Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الأطعمة
کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
34. بَابُ : الزَّيْتِ
باب: زیتون کے تیل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3319
حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بْنُ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ عُمَرَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ائْتَدِمُوا بِالزَّيْتِ وَادَّهِنُوا بِهِ , فَإِنَّهُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ".
عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیتون کا تیل بطور سالن استعمال کرو، اور اس کو اپنے سر اور بدن میں لگاؤ اس لیے کہ یہ مبارک درخت سے نکلتا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأطعمة 43 (1851)، (تحفة الأشراف: 10392)، وقد أخرخہ: مسند احمد (3/497) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اللہ تعالی نے قرآن کریم میں اس کو شجرہ مبارکہ فرمایا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3319 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3319  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دودھ سے حاصل ہونے والے گھی یا جانوروں کی چربی کی نسبت نباتاتی تیل زیادہ مفید ہے۔

(2)
نباتاتی تیلوں میں زیتون کا تیل سب سے عمدہ اور مفید ہے۔

(3)
زیتون کے درخت کواللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مبارک درخت فرمایا ہے۔ (سورۂ نور:
آیت 35)

   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3319   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1851  
´زیتون کا تیل کھانے کا بیان۔`
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زیتون کا تیل کھاؤ اور اسے (جسم پر) لگاؤ، اس لیے کہ وہ مبارک درخت ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأطعمة/حدیث: 1851]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
کیوں کہ یہ درخت شام کی سرزمین میں کثرت سے پایا جاتا ہے،
اور شام وہ علاقہ ہے جس کے متعلق رب العالمین کا ارشاد ہے کہ ہم نے اس سرزمین کو ساری دنیا کے لیے بابرکت بنایا ہے،
کہا جاتا ہے کہ اس سرزمین میں ستر سے زیادہ نبی اوررسول پیدا ہوئے انہیں میں ابراہیم علیہ السلام بھی ہیں،
چوں کہ یہ درخت ایک بابرکت سرزمین میں اگتا ہے،
اس لیے بابرکت ہے،
اس لحاظ سے اس کا پھل اور تیل بھی برکت سے خالی نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1851