Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

سنن ابن ماجه
كتاب الأطعمة
کتاب: کھانوں کے متعلق احکام و مسائل
23. بَابُ : عَرْضِ الطَّعَامِ
باب: کھانا پیش کیے جانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3299
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ , قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَوَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْأَشْهَلِ، قَالَ: أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَغَدَّى، فَقَالَ:" ادْنُ فَكُلْ"، فَقُلْتُ: إِنِّي صَائِمٌ، فَيَا لَهْفَ نَفْسِي! هَلَّا كُنْتُ طَعِمْتُ مِنْ طَعَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ (جو قبیلہ بنی عبدالاشہل کے ایک شخص ہیں) کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اس وقت آپ دوپہر کا کھانا کھا رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آؤ کھانا کھاؤ،، میں نے عرض کیا: میں روزے سے ہوں، تو ہائے افسوس کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانے میں سے کیوں نہیں کھا لیا۔

تخریج الحدیث: «أنظر حدیث رقم: (1667) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

سنن ابن ماجہ کی حدیث نمبر 3299 کے فوائد و مسائل
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3299  
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اس روایت کے راوی وہ حضرت انس بن مالک نہیں جو رسول اللہ ﷺ کے خادم خاص اور حضرت ام سلیم ؓ کے بیٹے تھے بلکہ یہ ایک اور صحابی ہیں اس لیے راوی کے وضاحت کر دی کہ ان کا تعلق بنوعبد الاشہل کے قبیلے سے ہے۔

(2)
روزے دار کواگر کھانے کی دعوت دی جائے تو نفلی روزہ چھوڑ کر دعوت قبول کرلینا بہتر ہے تاہم روزہ مکمل کرنا بھی جائز ہے۔

(3)
اگر کھانے کی دعوت دینے پر دوسرا شخص معذرت کرلے تو زیادہ اصرار نہیں کرنا چاہیے۔

(4)
رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کھانا ایک عظیم شرف ہے جس کے چھوٹ جانے پر صحابی کو بعد میں افسوس ہوا کیونکہ روزہ تو بعد میں بھی رکھا جا سکتا تھا۔
دوسرے علاقے میں رہائش پذیر ہونے کی وجہ سےانہیں دوبارہ ایسا موقع نہیں ملا کہ یہ شرف حاصل کر سکیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3299