ السلام بیماری سے دوچار ہوئے، اور جذام و برص کی بیماریاں بھی بدھ کے دن یا بدھ کی رات ہی کو نمودار ہوتی ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7667، ومصباح الزجاجة: 1216) (حسن)» (سند میں عثمان و عبداللہ بن عصمہ اور سعید بن میمون مجہول ہیں، لیکن متابعات کی وجہ سے حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 766)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف
إسناده ضعيف
(ح 3489،ترمذي 2055،انظر ص 242،317)
عبد اللّٰه بن عصمة:مجهول وشيخه سعيد بن ميمون: مجهول (تقريب: 3478،2402)
انوار الصحيفه، صفحه نمبر 503
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3488 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3488
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
ہمارے فاضل محقق نے مذکورہ دونوں ر وایتوں کو سنداً ضعیف قرار دیا ہے۔
جب کہ دیگر محققین نے متابعات اور شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔
رہمارے فہم کے مطابق مذکورہ دونوں روایتیں متابعات اور شواہد کی بنا پر حسن درجے تک پہنچ جاتی ہیں۔
جیسا کہ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ اور شیخ محمود محمد محمود حسن نصار رحمۃ اللہ علیہ نے بھی انھیں متابعات اور شواہد کی بنا پر حسن قرار دیا ہے۔
واللہ اعلم۔
مزید تفصیل کےلئے دیکھئے۔ (سلسلة الأحادیث الصحیحة للألبانی، ر قم: 766، وسنن ابن ماجة بتحقیق محمود محمد محمود حسن نصار رقم: 3487، 3488)
سینگی لگوانے کےلئے ماہر آدمی کی خدمت حاصل کرنا مناسب ہے۔
اسی طرح دوسرے امراض کے علاج کے لئے ماہر اور سمجھ دار طبیب سے رجوع کرنا چاہیے۔
(2)
ہفتے میں دنوں کی تاثیر جو حدیث میں بیان ہوئی ہے اس پر یقین رکھنا چاہیے۔
ممکن ہے آئندہ اس کی حکمت ظاہر ہوجائے۔
(3)
جوان آدمی طاقتورہوتا ہے۔
آسانی سے اچھی طرح خوب کھینچ سکتا ہے۔
جب کہ بچہ طاقت اور مہارت کم ہونے کی وجہ سے اور بوڑھا طاقت کم ہونے کیوجہ سے اتنا یا اچھی طرح یہ کام نہیں کرسکتا۔
(4)
خالی پیٹ سینگی لگوانا زیادہ مفید ہے۔
(5)
سینگی لگوانے کے لئے سوموار، منگل اور جمعرات کے دن مناسب ہیں۔
اتوار کے دن سینگی لگوانا درست ہے۔
تاہم قصداً اتوار کو نہیں لگوانی چاہیے۔
بیماری کی شدت کے پیش نظر طبیب کے مشورے سے اس دن بھی سینگی لگوالی جائے تو حرج نہیں۔
(6)
سوموار، منگل، جمعرات اور اتوار میں سے جو دن چاند کی سترہ انیس یا اکیس تاریخ کو آئے اس دن سینگی لگوانا بہتر ہے۔
(7)
بدھ کوسینگی لگوانے سے پرہیز ضروری ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3488