سنن ابن ماجه
كتاب الطب
کتاب: طب کے متعلق احکام و مسائل
6. بَابُ : الْحَبَّةِ السَّوْدَاءِ
باب: کلونجی کا بیان۔
حدیث نمبر: 3449
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ , أَنْبَأَنَا إِسْرَائِيلُ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ خَالِدِ بْنِ سَعْدٍ , قَالَ: خَرَجْنَا وَمَعَنَا غَالِبُ بْنُ أَبْجَرَ فَمَرِضَ فِي الطَّرِيقِ , فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ وَهُوَ مَرِيضٌ , فَعَادَهُ ابْنُ أَبِي عَتِيقٍ , وَقَالَ لَنَا: عَلَيْكُمْ بِهَذِهِ الْحَبَّةِ السَّوْدَاءِ , فَخُذُوا مِنْهَا خَمْسًا أَوْ سَبْعًا فَاسْحَقُوهَا , ثُمَّ اقْطُرُوهَا فِي أَنْفِهِ بِقَطَرَاتِ زَيْتٍ فِي هَذَا الْجَانِبِ , وَفِي هَذَا الْجَانِبِ , فَإِنَّ عَائِشَةَ حَدَّثَتْهُمْ , أَنَّهَا سَمِعَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" إِنَّ هَذِهِ الْحَبَّةَ السَّوْدَاءَ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ , إِلَّا أَنْ يَكُونَ السَّامُ" , قُلْتُ: وَمَا السَّامُ؟ قَالَ:" الْمَوْتُ".
خالد بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم سفر پر نکلے، ہمارے ساتھ غالب بن ابجر بھی تھے، وہ راستے میں بیمار پڑ گئے، پھر ہم مدینہ آئے، ابھی وہ بیمار ہی تھے، تو ان کی عیادت کے لیے ابن ابی عتیق آئے، اور ہم سے کہا: تم اس کالے دانے کا استعمال اپنے اوپر لازم کر لو، تم اس کے پانچ یا سات دانے لو، انہیں پیس لو پھر زیتون کے تیل میں ملا کر چند قطرے ان کی ناک میں ڈالو، اس نتھنے میں بھی اور اس نتھنے میں بھی، اس لیے کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان سے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کالے دانے یعنی کلونجی میں ہر مرض کا علاج ہے، سوائے اس کے کہ وہ «سام» ہو“، میں نے عرض کیا کہ «سام» کیا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”موت“۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الطب 7 (5687)، (تحفة الأشراف: 16268)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/138) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3449 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3449
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
بیمار کی بیمار پرسی کرتے وقت اگر بیماری کا کوئی مجرب علاج معلوم ہو تو مریض کےلواحقین کو بتا دینا درست ہے۔
تاہم غیر مجرب دوا کامشورہ نہیں دینا چاہیے۔
(2)
علاج کے مختلف طریقوں میں سے ایک طریقہ ناک میں دوائی ڈالنا بھی ہے۔
(3)
کلونجی کے فوائد بہت زیادہ ہیں۔
امام ابن القیم رحمۃ اللہ علیہ نے ”زاد المعاد“ میں اختصار کے ساتھ کافی فوائد ذکر کیے ہیں۔
ڈاکٹر خالد غزنوی نے طب نبوی کے موضوع پر اپنی تصنیفات میں اس پر زیادہ تفصیل سےروشنی ڈالی ہے۔
ان کتابوں کامطالعہ مفید ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3449
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5687
5687. حضرت خالد بن سعد سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ ہم ایک سفر میں نکلے۔ ہمارے ساتھ حضرت غالب بن ابجر ؓ بھی تھے۔ وہ راستے میں بیمار ہو گئے۔ ہم مدینہ طیبہ پہنچے تو اس وقت بھی وہ بیمار ہی تھے۔ حضرت ابن ابی عتیق ان کی عیادت کے لیے تشریف لائے تو انہوں نے کہا: انہیں کلونجی استعمال کراؤ۔ اس کے پانچ یا سات دانے پیس لو، پھر زیتون کے تیل میں ملا کر چند قطرے ناک کی اس جانب ار چند قطرے ناک کی دوسری جانب ٹپکاؤ۔ میں نے سیدہ عائشہ ؓ سے سنا ہے، وہ رسول اللہ ﷺ سے بیان کرتی تھیں کہ آپ نے فرمایا ”:بلاشبہ کلونجی میں سام کے علاوہ ہر مرض کی شفا ہے۔“ میں نے پوچھا: سام کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا: موت۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:5687]
حدیث حاشیہ:
موت اپنے وقت مقررہ پر آنی ہے اس لیے اس کی کوئی دوانہیں۔
کلونجی یعنی کالا زیرہ پھوڑا پھنسیوں میں بھی بہت مفید ہے۔
ازواج مطہرات میں سے کسی ایک کی انگلی میں پھنسی نکلی ہوئی تھی تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تمہارے پاس زیرہ ہے تو انہوں نے کہا کہ ہاں تو آپ نے فرمایا کہ زیرہ اس پر رکھ۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5687