سنن ابن ماجه
كتاب الأطعمة
کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
25. بَابُ : الأَكْلِ قَائِمًا
باب: کھڑے ہو کر کھانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3301
حَدَّثَنَا أَبُو السَّائِبِ سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ ، قَالَ:" كُنَّا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , نَأْكُلُ وَنَحْنُ نَمْشِي، وَنَشْرَبُ وَنَحْنُ قِيَامٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چلتے پھرتے کھاتے تھے، اور کھڑے کھڑے پیتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأشربة 11 (1880)، (تحفة الأشراف: 7821)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/108، 12، 24، 29)، سنن الدارمی/ الأشربة 23 (2171) (صحیح)»
وضاحت: ۱ ؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ کھڑے رہ کر یا چلتے چلتے کھانا پینا درست ہے بعضوں نے اس کو مکروہ کہا ہے، اور زمزم کے پانی کو خاص کیا ہے کہ اس کا کھڑے ہو کر پینا مستحب ہے، باقی سب پانیوں کو بیٹھ کر پینا بہتر ہے، انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پینے سے منع کیا ہے، البانی صاحب سلسلۃ الأحادیث الصحیحۃ (۲۸۹ ؍۱) میں فرماتے ہیں کہ اس باب میں علماء کا اختلاف ہے، جمہور کے نزدیک یہ نہی تنزیہی ہے، (یعنی کھڑے ہو کر نہ پینا زیادہ بہترہے) اور کھڑے ہو کر پینے والے سے جو آپ نے قے کرنے کے لیے کہا تو یہ مستحب ہے، لیکن ابن حزم نے ان کی مخالفت کی اور کھڑے ہو کر پینے کو حرام کہا، شاید کہ یہی مذہب صحت سے زیادہ قریب ہے، کھڑے ہو کر پینے والی احادیث کے بارے میں اس بات کا امکان ہے کہ ان کو عذر پر محمول کیا جائے، جیسے جگہ کا تنگ ہونا یا مشک کا لٹکا ہوا ہونا بعض احادیث میں اس کی طرف اشارہ بھی ہے، واللہ اعلم۔ (ملاحظہ ہو: الأختیارات الفقہیۃ للأمام الألبانی ۴۷۷)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: صحيح
سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3301 کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3301
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحیح مسلم میں حضرت انس، حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ سے نبی اکرم ﷺ کی احادیث مروی ہیں جن سے کھڑے ہو کر پانی پینے کی ممانعت ثابت ہوتی ہے بلکہ حضرت ابوسعید خدری نے تو زجر کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی ڈانٹا یا سختی سے منع کیا۔
اور حضرت ابو ہریرہ نے یہ فرمان نبوی روایت کیا ہے:
جوشخص بھول جائے (اور کھڑے ہوکر پانی پی لے)
تو اسے چاہیے کہ قے کردے۔
(2)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے منع اور جواز کی احادیث ذکر کرتے ہوئے علماء کے مختلف اقوال اور دلائل ذکر کرکے اس چیز کو ترجیح دی ہے کہ کھڑے ہوکر پینا مکروہ تنزیہی ہے۔ دیکھیے:
(فتح الباری: 10/ 103، 106)
واللہ اعلم۔
(3)
کھڑے ہو کر کھانا، کھڑے ہو کر پینے سے زیادہ مکروہ ہے۔
(4)
چلتے چلتے کھانا اتفاقی معاملہ ہے جس کے جواز میں شبہ نہیں لیکن آج کل دعوتوں میں کھڑے کھڑے کھانے کا جواز محل نظر ہے کیونکہ اس میں
ایک تو غیروں کی بھونڈی نقالی ہے۔
دوسرے یہ ڈھورڈنگروں والا طریقہ ہے جو انسانوں کے شایان شان نہیں۔
تیسرے یہ انسانی وقار کے بھی منافی ہے۔
چوتھے، اس طریقے میں جوافراتفری مچتی ہے اس سے کھانے کا بہت ضیاع ہوتا ہے اس لیے دعوتوں کا یہ طریقہ ناجائز اور متعدد قباحتوں کا حامل ہے۔
واللہ اعلم۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3301
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1880
´کھڑے ہو کر پینے کی ممانعت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں چلتے ہوئے کھاتے تھے اور کھڑے ہو کر پیتے تھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأشربة/حدیث: 1880]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سندمیں ابومسلم جذمی مقبول عند المتابعہ ہیں،
ورنہ لین الحدیث یعنی ضعیف راوی ہیں،
لیکن حدیث رقم 1879 سے تقویت پاکر یہ حدیث بھی صحیح لغیرہ ہے)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1880